"اذان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 159: سطر 159:


( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).
( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).
== اذان کے فضائل ==
ہشام بن ابراہیم نے ایک مرتبہ امام ابو الحسن رضا علیہ السلام سے اپنے مرض کی شکایت کی اور یہ کہ اس کے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ اپنے گھر میں بآواز بلند اذان دیا کرے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالی نے میرا دکھ درد دور کر دیا اور میری بہت سے اولاد ہوئی۔


محمد بن راشد کا بیان ہے کہ میں دائم المریض تھا اور میرے خادموں اور میرے اہل و عیال میں سے کچھ لوگوں کو مرض سے چھٹکارا نہیں تھا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں تنہا باقی رہ گیا تھا اور میری کوئی خدمت کرنے والا نہ تھا مگر جب میں نے ہشام سے یہ سنا تو میں نے بھی اس پر عمل کیا اور اللہ تعالی نے بحمد للہ میرے اور میرے اہل و عیال کے سارے امراض دور کر دیئے۔<ref>من لا یحضر الفقیہ، حدیث نمبر 903</ref>
{{اسلام میں نمازیں}}
{{اسلام میں نمازیں}}



نسخہ بمطابق 02:05، 28 مارچ 2020ء


170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

"اذان" اسلام میں نماز کے لیے پکار کو کہتے ہیں۔ دن میں 5 مرتبہ فرض نمازوں کے لیے موذن یہ فریضہ انجام دیتا ہے۔ نماز سے قبل صف بندی کے لیے دی جانی والی اذان اقامت کہلاتی ہے۔

اذان کا لغوی و اصطلاحی مفہوم

اذان کے لغوی معنی ہیں، خبردار کرنا، اطلاع دینا اور اعلان کرنا۔

شریعت کی اصطلاح میں اذان سے مراد وہ مخصوص کلمات ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔

اذان کی ابتدا

سن ١ ھجری کو جب مدینہ طیبہ میں جب نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد بنائی گئی تو اس ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کا وقت قریب ہونے کی اطلاع دینے کا کوئی خاص طریقہ اختیا کیا جائے۔ رسو ل اللہ نے جب اس بارے میں صحابہ کرام سے مشاورت کی تو اس سلسلے میں چار تجاویز سامنے آئیں :

مذکورہ بالا سبھی تجاویز آنحضرت کو غیر مسلم اقوام سے تشبیہ کے باعث پسند نہ آئیں۔ اس مسئلے میں آنحضرت اور صحابہ کرام متفکر تھے کہ اسی رات ایک انصاری صحابی حضرت عبداللہ بن زید نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے انہیں اذان اور اقامت کے کلمات سکھائے ہیں۔ انھوں نے صبح سویرے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا خواب بیان کیا تو آنحضرت نے اسے پسند فرمایا اور اس خواب کو اللہ تعالٰی کی جانب سے سچا خواب قرار دیا۔ اسی قسم کے خواب بعض دوسرے صحابہ نے بھی بیان کیے اور آنحضرت کو بھی بذریعہ وحی اللہ تعالٰی نے اذان کی تعلیم دی۔

آنحضرت نے حضرت عبداللہ بن زید سے فرمایا کہ تم حضرت بلال کو اذان کے ان کلمات کی تلقین کر دو، ان کی آواز بلند ہے اس لیے وہ ہر نماز کے لیے اسی طرح اذان دیا کریں گے۔ چنانچہ اسی دن سے اذان کا یہ نظام قائم ہے اور اس طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے موذن قرار پائے۔

اذان کا ذکر قرآن میں

قرآن مجید میں اذان کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے.

۔‘‘

وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ.

(المائدة، 5:58)

’’اور جب تم نماز کے لیے( لوگوں کو بہ صور تِ اذان) پکارتے ہو۔‘‘

اذان سنت موکدہ

پانچوں فرض نمازوں اور نماز جمعہ کے لیے اذان کہنا سنت موکدہ ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور نماز جیسے نماز عیدین، نماز استسقاء، نماز کسوف اور دیگر نمازوں کے لیے اذان مشروع نہیں۔

اذان میں ترجیح

اذان میں ترجیع نہیں۔ ترجیع کے لغوی معنی ہیں لوٹانا، دہرانا۔ یہاں ترجیع سے مراد شہادت کے دونوں کلمے :

  • َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلا الله
  • أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

پہلے دو دفعہ آہستہ اور پھر دو دفعہ بلند آواز سے کہنا ہے۔

امام شافعی ترجیع کے قائل ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت نے ابو محذورہ کو ترجیع کا حکم دیا تھا۔ اس کے جواب میں امام طحاوی و ابن جوزی فرماتے ہیں کہ اس وقت آنحضرت کا مقصود اذان کی تعلیم تھا اور تعلیم میں ایک بات کو بار بار دہرانے کی نوبت اکثر آتی ہے۔ ابو محذورہ یہ سمجھے کہ آنحضرت کا یہ حکم دائمی ہے۔ علاوہ ازیں معجم طبرانی میں ابو محذورہ کی روایت میں ترجیع نہیں ہے پس دونوں روایتیں متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہوئیں اور عبداللہ بن زید اور ابن عمر وغیرہ کی روایتیں قابلِ حجت رہیں جن میں ترجیع مذکور نہیں ہے۔

