"اڈيشا" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
اندراج حوالہ جات؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 1: سطر 1:
{{ویکائی}}
{{ویکائی}}
{{خانہ معلومات شہر/عربی|}}اوڈیشا (انگریزی: [Odisha] ) و5و، سابقہ ​​اڑیسہ [oɽiˈsaː]) و6و بھارت کی ایک [[بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے|ریاست]]؛ جو [[مشرقی ہند]] میں واقع ہے۔ یہ [[رقبہ]] کے لحاظ سے [[بھارت]] کی آٹھویں بڑی ریاست ہے، اور [[آبادی]] کے لحاظ سے یہ 11 ویں بڑی ریاست ہے۔ اس ریاست میں [[بھارت کی درج فہرست قبائل]] کی تیسری بڑی آبادی ہے۔ و7و یہ [[شمال]] میں [[بنگال]] کے کچھ حصہ اور [[جھارکھنڈ]] سے، [[مغرب]] میں [[چھتیس گڑھ]] سے اور [[جنوب]] میں [[آندھرا پردیش]] کی ریاستوں کا ہمسایہ ہے۔ اڈیشہ کی [[ساحلی پٹی]] 485 کلومیٹر (301 میل) [[خلیج بنگال]] کے ساتھ ہے۔ و8و اس علاقہ کو [[اتکلہ]] کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور [[بھارت]] کے [[قومی ترانہ]]: "جن من گن" میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ و9و اوڈیشا کی زبان [[اوڈیا]] ہے، جو [[ہندوستانی کلاسیکی زبانوں]] میں سے ایک ہے۔ و10و
{{خانہ معلومات شہر/عربی|}}اوڈیشا (انگریزی: [Odisha] ) <ref>{{cite web |title=Report of the Commissioner for linguistic minorities: 47th report (July 2008 to June 2010) |pages=122–126 |publisher=Commissioner for Linguistic Minorities, Ministry of Minority Affairs, Government of India |url=http://nclm.nic.in/shared/linkimages/NCLM47thReport.pdf |access-date=16 February 2012 |url-status=dead |archive-url=https://web.archive.org/web/20120513161847/http://nclm.nic.in/shared/linkimages/NCLM47thReport.pdf |archive-date=13 May 2012 }}</ref>، سابقہ ​​اڑیسہ [oɽiˈsaː]) <ref>{{cite web | title=Palapitta: How a mindless dasara ritual is killing our state bird palapitta – Hyderabad News | website=The Times of India | date=29 September 2017 | url=https://timesofindia.indiatimes.com/city/hyderabad/how-a-mindless-dasara-ritual-is-killing-our-state-bird-palapitta/articleshow/60872593.cms | access-date=7 October 2019}}</ref> بھارت کی ایک [[بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے|ریاست]]؛ جو [[مشرقی ہند]] میں واقع ہے۔ یہ [[رقبہ]] کے لحاظ سے [[بھارت]] کی آٹھویں بڑی ریاست ہے، اور [[آبادی]] کے لحاظ سے یہ 11 ویں بڑی ریاست ہے۔ اس ریاست میں [[بھارت کی درج فہرست قبائل]] کی تیسری بڑی آبادی ہے۔ <ref>{{citation | url=http://magazines.odisha.gov.in/Orissareview/apr2005/englishpdf/bluelay.pdf |title=Blue Jay |publisher= Orissa Review |date= 2005}}</ref> یہ [[شمال]] میں [[بنگال]] کے کچھ حصہ اور [[جھارکھنڈ]] سے، [[مغرب]] میں [[چھتیس گڑھ]] سے اور [[جنوب]] میں [[آندھرا پردیش]] کی ریاستوں کا ہمسایہ ہے۔ اڈیشہ کی [[ساحلی پٹی]] 485 کلومیٹر (301 میل) [[خلیج بنگال]] کے ساتھ ہے۔ <ref>{{citation | url=http://magazines.odisha.gov.in/Orissareview/apr2005/englishpdf/bluelay.pdf |title=Blue Jay |publisher= Orissa Review |page= 87 |date= 2005}}</ref> اس علاقہ کو [[اتکلہ]] کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور [[بھارت]] کے [[قومی ترانہ]]: "جن من گن" میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ <ref>{{citation | url=http://rprcbbsr.in/View/Downloads/Ficusreligiosa18_11_2014.pdf |title=Pipal(Ficus religiosa) – The State Tree of Odisha |publisher= RPRC |date= 2014}}</ref> اوڈیشا کی زبان [[اوڈیا]] ہے، جو [[ہندوستانی کلاسیکی زبانوں]] میں سے ایک ہے۔ <ref>{{cite web|title=State Fishes of India|url=http://nfdb.gov.in/PDF/Fish%20&%20Fisheries%20of%20India/2.State%20Fishes%20of%20India.pdf|publisher=National Fisheries Development Board, Government of India|access-date=25 December 2020}}</ref>


[[کلنگ]] کی قدیم [[سلطنت]]؛ جس پر [[موریہ شہنشاہ]] [[اشوک]] نے حملہ کیا تھا (جسے بادشاہ [[کھاراویلا]] نے اس سے دوبارہ جیت لیا تھا) 261 قبل مسیح میں [[کلنگا جنگ]] کا نتیجہ تھی، جو [[جدید دور کی اڈیشہ]] کی سرحدوں کے ساتھ ملحق ہے۔ و11و [[برطانوی ہندوستانی حکومت]] کے ذریعہ اڈیشہ کی جدید حدود کی [[حد بندی]] اس وقت کی گئی جب 1 اپریل 1936 کو [[صوبہ اڑیسہ]] کا قیام عمل میں آیا، جس میں [[اوڈیا]] بولنے والے [[بہار و اڑیسہ پرووِنس]] کے اضلاع شامل تھے۔ و11و 1 اپریل کو [[اُتکلہ دیبسہ]] کے طور پر منایا جاتا ہے۔ و12و کٹک کو [[اننتھ ورمن چوڈاگنگا]] نے تقریباً سن 1135ء میں اس خطہ کا [[دارالحکومت]] بنایا تھا۔ و13و جس کے بعد 1948 تک [[انگریزوں کے دور]] میں یہ شہر بہت سارے حکمرانوں کے دارالحکومت کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد [[بھونیشور]]؛ اوڈیشا کا دارالحکومت بن گیا۔ و14و
[[کلنگ]] کی قدیم [[سلطنت]]؛ جس پر [[موریہ شہنشاہ]] [[اشوک]] نے حملہ کیا تھا (جسے بادشاہ [[کھاراویلا]] نے اس سے دوبارہ جیت لیا تھا) 261 قبل مسیح میں [[کلنگا جنگ]] کا نتیجہ تھی، جو [[جدید دور کی اڈیشہ]] کی سرحدوں کے ساتھ ملحق ہے۔ <ref name="autogenerated1">{{cite web |title=Odisha (əˈdɪsə) |publisher=[[Collins English Dictionary]] |url=http://www.collinsdictionary.com/dictionary/english/odisha |access-date=2 February 2015 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150206035739/http://www.collinsdictionary.com/dictionary/english/odisha |archive-date=6 February 2015 |url-status=live }} The 'sha' spelling comes about from the historical or Sanskritic letter śa (ଶ), however all Odia sibilants today are realised as sa (ସ).</ref> [[برطانوی ہندوستانی حکومت]] کے ذریعہ اڈیشہ کی جدید حدود کی [[حد بندی]] اس وقت کی گئی جب 1 اپریل 1936 کو [[صوبہ اڑیسہ]] کا قیام عمل میں آیا، جس میں [[اوڈیا]] بولنے والے [[بہار و اڑیسہ پرووِنس]] کے اضلاع شامل تھے۔ <ref name="autogenerated1" /> 1 اپریل کو [[اُتکلہ دیبسہ]] کے طور پر منایا جاتا ہے۔ <ref>{{cite book |last=Jones |first=Daniel |author-link=Daniel Jones (phonetician) |editor1-last=Roach |editor1-first=Peter |editor2-last=Hartmann |editor2-first=James |editor3-last=Setter |editor3-first=Jane |year=2003 |orig-year=1917 |title=English Pronouncing Dictionary |publisher=Cambridge University Press |place=Cambridge |isbn=3-12-539683-2}}</ref> کٹک کو [[اننتھ ورمن چوڈاگنگا]] نے تقریباً سن 1135ء میں اس خطہ کا [[دارالحکومت]] بنایا تھا۔ <ref>{{cite web|url=http://www.stscodisha.gov.in/Aboutus.asp?GL=abt&PL=1|title=ST & SC Development, Minorities & Backward Classes Welfare Department:: Government of Odisha|website=stscodisha.gov.in|access-date=10 December 2018|archive-url=https://web.archive.org/web/20180901131912/http://www.stscodisha.gov.in/Aboutus.asp?GL=abt&PL=1|archive-date=1 September 2018|url-status=dead}}</ref> جس کے بعد 1948 تک [[انگریزوں کے دور]] میں یہ شہر بہت سارے حکمرانوں کے دارالحکومت کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد [[بھونیشور]]؛ اوڈیشا کا دارالحکومت بن گیا۔ <ref>{{cite web |title=Coastal security |publisher=[[Odisha Police]] |url=http://odishapolice.gov.in/?q=node/163 |access-date=1 February 2015 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150206043803/http://odishapolice.gov.in/?q=node%2F163 |archive-date=6 February 2015 |url-status=live }}</ref>


اڈیشہ کی [[معیشت]]؛ [[مجموعی گھریلو پیداوار]] میں ₹5.33 لاکھ کروڑ (75 ارب امریکی ڈالر) کے ساتھ [[بھارت]] کی 16 ویں سب سے بڑی [[ریاستی معیشت]] ہے اور [[فی کس]] [[جی ڈی پی]] 116،614 (1،600 [[امریکی ڈالر]]) ہے۔ و15و [[انسانی ترقیاتی انڈیکس]] میں اوڈیشا؛ 23 ویں نمبر پر ہے۔ و16و
اڈیشہ کی [[معیشت]]؛ [[مجموعی گھریلو پیداوار]] میں ₹5.33 لاکھ کروڑ (75 ارب امریکی ڈالر) کے ساتھ [[بھارت]] کی 16 ویں سب سے بڑی [[ریاستی معیشت]] ہے اور [[فی کس]] [[جی ڈی پی]] 116،614 (1،600 [[امریکی ڈالر]]) ہے۔ <ref>{{cite web|title=The National Anthem of India|url=http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00urduhindilinks/txt_janaganamana.pdf|archive-url=https://web.archive.org/web/20120124230152/http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00urduhindilinks/txt_janaganamana.pdf|url-status=live|archive-date=24 January 2012|publisher=[[Columbia University]]|access-date=1 February 2015}}</ref> [[انسانی ترقیاتی انڈیکس]] میں اوڈیشا؛ 23 ویں نمبر پر ہے۔ <ref>https://www.jagranjosh.com/current-affairs/cabinet-approved-odia-as-classical-language-1392954604-1</ref>


