"روزہ (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 79: سطر 79:
* [[سلیمان بن جعفر جعفری]] نے حضرت ابو الحسن [[امام رضا]] علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جس پر [[ماہ]] [[رمضان]] کے چند دنوں کے روزے [[قضا]] ہیں کیا وہ ان کو متفرق طور پر رکھے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا اگر [[ماہ]] [[رمضان]] کے [[قضا]] روزے متفرق طور پر رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے اور جو روزے متفرق طور پر نہیں رکھ سکتے وہ [[کفارہِ ظہار]] اور [[کفارہِ قتل]] و [[کفارہِ حلف]] ہیں۔<ref>[[من لا یحضرہ الفقیہ]] جلد 2، صفحہ 104، حدیث نمبر 1998، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل (غازی پوری)</ref>
* [[سلیمان بن جعفر جعفری]] نے حضرت ابو الحسن [[امام رضا]] علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جس پر [[ماہ]] [[رمضان]] کے چند دنوں کے روزے [[قضا]] ہیں کیا وہ ان کو متفرق طور پر رکھے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا اگر [[ماہ]] [[رمضان]] کے [[قضا]] روزے متفرق طور پر رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے اور جو روزے متفرق طور پر نہیں رکھ سکتے وہ [[کفارہِ ظہار]] اور [[کفارہِ قتل]] و [[کفارہِ حلف]] ہیں۔<ref>[[من لا یحضرہ الفقیہ]] جلد 2، صفحہ 104، حدیث نمبر 1998، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل (غازی پوری)</ref>
====== روزہ فرض ہونے کا سبب ======
====== روزہ فرض ہونے کا سبب ======
ایک مرتبہ ہشام بن حکم نے حضرت [[امام جعفر صادق]] علیہ السلام سے روزہ کا سبب دریافت کیا تو آپ ع نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ امیر و فقیر دونوں برابر ہو جائیں کیونکہ امیر نے کبھی بھوک کا مزا ہی نہیں چکھا تاکہ فقیروں پر ترس کھاۓ اور مہربانی کرے اسکی وجہ یہ ہے کہ امیر شخص کو جس چیز کی خواہش ہو اسکا حصول اسکے بس میں ہے اسی بناء پر اللہ تعالی نے چاہا کہ اس کی مخلوق باہم مساوی ہو جاۓ اسطرح کہ امیر بھی بھوک کا مزا چکھے تاکہ کمزوروں کے لئے اسکا دل نرم ہو اور بھوکوں پر رحم کرے.<ref>[[من لا یحضرہ الفقیہ]] حدیث نمبر 1766</ref>
ایک مرتبہ [[ہشام بن حکم]] نے حضرت [[امام جعفر صادق]] علیہ السلام سے روزہ کا سبب دریافت کیا تو آپ ع نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ امیر و فقیر دونوں برابر ہو جائیں کیونکہ امیر نے کبھی بھوک کا مزا ہی نہیں چکھا تاکہ فقیروں پر ترس کھاۓ اور مہربانی کرے اسکی وجہ یہ ہے کہ امیر شخص کو جس چیز کی خواہش ہو اسکا حصول اسکے بس میں ہے اسی بناء پر اللہ تعالی نے چاہا کہ اس کی مخلوق باہم مساوی ہو جاۓ اسطرح کہ امیر بھی بھوک کا مزا چکھے تاکہ کمزوروں کے لئے اسکا دل نرم ہو اور بھوکوں پر رحم کرے.<ref>[[من لا یحضرہ الفقیہ]] حدیث نمبر 1766</ref>
[[علی رضا|حضرت ابو الحسن امام علی ابن الرضا]] علیہ السلام نے [[محمد بن سنان]] کے مسائل کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا اسکے اندر روزہ کا یہ سبب بھی تحریر فرمایا کہ انسان بھوک اور پیاس کا مزا چکھ کر خود کو ذلیل و مسکین سمجھے تو اسے اسکا ثواب دیا جاۓ اسکا احتساب ہو وہ اس روزے کی تکلیف کو برداشت کرے اور یہ چیز اسکے لئے آخرت کی سختیوں کی طرف راہنما ہو. نیز اسکی خواہشات میں کمی ہو اور عاجزی پیدا ہو. دنیا میں اسکو نصیحت ملتی رہے اور آخرت کی سختیوں کی نشاندہی ہوتی رہے اور اسے علم ہو کہ دنیا اور آخرت میں فقیر و مسکین کیا کیا سختیاں برداشت کرتے ہیں.<ref>[[من لا یحضرہ الفقیہ]] حدیث نمبر 1767</ref>

