"یرغمالیٔ مسجد حرام" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hammad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
Hammad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
||
سطر 32: | سطر 32: | ||
یہ کارروائی دو ہفتوں تک جاری رہی بالآخر دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر دیا گیا اور پھر [[جہیمان العتیبی]] اور 60 ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے سخت اسلامی قوانین نافذ کئے۔ |
یہ کارروائی دو ہفتوں تک جاری رہی بالآخر دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر دیا گیا اور پھر [[جہیمان العتیبی]] اور 60 ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے سخت اسلامی قوانین نافذ کئے۔ |
||
== پس |
== پس منظر == |
||
اس [[دہشت گرد]] گروہ کی قیادت [[جہیمان العتیبی]] کر رہا تھا، جہیمان [[نجد]] کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے رشتہ دار کو [[امام مہدی]] قرار دیا۔ جہیمان اس سے پہلے [[سعودی قومی گارڈ]] کا بھی حصہ رہا تھا، اس کا والد بھی آل سعود کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس شخص نے 1400 ہجری، محرم کے مہینے میں حملہ کیا۔ جہیمان ایک وقت میں سعودی مفتی اعظم کا شاگرد بھی رہا۔ |
اس [[دہشت گرد]] گروہ کی قیادت [[جہیمان العتیبی]] کر رہا تھا، جہیمان [[نجد]] کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے رشتہ دار کو [[امام مہدی]] قرار دیا۔ جہیمان اس سے پہلے [[سعودی قومی گارڈ]] کا بھی حصہ رہا تھا، اس کا والد بھی آل سعود کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس شخص نے 1400 ہجری، محرم کے مہینے میں حملہ کیا۔ جہیمان ایک وقت میں سعودی مفتی اعظم کا شاگرد بھی رہا۔ |
||
نسخہ بمطابق 06:08، 16 ستمبر 2020ء
مسجد الحرام یرغمال | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سعودی سپاہی مسجد حرام کو چھڑانے کے لیے کوشاں، 1979 | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
امداد:[1] | الاخوان[3] | ||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
خالد بن عبدالعزیز شاہ فہد شہزادہ سلطان شاہ عبداللہ شہزادہ نایف شہزادہ بدر ترکی بن فیصل جنرل فالح الظاہری جنرل قضیبی (زخمی) میجر محمد زویدالنفائی |
جہیمان العتیبی عبداللہ القحطانی ⚔ محمد فیصل محمد الیاس | ||||||
طاقت | |||||||
|
یرغمالیٔ مسجد الحرام کا واقعہ نومبر اور دسمبر 1979ء میں پیش آیا۔جب باغیوں نے مسجد الحرام سے آل سعود کی حکومت ختم کرنے کے لیے مقدس ترین مسجد پر حملہ کیا۔ حج کے دوراں حملہ آوروں نے اپنے ایک ساتھی محمد عبداللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا اور کہا کہ تمام مسلمان اس شخص کی پیروی کریں۔
یہ کارروائی دو ہفتوں تک جاری رہی بالآخر دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر دیا گیا اور پھر جہیمان العتیبی اور 60 ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے سخت اسلامی قوانین نافذ کئے۔
پس منظر
اس دہشت گرد گروہ کی قیادت جہیمان العتیبی کر رہا تھا، جہیمان نجد کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے رشتہ دار کو امام مہدی قرار دیا۔ جہیمان اس سے پہلے سعودی قومی گارڈ کا بھی حصہ رہا تھا، اس کا والد بھی آل سعود کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس شخص نے 1400 ہجری، محرم کے مہینے میں حملہ کیا۔ جہیمان ایک وقت میں سعودی مفتی اعظم کا شاگرد بھی رہا۔
حملے کے پیچھے مقاصد
ان خوارج کے حملے کا مقصد یہ تھا کہ مسجد الحرام پر قبضہ کرکے نقلی امام مہدی کا اعلان کیا جائے تاکہ دنیا بھر سے مسلمان اسکی بیعت کے لیے آئیں اور سعودی عرب پر پریشر ڈالیں کہ "امام مہدی" کو کچھ نا کہا جائے. اس سے یہ ہوتا کہ سعودی عرب کا ذریعہ معاش اور دیگر ملکوں کا اس کی سیکیورٹی سے اعتبار اٹھ جاتا، اگر یہ قبضہ کچھ اور عرصہ رہتا تو دوسرے ممالک لالچ میں مسجد الحرام کو آزاد کرانے بھیجتے لیکن انکے اور سعودی عرب کے مابین بھی جنگ شروع ہوجاتی. یہ ایک پری-پلینڈ سازش تھی تاکہ مسلمانوں کو اور کمزور کیا جاسکے. خلافت ٹوٹنے کے بعد مسلمان دوبارہ کسی جنگ لڑنے کے قابل نہیں تھے لیکن اللہ نے ان تمام کے منصوبے ضائع کردئے اور علماء کرام نے فوری طور پر ہوشیاری سے کام کرتے ہوئے ان خوارج کے خلاف فتوی دیا اور پاکستان نے اپنی بہادر اور بہترین مہارت والی فوج بھیج کر دوسروں کو بولنے کا موقع نہ دیا. یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ نہ دوسرے ملکوں سے خروج ہوا نہ ہی مسلمان ملکوں کی آپس میں لڑائی ہوئی.