== لفظ اوڈیشا کا مصدر و ماخذ ==
== لفظ اوڈیشا کا مصدر و ماخذ ==
لفظ اوڈیشا (ଓଡ଼ିଶା) قدیم [[پراکرت]] لفظ "اوڈا وِسیا" (نیز "اُڈرا بِبھاشا" یا "اوڈرا بھاشا") سے ماخوذ ہے جیسا کہ [[راجندر چولا اول]] کے [[تیروملائی لکھاوٹ]] میں ہے، جس کی تاریخ 1025ء ہے۔ و17و [[سرلا داس]]؛ جنھوں نے 15 ویں صدی میں [[مہابھارت]] کا [[اوڈیا زبان]] میں ترجمہ کیا تھا، نے اس خطہ [[اوڈرا راشٹر]] کو اوڈیشا کہا ہے۔
لفظ اوڈیشا (ଓଡ଼ିଶା) قدیم [[پراکرت]] لفظ "اوڈا وِسیا" (نیز "اُڈرا بِبھاشا" یا "اوڈرا بھاشا") سے ماخوذ ہے جیسا کہ [[راجندر چولا اول]] کے [[تیروملائی لکھاوٹ]] میں ہے، جس کی تاریخ 1025ء ہے۔ <ref>{{cite web|title=Detail History of Orissa|url=http://www.orissa.gov.in/history1.htm|publisher=[[Government of Odisha]]|archive-url=https://web.archive.org/web/20061112195307/http://www.orissa.gov.in/history1.htm|archive-date=12 November 2006}}</ref> [[سرلا داس]]؛ جنھوں نے 15 ویں صدی میں [[مہابھارت]] کا [[اوڈیا زبان]] میں ترجمہ کیا تھا، نے اس خطہ [[اوڈرا راشٹر]] کو اوڈیشا کہا ہے۔
[[پوری]] میں مندروں کی دیواروں پر [[گجاپتی سلطنت]] (67-1435ء) کے [[کپلندر دیوا]] کے نقشے؛ اس خطہ کو اوڈیشا یا [[اوڈیشا راجیہ]] کہتے ہیں۔ و18و
[[پوری]] میں مندروں کی دیواروں پر [[گجاپتی سلطنت]] (67-1435ء) کے [[کپلندر دیوا]] کے نقشے؛ اس خطہ کو اوڈیشا یا [[اوڈیشا راجیہ]] کہتے ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Utkala Dibasa hails colours, flavours of Odisha|url=http://timesofindia.indiatimes.com/city/lucknow/Utkala-Dibasa-hails-colours-flavours-of-Odisha/articleshow/33095967.cms|access-date=1 February 2015|work=[[The Times of India]]|date=2 April 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20150708211533/http://timesofindia.indiatimes.com/city/lucknow/Utkala-Dibasa-hails-colours-flavours-of-Odisha/articleshow/33095967.cms|archive-date=8 July 2015|url-status=live}}</ref>


سن2011ء میں ریاست کا نام [[اڑیسہ]] سے تبدیل کرکے [[اڈیشہ]] کر دیا گیا تھا، اور اس کی زبان کا نام [[اڑیا]] سے [[اوڈیا]] رکھ دیا گیا تھا۔ [[اڑیسہ نام کی تبدیلی بل]] ؛ 2010ء اور [[پارلیمنٹ]] میں [[آئینى (113 ویں ترمیم) بل]] ؛ 2010ء کی منظوری سے ایک مختصر بحث و مباحثہ کے بعد [[ایوان زیریں]] [[لوک سبھا]] نے 9 نومبر 2010 کو بل اور ترمیم منظور کی۔ و19و 24 مارچ 2011ء کو پارلیمنٹ کے [[ايوان بالا]] [[راجیہ سبھا]] نے بھی اس بل اور ترمیم کو منظور کیا۔ و20و نام کی تبدیلی ہندی کے سابق نام [[उड़ीसा]] اور انگریزی کے سابق نام اوڈیشا کو اوڈیہ ہجّے اور اس کے تلفظ کے مطابق کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ و21و
سن2011ء میں ریاست کا نام [[اڑیسہ]] سے تبدیل کرکے [[اڈیشہ]] کر دیا گیا تھا، اور اس کی زبان کا نام [[اڑیا]] سے [[اوڈیا]] رکھ دیا گیا تھا۔ [[اڑیسہ نام کی تبدیلی بل]] ؛ 2010ء اور [[پارلیمنٹ]] میں [[آئینى (113 ویں ترمیم) بل]] ؛ 2010ء کی منظوری سے ایک مختصر بحث و مباحثہ کے بعد [[ایوان زیریں]] [[لوک سبھا]] نے 9 نومبر 2010 کو بل اور ترمیم منظور کی۔ <ref>{{cite book|author=Rabindra Nath Chakraborty|title=National Integration in Historical Perspective: A Cultural Regeneration in Eastern India|url=https://books.google.com/books?id=PItbvfAvVggC&pg=PA17|access-date=30 November 2012|year=1985|publisher=Mittal Publications|pages=17–|id=GGKEY:CNFHULBK119|archive-url=https://web.archive.org/web/20130515095045/http://books.google.com/books?id=PItbvfAvVggC&pg=PA17|archive-date=15 May 2013|url-status=live}}</ref> 24 مارچ 2011ء کو پارلیمنٹ کے [[ايوان بالا]] [[راجیہ سبھا]] نے بھی اس بل اور ترمیم کو منظور کیا۔ <ref>{{cite book|author=Ravi Kalia|title=Bhubaneswar: From a Temple Town to a Capital City|url=https://books.google.com/books?id=F2YSPiKbmHkC&pg=PA23|access-date=2 February 2015|year=1994|publisher=SIU Press|isbn=978-0-8093-1876-6|page=23|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=F2YSPiKbmHkC&pg=PA23|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> نام کی تبدیلی ہندی کے سابق نام [[उड़ीसा]] اور انگریزی کے سابق نام اوڈیشا کو اوڈیہ ہجّے اور اس کے تلفظ کے مطابق کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ <ref>{{cite web |title=Sub-national HDI – Area Database |url=https://hdi.globaldatalab.org/areadata/shdi/ |website=Global Data Lab |publisher=Institute for Management Research, Radboud University |access-date=25 September 2018 |archive-url=https://web.archive.org/web/20180923120638/https://hdi.globaldatalab.org/areadata/shdi/ |archive-date=23 September 2018 |url-status=live }}</ref>


== تاریخ ==
== تاریخ ==
خطہ میں مختلف مقامات پر [[لوئر پیلیوتھک]] عہد سے پہلے کے ملنے والے [[اچیلین ادوات]] دریافت ہوئے ہیں، جو انسانوں کے ذریعہ ابتدائی آباد کاری کا مطلب ہے۔ و22و [[کلنگ]] کا ذکر [[قدیم متون]] جیسے [[مہابھارت]]، [[وایو پورنہ]] اور [[مہا گووندا ستنتا]] میں کیا گیا ہے۔ و23و و24و
خطہ میں مختلف مقامات پر [[لوئر پیلیوتھک]] عہد سے پہلے کے ملنے والے [[اچیلین ادوات]] دریافت ہوئے ہیں، جو انسانوں کے ذریعہ ابتدائی آباد کاری کا مطلب ہے۔ <ref>{{cite book|last1=Patel|first1=C.B|title=Origin and Evolution of the Name ODISA|date=April 2010|publisher=I&PR Department, Government of Odisha|location=Bhubaneswar|pages=28, 29, 30|url=http://odisha.gov.in/e-magazine/Orissareview/2010/April/engpdf/28-30.pdf|access-date=19 June 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20150619163833/http://odisha.gov.in/e-magazine/Orissareview/2010/April/engpdf/28-30.pdf|archive-date=19 June 2015|url-status=dead}}</ref> [[کلنگ]] کا ذکر [[قدیم متون]] جیسے [[مہابھارت]]، [[وایو پورنہ]] اور [[مہا گووندا ستنتا]] میں کیا گیا ہے۔ <ref>{{cite book|author=Pritish Acharya|title=National Movement and Politics in Orissa, 1920–1929|url=https://books.google.com/books?id=LoaHAwAAQBAJ&pg=PR19|access-date=3 February 2015|date=11 March 2008|publisher=SAGE Publications|isbn=978-81-321-0001-0|page=19|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=LoaHAwAAQBAJ&pg=PR19|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite news|title=Amid clash, House passes Bills to rename Orissa, its language|url=http://www.thehindu.com/news/national/amid-clash-house-passes-bills-to-rename-orissa-its-language/article876145.ece|access-date=2 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=9 November 2010|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://www.thehindu.com/news/national/amid-clash-house-passes-bills-to-rename-orissa-its-language/article876145.ece|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref>


[[مہا بھارت]] میں اوڈیشا کے [[سابر لوگوں]] کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ و25و و26و [[بودھیانہ]] نے [[کلنگ]] کا تذکرہ کیا ہے؛ کیونکہ ابھی تک وہ [[ویدک روایات]] سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر [[قبائلی روایات]] پر عمل کیا جاتا ہے۔ و27و
[[مہا بھارت]] میں اوڈیشا کے [[سابر لوگوں]] کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ <ref>{{cite news|title=Parliament passes bill to change Orissa's name|url=http://www.ndtv.com/bhubaneshwar-news/parliament-passes-bill-to-change-orissas-name-451027|access-date=2 February 2015|publisher=[[NDTV]]|date=24 March 2011|archive-url=https://web.archive.org/web/20150203144151/http://www.ndtv.com/bhubaneshwar-news/parliament-passes-bill-to-change-orissas-name-451027|archive-date=3 February 2015|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite news|title=Orissa wants to change its name to Odisha|url=https://www.rediff.com/news/2008/jun/10orissa.htm|access-date=23 June 2020|work=[[Rediff.com]]|date=10 June 2008}}</ref> [[بودھیانہ]] نے [[کلنگ]] کا تذکرہ کیا ہے؛ کیونکہ ابھی تک وہ [[ویدک روایات]] سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر [[قبائلی روایات]] پر عمل کیا جاتا ہے۔ <ref>{{cite book|title=An Encyclopaedia of Indian Archaeology|year=1990|publisher=BRILL|page=24|url=https://books.google.com/books?id=Wba-EZhZcfgC&q=Acheulian%20orissa&pg=PA25|author=Amalananda Ghosh|isbn=9004092641|access-date=29 October 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=Wba-EZhZcfgC&lpg=PA25&ots=zRfcBno4vb&dq=Acheulian%20orissa&pg=PA25#v=onepage&q=Acheulian%20orissa&f=false|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


