"حسین بن علی العابد" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مواد
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ آئی فون ایپ ترمیم)
روابط
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ آئی فون ایپ ترمیم)
سطر 10: سطر 10:
ان کی والدہ: '''زینب بنت عبد اللہ المحض بن حسن مثنی بن حسن مجتبی بن علی بن ابی طالب ہیں۔
ان کی والدہ: '''زینب بنت عبد اللہ المحض بن حسن مثنی بن حسن مجتبی بن علی بن ابی طالب ہیں۔
== سیاسی فعالیت ==
== سیاسی فعالیت ==
جناب حسین کی سیاسی زندگی کے بارے میں 169ھ سے پہلے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ روایات کی رو سے کوفہ کے شیعیوں نے ان کے قیام سے برسوں قبل ان کی بیعت کر لی تھی۔مزید یہ کہ انہوں نے مکہ و مدینہ کے لوگوں کو بھی بیعت کی دعوت دی اور اپنے نمائندے خراسان و جَبَل (یا جمیل؟= گیلان ) روانہ کیے۔ان روایات کی صحت و سقم سے قطع نظر بیشر ایسے شواہد ہیں جو ان کے 169ھ میں قیام سے قبل جناب حسین کی سیاسی فعالیت پر دلالت کرتے ہیں جن میں سے ، ان کا عباسی مخالف خاندان سے ہونا ، مہدی عباسی کے دور میں ان کی سرگرمیوں کو خلافت مخالف جانتے ہوئے ان کا بغداد طلب کیے جانا، مدینہ میں ہادی عباسی اور اس کے عامل کا علویوں پر سختی کرنا، جناب حسین پر خلافت کا امیدوار ہونے کا الزام اور بالآخر جناب حسین کا قیام پر عمل کرنا اور اس دوران ان کے خطبات ان شواہد میں شامل ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے 169ھ سے ایک سال پہلے بھی قیام کیا تھا۔
جناب حسین کی سیاسی زندگی کے بارے میں 169ھ سے پہلے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ روایات کی رو سے [[کوفہ]] کے اہل تشیع نے ان کے قیام سے برسوں قبل ان کی بیعت کر لی تھی۔مزید یہ کہ انہوں نے [[مکہ]] و [[مدینہ منورہ|مدینہ]] کے لوگوں کو بھی بیعت کی دعوت دی اور اپنے نمائندے [[خراسان]] و جَبَل (یا جمیل؟= گیلان ) روانہ کیے۔ان روایات کی صحت و سقم سے قطع نظر بیشر ایسے شواہد ہیں جو ان کے 169ھ میں قیام سے قبل جناب حسین کی سیاسی فعالیت پر دلالت کرتے ہیں جن میں سے ، ان کا عباسی مخالف خاندان سے ہونا ، مہدی عباسی کے دور میں ان کی سرگرمیوں کو خلافت مخالف جانتے ہوئے ان کا [[بغداد]] طلب کیے جانا، مدینہ میں ہادی عباسی اور اس کے عامل کا علویوں پر سختی کرنا، جناب حسین پر خلافت کا امیدوار ہونے کا الزام اور بالآخر جناب حسین کا قیام پر عمل کرنا اور اس دوران ان کے خطبات ان شواہد میں شامل ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے 169ھ سے ایک سال پہلے بھی قیام کیا تھا۔


== بغاوت اور جنگ فخ ==
== بغاوت اور جنگ فخ ==

نسخہ بمطابق 17:54، 21 جولائی 2020ء

حسین بن علی العابد
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 745ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 جون 786ء (40–41 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وادی زاہر  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات لڑائی میں ہلاک  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی العابد  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان علوی  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ امام،  انقلابی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ فخ  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو عبد اللہ حسین بن علی العابد، پانچویں خلیفہ راشد کے پوتے حسن مثلث کے پوتے اور علی العابد کے صاحبزادے ہیں، صاحب فخ کے نام سے مشہور ہیں، جنگ فخ انھیں کی قیادت میں ہوئی تھی اور اسی میں شہید ہوئے تھے۔

تعارف

بوقت شہادت ان کی عمر 41 برس تھی اور سنہ 128ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علی بن حسن نہایت متقی و عابد اور علی الخیر و علی الاغر (نیک) کے نام سے معروف تھے، والدہ زینب، عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کی بیٹی، محمد نفس زکیہ اور ابراہیم قتیل باخمری کی بہن تھیں۔ ان کے والدین "زوج صالح" کے نام سے معروف تھے۔[1][2][3] محمد نفس زکیہ کے قیام کے بعد منصور عباسی کے حکم پر علی بن حسن اور دیگر علویوں کو گرفتار کر لیا گیا، وہ کچھ عرصہ بعد قید خانے میں انتقال کر گئے۔[4][5][6]

