"پاکستانی قانون شہریت" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 90: سطر 90:
** اگر کوئی شخص کسی دوسری ریاست کا شہری بن جائے تو اس کی پاکستانی شہریت منسوخ ہو جائے گی
** اگر کوئی شخص کسی دوسری ریاست کا شہری بن جائے تو اس کی پاکستانی شہریت منسوخ ہو جائے گی
** تاہم ایسا نابالغ (اکیس سال سے کم عمر) جس کے پاس پاکستانی شہریت نہ ہو، اکیس سال کی عمر کو پہنچ کر شہریت حاصل کر سکتا ہے
** تاہم ایسا نابالغ (اکیس سال سے کم عمر) جس کے پاس پاکستانی شہریت نہ ہو، اکیس سال کی عمر کو پہنچ کر شہریت حاصل کر سکتا ہے
=== سیکشن 14 بی ===
=== سیکشن 14 ب ===
* جموں اور کشمیر کے باشندے
* جموں اور کشمیر کے باشندے
** ایسے افراد جو جموں اور کشمیر سے پاکستان اس نیت سے منتقل ہوئے ہوں کہ جب تک ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے تعلق واضح نہیں ہو جاتا، انہیں بلا امتیاز پاکستانی شہری مانا جائے گا
** ایسے افراد جو جموں اور کشمیر سے پاکستان اس نیت سے منتقل ہوئے ہوں کہ جب تک ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے تعلق واضح نہیں ہو جاتا، انہیں بلا امتیاز پاکستانی شہری مانا جائے گا

=== سیکشن 16 ===
=== سیکشن 16 ===
* شہریت سے محرومی
* شہریت سے محرومی

نسخہ بمطابق 14:10، 19 اگست 2019ء

پاکستانی قانون شہریت
مجلس شوریٰ پاکستان
پاکستانی شہریت سے متعلق قانون
نفاذ بذریعہحکومت پاکستان
صورت حال: قانون سازی جاری

پاکستانی قانونِ شہریت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہریت کا تعین کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی قانون 13 اپریل 1951ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ جب کمبوڈیا نے اپنی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی تو پاکستان ایشیا کا واحد ملک بچ گیا ہے جہاں پیدائش پر شہریت ملتی ہے۔

شہریت

پاکستان کے قیام سے قبل یہ برطانوی ہندوستانی سلطنت کا حصہ تھا اور اس کے باسی برطانوی رعیت شمار ہوتے تھے۔ پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو عمل میں آیا اور اسے مسلمانوں کی ریاست کہا گیا اور اس کا درجہ برطانوی دولتِ مشترکہ میں ڈومنین کا تھا۔ تب موجودہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا اور اسے مشرقی پاکستان اور مشرقی بنگال کہا جاتا تھا۔ بنگلہ دیش 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا۔ برطانوی راج سے آزادی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان کا جبکہ لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستان سے بھارت کا رخ کیا اور شہریت کے حوالے سے کافی مسائل کھڑے ہو گئے۔

پاکستانی قانونِ شہریت برائے 1951ء

پاکستانی قانون برائے شہریت 13 اپریل 1951ء میں نافذ العمل ہوا اور اس کا مقصد پاکستانی شہریت کا تعین کرنا ہے۔ بعد ازاں اس قانون میں کئی بار تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس قانون کے 23 حصے ہیں اور ہر ایک میں شہریت کے لیے مختلف شرائط درج ہیں۔ ان میں سے اہم تر درجِ ذیل ہیں۔

سیکشن 3

اس قانون کے نفاذ کی تاریخ پر شہریت کی صورت حال

  • اس قانون کے نفاذ کے وقت مندرجہ ذیل افراد پاکستانی شہری شمار ہوں گے:
  • جن کے والدین یا والدین کے والدین موجودہ پاکستان کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں
  • ان کے والدین یا والدین کے والدین 31 مارچ 1937ء کے ہندوستان میں پیدا ہوئے ہوں۔

یا

  • پاکستان میں نیچرلائز ہونے والی برطانوعی رعیت
  • اس قانون کے نفاذ سے قبل پاکستان منتقل ہونے والے افراد

سیکشن 4

  • پیدائش پر شہریت
    • اس قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد پاکستانی شمار ہوگا (ماسوائے ایسے افراد کہ جن کے والد کو ملک دشمن شمار کیا جاتا ہو یا اس کو قانونی کارروائی سے مستثنی قرار دیا گیا ہو

سیکشن 5

  • نسلی اعتبار سے شہریت
    • اگر والدین میں سے کوئی ایک پاکستانی شہری ہو تو بچے کو پاکستانی شہریت مل سکتی ہے

سیکشن 6

  • ترک وطن پر شہریت
    • یکم جنوری 1952ء سے قبل بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان مستقل آباد ہونے کی نیت سے آنے والے افراد کو پاکستانی شہریت مل سکتی ہے اور اگر ایسا فرد مرد ہو تو اس کی بیوی اور بچے بھی شہریت کے حق دار ہوں گے

سیکشن 7

  • پاکستانی علاقے سے باہر جانے والے افراد
    • سیکشن 3، 4 اور 6 سے ہٹ کر اگر کوئی شخص یکم مارچ 1947 کو موجودہ پاکستانی علاقے سے موجودہ بھارتی علاقے کو چلا گیا ہو تو وہ پاکستانی شہری نہیں کہلا سکتا۔ تاہم اگر ایسا شخص قانونی طور پر پاکستان مستقل قیام کی نیت سے دوبارہ لوٹ آئے تو اسے استثنٰی حاصل ہوگا

