"ثناء اللہ امرتسری" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ حوالہ
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات عالم دین/عربی|ثناء اللہ امرتسری=}}
{{خانہ معلومات عالم دین/عربی}}


'''شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری<ref name=":2" /><ref name=":5">{{Cite web|url=https://jang.com.pk/news/673925|title=فاتح قادیان مولانا محمد ثناء اللہ امرتسریؒ|date=|accessdate=|website=[[روزنامہ جنگ|جنگ]]|publisher=|last=|first=}}</ref><ref name=":0" /><ref name=":6" /><ref name=":4" />''' ([[ولادت]]: [[12 جون]] [[1868ء]] - [[موت|وفات]]: [[15 مارچ]] [[1948ء]]) معروف [[عالم دین]]، [[تفسیر قرآن|مفسرِ قرآن]]، [[محدث]]، [[مؤرخ|مؤرخ]]، [[صحافی]]، [[ادیب]]، [[خطیب]] و [[مصنف]] تھے جو [[امرتسر]] میں پیدا ہوئے۔'''<ref name=":5" />'''<ref name=":2" /> آپ کو '''فاتح قادیان''' کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔<ref name=":5" /> مولانا ثناءاللہ [[جمعیت علمائے ہند]] کی بانی شخصیات میں سے ہیں۔<ref name="mahbub" /> مولانا نے 1906ء سے 1947ء تک [[مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند]] کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیا<ref name=":2" /><ref>{{cite web|url=http://www.ahlehadees.org/about-ahle-hadith-hadees/markazi-jamiat-ahle-hadees-hadith-history.html|title=مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند|url-status=live|archiveurl=https://web.archive.org/web/20171012150100/http://ahlehadees.org/about-ahle-hadith-hadees/markazi-jamiat-ahle-hadees-hadith-history.html|archivedate=2017-10-12|date=|accessdate=|website=|publisher=|last=|first=}}</ref> اور [[ہفت روزہ اہل حدیث (اخبار)|ہفت روزہ اہل حدیث]] کے ایڈیٹر بھی تھے۔آپ انجمن اہلحدیث پنجاب کے صدر تھے۔<ref name="silk">{{cite book|url=http://www.darululoom-deoband.com/urdu/books/tmp/1388990860%20Silk%20Letter%20Movement.pdf|title=تحریک ریشم خط|last1=دیوبندی|first1=سید محمد میاں|publisher=شیخ الہند اکیڈمی|year=|isbn=|location=[[دار العلوم دیوبند]]|page=208|pages=|translator=محمداللہ قاسمی|chapter=مولوی ثناءاللہ|authorlink1=سید محمد میاں دیوبندی|accessdate=11 مئی 2020}}</ref> مولانا ثناءاللہ [[مرزا غلام احمد]] اور [[احمدیہ|احمدیہ تحریک]] کے بڑے مخالف تھے۔ مولانا غلام رسول قاسمی، مولانا احمد اللہ امرتسری، [[احمد حسن کانپوری|مولانا احمد حسن کانپوری]]، [[عبدالمنان وزیر آبادی|حافظ عبدالمنان وزیر آبادی]] اور [[سید نذیر حسین دہلوی|میاں نذیر حسین محدث دہلوی]] سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے [[اہل حدیث]] تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ [[ہفت روزہ اہل حدیث (اخبار)|اخبار اہل حدیث]] جاری کیا۔ اور بہت سی کتاب لکھیں۔ فن مناظره میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کیے۔ مشہور تصنیف تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) ہے۔ دوسری تفسیر ’’[[تفسیر ثنائی|تفسیرِ ثنائی]] ‘‘ (اردو) ہے۔
'''ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری<ref name=":2" /><ref name=":5">{{Cite web|url=https://jang.com.pk/news/673925|title=فاتح قادیان مولانا محمد ثناء اللہ امرتسریؒ|date=|accessdate=|website=[[روزنامہ جنگ|جنگ]]|publisher=|last=|first=}}</ref><ref name=":0" /><ref name=":6" /><ref name=":4" />''' ([[ولادت]]: [[12 جون]] [[1868ء]] - [[موت|وفات]]: [[15 مارچ]] [[1948ء]]) معروف [[عالم دین]]، [[تفسیر قرآن|مفسرِ قرآن]]، [[محدث]]، [[مؤرخ|مؤرخ]]، [[صحافی]]، [[ادیب]]، [[خطیب]] و [[مصنف]] تھے جو [[امرتسر]] میں پیدا ہوئے۔'''<ref name=":5" />'''<ref name=":2" /> آپ کو '''فاتح قادیان''' کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔<ref name=":5" /> مولانا ثناءاللہ [[جمعیت علمائے ہند]] کی بانی شخصیات میں سے ہیں۔<ref name="mahbub" /> مولانا نے 1906ء سے 1947ء تک [[مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند]] کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیا<ref name=":2" /><ref>{{cite web|url=http://www.ahlehadees.org/about-ahle-hadith-hadees/markazi-jamiat-ahle-hadees-hadith-history.html|title=مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند|url-status=live|archiveurl=https://web.archive.org/web/20171012150100/http://ahlehadees.org/about-ahle-hadith-hadees/markazi-jamiat-ahle-hadees-hadith-history.html|archivedate=2017-10-12|date=|accessdate=|website=|publisher=|last=|first=}}</ref> اور [[ہفت روزہ اہل حدیث (اخبار)|ہفت روزہ اہل حدیث]] کے ایڈیٹر بھی تھے۔آپ انجمن اہلحدیث پنجاب کے صدر تھے۔<ref name="silk">{{cite book|url=http://www.darululoom-deoband.com/urdu/books/tmp/1388990860%20Silk%20Letter%20Movement.pdf|title=تحریک ریشم خط|last1=دیوبندی|first1=سید محمد میاں|publisher=شیخ الہند اکیڈمی|year=|isbn=|location=[[دار العلوم دیوبند]]|page=208|pages=|translator=محمداللہ قاسمی|chapter=مولوی ثناءاللہ|authorlink1=سید محمد میاں دیوبندی|accessdate=11 مئی 2020}}</ref> مولانا ثناءاللہ [[مرزا غلام احمد]] اور [[احمدیہ|احمدیہ تحریک]] کے بڑے مخالف تھے۔ مولانا غلام رسول قاسمی، مولانا احمد اللہ امرتسری، [[احمد حسن کانپوری|مولانا احمد حسن کانپوری]]، [[عبدالمنان وزیر آبادی|حافظ عبدالمنان وزیر آبادی]] اور [[سید نذیر حسین دہلوی|میاں نذیر حسین محدث دہلوی]] سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے [[اہل حدیث]] تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ [[ہفت روزہ اہل حدیث (اخبار)|اخبار اہل حدیث]] جاری کیا۔ اور بہت سی کتاب لکھیں۔ فن مناظره میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کیے۔ مشہور تصنیف تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) ہے۔ دوسری تفسیر ’’[[تفسیر ثنائی|تفسیرِ ثنائی]] ‘‘ (اردو) ہے۔


