"بلھے شاہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
گروہ زمرہ بندی: منتقل از زمرہ:بھارتی صوفیاء بجانب زمرہ:ہندوستانی صوفیا
سطر 38: سطر 38:
[[زمرہ:1680ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1680ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1757ء کی وفیات]]
[[زمرہ:1757ء کی وفیات]]
[[زمرہ:بھارتی صوفیاء]]
[[زمرہ:ہندوستانی صوفیا]]
[[زمرہ:پاکستان میں تصوف]]
[[زمرہ:پاکستان میں تصوف]]
[[زمرہ:پاکستان میں صوفی مزارات]]
[[زمرہ:پاکستان میں صوفی مزارات]]

نسخہ بمطابق 11:26، 10 جون 2019ء

بلھے شاہ
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1680ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اچ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 اگست 1757ء (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قصور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فلسفی ،  مصنف ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بلھے شاہ ایک پنجابی صوفی شاعر تھے۔

ابتدائی زندگی

بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ ہے۔[2]آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 3 مارچ 1680ء (1091ھ) میں مغلیہ سلطنت کے عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔[3]۔ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے قریب پانڈومیں منتقل ہو گئے۔ان کے والد سخی شاہ محمد درویش مسجد کے امام تھے اور مدرسے میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ بلّہے شاہ نے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد قصور جا کر قرآن، حدیث، فقہ اور منطق میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق، نحو، معانی، کنز قدوری،شرح وقایہ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہو ئے۔ ایک خاص سطح تک حصولِ علم کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ دنیا بھر کے علم کو حاصل کر کے بھی انسان کا دل مطمئن نہیں ہوسکتا۔ سکونِ قلب کے لیے صرف اللہ کا تصور ہی کافی ہے۔ اسے اپنی ایک کافی میں یوں بیان کیا۔علموں بس کر او یار۔اکّو الف تیرے درکار وہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے شاہ عنایت کے ہاتھ پر بیعت کی جو ذات کے آرائیں تھے اس طرح بلّہے شاہ نے ذات پات، فرقے اور عقیدے کے سب بندھن توڑ کر صلح کل کا راستہ اپنای[4]ا۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ ان کا جنون آمیز رشتہ ان کی مابعد الطبیعیات سے پیدا ہوا تھا۔ وہ پکے وحدت الو جودی تھے، اس لیے ہر شے کو مظہر خدا جانتے تھے۔ مرشد کے لیے انسان کامل کا درجہ رکھتے تھے۔ مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہمہ وقت ان کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ ان کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی۔ بلّہے شاہ کو ملاّ کے تصورِ دین سے سخت نفرت ہوچکی تھی۔ عربی فارسی میں عالم ہونے کے باوجود انہوں نے پنجابی کو ذریعۂ اظہار بنایا تاکہ عوام سے رابطے میں آسکیں۔ ۔

زندگی

بلھے شاہ مغلیہ سلطنت کے عالمگیری عہد کی روح کے خلاف رد عمل کانمایاں ترین مظہر ہیں۔ ان کا تعلق صوفیاء کے قادریہ مکتب فکر سے تھا۔ ان کی ذہنی نشو و نما میں قادریہ کے علاوہ شطاریہ فکر نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اسی لیے ان کی شاعری کے باغیانہ فکر کی بعض بنیادی خصوصیات شطاریوں سے مستعار ہیں۔ ایک بزرگ شیخ عنایت اللہ قصوری، محمد علی رضا شطاری کے مرید تھے۔ صوفیانہ مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور قادریہ سلسلے سے بھی بیعت تھے اس لیے ان کی ذات میں یہ دونوں سلسلے مل کر ایک نئی ترکیب کا موجب بنے۔ بلھے شاہ انہی شاہ عنایت کے مرید تھے۔

شاعری

اپنی شاعری میں وہ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کر نے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں ” علم بغیر عمل“ کی مخالفت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لیے اس کا گہرا اثر ان کے افکار پر بھی پڑا۔ ان کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی اور عالم گیر محبت کا جود رس ملتا ہے ،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔

نمونہ کلام

پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی

انتقال

بلھے شاہ کا انتقال بعمر 77 سال 22 اگست 1757ء میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔[5] ان کے مزار پر آج تک عقیدت مند ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تاریخِ وصال کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔بقول تذکرہ اولیائے پاکستان ،1181ھ ہے۔آپ کا مزار مبارک " قصور" ریلوے روڈ پر زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔آپ کاعرس ہرسال شمسی ماہ بھا دوں میں جو چاند نظر آئے اس کی 11،12 تاریخ کو قصور میں منعقد ہوتا

ان کے کلام کے بارے میں

بیرونی روابط

حوالہ جات