"ستی (رسم)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:ہندوستان میں بیوگی
م خودکار: اضافہ زمرہ جات : + زمرہ:انسانی قربانی
سطر 36: سطر 36:
{{زمرہ کومنز|Sati}}
{{زمرہ کومنز|Sati}}


[[زمرہ:انسانی قربانی]]
[[زمرہ:ایشیا میں حقوق نسواں]]
[[زمرہ:ایشیا میں حقوق نسواں]]
[[زمرہ:ایشیا میں خواتین کے خلاف تشدد بلحاظ]]
[[زمرہ:ایشیا میں خواتین کے خلاف تشدد بلحاظ]]

نسخہ بمطابق 07:05، 18 جون 2019ء

"ہندو ستی کرتے ہوئے"۔ ایک خیالی تصویر

ہندو عقیدے کے مطابق شوہر کے مرنے پر بیوہ کا شوہر کی چتا میں جل کر مرنا ستی کہلاتا ہے۔ جو ہندو مردے کو جلانے کی بجائے دفن کرتے تھے وہ بیوہ کو بھی زندہ دفن کر کے ستی کی رسم ادا کرتے تھے۔ جب شوہر کی موت کہیں اور ہوتی تھی اور لاش موجود نہ ہوتی تھی تو ستی کی رسم ادا کرنے کے لیے بیوہ کو شوہر کی کسی استعمال شدہ چیز کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا۔

ہندوستان میں ستی کا رواج بنگال میں زیادہ عام تھا۔ ستی ہونے والی خاتون کو ماتمی لباس کی بجائے شادی کے کپڑے پہنائے جاتے تھے اور ستی کی کافی ساری رسمیں شادی کی رسومات سے ملتی جلتی ہوتی تھیں۔ سمجھا جاتا تھا کہ ستی ہونے سے جوڑے کے تمام گناہ دھل جائیں گے انہیں نجات حاصل ہو گی اور وہ موت کے بعد بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔[1][2]


سکھ مذہب میں ستی ہونا شروع ہی سے حرام ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ستی ہونا بیوہ کی اپنی مرضی ہوتی تھی مگر معاشرتی توقعات اور مذہبی دباو بیوہ کے فیصلوں پر یقیناً اثرانداز ہوتا تھا۔ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں بیوہ کو چتا جلانے سے پہلے ہی چتا پر رسی سے باندھ دیا گیا تھا۔ بعض موقع پر بیوہ کو نشہ آور دوا دے کر ستی کیا گیا یا بیوہ کو شعلوں سے دور بھاگنے سے روکنے کے لیے بانس استعمال کیے گئے۔
۔[3]

وجہ

ایک ہندو بیوہ ستی ہو رہی ہے

ستی کی رسم مذہب میں کیسے داخل ہوئی اس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں امیر اور با اثر عمر رسیدہ لوگ جوان اور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرنے میں تو کامیاب ہو جاتے تھے مگر انہیں ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ان کی جوان بیوی کا کسی ہم عمر مرد سے معاشقہ نہ ہو جائے اور بیوی شوہر کو زہر نہ دے دے۔ ستی کی اس رسم کو مذہبی رنگ دینے سے بیوی اپنے شوہر کو کبھی بھی زہر دینے کی جرات نہیں کرے گی تا کہ خود بھی جل مرنے سے محفوظ رہے۔[4]

1806 میں نیپال کے راجا کو اس کے بھائی نے قتل کر دیا اور تخت پر قبضہ کرنے کے لیے راجا کی بیوہ مہارانی راج راجیشوری دیوی کو دس دن بعد 5 مئی 1806 کو زبردستی ستی کر دیا۔

انسداد ستی

ایک بیوہ ستی ہو رہی ہے۔

اکبر بادشاہ نے ستی کی رسم ختم کرنے کے لیے یہ قانون بنایا تھا کہ سرکاری اجازت حاصل کیے بغیر کسی کو ستی نہیں کیا جا سکتا اور سرکاری حکام کو یہ ہدایت تھی کہ اجازت نامہ دینے میں جتنی دیر ممکن ہو کریں تاکہ بیوہ کا جذباتی فیصلہ سرد پڑ جائے۔
ہمایوں نے ستی پر پابندی لگا دی تھی مگر ہندووں کے دباو میں آکر واپس لے لی۔
شاہ جہاں نے بچوں کی ماں کے ستی ہونے پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی۔
اورنگزیب نے اس معاملے میں سب سے زیادہ سختی برتی۔ 1663 میں اس نے قانون بنایا کہ مغل بادشاہت کی حدود میں ستی کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ لیکن لوگ رشوت دے کر یہ رسم ادا کرتے رہے۔ مغل بادشاہوں نے ستی سے بچانے کے لیے بیوہ کو تحفے،امداد اور پنشن بھی ادا کی۔
1515 میں پرتگالیوں نے گوا میں ستی پر پابندی لگائی۔
انگریزوں نے 1798 میں صرف کلکتہ میں ستی پر پابندی لگائی۔
4 دسمبر 1829 کو لارڈ ولیم بنٹنک نے بنگال میں ستی پر مکمل پابندی کا اعلان کیا جسے ہندووں نے عدالت میں چیلنج کر دیا۔ معاملہ Privy Council انگلستان تک گیا مگر 1832 میں پابندی کی برقراری کے حق میں فیصلہ آ گیا جس کے بعد یہ ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی نافذ العمل ہو گیا۔ کچھ ریاستوں میں ستی کی رسم پھر بھی جاری رہی۔

4 ستمبر 1987 کو ہندوستان میں راجستھان کے ضلع سکر کے دیورالا نامی گاوں میں ایک 18 سالہ بیوہ روپ کنور نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں خود کو ستی کر دیا۔ اس جرم میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات