"سورہ الکافرون" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، رہیں، سے
سطر 41: سطر 41:
تاریخی پس منظر
تاریخی پس منظر
مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی {{درود}} کی دعوتِ اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اِس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور {{درود}} کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاس وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ اُن میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپ کے اور اُن کے درمیان رونما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں :
مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی {{درود}} کی دعوتِ اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اِس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور {{درود}} کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاس وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ اُن میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپ کے اور اُن کے درمیان رونما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس {{رض مذ}} کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ {{درود}} سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز رہی ں۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی۔ حضور {{درود}} نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ حضور {{درود}} نے فرمایا اچھا، ٹھیرو، میں دیکھتا ہوں کہ میرے رب کی طرف سے کیا حکم آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ {{درود}} کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابل قبول کیا معنی قابلِ غور بھی سمجھتے تھے اور آپ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کی بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار رہتا ہے لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اس پر وحی نازل ہوئی "قل یایھا الکٰفرون ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ "ان سے کہو، اے نادانو! کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں " (الزمر، آیت 64) حوالہ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی۔ ابن عباس {{رض مذ}} کی ایک اور روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے حضور {{درود}} سے کہا "اے محمد، اگر تم ہمارے معبود بتوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کریں گے۔ " اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ حوالہ عبد بن حمید
حضرت عبد اللہ بن عباس {{رض مذ}} کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ {{درود}} سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز رہیں۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی۔ حضور {{درود}} نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ حضور {{درود}} نے فرمایا اچھا، ٹھیرو، میں دیکھتا ہوں کہ میرے رب کی طرف سے کیا حکم آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ {{درود}} کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابل قبول کیا معنی قابلِ غور بھی سمجھتے تھے اور آپ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کی بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار رہتا ہے لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اس پر وحی نازل ہوئی "قل یایھا الکٰفرون ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ "ان سے کہو، اے نادانو! کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں " (الزمر، آیت 64) حوالہ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی۔ ابن عباس {{رض مذ}} کی ایک اور روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے حضور {{درود}} سے کہا "اے محمد، اگر تم ہمارے معبود بتوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کریں گے۔ " اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ حوالہ عبد بن حمید
سعید بن میناء (ابو البحتری کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ {{درود}} سے ملے اور آپ سے کہا "اے محمد، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کرتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کیے لیتے ہیں۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اُس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اُس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اُس سے پا لیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اُس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصہ پا لو گے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ وحی نازل فرمائی قل یایھا الکٰفرون حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم۔ ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
سعید بن میناء (ابو البحتری کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ {{درود}} سے ملے اور آپ سے کہا "اے محمد، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کرتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کیے لیتے ہیں۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اُس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اُس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اُس سے پا لیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اُس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصہ پا لو گے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ وحی نازل فرمائی قل یایھا الکٰفرون حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم۔ ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ {{درود}} سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہو جائیں اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہو جایا کریں حوالہ عبد بن حمید۔ ابن ابی حاتم
وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ {{درود}} سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہو جائیں اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہو جایا کریں حوالہ عبد بن حمید۔ ابن ابی حاتم

نسخہ بمطابق 21:47، 12 مارچ 2018ء

الکافرون
اعداد و شمار
عددِ سورت109
عددِ پارہ30
تعداد آیات6
گذشتہالکوثر
آئندہالنصر

ترجمہ

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

  • قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾

آپ (ان کافروں سے ) کہہ دیجیئے کہ اے کافرو (میرا اور تمہارا طریقہ متحد نہیں ہو سکتا اور)۔ (1)

  • لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾

نہ (تو فی الحال) میں تمہارے معبود کی پرستش کرتا ہوں۔ (2)

  • وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾

اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو۔ (3)

  • وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾

اور نہ( آئندہ استقبال میں) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا۔ (4)

  • وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾

اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے۔ (5)

  • لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾

تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا۔ (6)