==== اصولی ====
==== اصولی ====
===== فاضل لنکرانی کے فتاویٰ کے مطابق =====
===== فاضل لنکرانی کے فتاویٰ کے مطابق =====

نسخہ بمطابق 01:26، 23 اپریل 2020ء


170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

روزہ اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ مسلمان اسلامی سال کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں۔ روزے میں مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے اور پینے، جبکہ میاں بیوی آپس میں جنسی تعلق سے باز رہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے صبح صادق سے قبل کھانا کھایا جاتا ہے جسے سحری کہتے ہیں جس کے بعد نماز فجر ادا کی جاتی ہے جبکہ غروب آفتاب کے وقت اذان مغرب کے ساتھ روزہ کھول لیا جاتا ہے جسے افطار کرنا کہتے ہیں۔ لفظ صوم کا مادہ ص، و اور م ہے۔ لغت میں صوم کہتے ہیں کسی چیز سے رک جانا۔[1] اورشرعی اصطلاح میں ایک مخصوص طرز پر صبح صادق سے لے کر غروب شمس تک مخصوص شرائط اور نیت کے ساتھ کھانے پینے سے رک جانا۔ صوم صرف رمضان کے روزوں دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ اس سے تمام طرح کے روزے مراد ہیں۔روزے یا تو فرض عین و فرض کفایہ ہوں گے جیسے رمضان کے روزے، رمضان کے علاوہ واجب روزے ہوتے ہیں جیسے قضا روزے یا نذر یا کفارہ کا روزہ۔ یہ مسنون ہوں گے اور اس کی دو اقسام ہیں؛ سنت مؤکدہ اور مستحب۔ یا نفل روزی ہوگا۔ شریعت نے مخصوص اوقات روزہ رکھنے سے منع بھی کیا ہے جیسے یوم شک کا روزہ، عید الفطر اور عید الاضحی کا روزہ۔

روزہ کی فرضیت اور ماہیت پر تمام عالم اسلام متفق ہے۔ یہ ایک عبادت ہے اور طلوح فجر سے غروب شمس تک نیت کے ساتھ کھانے پینے سے رک جانے کا نام ہے۔ ہر سال رمضان کا روزہ بالاجماع فرض ہے۔ یہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ رمضان کے روزوں کی بہت ساری فضیلتیں قرآن اور حدیث میں رواد ہوئی ہیں۔ رمضان کی راتوں کا قیام بھی بہت فضیلتیں رکھتا ہے۔ خصوصا اخیر عشرہ میں عبادت کی اہمیت اور ثواب بڑھ جاتا ہے۔ آکری عشرہ میں ہی شب قدر آتی ہے۔ رمضان کے بعد اگلے ماہ شوال کا پہلا دن عید الفطر کہلاتا ہے جس میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے جو رمضان میں ہوئی کوتاہیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ یہ دن مسلمانوں میں خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے۔ اس دن نیکی کرنا، صدقہ دینا، سب سے دعا سلام کرنا اور خوش رہنا ہوتا ہے۔ رمضان کے روزے دوسری ہجری میں فرض ہوئے۔ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامَُ

[2] اور فرمایا

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

[3] حدیث میں پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا : «بني الإسلام على خمس» اور اس میں روزہ کا ذکر فرمایا، یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اور رمضان کا روزہ ان میں سے ایک ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ شریعت کے اہم امور کیا ہیں تو آپ نے فرمایا کہ رمضان کے روزے، اس نے پوچھا اور کچھ تو آپ نے جواب دیا کہ نہیں لیکن اگر تم چاہو تو۔ رمضان کا روزہ ہر سال فرض ہے تمام مسلمان عاقل بالغ پر۔ سفر یا مرض کی وجہ سے یہ معاف نہیں ہوتا ہے۔ اگر کوئی رمضان میں روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہے تو جب قادر ہو گا تب قضا کرے گا۔ روزہ رکھنے کے لیے مسلمان ہونا اور عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے۔ فقہ میں روزہ سے متعلق مفصل احکام موجود ہیں۔ ان میں روزہ کے واجبات، مستحبات، مکروہات، عید الفطر کے احکام، نماز کے اوقات، سحری و افطار کے اوقات و احکام اور روزہ کی قضا وغیرہ جیسے احکام شامل ہیں۔

