"احسان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1: سطر 1:
عام طور پر دوسروں سے بھلائی کے ساتھ پیش آنا احسان کہلاتا ہے۔
عام طور پر دوسروں سے بھلائی کے ساتھ پیش آنا احسان کہلاتا ہے۔


== احسان کا لفظی معنی ==
== احسان کا لفظی معنی ==


لفظِ احسان کا مادہ ’’ح - س - ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔
لفظِ احسان کا مادہ ’’ح - س - ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔


امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے بھی پرکشش ہو۔ <ref>راغب اصفہانی، مفردات القرآن : 119</ref>
امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے بھی پرکشش ہو۔ <ref>راغب اصفہانی، مفردات القرآن : 119</ref>


اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا ہے۔
اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا ہے۔
== احسان کے لغوی معانی ==
== احسان کے لغوی معانی ==
احسان کے لغوی معانی ہیں:
احسان کے لغوی معانی ہیں :
* نیکی، اچھا سلوک، مہربانی کا برتاو، اچھے سلوک کا بار، یا وہ جسے سلوک کرنے والا یا جس سے سلوک کیا گیا، محسوس کرے۔
* نیکی، اچھا سلوک، مہربانی کا برتاو، اچھے سلوک کا بار یا وہ جسے سلوک کرنے والا یا جس سے سلوک کیا گیا، محسوس کرے۔
* نیکی۔ عمل خیر وغیرہ۔
* نیکی۔ عمل خیر وغیرہ۔
* اچھے سلوک کا اعتراف۔ ممنونیت اور اعتراف ممنونیت۔
* اچھے سلوک کا اعتراف۔ ممنونیت اور اعتراف ممنونیت۔
* تصوف میں نورِ بصیرت سے حق کا مشاہدہ۔ صفات کے پردے میں ذات خداوندی کا دیدار۔ مشاہدہ صفاتیہ جس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ <ref>ذاکٹر سید تنویر بخاری/ پروفیسر حمید اللہ جلیل: اسلام اور جدید افکار، صفحہ 49 ذکر احسان۔ مطبوعہ لاہور 1431ھ۔</ref>
* تصوف میں نورِ بصیرت سے حق کا مشاہدہ۔ صفات کے پردے میں ذات خداوندی کا دیدار۔ مشاہدہ صفاتیہ جس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ <ref>ذاکٹر سید تنویر بخاری/ پروفیسر حمید اللہ جلیل: اسلام اور جدید افکار، صفحہ 49 ذکر احسان۔ مطبوعہ لاہور 1431ھ۔</ref>


== قرآن{{زیر}} مجید میں احسان کا مفہوم ==
== قرآن{{زیر}} مجید میں احسان کا مفہوم ==


قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔


ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:
ارشاد باری تعالٰیٰ ہے :


{{ٹ}}{{ع}}ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، المائدہ، 5 : 93</ref>
{{ٹ}}{{ع}}ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، المائدہ، 5 : 93</ref>


’’پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
’’پھر پ رہی ز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ‘‘


مزید ایک جگہ فرمایا:
مزید ایک جگہ فرمایا:
سطر 29: سطر 29:
{{ٹ}}{{ع}}يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، التوبہ، 9 : 119</ref>
{{ٹ}}{{ع}}يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، التوبہ، 9 : 119</ref>


’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔‘‘
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔ ‘‘


ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ کیا ہے؟ یہ دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوف کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ کیا ہے؟ یہ دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوف کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔


{{ٹ}}{{ع}}اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، الفاتحہ، 1 : 5، 6</ref>
{{ٹ}}{{ع}}اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، الفاتحہ، 1 : 5، 6</ref>


’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔‘‘
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔ ‘‘


یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :
یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :
سطر 41: سطر 41:
{{ٹ}}{{ع}}فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، النساء، 4 : 69</ref>
{{ٹ}}{{ع}}فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا{{ڑ}}{{ن}} <ref>القرآن، النساء، 4 : 69</ref>


’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔‘‘
’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو انبیا، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ ‘‘


== حدیث{{زیر}} مبارکہ میں احسان کا مفہوم ==
== حدیث{{زیر}} مبارکہ میں احسان کا مفہوم ==
سطر 49: سطر 49:
{{ٹ}}{{ع}}أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره.{{ڑ}}{{ن}}
{{ٹ}}{{ع}}أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره.{{ڑ}}{{ن}}