شماریات

سورہ الکافرون میں 6 آیات، 26 کلمات اور 94 حروف ہیں۔[1] 1 رکوع ہے۔

نام

پہلی ہی آیت قل یایھا الکٰفرون کے لفظ الکافرون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضر حسن بصری اور عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ سورت مکی ہے، حضرت عبد اللہ زبیر کہتے ہیں کہ مدنی ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ سے دو قول منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن جمہورِ مفسرین کے نزدیک یہ مکی سورت ہے اور اس کا مضمون خود اس کے مکی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ تاریخی پس منظر مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوتِ اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اِس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاس وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ اُن میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپ کے اور اُن کے درمیان رونما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں : حضرت عبد اللہ بن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز رہیں۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اچھا، ٹھیرو، میں دیکھتا ہوں کہ میرے رب کی طرف سے کیا حکم آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابل قبول کیا معنی قابلِ غور بھی سمجھتے تھے اور آپ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کی بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار رہتا ہے لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اس پر وحی نازل ہوئی "قل یایھا الکٰفرون ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ "ان سے کہو، اے نادانو! کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں " (الزمر، آیت 64) حوالہ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی ایک اور روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا "اے محمد، اگر تم ہمارے معبود بتوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کریں گے۔ " اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ حوالہ عبد بن حمید سعید بن میناء (ابو البحتری کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملے اور آپ سے کہا "اے محمد، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کرتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کیے لیتے ہیں۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اُس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اُس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اُس سے پا لیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اُس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصہ پا لو گے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ وحی نازل فرمائی قل یایھا الکٰفرون حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم۔ ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہو جائیں اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہو جایا کریں حوالہ عبد بن حمید۔ ابن ابی حاتم ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفارِ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں اور اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک دفعہ دو ٹوک جواب دے کر اُن کی اِس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دین کے معاملے میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر اُن سے کوئی مصالحت کر لیں گے۔ موضوع اور مضمون اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں، بلکہ اِس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار کے دین اور ان کی پوجا پاٹ اور ان کے معبودوں سے قطعی براءت، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان کر دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ دینِ کفر اور دینِ اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، اُن کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتداً قریش کے کفار کو مخاطب کر کے اُن کی تجاویزِ مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی، لیکن یہ اُنہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دینِ کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے اُن کو اس سے قول اور عمل میں براءت کا اظہار کرنا چاہیے اور بلا رو رعایت کہہ دینا چاہیے کہ دین کے معاملے میں وہ کافروں سے کسی قسم کی مداہنت یا مصالحت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے یہ سورت اُس وقت بھی پڑھی جاتی رہی جب وہ لوگ مر کھپ گئے تھے جن کی باتوں کے جواب میں اِسے نازل فرمایا گیا تھا اور وہ لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد اسے پڑھتے رہے جو اِس کے نزول کے وقت کافر و مشرک تھے اور اُن کے گزر جانے کے صدیوں بعد آج بھی مسلمان اس کو پڑھتے ہیں کیونکہ کفر اور کافری سے بیزاری و لا تعلقی ایمان کا دائمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ میں اِس سورت کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ ذیل کی چند احادیث سے کیا جا سکتا ہے : حضرت عبد اللہ بن عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ میں نے بار ہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فجر کی نماز سے پہلے اور مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتوں میں قل یایھا الکٰفرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے دیکھا ہے۔ (اس مضمون کی متعدد روایات کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ امام احمد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابن عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے نقل کی ہیں)۔ حضرت خباب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹو تو قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو" حوالہ ابو یعلٰی طبرانی حضرت انس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا سوتے وقت قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے حوالہ بیہقی فی الشعب فروہ بن نوفل اور عبد الرحمٰن بن نوفل، دونوں کا بیان ہے کہ ان کے والد نوفل بن معاویہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ الاشجعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجیے جسے میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں۔ آپ نے فرمایا قل یایھا الکٰفرون آخر تک پڑھ کر سو جایا کرو، کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے حوالہ مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ابی شیبہ، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب۔ ایسی ہی درخواست حضرت زید بن حارثہ کے بھائی حضرت جبلہ بن حارثہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کی تھی اور ان کو بھی آپ نے یہی جواب دیا تھا حوالہ مسند احمد، طبرانی

حوالہ جات

  1. امام خازن: تفسیر الخازن، جلد 4 صفحہ 485۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1424ھ۔