روزہ کی تعریف

لغت میں لفظ صوم

صوم عربی زبان کا لفظ ہے اور مصدر ہے۔ اس کے معنی مطلقا رک جانا ہے جیسے چلنے سے رک جانا کا بات کرنے سے پرہیز کرنا، کھانے پینے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ ابو عبیدہ کہتے ہیں: کھانے پینے اور بات کرنے اور چلنے پھرنے سے رک جانے والا روزہ دار ہے۔[4] لفظ صوم کا مادہ ص، و اور م ہے۔ اس کا فعم صام بنتا ہے۔ صوم اور صیام واحد ہیں۔ القاموس المحیط میں اس کے معنی ہے: کھانے، پینے، بات کرنے، جماع کرنے اور چلنے پھرنے سے رک جانا۔[5]

فرضیت

رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 9 برس رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کہتے ہیں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ ہجری ربیع الاول کے مہینے میں فوت ہوئے تھے۔ المجموع ( 6 / 250 ) ۔

اہمیت

اے ایمان والو تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے رکھنے فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی و پرہیزگار بنو۔ [6]
  1. روزہ اسلامی ارکان میں سے چوتھا رکن ہے۔
  2. روزے جسمانی صحت کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ اسے بڑھاتے ہیں۔
  3. روزوں سے دل کی پاکی، روح کی صفائی اورنفس کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔
  4. روزے، دولت مندوں کو،غریبوں کی حالت سے عملی طور پر باخبر رکھتے ہیں۔
  5. روزے، شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دینے سے قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت دیتے ہیں۔
  6. روزے ملکوتی قوتوں کو قوی اور حیوانی قوتوں کو کمزور کرتے ہیں۔
  7. روزے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتے ہیں۔
  8. روزوں سے بھوک اور پیاس کے تحمل اور صبر و ضبط کی دولت ملتی ہے۔
  9. روزوں سے انسان کو دماغی اور روحانی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔
  10. روزے سے بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں۔
  11. روزے نیک کاموں کے لیے اسلامی ذوق و شوق کو ابھارتے ہیں۔
  12. روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو ریاونمائش سے بری ہے۔
  13. قدرتی مشکلات کو حل کرنے اور آفات کو ٹالنے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ ان فوائد کے علاوہ اور بہت فائدے ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں مذکو رہے۔

روزے کے فضائل فرمودات نبوی کی روشنی میں

احادیث کریمہ میں روزے کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں:

  1. جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دے ئے جاتے ہیں۔ اور شیاطین زنجیر وں میں جکڑ دیے جاتے ہیں [7]
  2. جنت ابتدائے سال سے، سال آئندہ تک رمضان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے اور جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ایک ہوا حور عین پر چلتی ہے وہ کہتی ہیں۔ اے رب ! تو اپنے بندوں سے ہمارے لیے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں [8][مکمل حوالہ درکار]
  3. جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام ریان ہے۔ اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔[9][مکمل حوالہ درکار]
  4. روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پا کیزہ ہے۔[10][مکمل حوالہ درکار]
  5. رمضان المبارک کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ہے۔ اور اس کا اوسط (درمیانہ حصہ) مغفرت ہے اور آخر، جہنم سے آزادی۔[8][مکمل حوالہ درکار]
  6. روزہ اللہ عزوجل کے لیے ہے اس کا ثواب اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا [11][مکمل حوالہ درکار]
  7. ہر شے کے لیے زکوۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور نصف صبر ہے۔[12][مکمل حوالہ درکار]
  8. روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔[13][مکمل حوالہ درکار]
  9. اگر بندوں کی معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔[14][مکمل حوالہ درکار]
  10. میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔ وہ پانچ باتیں درج ذیل ہیں
  • اول یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے اللہ عزوجل ان کی طرف نظر فرماتا ہے۔ اور جس کی طرف نظر فرمائے گا۔ اسے کبھی عذاب نہ کرے گا۔
  • دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ اچھی ہے۔
  • تیسری یہ کہ ہر دن اور رات میں فرشتے ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
  • چوتھی یہ کہ اللہ عزوجل جنت کو حکم فرماتا ہے۔ کہتا ہے مستعد ہو جا اور میرے بندوں کے لیے مزیں ہو جا (بن سنور جا) قریب ہے کہ دنیا کی تعب (مشقت تکان) سے یہاں آکر آرام کریں۔
  • پانچویں یہ کہ جب آخر رات ہوتی ہے۔ تو ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ کسی نے عرض کی کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا ’’نہیں‘‘ کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں جب کام سے فارغ ہوتے ہیں۔ اس وقت مزدوری پاتے ہیں؟ [8][مکمل حوالہ درکار]

