"سدرۃ المنتہیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 2: سطر 2:
== وجہ تسمیہ ==
== وجہ تسمیہ ==
سِدْرَۃ [[عربی زبان]] میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔
سِدْرَۃ [[عربی زبان]] میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔
فیقبض منھا، والیھا ینتھی ما یھبط بہ فوقھا فیقنض منھا۔


== سدرۃ المنتہیٰ قرآن مقدس میں ==
== سدرۃ المنتہیٰ قرآن مقدس میں ==

نسخہ بمطابق 21:22، 15 فروری 2020ء

سدرۃ المنتہیٰ قرآن مقدس میں واقعہ معراج کے ذیل میں ایک مقام کا ذکر ہے۔ اسی کو اسلامی ادب میں سدرۃ المنتہیٰ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مفسرین قرآن نے سدرہ کو زیادہ تر بیری کا درخت بتا یا ہے۔

وجہ تسمیہ

سِدْرَۃ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ فیقبض منھا، والیھا ینتھی ما یھبط بہ فوقھا فیقنض منھا۔

سدرۃ المنتہیٰ قرآن مقدس میں

  • قرآن مقدس میں چار بار سدر کا لفظ آیا ہے۔:
  • وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَئِذَا كُنَّا تُرَابًا أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ الأَغْلاَلُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدونَ
  • فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَى أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ
  • فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ

بطور درخت

شبیر احمد عثمانی نے سورہ نجم کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ ”سدرة المنتہیٰ کے بیری کے درخت کو دنیا کی بیریوں پر قیاس نہ کیا جائے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس طرح کی بیری ہو گی۔” وہ مزید فر ماتے ہیں کہ ” جو اعمال وغیرہ ادھر سےفگدڈدت چڑھتے ہیں اور جو احکام وغیرہ ادھر سے اترتے ہیں سب کا منتہیٰ وہی ہے۔ مجموعہ روایات سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں اور پھیلاؤ ساتویں آسمان میں ہو گا۔[1]محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث معراج میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب انہیں جبریل علیہ السلام آسمان پر لے گئے اور اللہ تعالی کے حکم سے ایک کے بعد دوسرا آسمان گزرتے رہے حتی کہ ساتویں آسمان میں داخل ہو گئے، تو کہنے لگے؛ پھرمیرے سامنے سدرۃ المنتہیٰ ظاہر کی گئی تو اس کے بیر (پھل) ہجر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، تو وہ کہتے ہیں کہ یہی سدرۃ المنتہی ہے۔[2] لیکن بعض جدید مفسرین و ماہرین اسے عام طور پر معروف بیری کا درخت نہیں مانتے، ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی اس کو ایک الگ درخت قرار دیتے ہیں جو یا تو معدوم ہو چکا ہے یا اس کا نام سدر کسی دوسری زبان سے معرب ہے۔ وہ لکھتے ہیں سدر کا اشارہ شام و لبنان کے اس درخت سے ہے جس کو عربی زبان میں ارزالرب، ارز البنان یا شجرة اللہ کہتے ہیں اور جو زمانہ قدیم میں سدر کے ہم وزن ناموں سے روم اور یونان میں جانا جاتا تھا یعنی سدراس، سدرس، کدراس وغیرہ۔ لبنان کا یہ درخت اپنے جاہ جلال، قد و قامت اور خوبصورتی نیز خوشبودار لکڑی کی بنا پر عرب ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا حسین ترین درخت سمجھا تھا۔ اس کا ذکر حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دوسرے پیغمبر و ں نے اپنے ارشادات میں بڑے ادب کے ساتھ کیا ہے اور اس کی عظمت بیان فر مائی ہے۔[3]

حوالہ جات

  1. شبیر احمد عثمانی، تفسیر قرآن، مدینہ پریس، بجنور
  2. صحیح بخاری، حدیث نمبر، 3598
  3. ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی (22 جون 2013ء)۔ "سدرہ یا بیری ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی کی قرآنی تحقیق کا ایک شاہکار"۔ ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی۔ الواقعہ میگزین۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2016