نسب

حسین بن علی العابد بن حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن مجتبی بن علی بن ابی طالب، طالبی، علوی، حسنی خاندان سے تھے۔

ان کی والدہ: زینب بنت عبد اللہ المحض بن حسن مثنی بن حسن مجتبی بن علی بن ابی طالب ہیں۔

سیاسی فعالیت

جناب حسین کی سیاسی زندگی کے بارے میں 169ھ سے پہلے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ روایات کی رو سے کوفہ کے اہل تشیع نے ان کے قیام سے برسوں قبل ان کی بیعت کر لی تھی۔مزید یہ کہ انہوں نے مکہ و مدینہ کے لوگوں کو بھی بیعت کی دعوت دی اور اپنے نمائندے خراسان و جَبَل (یا جمیل؟= گیلان ) روانہ کیے۔ان روایات کی صحت و سقم سے قطع نظر بیشر ایسے شواہد ہیں جو ان کے 169ھ میں قیام سے قبل جناب حسین کی سیاسی فعالیت پر دلالت کرتے ہیں جن میں سے ، ان کا عباسی مخالف خاندان سے ہونا ، مہدی عباسی کے دور میں ان کی سرگرمیوں کو خلافت مخالف جانتے ہوئے ان کا بغداد طلب کیے جانا، مدینہ میں ہادی عباسی اور اس کے عامل کا علویوں پر سختی کرنا، جناب حسین پر خلافت کا امیدوار ہونے کا الزام اور بالآخر جناب حسین کا قیام پر عمل کرنا اور اس دوران ان کے خطبات ان شواہد میں شامل ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے 169ھ سے ایک سال پہلے بھی قیام کیا تھا۔

بغاوت اور جنگ فخ

عباسی حکمران موسیٰ الہادی کے زمانے علوی سادات کو حکمران طبقے سے کچھ اذیت کا سامنا ہوا، مدینہ منورہ میں ان کے گورنر سے تنازع ہوا اور حکمران طبقے نے سادات کے وسائل کو تنگ کر دیا اور کھانے پینے کی سہولیات میں سختی برتی۔[7] جس کی وجہ سے سادات ناراض ہونے لگے اور بغاوت بھڑکنے لگی۔ مدینہ سے سادات کا قافلہ حسین بن علی العابد کی قیادت میں مکہ روانہ ہو گیا اور وہاں بیعت کا اعلان کر دیا، لوگ جوق درجوق بیعت کرنے لگے۔ جب اس کی خبر خلیفہ موسیٰ الہادی کو پہنچی تو اس نے اس بغاوت کو جلد ازجلد ناکام بنانے کا حکم دیا اور اس کو روکنے کے لیے فوری طور پر ایک فوج روانہ کر دی۔ حج کا موسم شروع کو چکا تھا، سادات اور ان کے ہمنوا اصحاب حج کا احرام باندھ چکے تھے اور وادی فخ میں تھے، وہیں خلیفہ کی فوج سے سامنا ہوا اور دونوں میں جنگ ہوئی، جس کو جنگ فخ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں حسین بن علی العابد کی جماعت کو شکست ہوئی، وہ ان کے بہت سے اصحاب اور سادات شہید ہوئے۔

وفات (شہادت)

حسین بن علی العابد جنگ فخ میں 8 ذو الحجہ سنہ 169ھ کو وادی زاہر میں شہید ہوئے، اب وہ علاقہ مکہ کے قریب "حی الشہداء" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حسین کی شہادت کیسے ہوئی اس متعلق اختلاف ہے۔ ایک قول کے مطابق وہ میدان جنگ میں قتل ہوئے، جب ان کی پیشانی اور پشت پر تلوار سے وار کیا گیا۔ دوسرے قول کے مطابق حماد الترکی نے ان پر تیر چلایا اور وہ فوت ہوگئے۔[8][9][10][11][12][13][14][15][16][17][18] مشہور روایت کے مطابق یوم ترویہ 169ھ کو فوت ہوئے، کچھ نے لکھا کہ یوم روزِ ترویہ 170ھ[19] یا یوم عرفہ (9 ذو الحجہ) 167ھ (احتمالاً تصحیف 169ھ)[20] ہے۔