[[موریان خاندان]] کے [[اشوک]] نے 261 [[قبل مسیح]] میں [[خونی کالنگا جنگ]] میں [[کلنگ]] کو فتح کیا، و28و جب کہ اس کے دور حکومت کا آٹھواں سال تھا۔ و29و ان کی اپنی ہدایات کے مطابق؛ اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ پکڑے گئے اور مزید لوگ متاثر ہوئے۔ و28و
[[موریان خاندان]] کے [[اشوک]] نے 261 [[قبل مسیح]] میں [[خونی کالنگا جنگ]] میں [[کلنگ]] کو فتح کیا، <ref name="autogenerated2">{{cite book|title=An Introduction to Epic Philosophy: Epic Period, History, Literature, Pantheon, Philosophy, Traditions, and Mythology, Volume 3|year=2004|publisher=Genesis Publishing|page=784|isbn=9788177558814|url=https://books.google.com/books?id=uwHj-Z-dMcsC&q=Srutayudha&pg=PA784|editor=Subodh Kapoor|access-date=10 November 2012|quote=Finally Srutayudha, a valiant hero, was son Varuna and of the river Parnasa.|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=uwHj-Z-dMcsC&lpg=PA784&dq=Srutayudha&pg=PA784#v=onepage&q&f=false|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> جب کہ اس کے دور حکومت کا آٹھواں سال تھا۔ <ref name="autogenerated3">{{cite book|title=Cultural History from the Vāyu Purāna|year=1946|publisher=Motilal Banarsidass Pub.|page=46|url=https://books.google.com/books?id=Jmnm-smZm6oC&q=bali%20sudesna&pg=PA46|author=Devendrakumar Rajaram Patil|isbn=9788120820852|access-date=15 November 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=Jmnm-smZm6oC&lpg=PA46&dq=bali%20sudesna&pg=PA46#v=onepage&q=bali%20sudesna&f=false|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> ان کی اپنی ہدایات کے مطابق؛ اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ پکڑے گئے اور مزید لوگ متاثر ہوئے۔ <ref name="autogenerated2" />


کہا جاتا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی خوں ریزی اور مصائب نے اشوکا کو گہرا متاثر کیا۔ وہ ایک امن پسند ہوگیا اور [[بدھ مت]] میں مذہب تبدیل کرلی۔ و29و و30و
کہا جاتا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی خوں ریزی اور مصائب نے اشوکا کو گہرا متاثر کیا۔ وہ ایک امن پسند ہوگیا اور [[بدھ مت]] میں مذہب تبدیل کرلی۔ <ref name="autogenerated3" /> <ref>{{cite web|title=Dance bow (1965.3.5)|url=http://web.prm.ox.ac.uk/weapons/index.php/tour-by-region/asia/asia/arms-and-armour-asia-141/index.html|publisher=[[Pitt Rivers Museum]]|access-date=4 February 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20150202160400/http://web.prm.ox.ac.uk/weapons/index.php/tour-by-region/asia/asia/arms-and-armour-asia-141/index.html|archive-date=2 February 2015|url-status=live}}</ref>


تقریباً 150 قبل مسیح میں شہنشاہ [[کھاراویلا]] نے؛ جو ممکنہ طور پر [[باختریہ]] کے [[ڈیمیٹریس اول]] کے ہم عصر تھے، و31و برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیا۔ [[کھاراویلا]] ایک [[جین]] حکمران تھا۔ اس نے [[ادے گری پہاڑی]] کے اوپر [[مٹھ]] بھی تعمیر کی۔ و32و اس کے بعد اس علاقے پر بادشاہوں، جیسے [[سمدرا گپت]] و33و اور [[ششنکا]] و34و کی حکومت تھی۔ یہ [[ہرشا]] کی سلطنت کا بھی ایک حصہ تھا۔ و35و
تقریباً 150 قبل مسیح میں شہنشاہ [[کھاراویلا]] نے؛ جو ممکنہ طور پر [[باختریہ]] کے [[ڈیمیٹریس اول]] کے ہم عصر تھے، <ref>{{cite book|author=Rabindra Nath Pati|title=Family Planning|url=https://books.google.com/books?id=_5seKkk3GkIC&pg=PA97|access-date=2 February 2015|date=1 January 2008|publisher=APH Publishing|isbn=978-81-313-0352-8|page=97|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=_5seKkk3GkIC&pg=PA97|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیا۔ [[کھاراویلا]] ایک [[جین]] حکمران تھا۔ اس نے [[ادے گری پہاڑی]] کے اوپر [[مٹھ]] بھی تعمیر کی۔ <ref>{{cite book|author=Suhas Chatterjee|title=Indian Civilization And Culture|url=https://books.google.com/books?id=KItocaxbibUC&pg=PA68|access-date=11 February 2013|date=1 January 1998|publisher=M.D. Publications Pvt. Ltd.|isbn=978-81-7533-083-2|page=68|archive-url=https://web.archive.org/web/20130515091723/http://books.google.com/books?id=KItocaxbibUC&pg=PA68|archive-date=15 May 2013|url-status=live}}</ref> اس کے بعد اس علاقے پر بادشاہوں، جیسے [[سمدرا گپت]] <ref>{{cite book|title=A History of India|year=2004|publisher=Routledge|page=66|url=https://books.google.com/books?id=TPVq3ykHyH4C&q=ashoka%20261%20BC%20history&pg=PA66|author=Hermann Kulke|author2=Dietmar Rothermund|isbn=9780415329194|access-date=12 November 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=TPVq3ykHyH4C&lpg=PA66&dq=ashoka%20261%20BC%20history&pg=PA66#v=onepage&q=ashoka%20261%20BC%20history&f=false|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> اور [[ششنکا]] <ref>{{cite book|author=Mookerji Radhakumud|title=Asoka|url=https://books.google.com/books?id=uXyftdtE1ygC&pg=PA214|access-date=6 August 2015|year=1995|publisher=Motilal Banarsidass|isbn=978-81-208-0582-8|page=214|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=uXyftdtE1ygC&pg=PA214|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> کی حکومت تھی۔ یہ [[ہرشا]] کی سلطنت کا بھی ایک حصہ تھا۔ <ref>{{cite book|author=Sailendra Nath Sen|title=Ancient Indian History and Civilization|url=https://books.google.com/books?id=Wk4_ICH_g1EC&pg=PA153|access-date=6 August 2015|date=1 January 1999|publisher=New Age International|isbn=978-81-224-1198-0|page=153|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=Wk4_ICH_g1EC&pg=PA153|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


اوڈیشا کا شہر [[برہم پور]]؛ چوتھی صدی عیسوی کے اختتامی برسوں کے دوران؛ [[پوراواس]] کا دارالحکومت رہا تھا۔ تقریباً تیسری صدی عیسوی میں [[پوراواس]] کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا ؛ کیوں کہ [[یودھیا جمہوریہ]] نے ان کا قبضہ کر لیا تھا، اور اس کے نتیجے میں وہ [[موریوں]] کے سامنے پیش ہوگئے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اختتام پر ہی انھوں نے تقریباً 700 سالوں کے بعد [[برہم پور]] میں شاہی حکومت قائم کی۔
اوڈیشا کا شہر [[برہم پور]]؛ چوتھی صدی عیسوی کے اختتامی برسوں کے دوران؛ [[پوراواس]] کا دارالحکومت رہا تھا۔ تقریباً تیسری صدی عیسوی میں [[پوراواس]] کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا ؛ کیوں کہ [[یودھیا جمہوریہ]] نے ان کا قبضہ کر لیا تھا، اور اس کے نتیجے میں وہ [[موریوں]] کے سامنے پیش ہوگئے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اختتام پر ہی انھوں نے تقریباً 700 سالوں کے بعد [[برہم پور]] میں شاہی حکومت قائم کی۔


بعد میں [[سوماوسی خاندان]] کے بادشاہوں نے اس خطہ کو متحد کرنا شروع کیا۔ [[یایاٹی دوم]] کے دور تک تقریباً 1025 عیسوی میں انھوں نے اس خطہ کو ایک ہی ریاست میں ضم کیا تھا۔ [[یایاٹی دوم]] نے [[بھوبنیشور]] میں [[لنگا راج مندر]] تعمیر کیا تھا۔ و11و ان کی جگہ [[مشرقی گنگا خاندان]] نے لے لی۔ اس خاندان کے قابل ذکر حکمران [[اننتھ ورمن چوڈاگنگا]] تھے، جنھوں نے [[پوری]] میں (تقریباً سن 1135ء) میں موجودہ [[شری جگناتھ مندر]] اور [[نرسمھا دیوا اول]] کی (تقریباً 1250ء میں) تعمیر کردہ [[کونارک مندر]] دوبارہ تعمیر کیے تھے۔ و36و و37و
بعد میں [[سوماوسی خاندان]] کے بادشاہوں نے اس خطہ کو متحد کرنا شروع کیا۔ [[یایاٹی دوم]] کے دور تک تقریباً 1025 عیسوی میں انھوں نے اس خطہ کو ایک ہی ریاست میں ضم کیا تھا۔ [[یایاٹی دوم]] نے [[بھوبنیشور]] میں [[لنگا راج مندر]] تعمیر کیا تھا۔ <ref name="autogenerated1" /> ان کی جگہ [[مشرقی گنگا خاندان]] نے لے لی۔ اس خاندان کے قابل ذکر حکمران [[اننتھ ورمن چوڈاگنگا]] تھے، جنھوں نے [[پوری]] میں (تقریباً سن 1135ء) میں موجودہ [[شری جگناتھ مندر]] اور [[نرسمھا دیوا اول]] کی (تقریباً 1250ء میں) تعمیر کردہ [[کونارک مندر]] دوبارہ تعمیر کیے تھے۔ <ref>{{cite book|author=Austin Patrick Olivelle Alma Cowden Madden Centennial Professor in Liberal Arts University of Texas|title=Between the Empires : Society in India 300 BCE to 400 CE: Society in India 300 BCE to 400 CE|url=https://books.google.com/books?id=efaOR_-YsIcC&pg=PA78|access-date=3 February 2015|date=19 June 2006|publisher=Oxford University Press|isbn=978-0-19-977507-1|page=78|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=efaOR_-YsIcC&pg=PA78|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite book|author=Reddy|title=Indian Hist (Opt)|url=https://books.google.com/books?id=CeEmpfmbxKEC&pg=SL1-PA253|access-date=3 February 2015|date=1 December 2006|publisher=Tata McGraw-Hill Education|isbn=978-0-07-063577-7|page=A254|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=CeEmpfmbxKEC&pg=SL1-PA253|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