== حالات زندگی ==
== حالات زندگی ==

نسخہ بمطابق 05:01، 17 ستمبر 2020ء

ثناء اللہ امرتسری
معلومات شخصیت
پیدائش 12 جون 1868ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 مارچ 1948ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرگودھا ،  پنجاب ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ احمد حسن کانپوری ،  عبدالمنان وزیر آبادی ،  سید نذیر حسین دہلوی ،  محمود حسن دیوبندی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری[2][3][4][5][6] (ولادت: 12 جون 1868ء - وفات: 15 مارچ 1948ء) معروف عالم دین، مفسرِ قرآن، محدث، مؤرخ، صحافی، ادیب، خطیب و مصنف تھے جو امرتسر میں پیدا ہوئے۔[3][2] آپ کو فاتح قادیان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔[3] مولانا ثناءاللہ جمعیت علمائے ہند کی بانی شخصیات میں سے ہیں۔[7] مولانا نے 1906ء سے 1947ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیا[2][8] اور ہفت روزہ اہل حدیث کے ایڈیٹر بھی تھے۔آپ انجمن اہلحدیث پنجاب کے صدر تھے۔[9] مولانا ثناءاللہ مرزا غلام احمد اور احمدیہ تحریک کے بڑے مخالف تھے۔ مولانا غلام رسول قاسمی، مولانا احمد اللہ امرتسری، مولانا احمد حسن کانپوری، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔ اور بہت سی کتاب لکھیں۔ فن مناظره میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کیے۔ مشہور تصنیف تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) ہے۔ دوسری تفسیر ’’تفسیرِ ثنائی ‘‘ (اردو) ہے۔