حملے کی تیاری
حملہ کرنے سے پہلے تمام باغیوں کو بڑی اچھی طرح تیار کیا گیا تھا اور چونکہ باغیوں کا قائد جہیمان پہلے سعودی فوج میں بھی رہا تھا تو اس کو اکثر جگہوں کا پتہ تھا، اسلحہ بھی سعودی افواج کے گوداموں سے چرایا گیا اور مسجد الحرام کے نیچے کمروں میں رکھا گیا ۔ پھر جب فریقین میں جنگ چھڑی تو اسلحہ کو استعمال کیا گیا۔
یرغمال
بعد کے حالات
مسجد الحرام کو باغیوں سے چھڑانے میں سعودی افواج کو فرنچ آرمی کا تعاون حاصل رہا اور بعض لوگوں کے مطابق فرنچ آرمی کو کلمہ پڑھا کر اس آپریشن میں شامل کیا گیا جبکہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ اس آپریشن کی کمانڈ جنرل پرویز مشرف جو کہ اس وقت میجر پرویز مشرف تھے سراسر غلط ہے، کیونکہ جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ 1978 میں یہ ترقی پاکر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوچکے تھے اور کعبہ پر حملہ 1979 میں ہوا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سال میں مشرف تنزلی کرکے دوبارہ میجر بن گئے اور پرویز مشرف کی اس تنزلی کا نا ہی کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے اور نا ہی اس آپریشن کی کمانڈ کرنے کا۔ پاکستان کی طرف سے اس آپریشن کو میجر سید وقار کمانڈ کررہے تھے۔ اس دو ہفتہ مسلسل جاری جنگ کے بعد بالآخر مسجد الحرام کو باغیوں سے چھڑا لیا گیا۔ جہیمان العتیبی اور ساتھیوں کو چھ جرموں کے ارتکاب پر سعودی قاضیوں نے سزائے موت دی۔وہ جرم یہ ہیں:
- مسجد الحرام کا تقدس پامال کرنا
- ناحق مسلمانوں کا قتل
- حاکمِ وقت کی نافرمانی
- مسجد الحرام میں نماز کے ادائیگی کو روکا
- امام مہدی کے پہچان کے متعلق جھوٹ
- معصوم مسلمانوں کو غلط کام کے لیے استعمال کرنا
حوالہ جات
- ↑ "Attack on Kaba Complete Video"۔ YouTube۔ 23 July 2011۔ 7 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2013
- ↑ Olivier Da Lage (2006)۔ Géopolitique de l'Arabie Saoudite (بزبان الفرنسية)۔ Complexe۔ صفحہ: 34۔ ISBN 2804801217
- ↑ Lacey 2009, p. 13.
- ↑ "THE SIEGE AT MECCA"۔ 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015
- ↑ "Pierre Tristam, "1979 Seizure of the Grand Mosque in Mecca", About.com"۔ 7 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2011
- ↑ Riyadh (10 January 1980)۔ "63 Zealots beheaded for seizing Mosque"۔ Pittsburgh Post-Gazette۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2010
- 1979ء کے تنازعات
- 1979ء میں دہشت گردی کے واقعات
- 1979ء میں قتل عام
- تاریخ حج
- تاریخ مکہ
- حج
- دسمبر 1979ء کی سرگرمیاں
- دوران حج حادثات
- سعودی عرب میں دہشت گردی
- سعودی عرب میں دہشت گردی کے واقعات
- عبادت کے مقامات پر قتل عام
- عبادت گاہوں پر حملے
- مساجد پر حملے
- مکہ میں بیسویں صدی
- نومبر 1979ء کی سرگرمیاں
- یرغمالی
- عرب بغاوتیں
- 1979ء میں ایشیا میں دہشت گرد واقعات
- مسجد الحرام