[[مشرقی گنگا خاندان]] کے بعد "[[گجاپتی بادشاہت]]" آئی۔ جس نے 1568ء تک اس خطہ کے [[مغلیہ سلطنت]] میں انضمام کے خلاف مزاحمت کی؛ یہاں تک کہ اس کو [[سلطنت بنگال]] نے فتح کرلیا۔ و38و "[[مکندا دیوا]]"؛ جسے [[کلنگ]] کا آخری آزاد بادشاہ سمجھا جاتا ہے، شکست کھا گیا اور ایک باغی [[رام چندر بھنجا]] کی لڑائی میں مارا گیا۔ خود [[رام چندر بھنجا]] کو [[بایزید خان کرانی]] نے قتل کیا تھا۔ و39و سن1591ء میں بہار کے اس وقت کے گورنر [[مان سنگھ اول]] نے [[بنگال]] کے کرانیوں سے [[اڈیشہ]] لینے کے لیے ایک فوج کی قیادت کی۔ وہ معاہدے پر راضی ہوگئے؛ کیوں کہ ان کے رہنما [[قطلو خان ​​لوہانی]] کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن پھر انھوں نے [[پوری]] کے ہیکل قصبہ پر حملہ کرکے معاہدہ توڑا۔ [[مان سنگھ]] کی 1592ء میں واپسی ہوئی اور اس نے دوبارہ اس خطہ کو پرسکون بنایا۔ و40و
[[مشرقی گنگا خاندان]] کے بعد "[[گجاپتی بادشاہت]]" آئی۔ جس نے 1568ء تک اس خطہ کے [[مغلیہ سلطنت]] میں انضمام کے خلاف مزاحمت کی؛ یہاں تک کہ اس کو [[سلطنت بنگال]] نے فتح کرلیا۔ <ref>{{cite book|title=Indian History|year = 1988|url=https://books.google.com/books?id=MazdaWXQFuQC&pg=PA74|access-date=3 February 2015|publisher=Allied Publishers|isbn=978-81-8424-568-4|page=74|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=MazdaWXQFuQC&pg=PA74|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> "[[مکندا دیوا]]"؛ جسے [[کلنگ]] کا آخری آزاد بادشاہ سمجھا جاتا ہے، شکست کھا گیا اور ایک باغی [[رام چندر بھنجا]] کی لڑائی میں مارا گیا۔ خود [[رام چندر بھنجا]] کو [[بایزید خان کرانی]] نے قتل کیا تھا۔ <ref>{{cite book|author=Ronald M. Davidson|title=Indian Esoteric Buddhism: A Social History of the Tantric Movement|url=https://books.google.com/books?id=nwyeIyWTlEMC&pg=PT60|access-date=3 February 2015|date=13 August 2013|publisher=Columbia University Press|isbn=978-0-231-50102-6|page=60|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=nwyeIyWTlEMC&pg=PT60|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> سن1591ء میں بہار کے اس وقت کے گورنر [[مان سنگھ اول]] نے [[بنگال]] کے کرانیوں سے [[اڈیشہ]] لینے کے لیے ایک فوج کی قیادت کی۔ وہ معاہدے پر راضی ہوگئے؛ کیوں کہ ان کے رہنما [[قطلو خان ​​لوہانی]] کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن پھر انھوں نے [[پوری]] کے ہیکل قصبہ پر حملہ کرکے معاہدہ توڑا۔ [[مان سنگھ]] کی 1592ء میں واپسی ہوئی اور اس نے دوبارہ اس خطہ کو پرسکون بنایا۔ <ref>{{cite book|author=R. C. Majumdar|title=Outline of the History of Kalinga|url=https://books.google.com/books?id=LNCcpkqesJ0C&pg=PA28|access-date=3 February 2015|year=1996|publisher=Asian Educational Services|isbn=978-81-206-1194-8|page=28|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=LNCcpkqesJ0C&pg=PA28|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


سنہ1751ء میں [[نواب بنگال]] [[علی وردی خان]] نے اس علاقہ کو [[مراٹھا سلطنت]] کے حوالے کردیا۔ و11و
سنہ1751ء میں [[نواب بنگال]] [[علی وردی خان]] نے اس علاقہ کو [[مراٹھا سلطنت]] کے حوالے کردیا۔ <ref name="autogenerated1" />


سنہ 1760ء تک [[دوسری کارناٹِک جنگ]] کے نتیجہ میں انگریزوں نے اڈیشہ کے جنوبی ساحلوں پر مشتمل شمالی حلقوں پر قبضہ کر لیا تھا، اور آہستہ آہستہ انھیں [[مدراس پریزیڈنسی]] میں شامل کرلیا تھا۔ و41و
سنہ 1760ء تک [[دوسری کارناٹِک جنگ]] کے نتیجہ میں انگریزوں نے اڈیشہ کے جنوبی ساحلوں پر مشتمل شمالی حلقوں پر قبضہ کر لیا تھا، اور آہستہ آہستہ انھیں [[مدراس پریزیڈنسی]] میں شامل کرلیا تھا۔ <ref>{{cite book|author=Roshen Dalal|title=The Religions of India: A Concise Guide to Nine Major Faiths|url=https://books.google.com/books?id=87k0AwAAQBAJ&pg=PT559|access-date=3 February 2015|date=18 April 2014|publisher=Penguin Books Limited|isbn=978-81-8475-396-7|page=559|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=87k0AwAAQBAJ&pg=PT559|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


1803ء میں انگریزوں نے دوسری اینگلو مراٹھا [[دوسری اینگلو مراٹھا جنگ]] کے دوران میں اڈیشہ کے [[پوری-کٹک خطے]] سے [[مراٹھوں]] کو بے دخل کردیا۔ اڈیشہ کے شمالی اور مغربی اضلاع کو [[بنگال پریزیڈنسی]] میں شامل کیا گیا۔ و42و
1803ء میں انگریزوں نے دوسری اینگلو مراٹھا [[دوسری اینگلو مراٹھا جنگ]] کے دوران میں اڈیشہ کے [[پوری-کٹک خطے]] سے [[مراٹھوں]] کو بے دخل کردیا۔ اڈیشہ کے شمالی اور مغربی اضلاع کو [[بنگال پریزیڈنسی]] میں شامل کیا گیا۔ <ref>{{cite book|title=Indian History|url=https://books.google.com/books?id=X4j7Nf_MU24C&pg=SL2-PA3|access-date=3 May 2013|publisher=Tata McGraw-Hill Education|isbn=978-0-07-132923-1|page=2|archive-url=https://web.archive.org/web/20140101141813/http://books.google.com/books?id=X4j7Nf_MU24C&pg=SL2-PA3|archive-date=1 January 2014|url-status=live}}</ref>


1866ء میں اڑیسہ میں [[قحط]] کے نتیجہ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ و43و اس کے بعد بڑے پیمانے پر [[آبپاشی]] کے منصوبے شروع کیے گئے۔ و44و 1903ء میں اوڈیا بولنے والے علاقوں کو ایک ریاست میں متحد کرنے کے مطالبہ میں؛ "[[اتکل سمیلانی تنظیم]]" کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ و45و یکم اپریل 1912ء کو [[ صوبہ بہار اور اڑیسہ]] تشکیل پایا۔ و46و یکم اپریل 1936ء کو [[صوبہ بہار اور اڑیسہ]] کو الگ الگ دو صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ و47و اور 15 نومبر 2000ء کو جنوبی بہار کو بھی [[جھارکھنڈ]] کی نئی ریاست بنانے کے لیے دستبردار کر دیا گیا۔ و48و
1866ء میں اڑیسہ میں [[قحط]] کے نتیجہ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ <ref>{{Cite book |last=Sen |first=Sailendra |title=A Textbook of Medieval Indian History |publisher=Primus Books |year=2013 |isbn=978-93-80607-34-4 |pages=121–122}}</ref> اس کے بعد بڑے پیمانے پر [[آبپاشی]] کے منصوبے شروع کیے گئے۔ <ref>{{cite book|title=Orissa General Knowledge|url=https://books.google.com/books?id=hMCbjkhA_ncC&pg=PA27|access-date=3 February 2015|publisher=Bright Publications|isbn=978-81-7199-574-5|page=27|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=hMCbjkhA_ncC&pg=PA27|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> 1903ء میں اوڈیا بولنے والے علاقوں کو ایک ریاست میں متحد کرنے کے مطالبہ میں؛ "[[اتکل سمیلانی تنظیم]]" کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ <ref>{{cite book|author=L.S.S. O'Malley|title=Bengal District Gazetteer : Puri|url=https://books.google.com/books?id=pwD0-YV2LCYC&pg=PA33|access-date=3 February 2015|date=1 January 2007|publisher=Concept Publishing Company|isbn=978-81-7268-138-8|page=33|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=pwD0-YV2LCYC&pg=PA33|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> یکم اپریل 1912ء کو [[صوبہ بہار اور اڑیسہ]] تشکیل پایا۔ <ref>{{cite book|author=Sailendra Nath Sen|title=An Advanced History of Modern India|url=https://books.google.com/books?id=bXWiACEwPR8C&pg=PA9|access-date=3 February 2015|year=2010|publisher=Macmillan India|isbn=978-0-230-32885-3|page=32|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=bXWiACEwPR8C&pg=PA9|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> یکم اپریل 1936ء کو [[صوبہ بہار اور اڑیسہ]] کو الگ الگ دو صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ <ref>{{cite book|last=Devi|first=Bandita|title=Some Aspects of British Administration in Orissa, 1912–1936|url=https://books.google.com/books?id=lBQQHizn788C&pg=PA14|date=January 1992|publisher=Academic Foundation|isbn=978-81-7188-072-0|page=14|access-date=5 December 2016|archive-url=https://web.archive.org/web/20161221202033/https://books.google.com/books?id=lBQQHizn788C&pg=PA14|archive-date=21 December 2016|url-status=live}}</ref> اور 15 نومبر 2000ء کو جنوبی بہار کو بھی [[جھارکھنڈ]] کی نئی ریاست بنانے کے لیے دستبردار کر دیا گیا۔ <ref>{{cite book|author=William A. Dando|title=Food and Famine in the 21st Century &#91;2 volumes&#93;|url=https://books.google.com/books?id=R4cat-5-NeIC&pg=RA1-PA47|access-date=3 February 2015|date=13 February 2012|publisher=ABC-CLIO|isbn=978-1-59884-731-4|page=47|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=R4cat-5-NeIC&pg=RA1-PA47|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