حالات زندگی

مولانا ثناءاللہ کے والد نام خضرجو اور تایا کا اسم گرامی اکرام جو تھا۔ آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر کے منٹو خاندان سے تھا۔ یہ لوگ علاقہ دوڑ کے رہنے والے تھے جو تحصیل اسلام آباد ضلع سری نگر میں واقع ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر لوگ پشمینے کی تجارت کیا کرتے تھے۔ مولانا ثناءاللہ کے والد اور تایا کا بھی یہی کاروبار تھا۔ مولانا کا خاندان 1860ء میں کشمیر کے ڈوگرا حکمران راجہ رنبیر سنگھ کی ستم رائیوں سے تنگ آ کر امرتسر میں سکونت پذیر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر پر انگریز کی حکمرانی تھی اور یہ خطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔[10] مولانا کی عمر 7 سال تھی کہ اُن کے والد کی وفات ہو گئی۔ ان کے بڑے بھائی کا نام ابراہیم تھا۔ انہوں نے ا ن کو رفوگری پر لگا دیا۔ چودہ سال کی عمر میں والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔[4][11][10][2] شیخ الاسلام مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری جیسی جامع کمالیت ہستی صدیوں میں کہیں پیدا ہوتی ہے۔ مولانا ثناءاللہ پوری ملت کا مشترکہ سرمایہ تھے وہ بیک وقت مخالفین اسلام کاچو طرفہ حملوں کاجواب دیتے تھے اور فضاء ہند و پاک پر عظمت اسلام اور وقار دین محمدی کا جھنڈا بھی لہراتے تھے۔

تحصیل علم

جب مولانا ثناءاللہ 14 سال کے ہوئے تو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور آپ مولانا احمداللہ رئیس امرتسرکے مدرسہ تائید الاسلام میں داخلہ لیا اور درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔[2] اس کے بعد آپ نے وزیرآباد میں استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی سے تفسیر، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم حاصل کیے۔ وزیر آباد سے تکمیل تعلیم کے بعد سید نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استاد کی سند دکھا کر تدریس کی اجازت حاصل کی۔[12] دہلی میں سید نذیر حسین سے اجازت لے کرسہارن پور مدرسہ مظاہرالعلوم میں پہنچے اور کچھ عرصہ یہیں قیام کیا اور پھر دیوبند تشریف لے گئے۔ دیوبند میں موالانا محمود حسن دیوبندی سے علوم عقلیہ ونقلیہ او رفقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔[4] دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا ثناءاللہ کانپور مدرسہ فیض عام چلے گئے اور وہاں احمداحسن کان پوری صاحب سے علم معقول ومنقول کے علاوہ علم حدیث میں بھی استفادہ کیا۔

مولانا ثناءاللہ فرماتے ہیں:[13][2]

علم حدیث میں نے تین مختلف درس گاہوں سے حاصل کیا۔ خالص اہل حدیث، خالص حنفی، بریلوی عقیدہ۔ پنجاب میں حافظ عبد المنان میرے شیخ الحدیث تھے۔

دیوبند میں مولانا محمود الحسن اور کانپور میں مولانا احمد حسن میرے شیخ الحدیث تھے۔ میں نے حدیث تین استادوں سے طرز تعلیم سیکھا۔ وہ بلکل ایک دوسرے مختلف تھا۔