اذان کا طریقہ اور احکام

  • اذان ٹھہر ٹھہر کر اور بلند آواز سے دی جانی چاہیے۔ ہر کلمہ کے بعد موذن اتنی دیر تک توقف کرے کہ سننے والا وہی کلمہ دہرا کر جواب دے سکے۔
  • اذان کہتے وقت موذن قبلہ رو ہو۔
  • موذن اذان دیتے وقت اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حکمت یہ ارشاد فرمائی کہ اس طرح سے آواز بلند ہو گی۔
  • موذن جب حَيَّ عَلَي الصَّلوٰةِ کہے تو منہ دائیں طرف پھیرے اور جب حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ کہے تو منہ بائیں طرف پھیرے۔

اذان کہتے وقت موذن کا باوضو ہونا مستحب ہے۔ اگر بغیر وضو اذان کہہ لی جائے تو جائز ہے۔

حالت جنابت میں اذان کہنا مکروہ ہے۔ اگرچہ اذان کے لیے مکمل طہارت ضروری نہیں تاہم جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص حالت جنابت میں اذان کہہ دے تو اعادہ یعنی اذان کا دوبارہ کہنا افضل ہے۔

نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان کہنا درست نہیں کیونکہ اذان نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لیے کہی جاتی ہے اور اگر وقت سے پہلے اذان ہو گئی تو لوگ اذان سن کر نماز پڑھ لیں گے حالانکہ وقت سے پہلے نماز پڑھنا بھی درست نہیں۔ اگر وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تو اس کے وقت پر دوبارہ کہنی چاہیے۔

فائتہ(فوت شدہ) سے مراد وہ نماز جو قضا ہو گئی ہو۔ اگر ایک نماز قضا ہو گئی ہو تو اس کے لیے اذان کہی جائے گی اور اقامت بھی ہو گی اور اگر ایک سے زائد قضا نمازوں کو ادا کرنا ہو تو پہلی نماز کے لیے اذان و اقامت دونوں کہی جائیں گی اور دوسری نمازوں میں اختیار ہو گا کہ اگر چاہیں تو اذان و اقامت دونوں کہیں اور اگر چاہیں تو صرف اقامت کہہ لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے اور یہ مقصد پہلی اذان سے حاصل ہو چکا ہے لہذا دوبارہ اذان کی ضرورت نہیں۔

اذان کے الفاظ

اللَّهُ اَكْبَرْ اللَّهُ اَكْبَرْ

( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

اللَّهُ اَكْبَرْ اللَّهُ اَكْبَرْ

( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )

حَيَّ عَلَي الصَّلوٰةِ

( نماز كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَي الصَّلوٰةِ

( نماز كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ

( فلاح (و كاميابى) كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ

( فلاح (و كاميابى) كى طرف آؤ )

اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ

( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

لَا إِلَهَ اِلاَ اللَّهُ

( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

اذان میں زائد الفاظ

اذان کے الفاظ میں فجر کی اذان میں حَیَّ عَلَی الفَلَاح کے بعد

اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ

ترجمہ: نماز نیند سے بہتر ہے۔

کا اضافہ کیا جاتا ہے اور مذکورہ الفاظ دو بار کہے جاتے ہیں۔

اذان کے بعد کی دعا

اذان کے بعد کی دعا کو دعائے وسیلہ کہتے ہیں اس دعا سے پہلے درود شریف ضرور پڑھ لینا چاہیے۔

اَللّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہٖ الدَّعوَۃِ التَّامَّۃِ وَ الصَّلوٰۃِ القَائِمَۃِ اٰتِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدَن الوَسِیلَۃَ وَالفَضِیلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیعَۃَ وَابعَثہُ مَقَامًا مَّحمُودَنِ الَّذِی وَعَدتَّہُ وَارزُقنَا شَفَاعَتَہُ یَومَ القِیَامَۃِ انَّکَ لَا تُخلِفُ المِیعَادَ۔

ترجمہ: اے دعوت کامل اور پابندی سے پڑھی جانے والی نماز کے رب تو ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مقام وسیلہ، فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ اور قیامت کے دن ہمیں ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرما۔ بے شک تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

اقامت

اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ

( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )

حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ

( نماز كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ

( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )

قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ

( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )

قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ

( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )

اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ

( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).

اذان کے فضائل

ہشام بن ابراہیم نے ایک مرتبہ امام ابو الحسن رضا علیہ السلام سے اپنے مرض کی شکایت کی اور یہ کہ اس کے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ اپنے گھر میں بآواز بلند اذان دیا کرے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالی نے میرا دکھ درد دور کر دیا اور میری بہت سے اولاد ہوئی۔

محمد بن راشد کا بیان ہے کہ میں دائم المریض تھا اور میرے خادموں اور میرے اہل و عیال میں سے کچھ لوگوں کو مرض سے چھٹکارا نہیں تھا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں تنہا باقی رہ گیا تھا اور میری کوئی خدمت کرنے والا نہ تھا مگر جب میں نے ہشام سے یہ سنا تو میں نے بھی اس پر عمل کیا اور اللہ تعالی نے بحمد للہ میرے اور میرے اہل و عیال کے سارے امراض دور کر دیئے۔[1]

  1. من لا یحضر الفقیہ، حدیث نمبر 903