"اعتکاف" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← \1۔\2
سطر 4: سطر 4:
== اعتکاف قرآن میں ==
== اعتکاف قرآن میں ==
* پچھلی قوموں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، قرآن میں ہے :
* پچھلی قوموں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، قرآن میں ہے :
ترجمہ [[کنزالایمان {{اقتباس|اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرہ گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے۔<ref>قرآن مقدس، سورہ بقرہ،آیت 125، ترجمہ کنزالایمان</ref>}}
ترجمہ [[کنزالایمان]] {{اقتباس|اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرہ گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے۔<ref>قرآن مقدس، سورہ بقرہ،آیت 125، ترجمہ کنزالایمان</ref>}}


== اعتکاف حدیث میں ==
== اعتکاف حدیث میں ==

نسخہ بمطابق 17:30، 25 اپریل 2020ء

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔

اعتکاف قرآن میں

  • پچھلی قوموں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، قرآن میں ہے :

ترجمہ کنزالایمان

اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرہ گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے۔[1]

اعتکاف حدیث میں

  • ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ عائشہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (بیویاں) اعتکاف کرتی رہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔[2][3][4][5]

پس منظر

اللہ تعالٰیٰ کی قربت و رضا کے حصول کے لیے گزشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کر لی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو ’’رہبان اور احبار‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقرب الی اللہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لیے اعلیٰ ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔

شرائط اعتکاف

اعتکاف جماعت والی مسجد میں ہی درست ہے یعنی ایسی مسجد جہاں لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں۔ شمنی نے کہا : جماعت والی مسجد اعتکاف کے لیے شرط ہے اور اس سے مراد ایسی مسجد ہے جہاں مؤذن اور امام مقرر ہو اور اس میں پانچ وقت کی نمازیں یا کچھ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہوں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے : اعتکاف صرف ایسی جامع مسجد میں درست ہے جہاں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور یہی امام احمد کا قول ہے۔ علامہ ابن ہمام نے کہا : اس کو بعض مشائخ نے صحیح قرار دیا ہے۔ قاضی خان نے کہا : اور ایک روایت میں ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہی درست ہے اور یہی حدیث کا ظاہری معنی ہے۔ اور امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ اعتکاف کسی بھی مسجد میں جائز ہے اور یہی امام مالک اور امام شافعی کا بھی قول ہے۔[6]
  • *سنت یہ ہے کہ 19 رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد میں معتکف پہنچ جائے۔
  • علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہیں :
راوی کے قول’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اول وقت جس میں معتکف اعتکاف گاہ میں داخل ہوتا ہے وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہے اور اسی بات پر ائمہ اربعہ اور اہل علم کے ایک طبقہ کا اتفاق ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے اور دس کا شمار راتوں کی گنتی کے اعتبار سے کیا ہے۔ پس اس میں (عشرہ اخیرہ کی) پہلی رات بھی شامل ہے ورنہ یہ عدد بالکل پورا ہی نہیں ہوتا۔[7]

ایام اعتکاف

رمضان کے آخری دس دن کا اعتکاف

  • حضرت عبد اﷲ بن عمر سے روایت ہے : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے(دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔[8]

رمضان کے آخری بیس دن کا اعتکاف

  • حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے۔ لیکن جس سال آپ کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔[9][10][11][12]

پورے رمضان کا اعتکاف

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار یکم رمضان تا بیس رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد فرمایا: میں نے شب قدر کی تلاش کے لیے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گيا کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہے سو تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے، وہ کر لے۔[13]

اعتکاف کی اقسام

واجب اعتکاف

اعتکاف کی نذر مانی یعنی زبان سے کہا میں اللہ کے لیےفلاں دن یا اتنے دن کا اعتکاف کروں گا.تو اب جتنے بھی دن کا کہا ہے اتنے دن اعتکاف کرنا واجب ہو گا.رد المختار

سنت اعتکاف

سنت کا اعتکاف مرد مسجد میں کرے اور عورت مسجد بیت میں.اس میں روزہ بھی شرط ہے(عورت گھر میں جو جگہ نماز کے لیے مخصوص کر لے اسے مسجد بیت کہتے ہیں)رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو گیا اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی مجرم ہوئے. نفلی اعتکاف نذر اور سنت مؤکدہ کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے وہ نفلی اعتکاف ہے۔اس کے لیے نہ رازہ شرط ہے نہ کوئی وقت کی قید جب بھی مسجد میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کر لیجئے. اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا. جب مسجد سے باہر نکلیں گے اعتکاف ختم ہو جائے گا.

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. قرآن مقدس، سورہ بقرہ،آیت 125، ترجمہ کنزالایمان
  2. أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد، جلد2 صفحہ713، حدیث نمبر 1922،
  3. مسلم في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان،جلد 2 صفحہ831، حدیث نمبر 1172
  4. وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،جلد 2 صفحہ331، حدیث نمبر2462
  5. الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في الاعتکاف، وقال : حديث حسن صحيح، جلد 3 صفحہ157، حدیث نمبر 790
  6. ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، جلد 4 صفحہ530.
  7. أبو الحسن سندھی، حاشيہ علی سنن النسائی، جلد2 صفحہ 44
  8. أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد کلها، جلد2 صفحہ713، حدیث نمبر1921/أحمد بن حنبل في المسند، جلد2 صفحہ133، حدیث نمبر6127.
  9. البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأوسط من رمضان، جلد2 صفحہ 719، حدیث1939
  10. أحمد بن حنبل في المسند، جلد2 صفحہ 355، حدیث8647
  11. أبو داود في السنن کتاب الصوم، باب أين يکون الاعتکاف، جلد2 صفحہ332، حدیث2466
  12. ابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الاعتکاف، جلد1 صفحہ562،حدیث1769.
  13. صحیح مسلم، صفحہ 594، حدیث 1168