بعد فراغت

کانپور سے فراغت کے بعد مولانا ثناءاللہ اپنے وطن امرتسر واپس آئے اور مدرسہ تائید الاسلام میں جہاں سے تعلیم کاآغاز کی تھا درس و تدریس پر مامور ہو گئے اور 6 سال تک یہیں پڑھاتے رہے۔[2]

ابوالوفا نے آغاز عمر سے ہی مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے عقائد وخیالات کی تحقیق تنکیج کا عمدہ زوق رکھتے تھے۔ آپ نے جس فضا میں آنکھ کھولی تھی اس میں اسلام کے تین دشمن اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام پر حملہ آور نظر آ رہے تھے۔[14][15]

آریہ

آریہ سماج نے ملک میں انتشار پھیلا رکھا تھا، آئے دن اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف دل آزاد کتابیں شائع کرتے رہتے تھے اور سرزمین ہند میں اسلام کے نام و نشان مٹا دینے کا عزم رکھتے تھے۔[14][15][5]

عیسائی

عیسائی جنہوں نے 1857ء میں مکمل سیاسی غلبہ حاصل کر لینے کے بعد اسلامی افکار عقائد اور تمدن وثفاقت کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ ان کے پادری بر صغیر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک دندناتے پھرتے تھے۔[14][15][16]

قادیانی

قادیانی جس کا سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی تھا اس کے دعوئے مسیحیت سے اسلامی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔[14][15][17]

صحافیت

اخبار مسلمان

مولانا ثناء اللہ نے 1900ء مسلمان کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ مئی 1908ء تک یہ ماہنامہ رہا اور اس کے بعد 7 جون 1910ء سے اس کی اشاعت ہفت روزہ ہو گئی۔ جولائی 1913ء کو مولانا نے اس کی ادارت کے حقوق منشی علم الدین امرتسری کے نام منتقل کر دئے۔ کچھ دن بعد اس کی اشاعت بند کر دی گئی۔[6]

اخبار ہفت روزہ اہل حدیث

ہفت روزہ اہل حدیث مولانا ثناء اللہ نے 13 نومبر 1903ء کو جاری کیا اور یہ اخبار مسسل چوالیس سال تک باقاعدہ جاری رہا۔ یہ اخبار کسی جذبے کے تحت جاری ہوا تھا، مولانا ثناء اللہ خود فرماتے ہیں:[6][7][4][2]

جب مذہبی تبلیغ کی ضرورت روز بروز بڑھتی نظر آئی اور تصنیف کتب کا ناکافی ثابت ہوا تو اخبار اہلحدیث جاری کیا گیا،

جس میں ہر غلط خیال کی اصلاح کی جاتی اور غیر مسلم کے حملہ کا جواب دیا جاتا ہے۔

اس کا آخری شمارہ 03 اگست 1947ء کو شائع ہوا۔ اس اخبار نے اسلام کی اشاعات اور اردن باطلہ کی تردید میں نمایاں خدمات سرانجام دیا۔[6][7][4][2]

مرقع قادیان

یہ ماہنامہ 15 اپریل1907ء کو جاری ہوا اور اکتوبر 1908ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد دوبارہ اپریل 1931ء کو جاری ہوا اور اپریل 1933ء تک جاری رہا۔[6]

تصانیف

رد عیسائیت میں اسلام اور مسیحیت لکھی۔ اس کتاب کے اہل علم اوراہل قلم نے بہت تعریف کی اور مولانا کو خراج تحسین پیش کیا۔ تردید آویر میں مولانانے تغلیب الاسلام کے نام سے چارجلدوں میں کتاب لکھی۔ ایک اورکتاب تبرء اسلام کے نام سے لکھی۔ مولان اثناءاللہ امرتسری نے ردقادیانیت میں بھی کتابیں لکھیں مولاناحبیب الرحمن نے ایک مجلس میں مولانا ثناء اللہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہم لوگ 30 سال میں بھی اتنی معلومات قادیانی فتنہ کے بارے میں نہیں حاصل کر سکتے جتنی معلومات اور واقفیت مولانا ثناءاللہ صاحب کو ہیں۔