’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالٰیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز [[آخرت]] پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔‘‘
’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالٰیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز [[آخرت]] پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔ ‘‘


انہوں نے پھر پوچھا [[اسلام]] کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
انہوں نے پھر پوچھا [[اسلام]] کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سطر 55: سطر 55:
{{ٹ}}{{ع}}أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا.{{ڑ}}{{ن}}
{{ٹ}}{{ع}}أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا.{{ڑ}}{{ن}}


’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰیٰ کے سوا کوئی [[عبادت]] کے لائق نہیں اور [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو [[نماز]] قائم کرے اور [[زکوٰۃ]] ادا کرے، اور تو ماہ [[رمضان]] کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا [[حج]] کرے۔‘‘
’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰیٰ کے سوا کوئی [[عبادت]] کے لائق نہیں اور [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو [[نماز]] قائم کرے اور [[زکوٰۃ]] ادا کرے اور تو ماہ [[رمضان]] کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا [[حج]] کرے۔ ‘‘


اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال [[احسان]] کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال [[احسان]] کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سطر 61: سطر 61:
{{ٹ}}{{ع}}الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ.{{ڑ}}{{ن}} <ref>{{ٹ}}{{ع}}بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان<br/> مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة{{ڑ}}{{ن}}</ref>
{{ٹ}}{{ع}}الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ.{{ڑ}}{{ن}} <ref>{{ٹ}}{{ع}}بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان<br/> مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة{{ڑ}}{{ن}}</ref>


’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی [[عبادت]] اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی [[عبادت]] اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘


== احسان کی جامع تعریف ==
== احسان کی جامع تعریف ==
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق [[احسان]] [[عبادت]] کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق [[احسان]] [[عبادت]] کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔


== امام نووی کا قول ==
== امام نووی کا قول ==

نسخہ بمطابق 06:54، 7 فروری 2018ء

عام طور پر دوسروں سے بھلائی کے ساتھ پیش آنا احسان کہلاتا ہے۔

احسان کا لفظی معنی

لفظِ احسان کا مادہ ’’ح - س - ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔

امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے بھی پرکشش ہو۔ [1]

اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا ہے۔

احسان کے لغوی معانی

احسان کے لغوی معانی ہیں :

  • نیکی، اچھا سلوک، مہربانی کا برتاو، اچھے سلوک کا بار یا وہ جسے سلوک کرنے والا یا جس سے سلوک کیا گیا، محسوس کرے۔
  • نیکی۔ عمل خیر وغیرہ۔
  • اچھے سلوک کا اعتراف۔ ممنونیت اور اعتراف ممنونیت۔
  • تصوف میں نورِ بصیرت سے حق کا مشاہدہ۔ صفات کے پردے میں ذات خداوندی کا دیدار۔ مشاہدہ صفاتیہ جس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ [2]

قرآنِ مجید میں احسان کا مفہوم

قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔

ارشاد باری تعالٰیٰ ہے :

ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ [3]

’’پھر پ رہی ز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ‘‘

مزید ایک جگہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ [4]

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔ ‘‘

ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ کیا ہے؟ یہ دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوف کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ. [5]

’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔ ‘‘

یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :

فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا [6]

’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو انبیا، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ ‘‘

حدیثِ مبارکہ میں احسان کا مفہوم

امام بخاری اور امام مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیک وآلہ وسلم! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره.

’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالٰیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔ ‘‘

انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا.

’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔ ‘‘

اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ. [7]

’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘

احسان کی جامع تعریف

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔

امام نووی کا قول

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔ [8]

مزید پڑھیئے

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات القرآن : 119
  2. ذاکٹر سید تنویر بخاری/ پروفیسر حمید اللہ جلیل: اسلام اور جدید افکار، صفحہ 49 ذکر احسان۔ مطبوعہ لاہور 1431ھ۔
  3. القرآن، المائدہ، 5 : 93
  4. القرآن، التوبہ، 9 : 119
  5. القرآن، الفاتحہ، 1 : 5، 6
  6. القرآن، النساء، 4 : 69
  7. بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان
    مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة
  8. نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و الاسلام و الاحسان