اڑیسہ کا نیا صوبہ؛ ہندوستان میں [[انگریزوں کی حکمرانی]] کے دوران؛ [[لسانی بنیادوں]] پر معرض وجود میں آیا، [[سر جون آسٹن ہُوب بیک]] پہلے [[گورنر]] کے طور پر مقرر کیے گئے۔ و49و و50و بھارت کی آزادی کے بعد 15 اگست 1947ء کو 27 ریاستوں نے (جو اس وقت اڈیشہ کے الگ الگ اضلاع ہیں) اڑیسہ میں شامل ہونے کے لیے اس دستاویز پر دستخط کیے۔ و51و [[مشرقی یونین ریاستوں]] کے خاتمہ کے بعد؛ اڑیسہ کی بیشتر ریاستیں ([[اڑیسہ ٹریبیوٹری اسٹیٹس]]) یعنی ریاستوں کا ایک گروپ 1948ء میں اڑیسہ سے جڑ گیا۔ و52و
اڑیسہ کا نیا صوبہ؛ ہندوستان میں [[انگریزوں کی حکمرانی]] کے دوران؛ [[لسانی بنیادوں]] پر معرض وجود میں آیا، [[سر جون آسٹن ہُوب بیک]] پہلے [[گورنر]] کے طور پر مقرر کیے گئے۔ <ref>{{cite book|author1=J. K. Samal|author2=Pradip Kumar Nayak|title=Makers of Modern Orissa: Contributions of Some Leading Personalities of Orissa in the 2nd Half of the 19th Century|url=https://books.google.com/books?id=3ewpJNpCLJgC&pg=PA32|access-date=3 February 2015|date=1 January 1996|publisher=Abhinav Publications|isbn=978-81-7017-322-9|page=32|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=3ewpJNpCLJgC&pg=PA32|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite book|author=K.S. Padhy|title=Indian Political Thought|url=https://books.google.com/books?id=sZVopB0GNPQC&pg=PA287|access-date=3 February 2015|date=30 July 2011|publisher=PHI Learning Pvt. Ltd.|isbn=978-81-203-4305-4|page=287|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=sZVopB0GNPQC&pg=PA287|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> بھارت کی آزادی کے بعد 15 اگست 1947ء کو 27 ریاستوں نے (جو اس وقت اڈیشہ کے الگ الگ اضلاع ہیں) اڑیسہ میں شامل ہونے کے لیے اس دستاویز پر دستخط کیے۔ <ref>{{cite book|author=Usha Jha|title=Land, Labour, and Power: Agrarian Crisis and the State in Bihar (1937–52)|url=https://books.google.com/books?id=lHAMkZGI_OoC&pg=PA246|access-date=3 February 2015|date=1 January 2003|publisher=Aakar Books|isbn=978-81-87879-07-7|page=246|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=lHAMkZGI_OoC&pg=PA246|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> [[مشرقی یونین ریاستوں]] کے خاتمہ کے بعد؛ اڑیسہ کی بیشتر ریاستیں ([[اڑیسہ ٹریبیوٹری اسٹیٹس]]) یعنی ریاستوں کا ایک گروپ 1948ء میں اڑیسہ سے جڑ گیا۔ <ref>{{cite book|author=Bandita Devi|title=Some Aspects of British Administration in Orissa, 1912–1936|url=https://books.google.com/books?id=lBQQHizn788C&pg=PA214|access-date=3 February 2015|date=1 January 1992|publisher=Academic Foundation|isbn=978-81-7188-072-0|page=214|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=lBQQHizn788C&pg=PA214|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


== جغرافیہ ==
== جغرافیہ ==
سطر 43: سطر 43:
اوڈیشا؛ [[عرض البلد]] میں [[17.780N]] اور [[22.730N]] اور [[طول البلد]] میں [[81.37E]] اور [[87.53E]] کے درمیان میں ہے۔
اوڈیشا؛ [[عرض البلد]] میں [[17.780N]] اور [[22.730N]] اور [[طول البلد]] میں [[81.37E]] اور [[87.53E]] کے درمیان میں ہے۔


ریاست کا کل رقبہ 155،707 (ایک لاکھ پچپن ہزار، سات سو سات) [[مربع کلومیٹر]] ہے، جو ہندوستان کے کل [[رقبہ]] کا ٪4.87 فی صد ہے، اور 450 کلومیٹر کا ساحل ہے۔ و53و ریاست کے مشرقی حصہ میں ساحلی پٹی ہے۔ یہ شمال میں [[دریائے سبرنا ریکھا]] سے لیکر جنوب میں [[رشکلیہ دریا]] تک پھیلا ہوا ہے۔
ریاست کا کل رقبہ 155،707 (ایک لاکھ پچپن ہزار، سات سو سات) [[مربع کلومیٹر]] ہے، جو ہندوستان کے کل [[رقبہ]] کا ٪4.87 فی صد ہے، اور 450 کلومیٹر کا ساحل ہے۔ <ref name="autogenerated4">{{cite news|title=Hubback's memoirs: First Governor Of State Reserved Tone Of Mild Contempt For Indians|url=http://www.telegraphindia.com/1101129/jsp/orissa/story_13234116.jsp|access-date=3 February 2015|work=[[The Telegraph (India)|The Telegraph]]|date=29 November 2010|archive-url=https://web.archive.org/web/20150204200041/http://www.telegraphindia.com/1101129/jsp/orissa/story_13234116.jsp|archive-date=4 February 2015|url-status=dead}}</ref> ریاست کے مشرقی حصہ میں ساحلی پٹی ہے۔ یہ شمال میں [[دریائے سبرنا ریکھا]] سے لیکر جنوب میں [[رشکلیہ دریا]] تک پھیلا ہوا ہے۔


[[چیلیکا جھیل]]؛ ساحلی میدانی علاقوں کا ایک حصہ ہے۔ میدانی علاقے [[خلیج بنگال]] میں بہنے والے چھ بڑے دریا؛ [[سبرنا ریکھا]]، [[بدھ بلنگا]]، [[بیترنی]]، [[برہمنی]]، [[مہاندی]] اور [[رشکلیہ]] کے ذریعہ [[جمع زرخیز مٹی]] سے مالا مال ہیں۔ و53و
[[چیلیکا جھیل]]؛ ساحلی میدانی علاقوں کا ایک حصہ ہے۔ میدانی علاقے [[خلیج بنگال]] میں بہنے والے چھ بڑے دریا؛ [[سبرنا ریکھا]]، [[بدھ بلنگا]]، [[بیترنی]]، [[برہمنی]]، [[مہاندی]] اور [[رشکلیہ]] کے ذریعہ [[جمع زرخیز مٹی]] سے مالا مال ہیں۔ <ref name="autogenerated4" />


[[سینٹرل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی آر آر آئی)]] ایک [[فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن]] کے ذریعہ تسلیم شدہ [["رائس (چاول) جین بینک"]] اور [[ریسرچ انسٹی ٹیوٹ]]؛ [[کٹک]] میں [[مہاندی]] کے کنارے واقع ہے۔ و54و
[[سینٹرل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی آر آر آئی)]] ایک [[فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن]] کے ذریعہ تسلیم شدہ [["رائس (چاول) جین بینک"]] اور [[ریسرچ انسٹی ٹیوٹ]]؛ [[کٹک]] میں [[مہاندی]] کے کنارے واقع ہے۔ <ref>{{cite book|author=B. Krishna|title=India's Bismarck, Sardar Vallabhbhai Patel|url=https://books.google.com/books?id=sLr7z6gNcV0C&pg=PA243|access-date=3 February 2015|year=2007|publisher=Indus Source|isbn=978-81-88569-14-4|pages=243–244|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=sLr7z6gNcV0C&pg=PA243|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


[[اوڈیشا]] میں [[پوری]] اور [[بھدرک]] کے مابین؛ سمندر کا تھوڑا سا پھیلا ہوا حصہ نکلتا ہے، جس سے (سی آر آر آئی کو) کسی بھی [[طوفانی سرگرمی]] کا خطرہ ہوتا ہے۔ <ref>{{Cite web|title=Merger of the Princely States of Odisha – History of Odisha|url=https://www.historyofodisha.in/merger-of-the-princely-states-of-odisha/|language=en-US|access-date=2020-05-12}}</ref>
[[اوڈیشا]] میں [[پوری]] اور [[
بھدرک]] کے مابین؛ سمندر کا تھوڑا سا پھیلا ہوا حصہ نکلتا ہے، جس سے (سی آر آر آئی کو) کسی بھی [[طوفانی سرگرمی]] کا خطرہ ہوتا ہے۔ و55و


ریاست کا تین چوتھائی حصہ پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ ندیوں کے ذریعہ ان میں گہری اور وسیع وادیاں بنائی گئی ہیں۔ ان وادیوں میں زرخیز مٹی ہے اور گنجان آباد ہے۔ اڈیشہ میں بھی پلیٹاؤس اور اوپر کی طرف لڑھکتے حصے ہیں، جو موازنہ میں پہاڑیوں سے کم اونچائی پر ہیں۔ و53و ریاست کا سب سے اونچا مقام "دیومالی" 1،672 میٹر پر ہے۔ دوسری اونچی چوٹیاں یہ ہیں: "سِنکارام" (1،620 میٹر پر)، "گولیکوڈا" (1،617 میٹر پر)، اور "یندِریکا" (1،582 میٹر پر)۔ و56و
ریاست کا تین چوتھائی حصہ پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ ندیوں کے ذریعہ ان میں گہری اور وسیع وادیاں بنائی گئی ہیں۔ ان وادیوں میں زرخیز مٹی ہے اور گنجان آباد ہے۔ اڈیشہ میں بھی پلیٹاؤس اور اوپر کی طرف لڑھکتے حصے ہیں، جو موازنہ میں پہاڑیوں سے کم اونچائی پر ہیں۔ <ref name="autogenerated4" /> ریاست کا سب سے اونچا مقام "دیومالی" 1،672 میٹر پر ہے۔ دوسری اونچی چوٹیاں یہ ہیں: "سِنکارام" (1،620 میٹر پر)، "گولیکوڈا" (1،617 میٹر پر)، اور "یندِریکا" (1،582 میٹر پر)۔ <ref>{{cite web|title=Geography of Odisha|url=http://www.archive.india.gov.in/knowindia/state_uts.php?id=81|website=Know India|publisher=[[Government of India]]|access-date=3 February 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20150204220248/http://www.archive.india.gov.in/knowindia/state_uts.php?id=81|archive-date=4 February 2015|url-status=live}}</ref>


== آب و ہوا ==
== آب و ہوا ==


ریاست چار موسمیاتی موسموں کا تجربہ کرتی ہے: سردی (جنوری تا فروری)، "پری-مون سون سیزن (بارش سے پہلے کا موسم)" (مارچ سے مئی)، "جنوب مغربی مانسون کا سیزن" (جون تا ستمبر) اور "شمال مشرقی مون سون کا سیزن" (اکتوبر – دسمبر)۔ تاہم مقامی طور پر سال کو چھ روایتی موسموں (یا روٹس) میں تقسیم کیا جاتا ہے:
ریاست چار موسمیاتی موسموں کا تجربہ کرتی ہے: سردی (جنوری تا فروری)، "پری-مون سون سیزن (بارش سے پہلے کا موسم)" (مارچ سے مئی)، "جنوب مغربی مانسون کا سیزن" (جون تا ستمبر) اور "شمال مشرقی مون سون کا سیزن" (اکتوبر – دسمبر)۔ تاہم مقامی طور پر سال کو چھ روایتی موسموں (یا روٹس) میں تقسیم کیا جاتا ہے:
"گِرِشما" (موسمِ گرما)،
"گِرِشما" (موسمِ گرما)،


"بَرشا" (بارش کا موسم)،
"بَرشا" (بارش کا موسم)،


"شَرَٹا" (موسمِ خزاں، پت جھڑ کا موسم)،
"شَرَٹا" (موسمِ خزاں، پت جھڑ کا موسم)،


"ہیمنتا" (اوس)،
"ہیمنتا" (اوس)،


"شِیتا" (موسمِ سرما کا موسم)
"شِیتا" (موسمِ سرما کا موسم)