علما کے اقوال

  • امام جعفر صادق کے بارے میں ہے کہ جب وہ مقام فخ پر پہنچے تو وہاں وضو کیا اور نماز ادا کی اور سوار ہو گئے، اس عمل پر پوچھنے پر جواب دیا: «یہاں میری اہل بیت کا ایک شخص اپنی جماعت کے ساتھ شہید ہوا ہے، ان کی روحیں ان کے جسموں سے پہلے جنت میں پہنچ چکی ہیں»۔[21]
  • صفدی لکھتے ہیں: «ان کے والد (علی العابد) بہت عبادت گزار تھے، چنانچہ انھوں نے حسین کی بہترین پرورش کی، صالح نفس، سخی اور بہادر تھے»۔[22]
  • ابن اثیر کہتے ہیں: «حسین، کریم اور بہادر تھے، مہدی نے انھیں چالیس ہزار دینار دیا تو انھوں نے اسے بغداد اور کوفہ میں لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا، جب کوفہ سے نکلے تو ان کے پاس صرف ان کے پاس جسم پر ایک چادر تھی جس کے نیچے قمیص بھی نہیں تھی»۔[23]

حوالہ جات

  1. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج1، ص174، محقق احمد صقر، بیروت 1408/1987
  2. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج1، ص364، محقق احمد صقر، بیروت 1408/1987
  3. حمید بن احمد محلی، الحدائق الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص317، محقق مرتضی ‌بن زید محطوری حسنی، صنعاء 1423/ 2002
  4. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج1، ص176، محقق احمد صقر، بیروت 1408/1987
  5. علی ‌بن محمد عمری، المجدی فی انساب الطالبین، ج1، ص66، محقق احمد مہدوی دامغانی، قم 1409
  6. حمید بن احمد محلی، الحدائق الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص317، محقق مرتضی ‌بن زید محطوری حسنی، صنعاء 1423/ 2002
  7. تاریخ الیعقوبی جلد 2، صفحہ 126۔
  8. طبری، تاریخ (بیروت)، ج8، ص197 198
  9. طبری، تاریخ (بیروت)، ج8، ص200
  10. احمد بن سہل رازی، اخبار فخ و خبر یحیی ‌بن عبداللہ و اخیہ ادریس ‌بن عبداللہ، ج1، ص147، محقق ماہر جرّار، بیروت 1995
  11. احمد بن سہل رازی، اخبار فخ و خبر یحیی ‌بن عبداللہ و اخیہ ادریس ‌بن عبداللہ، ج1، ص154ـ 161، محقق ماہر جرّار، بیروت 1995
  12. ابو‌ نصر سہل ‌بن عبد اللہ بخاری، سرّ السلسلة العلویة، ج1، ص16، محقق محمد صادق بحر العلوم، نجف 1381/ 1962۔
  13. مسعودی، مروج (بیروت)، ج4، ص185ـ 186
  14. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج1، ص365، محقق احمد صقر، بیروت 1408/1987
  15. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج1، ص378 381، محقق احمد صقر، بیروت 1408/1987
  16. علی ‌بن بلال آملی، تتمة مصابیح ابی العباس‌ الحسنی، ج1، ص480ـ 483، در «احمد بن ابراہیم حسنی، المصابیح»، محقق عبد اللہ ‌بن عبد اللہ حوثی، صنعاء 1423/ 2002
  17. علی ‌بن بلال آملی، تتمة مصابیح ابی‌العباس‌الحسنی، ج1، ص485، در «احمد بن ابراهیم حسنی، المصابیح»، محقق عبداللہ ‌بن عبداللہ حوثی، صنعاء 1423/ 2002
  18. علی ‌بن بلال آملی، تتمة مصابیح ابی العباس‌ الحسنی، ج1، ص486، در «احمد بن ابراهیم حسنی، المصابیح»، محقق عبداللہ ‌بن عبداللہ حوثی، صنعاء 1423/ 2002
  19. علی ‌بن محمد عمری، المجدی فی انساب الطالبین، ج1، ص66، چاپ احمد مہدوی دامغانی، قم 1409
  20. علی ‌بن زید بیہقی، لباب الانساب والالقاب والاعقاب، ج1، ص411، محقق مہدی رجائی، قم 140
  21. مقاتل الطالبیین، ص 290
  22. الوافی بالوفیات، 282/12
  23. الکامل فی التاریخ لابن اثیر جزری، 94/6