"جلال الدین محمد اکبر" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 22: سطر 22:
== اکبر کے نو رتن ==
== اکبر کے نو رتن ==
شہنشاہ اکبر ِاعظم کے اہم درباریوں میں وہ "نورتن"بھی شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا اور اُن سب کی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان بنے جس کی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ راجا ٹو ڈرمل اور عبد الرحیم خان خاناں کے علاوہ کوئی بھی منصب وزارت پر فائز نہ تھا لیکن یہ سب بادشاہ کے جلوت و خلوت کے شریک اور مشیر کار تھے۔
شہنشاہ اکبر ِاعظم کے اہم درباریوں میں وہ "نورتن"بھی شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا اور اُن سب کی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان بنے جس کی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ راجا ٹو ڈرمل اور عبد الرحیم خان خاناں کے علاوہ کوئی بھی منصب وزارت پر فائز نہ تھا لیکن یہ سب بادشاہ کے جلوت و خلوت کے شریک اور مشیر کار تھے۔
* ( 1) [[راجا بیربل]]:
* ( 1) [[راجا بیربل]]
* ( 2) [[ابو الفضل فیضی]]
* ( 2) [[ابو الفضل فیضی]]
* (3) [[ابو الفضل علامی]]
* (3) [[ابو الفضل علامی]]
سطر 31: سطر 31:
* (8) [[راجہ ٹوڈرمل]]
* (8) [[راجہ ٹوڈرمل]]
* (9) [[مرزا عزیز کوکلتاش]]<ref>اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 3،صفحہ 47 جامعہ پنجاب لاہور</ref>
* (9) [[مرزا عزیز کوکلتاش]]<ref>اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 3،صفحہ 47 جامعہ پنجاب لاہور</ref>

== شہنشاہ اکبر کا ترکہ ==
== شہنشاہ اکبر کا ترکہ ==
اکبر نے اپنے ترکہ میں پانچ ہزار ہاتھی، بارہ ہزار گھوڑے، ایک ہزار چیتے، دس کروڑ روپیہ، بڑی اشرفیوں میں سو سو تولہ سے پانچ سو تولہ تک کی ہزار اشرفیاں، دو سو بہتر من غیر مسکوک سونا، تین سو ستر من چاندی، ایک من جواہرات جس کی قیمت تین کروڑ تھی چھوڑا<ref>[[منتخب اللباب]]، خافی خان نظام الملک، اردو ترجمہ محمود احمد فاروقی، نفیس اکیڈیمی کراچی، 1985ء، ص 254</ref>۔
اکبر نے اپنے ترکہ میں پانچ ہزار ہاتھی، بارہ ہزار گھوڑے، ایک ہزار چیتے، دس کروڑ روپیہ، بڑی اشرفیوں میں سو سو تولہ سے پانچ سو تولہ تک کی ہزار اشرفیاں، دو سو بہتر من غیر مسکوک سونا، تین سو ستر من چاندی، ایک من جواہرات جس کی قیمت تین کروڑ تھی چھوڑا<ref>[[منتخب اللباب]]، خافی خان نظام الملک، اردو ترجمہ محمود احمد فاروقی، نفیس اکیڈیمی کراچی، 1985ء، ص 254</ref>۔

نسخہ بمطابق 11:34، 28 ستمبر 2019ء

جلال الدین محمد اکبر
(فارسی میں: جلال‌الدین مُحمَّد اکبر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 اکتوبر 1542ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمرکوٹ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 اکتوبر 1605ء (63 سال)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فتح پور سیکری   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات پیچش   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ جلال الدین اکبر   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام، دین الٰہی
زوجہ مریم الزمانی
رقیہ سلطان
سلیمہ سلطان (1561–)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد نورالدین جہانگیر ،  مراد مرزا ،  دانیال مرزا ،  آرام بانو بیگم ،  خانم سلطان بیگم ،  شکرالنساء بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد نصیر الدین محمد ہمایوں   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ حمیدہ بانو بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان مغل خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
مغل بادشاہ (3  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
11 فروری 1556  – 27 اکتوبر 1605 
نصیر الدین محمد ہمایوں  
نورالدین جہانگیر  
دیگر معلومات
پیشہ شاہی حکمران   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان چغتائی ،  فارسی ،  ہندوستانی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جلال الدین اکبر : سلطنت مغلیہ کے تیسرے فرماں روا (ظہیر الدین محمد بابر اور ہمایوں کے بعد)، ہمایوں کابیٹا تھا۔ ہمایوں نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں سندھ کے تاریخی شہر دادو کے قصبے "پاٹ" کی عورت حمیدہ بانو سے شادی کی تھی۔ اکبر اُسی کے بطن سے 1542ء میں سندھ میں عمر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوا۔ ہمایوں کی وفات کے وقت اکبر کی عمر تقریباً چودہ برس تھی اور وہ اس وقت اپنے اتالیق بیرم خان کے ساتھ کوہ شوالک میں سکندر سوری کے تعاقب میں مصروف تھا۔ باپ کی موت کی خبر اسے کلانور ضلع گروداسپور (مشرقی پنجاب) میں ملی۔ بیرم خان نے وہیں اینٹوں کا ایک چبوترا بنوا کر اکبر کی رسم تخت نشینی ادا کی اور خود اس کا سرپرست بنا۔ تخت نشین ہوتے ہی چاروں طرف سے دشمن کھڑے ہو گئے۔ ہیموں بقال کو پانی پت کی دوسری لڑائی میں شکست دی۔ مشرق میں عادل شاہ سوری کو کھدیڑا۔ پھر اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینی شروع کی۔