بَسنتا (موسمِ بہار)۔ و53و
بَسنتا (موسمِ بہار)۔ <ref name="autogenerated4" />


== حیاتیاتی تنوع ==
== حیاتیاتی تنوع ==
2012ء میں [["فوریسٹ سروے آف انڈیا"]] کی ایک رپورٹ کے مطابق؛ اڈیشہ میں 48،903 مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جو ریاست کے کل رق٪31.
2012ء میں [["فوریسٹ سروے آف انڈیا"]] کی ایک رپورٹ کے مطابق؛ اڈیشہ میں 48،903 مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جو ریاست کے کل رق٪31.
صد ہیں۔ جنگلات کی درجہ بندی کی جاتی ہے: "گھنے جنگل" (7،060 مربع کلومیٹر)، "درمیانے گھنے جنگل" (21،366 مربع کلومیٹر)، "کھلا جنگل" (بغیر چھتری والا جنگل 20 20،477 مربع کلومیٹر) اور "جھاڑی والا جنگل" (4،734 مربع کلومیٹر )۔ "ریاست میں بانس کے جنگلات" (10،518 مربع کلومیٹر ) اور "مینگروز" (221 مربع کلومیٹر ) بھی ہیں۔ ریاست؛ لکڑیوں کی اِسمگلنگ، کان کَنی، صنعتی کمپنیوں اور چرنے چرانے (grazing) سے اپنے جنگلات کھو رہی ہے۔ تحفظ اور جنگلات کی کَٹائی کے سلسلے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔ و57و
صد ہیں۔ جنگلات کی درجہ بندی کی جاتی ہے: "گھنے جنگل" (7،060 مربع کلومیٹر)، "درمیانے گھنے جنگل" (21،366 مربع کلومیٹر)، "کھلا جنگل" (بغیر چھتری والا جنگل 20 20،477 مربع کلومیٹر) اور "جھاڑی والا جنگل" (4،734 مربع کلومیٹر )۔ "ریاست میں بانس کے جنگلات" (10،518 مربع کلومیٹر ) اور "مینگروز" (221 مربع کلومیٹر ) بھی ہیں۔ ریاست؛ لکڑیوں کی اِسمگلنگ، کان کَنی، صنعتی کمپنیوں اور چرنے چرانے (grazing) سے اپنے جنگلات کھو رہی ہے۔ تحفظ اور جنگلات کی کَٹائی کے سلسلے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔ <ref>{{cite web|title=Cuttack |url=http://odisha.gov.in/ |publisher=[[Government of Odisha]] |access-date=6 August 2015 |url-status=bot: unknown |archive-url=https://web.archive.org/web/20121206115854/http://odisha.gov.in//portal/ViewDetails.asp?vchglinkid=GL010&vchplinkid=PL066&vchslinkid=SL050 |archive-date=6 December 2012 }}</ref>


آب و ہوا اور اچھی بارش کی وجہ سے اوڈیشا کے سدا بہار اور نم جنگل؛ جنگلی آرکڈز (orchids) کے لیے مناسب رہائش گاہ ہیں۔ ریاست سے 130 کے قریب پرجاتیوں (جانوروں کے اقسام) کی اطلاع ملی ہے۔ و58و ان میں سے 97 اکیلے "میوربھنج ضلع" میں پائے جاتے ہیں۔ "نندَن کانَن بایولوجیکل پارک" کا "آرکڈ ہاؤس" ان میں سے کچھ پرجاتیوں کی میزبانی کرتا ہے۔ و59و
آب و ہوا اور اچھی بارش کی وجہ سے اوڈیشا کے سدا بہار اور نم جنگل؛ جنگلی آرکڈز (orchids) کے لیے مناسب رہائش گاہ ہیں۔ ریاست سے 130 کے قریب پرجاتیوں (جانوروں کے اقسام) کی اطلاع ملی ہے۔ <ref>{{cite journal |last1=Dasgupta |first1=Alakananda |last2=Priyadarshini |first2=Subhra |title=Why Odisha is a sitting duck for extreme cyclones |journal=Nature India |date=29 May 2019 |doi=10.1038/nindia.2019.69 |doi-broken-date=18 January 2021 |url=https://www.natureasia.com/en/nindia/article/10.1038/nindia.2019.69}}</ref> ان میں سے 97 اکیلے "میوربھنج ضلع" میں پائے جاتے ہیں۔ "نندَن کانَن بایولوجیکل پارک" کا "آرکڈ ہاؤس" ان میں سے کچھ پرجاتیوں کی میزبانی کرتا ہے۔ <ref>{{cite book|title=Socio-economic Profile of Rural India (series II).: Eastern India (Orissa, Jharkhand, West Bengal, Bihar and Uttar Pradesh)|url=https://books.google.com/books?id=Fi_rz0_1ELUC&pg=PA73|access-date=4 February 2015|year=2011|publisher=Concept Publishing Company|isbn=978-81-8069-723-4|page=73|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=Fi_rz0_1ELUC&pg=PA73|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


[[سملی پال نیشنل پارک]] ایک محفوظ [[وائلڈ لائف ایریا]] اور [[میوربھنج ضلع]] کے شمالی حصے کے 2،750 مربع کلومیٹر علاقے میں پھیلا ہوا [[ٹائیگر ریزرو]] ہے۔ اس میں پودوں کی 1078 اقسام ہیں، جن میں 94 [[آرکڈز]] شامل ہیں۔
[[سملی پال نیشنل پارک]] ایک محفوظ [[وائلڈ لائف ایریا]] اور [[میوربھنج ضلع]] کے شمالی حصے کے 2،750 مربع کلومیٹر علاقے میں پھیلا ہوا [[ٹائیگر ریزرو]] ہے۔ اس میں پودوں کی 1078 اقسام ہیں، جن میں 94 [[آرکڈز]] شامل ہیں۔


[[سال درخت]] وہاں درختوں کی بنیادی نوع ہے۔ اس پارک میں 55 [[ممالیہ]] (ستنداری) جانور ہیں، جن میں "[[بھونکنے والے ہرن]]"، "[[بنگال ٹائیگر]]"، "[[عام لنگر]]"، "[[چار سینگوں والا ہرن]]"، "[[ہندوستانی بائسن]]"، "[[ہندوستانی ہاتھی]]"، "[[بھارتی دیو گلہری]]"، "[[ہندوستانی چیتا]]"، "[[جنگلی بلی]]"، "[[سمبر ہرن]]"، اور "[[جنگلی سور]]" شامل ہیں۔ اس پارک میں پرندوں کی 304 اقسام ہیں، جیسے "[[عام پہاڑی مینا]]"، [[ہندوستانی سرمئی ہارن بل]]"، "[[انڈین پائیڈ ہورن بل]]" اور "[[مالابار پیڈ ہارن بل]]"۔ اس میں 60 قسم کے رینگنے والے جانور بھی موجود ہیں، ان میں "[[کنگ کوبرا]]"، "[[بینڈیڈ کرائٹ]]" اور "[[ٹرائرینیٹ پہاڑی کچھی/کچھوا]]" شامل ہیں۔ "[[قریبی رامتیرتھا]]" میں [[مگرمچھ]] پالنے کا پروگرام بھی ہے۔ و60و
[[سال درخت]] وہاں درختوں کی بنیادی نوع ہے۔ اس پارک میں 55 [[ممالیہ]] (ستنداری) جانور ہیں، جن میں "[[بھونکنے والے ہرن]]"، "[[بنگال ٹائیگر]]"، "[[عام لنگر]]"، "[[چار سینگوں والا ہرن]]"، "[[ہندوستانی بائسن]]"، "[[ہندوستانی ہاتھی]]"، "[[بھارتی دیو گلہری]]"، "[[ہندوستانی چیتا]]"، "[[جنگلی بلی]]"، "[[سمبر ہرن]]"، اور "[[جنگلی سور]]" شامل ہیں۔ اس پارک میں پرندوں کی 304 اقسام ہیں، جیسے "[[عام پہاڑی مینا]]"، [[ہندوستانی سرمئی ہارن بل]]"، "[[انڈین پائیڈ ہورن بل]]" اور "[[مالابار پیڈ ہارن بل]]"۔ اس میں 60 قسم کے رینگنے والے جانور بھی موجود ہیں، ان میں "[[کنگ کوبرا]]"، "[[بینڈیڈ کرائٹ]]" اور "[[ٹرائرینیٹ پہاڑی کچھی/کچھوا]]" شامل ہیں۔ "[[قریبی رامتیرتھا]]" میں [[مگرمچھ]] پالنے کا پروگرام بھی ہے۔ <ref>{{cite web|title=Monthly mean maximum & minimum temperature and total rainfall based upon 1901–2000 data |url=http://www.imd.gov.in/doc/climateimp.pdf |publisher=[[India Meteorological Department]] |access-date=6 February 2015 |url-status=dead |archive-url=https://web.archive.org/web/20150413020426/http://www.imd.gov.in/doc/climateimp.pdf |archive-date=13 April 2015 }}</ref>


"[[چَندَکا ایلیفینٹ سینکوریری]]" (ہاتھیوں کا ایک محفوظ مقام) دارالحکومت [[بھوبنیشور]] کے قریب 190 مربع کلومیٹر محفوظ علاقہ ہے۔ تاہم شہری توسیع اور زیادہ چرنے سے جنگلات کم ہوگئے ہیں اور ہاتھیوں کے ریوڑ کو ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔ 2002ء میں تقریباً 80 ہاتھی تھے۔ لیکن 2012 تک ان کی تعداد کم ہوکر 20 ہوگئی تھی۔ بہت سارے جانور "[[باربرا رِیزَرو جنگل]]"، "[[چیلیکا]]"، "[[نیاگڑھ ضلع]]"، اور "[[آٹھ گڑھ]]" کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ ہاتھی دیہاتیوں کے ساتھ تنازعات میں ہلاک ہوگئے ہیں، جبکہ کچھ ہجرت کے دوران میں بجلی کی لائنوں سے بجلی گرنے یا ٹرینوں کی زد میں آنے سے انتقال کرگئے ہیں۔ محفوظ علاقے کے باہر وہ شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ و61و و62و ہاتھیوں کے علاوہ، اس مقدس جگہ میں "[[ہندوستانی چیتے]]"، "[[جنگلى بلیاں]]" اور "[[چیتل]]" (جیسے [[داغدار ہرن]]) بھی ہیں۔ و63و
"[[چَندَکا ایلیفینٹ سینکوریری]]" (ہاتھیوں کا ایک محفوظ مقام) دارالحکومت [[بھوبنیشور]] کے قریب 190 مربع کلومیٹر محفوظ علاقہ ہے۔ تاہم شہری توسیع اور زیادہ چرنے سے جنگلات کم ہوگئے ہیں اور ہاتھیوں کے ریوڑ کو ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔ 2002ء میں تقریباً 80 ہاتھی تھے۔ لیکن 2012 تک ان کی تعداد کم ہوکر 20 ہوگئی تھی۔ بہت سارے جانور "[[باربرا رِیزَرو جنگل]]"، "[[چیلیکا]]"، "[[نیاگڑھ ضلع]]"، اور "[[آٹھ گڑھ]]" کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ ہاتھی دیہاتیوں کے ساتھ تنازعات میں ہلاک ہوگئے ہیں، جبکہ کچھ ہجرت کے دوران میں بجلی کی لائنوں سے بجلی گرنے یا ٹرینوں کی زد میں آنے سے انتقال کرگئے ہیں۔ محفوظ علاقے کے باہر وہ شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Study shows Odisha forest cover shrinking|url=http://timesofindia.indiatimes.com/city/bhubaneswar/Study-shows-Odisha-forest-cover-shrinking/articleshow/11904659.cms|access-date=5 February 2015|work=[[The Times of India]]|date=16 February 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://timesofindia.indiatimes.com/city/bhubaneswar/Study-shows-Odisha-forest-cover-shrinking/articleshow/11904659.cms|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite book|title=Underutilized and Underexploited Horticultural Crops|url=https://books.google.com/books?id=-D1RR7A3HfUC&pg=PA116|access-date=5 February 2015|date=1 January 2007|publisher=New India Publishing|isbn=978-81-89422-60-8|page=116|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=-D1RR7A3HfUC&pg=PA116|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> ہاتھیوں کے علاوہ، اس مقدس جگہ میں "[[ہندوستانی چیتے]]"، "[[جنگلى بلیاں]]" اور "[[چیتل]]" (جیسے [[داغدار ہرن]]) بھی ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Orchid House a haven for nature lovers|url=http://www.telegraphindia.com/1100823/jsp/orissa/story_12842681.jsp|access-date=5 February 2015|work=[[The Telegraph (India)|The Telegraph]]|date=23 August 2010|archive-url=https://web.archive.org/web/20150205133023/http://www.telegraphindia.com/1100823/jsp/orissa/story_12842681.jsp|archive-date=5 February 2015|url-status=dead}}</ref>