مولانا نے تفسیر نویسی میں بھی کام کیا ہے۔ اور اہل تقلید پر علمی تنقید کی ہے اور ان کے غلط کا قلع قمع کیا ہے۔ تفسیر قران میں ایک تفسیر "تفسیر ثنائی" کے نام سے لکھی ہے۔ ایک تفسیر اردو میں ہے ’’تفسیربا الرائے، اس تفسیر میں مولانا نے تفاسیر و تراجم قرآن قادیانی چکڑیالوی، بریلوی شیعہ وغیرہ کی اغلاط کی نشان دہی کی ہے اور ساتھ ساتھ ان کی اصلاح بھی کی ہے۔

مولاناکی تصانیف رسائل وجرائد کی تعداد کم وبیش 174 ہے۔ ان میں سے چند قابل ذکر کے نام[4][18]

  • تفسير ثنائی (عربی)
  • فتاوی ثنائیہ
  • اربعین ثنائیہ
  • فضائل النبی صلی اللہ علیہ وسلم
  • شریعت اور طریقت
  • برہان القرآن
  • اسلام اور مسیحیت
  • عید میلاد کی شرعی حیثیت
  • طبر اسلام بجواب نخل اسلام
  • حدوس وید
  • وید کا بھید
  • سوامی دیانند کا علم اور عقل

تفسیر ثنائی

تفسیر ثنائی 8 جلدوں میں ہے۔ 1895ء میں اس تفسیر کی پہلی جلد 18فروری 1931ء کو مکمل ہوئی۔ یہ تفسیر اردو زبان میں ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے:

جلد صفحات سورۃ
ایک 148 سورہ فاتحہ تا سورہ بقرہ
دو 162 آل عمران تا النساء
تین 184 سورۃ المائدہ تا سورۃ الاعراف
چار 206 سورۃ الانفال تا سورۃ النمل
پانچ 200 سورۃ الاسرا تا سورۃ الفرقان
چھہ 200 سورۃ الشعرآء تا سورۃ یٰس
سات 202 سورۃ الصافات تا سورۃ النجم
آٹھ 184 سورۃ القمر تا سورۃ معوذتین

تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن

یہ مولانا ثناء اللہ عربی تفسیر ہے۔ اس میں آپ نے قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید کی آیات سے کی ہے۔ یہ غالباً اسلام میں پہلی تفسیر ہے جو اس اصول پر استوار کی گی ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی گئی ہے۔

حق پرکاش

یہ دیانند سرسوتی کی کتاب ستیارتھ پرکاش کا جواب ہے۔

تُرکِ اسلام

تُرکِ اسلام ایک مسلم عبدالغفور نامی (نو آریہ دھرمپال) کے رسالے تَرکِ اسلام کا جواب ہے۔

مقدس رسول

1924ء میں ایک گمنام آریہ نے رنگیلا رسول کے نام سے ایک کتاب شائع کی تو رنگیلا رسول کے جواب میں مولانا ثناء اللہ نے میں مقدس رسول لکھی گئی تھی۔

ہجرت پاکستان

14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا، مولانا ثناء اللہ 13 اگست 1947ء کو ہی ہجرت کرکے ملک کی آزادی میں اپنے اکلوتے بیٹے مولوی عطاء اللہ کی قربانی دے کر لاہور تشریف لائے۔ لاہور میں کچھ دن قیام کے بعد گوجرانوالہ مولانا اسماعیل سلفی کے ہاں ٹھہرے اور وہاں سے سرگودھا تشریف لے گئے۔[4][19][2]

وفات

بیٹے کی شہادت اور قیمتی کتب کی بربادی سے آپ بہت نڈھال ہو گئے تھے اور ان صدموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ 13 فروری 1948ء کو مولانا پر فالج کا حملہ ہوا اورٖ اس کے بعد 15 مارچ 1948ء کو صبح اسلامیہ کا درخشاں آفتاب سرگودھا کی سر زمیں میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ سرگودھا میں ہی مولانا کی وفات ہوئی۔[4][19][2][3]