سیکشن 14

  • دہری شہریت کی اجازت نہیں
    • اگر کسی شخص کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت ہو تو اس کی پاکستانی شہریت ختم ہو جائے گی۔ تاہم یہ اصول مندرجہ ذیل پر لاگو نہیں ہوتا:
    • اگر دوسری شہریت واپس کر دی جائے
    • دوسری شہریت برطانیہ یا اس کی کسی سابقہ نوآبادی کی ہو
    • ایسی خاتون جو کسی غیر پاکستانی سے شادی کر لے

سیکشن 14 الف

  • شہریت کی تنسیخ
    • اگر کوئی شخص کسی دوسری ریاست کا شہری بن جائے تو اس کی پاکستانی شہریت منسوخ ہو جائے گی
    • تاہم ایسا نابالغ (اکیس سال سے کم عمر) جس کے پاس پاکستانی شہریت نہ ہو، اکیس سال کی عمر کو پہنچ کر شہریت حاصل کر سکتا ہے

سیکشن 14 ب

  • جموں اور کشمیر کے باشندے
    • ایسے افراد جو جموں اور کشمیر سے پاکستان اس نیت سے منتقل ہوئے ہوں کہ جب تک ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے تعلق واضح نہیں ہو جاتا، انہیں بلا امتیاز پاکستانی شہری مانا جائے گا

سیکشن 16

  • شہریت سے محرومی
    • درجِ ذیل افراد سے پاکستانی شہریت واپس لی جا سکتی ہے:
    • غلط معلومات کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی پاکستانی شہریت
    • پاکستان سے غداری
    • دوران جنگ، دشمن سے ساز باز کرنے والے افراد

سیکشن 16 اے

  • بعض افراد کی شہریت کا خاتمہ اور بعض کو رکھنے کی اجازت
    • اس شق کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو 16 دسمبر 1971 کے آس پاس مشرقی پاکستان میں رہتے تھے
    • 16 دسمبر 1971ء کو اپنی مرضی سے بنگلہ دیش منتقل ہونے والے افراد کی پاکستانی شہریت ختم ہو گئی ہے
    • 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان میں رہنے یا پاکستان منتقل ہونے والے مشرقی پاکستانی افراد کی پاکستانی شہریت برقرار ہے

دولتِ مشترکہ کی شہریت

پاکستانی شہری دولت مشترکہ کے بھی شہری ہیں۔

دہری شہریت

آزادی کے بعد بیرونِ ملک بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکہ میں آباد پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی جار ہی ہے اور اسی وجہ سے قانون میں درجِ ذیل تبدیلی لائی گئی ہے جس کے تحت مخصوص حالات میں دہری شہریت کی اجازت ہے:

  • جہاں دوسری شہریت اختیار کرنے والے کی عمر 21 برس سے کم ہو
  • جہاں دوسری شہریت کا تعلق برطانیہ، مصر، فرانس، اردن، اٹلی، شام، بیلجیم، سوئٹزر لینڈ، آئس لینڈ، نیدر لینڈز، آسٹریلیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، نیوزی لینڈ، سوئیڈن، کینیڈا، آئرلینڈ، فن لینڈ، بحرین یا ڈنمارک سے ہو

دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر عوامی عہدہ رکھنے، اسمبلی میں بیٹھنے، انتخاب لڑنے یا پاکستانی افواج میں شامل ہونے کی ممانعت ہے۔ 20 ستمبر 2012 کو پاکستانی عدالتِ عظمیٰ نے 11 قانون سازوں کو نااہل قرار دیا جن میں وزیرِ داخلہ رحمان ملک بھی شامل تھے۔ یہ افراد اپنی دہری شہریت مخفی رکھنے کے مجرم ثابت ہوئے تھے۔آئین میں کی جانے والی 21ویں ترمیم کے تحت دہری شہریت والے افراد انتخاب بھی لڑ سکنے اور عوامی عہدہ رکھنے کے بھی قابل ہو سکتے تھے مگر یہ ترمیم منظور نہیں ہو پائی۔ 16 دسمبر 2013 کو پاکستانی ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے بل منظور کیا کہ گریڈ 20 یا اس سے اوپر والے تمام افسران کے لیے دہری شہریت کی اجازت نہیں۔ پھر اس پر ایوانِ زیریں میں بحث ہونی ہے اور اگر یہ بل وہاں سے بھی منظور ہو گیا تو پاکستانی صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا۔

تنازعات

کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کئی بار جنگ بھی ہو چکی ہے۔ پاکستانی شہریت کے ایکٹ 1951 کے مطابق جموں اور کشمیر کے افراد پاکستانی پاس پورٹ پر سفر کر سکتے ہیں۔

1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد لگ بھگ پانچ لاکھ افراد جن کا ریاست بہار سے تعلق تھا، کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ تمام تر وعدوں کے باوجود بنگلہ دیش ایسے افراد کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل وہاں غیر قانونی طور پر مقیم افراد 10ہزار تھے جبکہ علیحدگی کے بعد اس میں متواتر اضافہ ہوتا گیا اور 1995 میں یہ تعداد بڑھ کر سولہ لاکھ ہو گئی۔ چونکہ یہ افراد بنگلہ دیش کے قیام کے بعد آئے تھے اس لیے انہیں شہریت کا حق حاصل نہیں۔

سیاسی اور دیگر مقاصد کے تحت پندرہ لاکھ افغان جو پاکستان میں پناہ گزین کے طور پر مقیم ہیں، کو بھی پاکستانی شہریت نہیں دی گئی حالانکہ ان کی اکثریت پاکستان میں ہی پیدا ہوئی تھی۔

سفر کی آزادی

2018 میں پاکستانی پاس پورٹ کے حامل افراد کے لیے 36 ممالک میں ویزے کے بغیر، برقی ویزے یا آمد پر ویزہ کی سہولت حاصل تھی جس کی وجہ سے پاکستانی پاس پورٹ کو 197واں درجہ دیا گیا۔