11۔ اللہ عزوجل رمضان میں ہر روز د س لاکھ کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔ اور جب رمضان کی انتیسویں رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے ان کے مجموعہ کے برابر اس ایک رات میں آزاد کرتا ہے۔ پھر جب عید الفطر کی رات آتی ہے۔ ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور اللہ عزوجل اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا اور فرشتوں سے فرماتا ہے ’’ اے گروہ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ۔۔ ’’اس کو پورا اجر دیا جائے‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں ان سب کو بخش دیا۔[15]

اللہ تعالٰی کے محبوب روزے

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالٰی کو سب سے زيادہ محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور سب سے زيادہ محبوب روزے بھی داؤد علیہ السلام کے ہیں ، داؤد علیہ السلام آدھی رات سوتے اوراس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اورچھٹا حصہ سوتے تھے ، اورایک دن روزہ رکھتے اورایک دن نہيں رکھتے تھے ۔ [16]

روزے کی اقسام

روزے کی پانچ اقسام ہیں:

  1. فرض
  2. واجب
  3. نفل
  4. مکروہ تنزیہی
  5. مکروہ تحریمی

روزے کے مقاصد

قرآن کریم نے روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض تین مختصر جملوں میں بیان فرمائے ہیں:

  • یہ کہ مسلمان اللہ تعالٰیٰ کو کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں۔
  • ہدایت الہٰی ملنے پر خدائے کریم کا شکر بجا لائیں کہ اس نے پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر، رفعت و عزت کے اوج کمال تک پہنچایا۔
  • یہ کہ مسلمان پرہیز گار بنیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو۔

اہل تشیع میں

اثنا عشریہ

اخباری

حسین بن سعید نے ابن فضال سے رویت کی کہ انکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو ایک عریضہ لکھا اور اس میں، میں نے دریافت کیا کہ ہمارے یہاں ایک قوم ہے جو نماز پڑھتی ہے مگر ماہ رمضان میں روزہ نہیں رکھتی اور اکثر میں ان لوگوں سے اصرار کرتا ہوں کہ وہ ہماری کھیتی کاٹنے آئیں مگر جب ان کو بلاتا ہوں تو جبتک میں ان کو کھانا کھلانے کا وعدہ نہ کروں وہ قبول نہیں کرتے مجھے چھوڑ کر ان لوگوں کے پاس چلے جاتے ہیں جو ان کو کھانا کھلائیں۔ اور میں ماہ رمضان میں ان لوگوں کو کھانا کھلانے سے تنگ ہوتا ہوں۔

تو آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا جسے میں پہچانتا ہوں کہ ان لوگوں کو کھانا کھلاؤ۔[17](یہ درست معلوم نہیں ہوتا کچھ من گڑھت لگتا ہے)

روزوں کی قضا
  • عقبہ بن خالد نے حضرت جعفر علیہ السلام سے روایت کی ہے ایک ایسے شخص کے متعلق جو ماہ رمضان میں بیمار پڑا رہا اور جب صحت یاب ہوا تو حج کو چلا گیا اب وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا جب حج سے واپس ہو تو روزوں کی قضا بجا لائے۔[18]
  • عبد الرحمن بن ابی عبد اللہ نے آنجناب علیہ السلام (جعفر صادق) سے ذی الحجہ کے مہینہ میں ماہ رمضان کے روزوں کی قضا بلا تسلسل رکھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کی قضا ماہ ذی الحجہ میں کرو اور اگر چاہو تو بلا تسلسل رکھ لو۔[19]
  • حلبی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی شخص پر ماہ رمضان کے روزوں میں سے کچھ قضا باقی ہو تو جس مہینہ میں چاہے اس کی قضا مسلسل دنوں میں رکھے اور اگر مسلسل نہ رکھ سکتا ہو تو جیسے چاہے رکھے دنوں کا شمار کر کے متفرق رکھے تو بھی بہتر ہے اور مسلسل رکھے تو بھی بہتر ہے۔[20]
روزہ فرض ہونے کا سبب