1556ء میں دہلی، آگرہ، پنجاب پھر گوالیار، اجمیر اور جون پور بیرم خان نے فتح کیے۔ 1562ء میں مالوہ، 1564ء میں گونڈدانہ، 1568ء میں چتوڑ، 1569ء میں رنتھمپور اور النجر، 1572ء میں گجرات، 1576ء میں بنگال، 1585ء میں کابل، کشمیر اور سندھ، 1592ء میں اڑیسہ، 1595ء میں قندہار کا علاقہ، پھر احمد نگر، اسیر گڑھ اور دکن کے دوسرے علاقے فتح ہوئے اور اکبر کی سلطنت بنگال سے افغانستان تک اور کشمیر سے دکن میں دریائے گوداوری تک پھیل گئی۔

اکبر نے نہایت اعلیٰ دماغ پایا تھا۔ ابوالفضل اور فیضی جیسے عالموں کی صحبت نے اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔ اس نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا کہ ایک اقلیت کسی اکثریت پر اس کی مرضی کے بغیر زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کر سکتی۔ اس نے ہندوؤں کی تالیف قلوب کی خاطر انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دیں اور ان کے ساتھ ازدواجی رشتے قائم کیے۔ اکبر نے ایک ہندو عورت جودھا بائی سے بھی شادی کی جو اس کے بیٹے جہانگیر کی ماں تھی۔ جودھا بائی نے مرتے دم تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ نیز دین الہٰی کے نام سے ایک نیا مذہب بھی جاری کیا۔ جو ایک انتہا پسندانہ اقدام تھا اور اکبر کے ہندو رتنوں کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا۔ دین الہًی کی وجہ سے اکبر مسلمان امرا اور بزرگان دین کی نظروں میں ایک ناپسندیدہ شخصیت قرار پایا۔ وہ خود ان پڑھ تھا۔ لیکن اس نے دربار میں ایسے لوگ جمع کر لیے تھے جو علم و فن میں نابغہ روزگار تھے۔ انہی کی بدولت اس نے بچاس سال بڑی شان و شوکت سے حکومت کی اور مرنے کے بعد اپنے جانشینوں کے لیے ایک عظیم و مستحکم سلطنت چھوڑ گیا۔

اکبر کا دین الٰہی کافی مقبول ہوا جس کی وجہ اس میں میانہ روی کی موجودگی تھی۔

تاریخ

جنگیں اور فتوحات

بین الاقوامی پالیسی

تعمیرات

پنچ محل ، فتح پور سیکری

اکبر کے نو رتن

شہنشاہ اکبر ِاعظم کے اہم درباریوں میں وہ "نورتن"بھی شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا اور اُن سب کی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان بنے جس کی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ راجا ٹو ڈرمل اور عبد الرحیم خان خاناں کے علاوہ کوئی بھی منصب وزارت پر فائز نہ تھا لیکن یہ سب بادشاہ کے جلوت و خلوت کے شریک اور مشیر کار تھے۔

شہنشاہ اکبر کا ترکہ

اکبر نے اپنے ترکہ میں پانچ ہزار ہاتھی، بارہ ہزار گھوڑے، ایک ہزار چیتے، دس کروڑ روپیہ، بڑی اشرفیوں میں سو سو تولہ سے پانچ سو تولہ تک کی ہزار اشرفیاں، دو سو بہتر من غیر مسکوک سونا، تین سو ستر من چاندی، ایک من جواہرات جس کی قیمت تین کروڑ تھی چھوڑا[5]۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118644181 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. https://brockhaus.de/ecs/julex/article/akbar — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. تاريخ مغول القبيلة الذهبيَّة والهند — صفحہ: 261 — ISBN 978-9953-18-436-4
  4. اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 3،صفحہ 47 جامعہ پنجاب لاہور
  5. منتخب اللباب، خافی خان نظام الملک، اردو ترجمہ محمود احمد فاروقی، نفیس اکیڈیمی کراچی، 1985ء، ص 254
جلال الدین محمد اکبر
پیدائش: 14 اکتوبر 1542 وفات: 27 اکتوبر 1605
شاہی القاب
ماقبل  مغل شہنشاہ
27 جنوری 1556ء27 اکتوبر 1605ء
مابعد