"ہندوؤں پر مظالم" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
«ہندو کو مذہبی ایذارسانی کا تجربہ ''زبردستی مذہب کی تبدیلی''، قتل عام، مع...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 24: سطر 24:
{{سانچہ:بھارت میں مذہب}}
{{سانچہ:بھارت میں مذہب}}


[[زمرہ:مذہبی ایذارسانی]]
[[زمرہ:ہندو کی ایذا رسانی]]

نسخہ بمطابق 17:47، 30 مئی 2018ء

ہندو کو مذہبی ایذارسانی کا تجربہ زبردستی مذہب کی تبدیلی، قتل عام، مندر کا ڈھانا اور اُن کی درس گاہوں کو تباہ کرنے جیسے کاموں سے ہوا ہے۔ زمانہ جدیہ میں مسلم اکثریت علاقے جیسے کشمیر، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور دوسرے ممالک میں ہندو اس کا شکار ہوتے ہیں۔

قرونِ وسطی میں مسلم حکمرانوں سے ایذا رسانی

مسلمانوں کی برصغیر ہند میں آمد آٹھوں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔ خلافت امویہ کا دمشق کا گورنر حجاج بن یوسف نے دیبل سے کچھ لوگوں کی درخواست پر، جو کہ وہاں قید کر لیے گئے تھے،محمد بن قاسم کو وہاں بھیجا۔ تاریخی دستاویز چچ نامہ کے مطابق وہاں بہت مندر ڈھائے گئے اور بڑے پیمانے پر مقامی سندھی لوگوں کا قتل عام ہوا۔

تاریخی طور پر برصغیر کے ایک حصے پر مسلم حکمرانی محمد بن قاسم سے سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت پر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹی مسلم ریاستیں جیسے بہمنی سلطنت اور ٹیپو سلطان کی میسور کی ریاست بھی موجود تھیں۔ سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ہندو، بدھ مت اہل کتاب اور غیر مسلم پر مذہبی آزادی کے لیے جزیہ لگایا جو مسلمانوں کے اگلے 800 سالوں تک حکمرانی کے لئے نہایت اہم ثابت ہوا۔

مورخ کشوری سرن لعل اپنی کتاب میں دعوی کرتا ہے 1000 سے 1500 عیسوی تک برصغیر کی آبادی بیس کڑوڑ سے سترہ کڑوڑ کم ہوئ۔ ایک اور تخمینہ کے مطابق آبادی بیس کڑوڑ سے کم ہو کر بارہ کڑوڑ ہو گئی تھی۔ تاہم عرفان حبیب اور سائمن ڈگبی نے ان تخمینہ پر اعتراض اٹھائے ہیں۔ ول ڈیورانٹ کے بقول فتح مسلم برصغیر کی تاریخ کا سب سے خونی حصہ ہے۔ حتی کے وہ ہندو جو کہ مسلمان ہو گئے تھے ایذا رسانی سے محفوظ نہ رہے۔

محمود غزنوی

سلطنت غزنویہ کا بادشاہ محمود غزنوینے گیارھوں صدی میں برصغیر پر سندھ و گنگ کا میدان میں حملہ کیا اور شبیہ شکنی کی وجہ سے بہت سے مندر توڑے اور بت شکن کہلایا۔ مورخ ال اُتابی کے مطابق، محمود کی مہمات اسلام کو پھیلانے کا جہاد اور بت پرستی کا خاتمہ تھا۔ اگرچہ محمود ذاتی طور پر ہندوں سے نفرت نہیں کرتا تھا، مگر مندروں کو گرانے کے بعد نوادرات کواپنے قبضے میں کر لیتا تھا۔ اُس نے 1026 میں دوسرے سومنات کے مندر پر حملہ کیا اور مشہور شیو کے مندر کو ڈھا دیا۔

سلطنت دہلی

سلطنت دہلی تقریباً 320 سالوں تک قائم رہی۔ آس کا آغاز [[شہاب الدین غوری] کی مہمات سے ہوا۔ سلطنت دہلی میں مسلمانوں اور ہندوں کے درمیان بہت تصادم ہوئے۔ مورخ مورخ ضیاء الدین برنی کی کتاب فتوی جہاںدری کے مطابق وہ ہندو جو کہ مسلمان ہو گئے تھے ایذا رسانی سے محفوظ نہ رہے جو کہ مسلم ذات برادری سے عیاں ہے۔

قطب الدین ایبک

مسلم مورخ مولانہ حکیم سیدی عبدلحی نے خاندان غلاماں کے بادشاہ قطب الدین ایبک کے زمانے میں مذہبی تشد کے بارے میں لکھا ہے۔ اس نے دہلی میں پہلی مسجد قوة الإسلام 20 مندروں کے تباہ حال حصوں سے بنائی۔ بت شکنی اس دور میں بہت عام تھی۔

خلجی خاندان

مذہبی ایزارسانی خلجی خاندان کے بادشاہ جلال الدین خلجی کے دور میں بھی جاری رہی۔ اُس کے جرنیلوں الغ خان، نصرت خان جلیسری، خسرو خان اور ملک کافور نے بہت سے غیر مسلم علاقوں پر حملے کیے انییں مارا اور لوٹا۔ ملک کافور کی قیادت میں 1309 اور 1311 میں تیں جنوبی ہند کی بادشاہت دولت آباد، وارنگل اور مدورئی میں دو مہمات کی گئیں جن میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکت ہوئی اور بہت سے مندر تباہ ہوئے۔ اسی مہمات سے وارنگل کے مشہور کوہ نور ہیرا بھی لوٹا گیا۔