ایک مرتبہ ہشام بن حکم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روزہ کا سبب دریافت کیا تو آپ ع نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ امیر و فقیر دونوں برابر ہو جائیں کیونکہ امیر نے کبھی بھوک کا مزا ہی نہیں چکھا تاکہ فقیروں پر ترس کھاۓ اور مہربانی کرے اسکی وجہ یہ ہے کہ امیر شخص کو جس چیز کی خواہش ہو اسکا حصول اسکے بس میں ہے اسی بناء پر اللہ تعالی نے چاہا کہ اس کی مخلوق باہم مساوی ہو جاۓ اسطرح کہ امیر بھی بھوک کا مزا چکھے تاکہ کمزوروں کے لئے اسکا دل نرم ہو اور بھوکوں پر رحم کرے.[22] حضرت ابو الحسن امام علی ابن الرضا علیہ السلام نے محمد بن سنان کے مسائل کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا اسکے اندر روزہ کا یہ سبب بھی تحریر فرمایا کہ انسان بھوک اور پیاس کا مزا چکھ کر خود کو ذلیل و مسکین سمجھے تو اسے اسکا ثواب دیا جاۓ اسکا احتساب ہو وہ اس روزے کی تکلیف کو برداشت کرے اور یہ چیز اسکے لئے آخرت کی سختیوں کی طرف راہنما ہو. نیز اسکی خواہشات میں کمی ہو اور عاجزی پیدا ہو. دنیا میں اسکو نصیحت ملتی رہے اور آخرت کی سختیوں کی نشاندہی ہوتی رہے اور اسے علم ہو کہ دنیا اور آخرت میں فقیر و مسکین کیا کیا سختیاں برداشت کرتے ہیں.[23]

اصولی

فاضل لنکرانی کے فتاویٰ کے مطابق

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

روزہ، احکام، فضاہل و مساہل پر اردو، انگریزی، سندھی، بنگلہ اور عربی میں کتب

حوالہ جات

  1. قاموس معجم المعاني - معنى كلمة صوم
  2. سورة البقرة الآية: (183)
  3. سورة البقرة، الآية: (185)
  4. مختار الصحاح للرازي، حرف الصاد (ص و م)، ج1 ص180 و181.
  5. القاموس المحيط مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزآبادي، باب الميم فصل الصاد، ج1 ص 1042
  6. سورہ البقرہ آیت 183
  7. صحیحین
  8. ^ ا ب پ بیہقی
  9. ترمذی
  10. بخاری و مسلم
  11. طبرانی
  12. ابن ماجہ
  13. بہیقی
  14. ابن خزیمہ
  15. اصبہانی
  16. صحیح بخاری حدیث نمبر 1079 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1159
  17. من لا یحضرہ الفقیہ جلد دوم صفحہ 120 حدیث نمبر 2039
  18. من لا یحضرہ الفقیہ جلد 2، صفحہ 103، حدیث نمبر 1995، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل (غازی پوری)
  19. من لا یحضرہ الفقیہ جلد 2، صفحہ 103،104، حدیث نمبر 1996، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل (غازی پوری)
  20. من لا یحضرہ الفقیہ جلد 2، صفحہ 104، حدیث نمبر 1997، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل (غازی پوری)
  21. من لا یحضرہ الفقیہ جلد 2، صفحہ 104، حدیث نمبر 1998، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل (غازی پوری)
  22. من لا یحضرہ الفقیہ حدیث نمبر 1766
  23. من لا یحضرہ الفقیہ حدیث نمبر 1767
  24. توضیح المسائل فاضل لنکرانی ، طبعہ دوم 2001، صفحہ نمبر 323، مسئلہ نمبر 1626