"[[ضلع کیندرا پاڑہ]]" کا "[[بھیتر کنیکا نیشنل پارک]]" 650 پر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں سے 150 مربع کلومیٹر "[[مینگرووز]]" ہیں۔ مینگروو؛ ایک جھاڑی یا چھوٹا درخت ہے، جو ساحلی نمکین یا کھارے پانی میں اگتا ہے۔ "بِھیتر کنیکا" کا "[[گہیرا ماتھا ساحل سمندر]]" "[[زیتون کے رائڈلی سمندری کچھووں]]" کے لیے دنیا کا سب سے بڑا گھونسلا کرنے کی جگہ ہے۔ و64و
"[[ضلع کیندرا پاڑہ]]" کا "[[بھیتر کنیکا نیشنل پارک]]" 650 پر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں سے 150 مربع کلومیٹر "[[مینگرووز]]" ہیں۔ مینگروو؛ ایک جھاڑی یا چھوٹا درخت ہے، جو ساحلی نمکین یا کھارے پانی میں اگتا ہے۔ "بِھیتر کنیکا" کا "[[گہیرا ماتھا ساحل سمندر]]" "[[زیتون کے رائڈلی سمندری کچھووں]]" کے لیے دنیا کا سب سے بڑا گھونسلا کرنے کی جگہ ہے۔ <ref>{{cite web|title=Similipal Tiger Reserve|url=http://www.wwfindia.org/about_wwf/critical_regions/national_parks_tiger_reserves/similipal_tiger_reserve/|website=[[World Wide Fund for Nature]], India|access-date=5 February 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20150205152048/http://www.wwfindia.org/about_wwf/critical_regions/national_parks_tiger_reserves/similipal_tiger_reserve/|archive-date=5 February 2015|url-status=live}}</ref>


ریاست میں کچھی کے لیے گھونسلے کے دیگر بڑے میدان "[[گنجام ضلع]]" میں "[[رشوکولیا]]" اور "[[دیوی ندی]]" کا منہ ہیں۔ و65و و66و "[[بھیتر کنیکا سنچری]]" میں وافر "[[نمک-پانی مگرمچھوں]]" کی بڑی آبادی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ و67و
ریاست میں کچھی کے لیے گھونسلے کے دیگر بڑے میدان "[[گنجام ضلع]]" میں "[[رشوکولیا]]" اور "[[دیوی ندی]]" کا منہ ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Banished from their homes|url=http://www.dailypioneer.com/columnists/item/52316-banished-from-their-homes.html|access-date=5 February 2015|work=[[The Pioneer (newspaper)|The Pioneer]]|date=29 August 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20120904034144/http://www.dailypioneer.com/columnists/item/52316-banished-from-their-homes.html|archive-date=4 September 2012}}</ref> <ref>{{cite news|title=Away from home, Chandaka elephants face a wipeout|url=http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Away-from-home-Chandaka-elephants-face-a-wipeout/2013/08/23/article1747976.ece|work=[[The New Indian Express]]|date=23 August 2013|access-date=5 February 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20150205151829/http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Away-from-home-Chandaka-elephants-face-a-wipeout/2013/08/23/article1747976.ece|archive-date=5 February 2015|url-status=live}}</ref> "[[بھیتر کنیکا سنچری]]" میں وافر "[[نمک-پانی مگرمچھوں]]" کی بڑی آبادی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ <ref>{{cite book|author=Sharad Singh Negi|title=Biodiversity and Its Conservation in India|url=https://books.google.com/books?id=PjfVFGM4p6wC&pg=PA242|access-date=5 February 2015|date=1 January 1993|publisher=Indus Publishing|isbn=978-81-85182-88-9|page=242|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=PjfVFGM4p6wC&pg=PA242|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>
سردیوں کے موسم میں اس پناہ گاہ میں مہاجر پرندے بھی جاتے ہیں۔ "سَنچُری" میں پائے جانے والے پرندوں کی انواع میں "[[سیاہ فام نائٹ ہیرون]]"، "[[ڈارٹر]]"، "[[گرے (سرمئی) بگلا]]"، "[[انڈین کورمورنٹ]]"، "[[اورینٹل وائٹ آئبیس]]"، "[[جامنی رنگ کا بگلا]]"، اور "[[سارس کرین]]" شامل ہیں۔ و68و
سردیوں کے موسم میں اس پناہ گاہ میں مہاجر پرندے بھی جاتے ہیں۔ "سَنچُری" میں پائے جانے والے پرندوں کی انواع میں "[[سیاہ فام نائٹ ہیرون]]"، "[[ڈارٹر]]"، "[[گرے (سرمئی) بگلا]]"، "[[انڈین کورمورنٹ]]"، "[[اورینٹل وائٹ آئبیس]]"، "[[جامنی رنگ کا بگلا]]"، اور "[[سارس کرین]]" شامل ہیں۔ <ref>{{cite book|author=Venkatesh Salagrama|title=Trends in Poverty and Livelihoods in Coastal Fishing Communities of Orissa State, India|url=https://books.google.com/books?id=3m6XG0WippUC&pg=PA16|access-date=5 February 2015|year=2006|publisher=Food & Agriculture Org.|isbn=978-92-5-105566-3|pages=16–17|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=3m6XG0WippUC&pg=PA16|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


اس خطے میں ممکنہ طور پر خطرے سے دوچار "[[گھوڑے کی نعل کی شکل کا کیکڑا]]" بھی پایا جاتا ہے۔ و69و
اس خطے میں ممکنہ طور پر خطرے سے دوچار "[[گھوڑے کی نعل کی شکل کا کیکڑا]]" بھی پایا جاتا ہے۔ <ref>{{cite news|title=Olive Ridley turtles begin mass nesting|url=http://www.thehindu.com/news/national/olive-ridley-turtles-begin-mass-nesting/article5678344.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=12 February 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164643/http://www.thehindu.com/news/national/olive-ridley-turtles-begin-mass-nesting/article5678344.ece|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref>




"[[چیلیکا جھیل]]"؛ اڈیشہ کے مشرقی ساحل پر ایک کھارے پانی کی [[کھاڑی]] والا [[جھیل]] ہے جس کا رقبہ 1،105 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ 35 کلومیٹر طویل "[[تنگ چینل]]" کے ذریعہ [[خلیج بنگال]] سے منسلک ہے اور "[[مہاندی ڈیلٹا]]" کا ایک حصہ ہے۔ خشک موسم میں "[[جوار]]"؛ نمکین پانی لاتے ہیں۔ بارش کے موسم میں نالے میں گرنے والی ندیوں کی نمکینی میں کمی آ جاتی ہے۔ و70و "[[بحر کیسپین]]"، "[[بیکال جھیل]]"، [[روس]] کے دیگر حصوں، [[وسطی ایشیا]]، [[جنوب مشرقی ایشیا]]، "[[لداخ]]" اور "[[ہمالیہ]]" کے مقامات سے پرندے؛ سردیوں میں جھیل میں ہجرت کرتے ہیں۔ و71و نشان زد پرندوں میں "[[یوریشین ویگن]]"، "[[پنٹیل]]"، "[[بار سر والا ہنس]]"، "[[گریلاگ ہنس]]"، "[[فلیمنگو]]"، "[[ملارڈ]]" اور "[[گولیتھ بگلا]]" موجود ہیں۔ و72و و73و کھاڑی میں خطرے سے دوچار "[[اراوڑی ڈولفن]]" کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے۔ و74و ریاست کے ساحلی علاقوں یعنی اس کے پانیوں میں "[[فائنلیس پورپائز]]"، "[[بوٹلنوز ڈالفن]]"، "[[ہمپ بیک ڈولفن]]" اور "[[اسپنر ڈالفن]]" بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ و75و
"[[چیلیکا جھیل]]"؛ اڈیشہ کے مشرقی ساحل پر ایک کھارے پانی کی [[کھاڑی]] والا [[جھیل]] ہے جس کا رقبہ 1،105 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ 35 کلومیٹر طویل "[[تنگ چینل]]" کے ذریعہ [[خلیج بنگال]] سے منسلک ہے اور "[[مہاندی ڈیلٹا]]" کا ایک حصہ ہے۔ خشک موسم میں "[[جوار]]"؛ نمکین پانی لاتے ہیں۔ بارش کے موسم میں نالے میں گرنے والی ندیوں کی نمکینی میں کمی آ جاتی ہے۔ <ref>{{cite news|title=Mass nesting of Olive Ridleys begins at Rushikulya beach|url=http://www.thehindu.com/2004/03/15/stories/2004031505150300.htm|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=15 March 2004|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://www.thehindu.com/2004/03/15/stories/2004031505150300.htm|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref> "[[بحر کیسپین]]"، "[[بیکال جھیل]]"، [[روس]] کے دیگر حصوں، [[وسطی ایشیا]]، [[جنوب مشرقی ایشیا]]، "[[لداخ]]" اور "[[ہمالیہ]]" کے مقامات سے پرندے؛ سردیوں میں جھیل میں ہجرت کرتے ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Bhitarkanika Park to be Closed for Crocodile Census|url=http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Bhitarkanika-Park-to-be-Closed-for-Crocodile-Census/2013/12/03/article1925220.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The New Indian Express]]|date=3 December 2013|archive-url=https://web.archive.org/web/20150205162831/http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Bhitarkanika-Park-to-be-Closed-for-Crocodile-Census/2013/12/03/article1925220.ece|archive-date=5 February 2015|url-status=live}}</ref> نشان زد پرندوں میں "[[یوریشین ویگن]]"، "[[پنٹیل]]"، "[[بار سر والا ہنس]]"، "[[گریلاگ ہنس]]"، "[[فلیمنگو]]"، "[[ملارڈ]]" اور "[[گولیتھ بگلا]]" موجود ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Bird Count Rises in Bhitarkanika|url=http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Bird-Count-Rises-in-Bhitarkanika/2014/09/14/article2430718.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The New Indian Express]]|date=14 September 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20150205162754/http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Bird-Count-Rises-in-Bhitarkanika/2014/09/14/article2430718.ece|archive-date=5 February 2015|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite news|title=Concern over dwindling horseshoe crab population|url=http://www.thehindu.com/news/national/tamil-nadu/concern-over-dwindling-horseshoe-crab-population/article5435987.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=8 December 2013|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://www.thehindu.com/news/national/tamil-nadu/concern-over-dwindling-horseshoe-crab-population/article5435987.ece|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref> کھاڑی میں خطرے سے دوچار "[[اراوڑی ڈولفن]]" کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے۔ <ref>{{cite book|author1=Pushpendra K. Agarwal|author2=Vijay P. Singh|title=Hydrology and Water Resources of India|url=https://books.google.com/books?id=ZKs1gBhJSWIC&pg=PA984|access-date=5 February 2015|date=16 May 2007|publisher=Springer Science & Business Media|isbn=978-1-4020-5180-7|page=984|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=ZKs1gBhJSWIC&pg=PA984|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> ریاست کے ساحلی علاقوں یعنی اس کے پانیوں میں "[[فائنلیس پورپائز]]"، "[[بوٹلنوز ڈالفن]]"، "[[ہمپ بیک ڈولفن]]" اور "[[اسپنر ڈالفن]]" بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Number of birds visiting Chilika falls but new species found|url=http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-in-school/number-of-birds-visiting-chilika-falls-but-new-species-found/article4288574.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=9 January 2013|archive-url=https://web.archive.org/web/20140831173859/http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-in-school/number-of-birds-visiting-chilika-falls-but-new-species-found/article4288574.ece|archive-date=31 August 2014|url-status=live}}</ref>


