"ناطق گلاؤٹھوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 17: سطر 17:


== وفات ==
== وفات ==
ناطق کی اواخر عمر کسمپرسی میں گزری۔ اولاد میں چھ بچے ہوئے، تین بیٹیاں اور تین بیٹے مگر سب ناطق کی زندگی میں ہی چل بسے۔ چار بچے تو کمسنی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ ایک لڑکا اور ایک بیٹی گھربار والے ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ صدمات ذہنی و جسمانی نے اُنہیں کہیں کا نہ چھوڑا، چھ مہینے تک بستر پر پڑے پڑے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے تھے۔ اعضا بیکار ہوگئے اور حافظہ رخصت ہوگیا۔ نقل و حرکت تک معذور ہوچکے تھے۔ سلسل البول کا مرض لاحق ہوا اور حبس بول کے مرض کی شکایت پیدا ہوگئی۔ علاج کے لیے اسپتال داخل کروایا گیا۔ جب افاقہ ہوا تو گھر پر آگئے۔ گھر پر علاج جاری رہا مگر کمزور ہوگئے تھے ۔[[26 مئی]] [[1969ء]] کی شام حالت تشویشناک ہوگئی اور زبان بند ہوگئی۔ نصف شب کے وقت آخری ہچکی لی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔<ref>[[مالک رام]]: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 120۔ مطبوعہ [[دہلی]]</ref>


== مزید دیکھیں ==
== مزید دیکھیں ==

نسخہ بمطابق 12:38، 24 نومبر 2018ء


ناطق گلاؤٹھوی
معلومات شخصیت
پیدائش 11 نومبر 1886ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کامٹی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 مئی 1969ء (83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناگپور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ناطق گلاؤٹھوی (پیدائش: 11 نومبر 1886ء— وفات: 27 مئی 1969ء) اردو زبان کے شاعر تھے۔ ناطق مشہور شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔

سوانح

ناطق 11 نومبر 1886ء کو کامٹی میں پیدا ہوئے۔ اصل نام سیدابوالحسن تھا مگر ناطق گلاؤٹھوی کے نام سے شہرت پائی۔ ناگپور شہر میں ناطق کے آباؤ اجداد آباد تھے۔ اِن کے بزرگ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ ناطق کے دادا سید غلام غوث وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور اِسی سلسلے میں مدتوں میرٹھ میں مقیم رہے۔ پھر خانداان نے گلاؤٹھی، ضلع میرٹھ میں سکونت اِختیار کرلی اور یہاں اِس خاندان کی کافی بڑی جائداد اور زمینداری تھی۔ ناطق کے والد سید ظہورالدین نے تجارت کو بطور پیشے کے اپنایا۔ وہ وسیع پیمانے پر لکڑی کا کاروبار کرتے تھے۔ اِسی سلسلے میں وہ کامٹی میں سکونت پذیر تھے کہ ناطق کی پیدائش ہوئی۔ ناطق کے والد سید ظہورالدین کا انتقال 1905ء میں ہوا۔[2]

تعلیم

ناطق کی تعلیم اُس زمانے کے مطابق گھر پر ہی ہوئی۔ قدرتاً فارسی زبان اور عربی زبان پر خاص توجہ رہی۔ اُنہوں نے دونوں زبانوں کی تکمیل دارالعلوم دیوبند میں کی۔آخری دورۂ حدیث شیخ الہند مولانا محمودالحسن دہلوی سے پڑھا۔ وہیں طب بھی اُن کے برخوردار حکیم احمد حسن عرف حکیم بڈن سے حاصل کی۔ بعد ازاں ناطق روزمرہ کے کام کاج کے لیے انگریزی زبان سے بھی اپنے طور پر واقفیت حاصل کرتے رہے۔

سخن گوئی

ناطق نے خالہ زاد بھائی سید معشوق حسین اطہرہاپوڑی کے مشورے سے سخن گوئی کا آغاز کیا مگر اُن سے صلاح و مشورہ نہیں لیا۔ شعرگوئی کے لیے ناطق نے بیان ویزدانی مرحوم (متوفی 1900ء) کی شاعری کا انتخاب کیا جو اُساتذہ وقت میں درجہ خاص کے استاد تھے، لیکن چند ماہ بعد ہی وہ انتقال کرگئے۔ اِسی زمانے میں امیر مینائی بھی فوت ہوگئے۔ اتفاق سے ناطق کو داغ دہلوی کے دو دِیوان گلزارِ داغ اور آفتابِ داغ ہاتھ لگے۔ اُنہیں دیکھا تو یہ داغ دہلوی کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ تھوڑے ہی دِنوں میں داغ دہلوی سے خط و کتابت کے ذریعہ سے تلمذ اختیار کرلیا۔ بعض اصحاب نے اُنہیں جلال لکھنوی کی شاگردی اختیار کرنے کا مشورہ دیا مگر وہ داغ دہلوی کی بجائے کسی کے شاگرد نہ ہوئے۔ناطق نے مشق سخن، غورو فکر سے خود درجہ اُستادی حاصل کرلیا۔

وفات

ناطق کی اواخر عمر کسمپرسی میں گزری۔ اولاد میں چھ بچے ہوئے، تین بیٹیاں اور تین بیٹے مگر سب ناطق کی زندگی میں ہی چل بسے۔ چار بچے تو کمسنی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ ایک لڑکا اور ایک بیٹی گھربار والے ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ صدمات ذہنی و جسمانی نے اُنہیں کہیں کا نہ چھوڑا، چھ مہینے تک بستر پر پڑے پڑے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے تھے۔ اعضا بیکار ہوگئے اور حافظہ رخصت ہوگیا۔ نقل و حرکت تک معذور ہوچکے تھے۔ سلسل البول کا مرض لاحق ہوا اور حبس بول کے مرض کی شکایت پیدا ہوگئی۔ علاج کے لیے اسپتال داخل کروایا گیا۔ جب افاقہ ہوا تو گھر پر آگئے۔ گھر پر علاج جاری رہا مگر کمزور ہوگئے تھے ۔26 مئی 1969ء کی شام حالت تشویشناک ہوگئی اور زبان بند ہوگئی۔ نصف شب کے وقت آخری ہچکی لی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔[3]

مزید دیکھیں

حوالہ جات

  1. https://www.rekhta.org/authors/natiq-gulavthi
  2. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 117/118۔ مطبوعہ دہلی
  3. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 120۔ مطبوعہ دہلی