علما کی آراء

تعریفی کلمات

شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری بیک وقت مفسر، محدث اور مقرر بھی تھے۔ دانشور بھی تھے اور خطیب بھی تھے اور فن مناظرہ کے توامام تھے۔ سیاسیات ہند میں ان کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کوہمہ جہت خوبیوں سے نواز اتھا تو کل زہدومدح حلم وصبر تقوی واتقاء دیانت و امانت عدالت وثقاہت قناعت و سنجیدگی حق گوئی اور بے باکی حاضر جوابی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے آپ نے دینی و مذہبی قومی اور ملی اور سیاسی خدمات انجام دیں۔ مولاناثناء اللہ اسلام کی سربلند ی اور پیغبراسلام کے دفاع میں سرگرم رہے اور ساری زندگی دین کی خالص اشاعت کتاب وسنت کی ترویج شرک وبدعت کی تردید وتوبیخ ،ادیان باطلہ کاردکرنے میں گزاری۔ اللہ تعالی نے پنچاب کی سرزمیں سے ایک ایسا عظیم مرد مجاہد ہمیں عطا کیاجس نے ایک جھوٹے نبی کی بھی سرکوبی کی۔

سید سلیمان ندوی نے مولانا کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے۔’’اسلام پیغبراسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کے حملے کو روکنے کے لیے ان کا شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کی۔[15]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/130248517 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 جولا‎ئی 2021
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کا سفرنامہ حجاز، از مولانا سعید احمد چنیوٹی، ص 10 تا 20
  3. ^ ا ب پ ت "فاتح قادیان مولانا محمد ثناء اللہ امرتسریؒ"۔ جنگ 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری، اربعین ثنائی، صفحہ 11-18
  5. ^ ا ب فتح قادیان سردار اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری: حیات- خدمات- آثار از محمد رمضان یوسف سلفی، صفحہ 25
  6. ^ ا ب پ ت ٹ تذکرہ ابو وفا، از عبدالرشید عراقی سوہدروی ص 41 تا 45
  7. ^ ا ب پ سید محبوب رضوی۔ "مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری"۔ تاریخ دار العلوم دیوبند (جلد 2) (بزبان انگریزی)۔ ترجمہ بقلم پروفیسر مرتض حسین ایف قریشی (1981 ایڈیشن)۔ ادرہ احتمام، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 45-46 
  8. "مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند"۔ 12 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. سید محمد میاں دیوبندی۔ "مولوی ثناءاللہ"۔ تحریک ریشم خط (PDF)۔ ترجمہ بقلم محمداللہ قاسمی۔ دار العلوم دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 208۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2020 
  10. ^ ا ب سیرت سنائی صفحہ 90
  11. فتح قادیان سردار اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری: حیات- خدمات- آثار از محمد رمضان یوسف سلفی، صفحہ 15
  12. عادل حسین خان (2015)۔ تصوف سے احمدیہ تک: جنوبی ایشیاء میں ایک مسلم اقلیتی تحریک (انگریزی زبان)۔ انڈیانا یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 31۔ ISBN 978-0253015297 
  13. اخبار اہل حدیث امرتسر، 23 جنوری 1942
  14. ^ ا ب پ ت تذکرہ ابو وفا، از عبدالرشید عراقی سوہدروی ص 21
  15. ^ ا ب پ ت ٹ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری، اربعین ثنائی، صفحہ 11-18
  16. فتح قادیان سردار اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری: حیات- خدمات- آثار از محمد رمضان یوسف سلفی، صفحہ 23
  17. فتح قادیان سردار اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری: حیات- خدمات- آثار از محمد رمضان یوسف سلفی، صفحہ 26
  18. فتح قادیان سردار اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری: حیات- خدمات- آثار از محمد رمضان یوسف سلفی، صفحہ 20
  19. ^ ا ب "سیرت شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری 124؛ ام القراء پبلیکیشنز"۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2020