"[[ساتا پاڑہ]]"؛ [[چیلیکا جھیل]] اور [[خلیج بنگال]] بنگال کے شمال مشرقی "[[کیپ]]" کے قریب واقع ہے۔ یہ اپنے قدرتی رہائش گاہ میں "[[ڈالفن]]" دیکھنے کے لیے مشہور ہے۔ وہاں ڈالفن دیکھنے کے لیے ایک چھوٹا جزیرہ ہے، جہاں سیاح اکثر ایک چھوٹا سا وقفہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جزیرہ ""[[چھوٹے چھوٹے سرخ کیکڑوں]]" کا گھر بھی ہے۔
"[[ساتا پاڑہ]]"؛ [[چیلیکا جھیل]] اور [[خلیج بنگال]] بنگال کے شمال مشرقی "[[کیپ]]" کے قریب واقع ہے۔ یہ اپنے قدرتی رہائش گاہ میں "[[ڈالفن]]" دیکھنے کے لیے مشہور ہے۔ وہاں ڈالفن دیکھنے کے لیے ایک چھوٹا جزیرہ ہے، جہاں سیاح اکثر ایک چھوٹا سا وقفہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جزیرہ ""[[چھوٹے چھوٹے سرخ کیکڑوں]]" کا گھر بھی ہے۔
سطر 95: سطر 94:
== حکومت اور سیاست ==
== حکومت اور سیاست ==


[[بھارت]] میں تمام ریاستوں پر [[عالمی جمہوری حق رائے دہی]] پر مبنی حکومت کے ایک پارلیمانی نظام کی حکومت ہوتی ہے۔ <ref>{{cite news|title=Chilika registers sharp drop in winged visitors|url=http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-national/tp-otherstates/chilika-registers-sharp-drop-in-winged-visitors/article5572489.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=13 January 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-national/tp-otherstates/chilika-registers-sharp-drop-in-winged-visitors/article5572489.ece|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite news|title=Two new species of migratory birds sighted in Chilika Lake|url=http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-national/tp-otherstates/two-new-species-of-migratory-birds-sighted-in-chilika-lake/article4285667.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=8 January 2013|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-national/tp-otherstates/two-new-species-of-migratory-birds-sighted-in-chilika-lake/article4285667.ece|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref>
[[بھارت]] میں تمام ریاستوں پر [[عالمی جمہوری حق رائے دہی]] پر مبنی حکومت کے ایک پارلیمانی نظام کی حکومت ہوتی ہے۔ و76و و77و


[[اوڈیشا]] کی سیاست میں سرگرم مرکزی پارٹیاں: "[[بیجو جنتا دل]]"، "[[انڈین نیشنل کانگریس]]" اور "[[بھارتیہ جنتا پارٹی]]" ہیں۔ 2019ء میں اوڈیشا کے [[ریاستی اسمبلی انتخابات]] کے بعد؛ [[نوین پٹنائک]] کی زیر قیادت؛ [[بیجو جنتا دل]] مسلسل چھٹی بار اقتدار میں رہی، نوین [[نوین پٹنائک]] سن 2000ء کے بعد سے [[وزیر اعلی]] کے 14 ویں وزیر اعلی ہیں۔ و78و
[[اوڈیشا]] کی سیاست میں سرگرم مرکزی پارٹیاں: "[[بیجو جنتا دل]]"، "[[انڈین نیشنل کانگریس]]" اور "[[بھارتیہ جنتا پارٹی]]" ہیں۔ 2019ء میں اوڈیشا کے [[ریاستی اسمبلی انتخابات]] کے بعد؛ [[نوین پٹنائک]] کی زیر قیادت؛ [[بیجو جنتا دل]] مسلسل چھٹی بار اقتدار میں رہی، نوین [[نوین پٹنائک]] سن 2000ء کے بعد سے [[وزیر اعلی]] کے 14 ویں وزیر اعلی ہیں۔ <ref>{{cite news|title=Dolphin population on rise in Chilika Lake|url=http://www.thehindu.com/news/national/other-states/dolphin-population-on-rise-in-chilika-lake/article108981.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The Hindu]]|date=18 February 2010|archive-url=https://web.archive.org/web/20151017164642/http://www.thehindu.com/news/national/other-states/dolphin-population-on-rise-in-chilika-lake/article108981.ece|archive-date=17 October 2015|url-status=live}}</ref>


== قانون ساز اسمبلی ==
== قانون ساز اسمبلی ==


[[ریاست اوڈیشہ]] میں ایک ہی "[[یکسانیت پسندی والی مقننہ]]" ہے۔ و79و [[اڈیشہ قانون ساز اسمبلی]] میں 147 منتخب ممبران، و80و اور [[اسپیکر]] اور [[ڈپٹی اسپیکر]] جیسے خصوصی [[عہدہ دار]] شامل ہیں، جو ممبران کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں کی صدارت اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے یا اسپیکر کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر کے ذریعہ ہوتا ہے۔ و81و [[ایگزیکٹو اتھارٹی]] وزیر وزیر اعلی کی سربراہی میں [[وزرا]] کی [[کونسل]] میں رکھی گئی ہے، حالاں کہ حکومت کے [[ٹائٹل سربراہ]] اوڈیشا کے گورنر ہیں۔ گورنر کا [[تقرر]]؛ [[بھارت]] کے [[راشٹر پتی]] کرتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں اکثریت کی حامل پارٹی یا اتحاد کے رہنما؛ گورنر کے ذریعہ وزیر اعلی کے عہدے پر مقرر ہوتے ہیں اور وزیر اعلی کے مشورے پر گورنر کے ذریعہ [[قانون ساز اسمبلی]] کی کونسل کا تقرر کیا جاتا ہے۔ وزرا کی کونسل قانون ساز اسمبلی کو رپورٹ کرتی ہے۔ و82و منتخب ہونے والے 147 نمائندوں کو [[ارکان اسمبلی]]، یا [[ایم ایل اے]] کہا جاتا ہے۔ ایک "ایم ایل اے" گورنر کے ذریعہ "[[اینگلو ہندوستانی برادری]]" سے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ و83و عہدے کی مدت پانچ سال کے لیے ہے، جب کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں ہوجاتی ہے۔ و81و
[[ریاست اوڈیشہ]] میں ایک ہی "[[یکسانیت پسندی والی مقننہ]]" ہے۔ <ref>{{cite news|title=Maiden Dolphin Census in State's Multiple Places on Cards|url=http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Maiden-Dolphin-Census-in-State%E2%80%99s-Multiple-Places-on-Cards/2015/01/20/article2627780.ece|access-date=5 February 2015|work=[[The New Indian Express]]|date=20 January 2015|archive-url=https://web.archive.org/web/20150123131044/http://www.newindianexpress.com/states/odisha/Maiden-Dolphin-Census-in-State%E2%80%99s-Multiple-Places-on-Cards/2015/01/20/article2627780.ece|archive-date=23 January 2015|url-status=live}}</ref> [[اڈیشہ قانون ساز اسمبلی]] میں 147 منتخب ممبران، <ref>{{cite book|author1=Chandan Sengupta|author2=Stuart Corbridge|title=Democracy, Development and Decentralisation in India: Continuing Debates|url=https://books.google.com/books?id=AXbYAQAAQBAJ&pg=PA8|access-date=15 February 2015|date=28 October 2013|publisher=Routledge|isbn=978-1-136-19848-9|page=8|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=AXbYAQAAQBAJ&pg=PA8|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> اور [[اسپیکر]] اور [[ڈپٹی اسپیکر]] جیسے خصوصی [[عہدہ دار]] شامل ہیں، جو ممبران کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں کی صدارت اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے یا اسپیکر کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر کے ذریعہ ہوتا ہے۔ <ref name="autogenerated5">{{cite web |title=Our Parliament |website=[[Lok Sabha]] |publisher=[[Government of India]] |url=http://164.100.47.132/LssNew/our%20parliament/Our%20Parliament.pdf |access-date=2 February 2015 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150203104729/http://164.100.47.132/LssNew/our%20parliament/Our%20Parliament.pdf |archive-date=3 February 2015 |url-status=dead }}</ref> [[ایگزیکٹو اتھارٹی]] وزیر وزیر اعلی کی سربراہی میں [[وزرا]] کی [[کونسل]] میں رکھی گئی ہے، حالاں کہ حکومت کے [[ٹائٹل سربراہ]] اوڈیشا کے گورنر ہیں۔ گورنر کا [[تقرر]]؛ [[بھارت]] کے [[راشٹر پتی]] کرتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں اکثریت کی حامل پارٹی یا اتحاد کے رہنما؛ گورنر کے ذریعہ وزیر اعلی کے عہدے پر مقرر ہوتے ہیں اور وزیر اعلی کے مشورے پر گورنر کے ذریعہ [[قانون ساز اسمبلی]] کی کونسل کا تقرر کیا جاتا ہے۔ وزرا کی کونسل قانون ساز اسمبلی کو رپورٹ کرتی ہے۔ <ref>{{cite book|author=Ada W. Finifter|author-link1=Ada Finifter|title=Political Science|url=https://books.google.com/books?id=KFk1K9_yf90C&pg=PA94|access-date=15 February 2015|publisher=FK Publications|isbn=978-81-89597-13-9|page=94|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=KFk1K9_yf90C&pg=PA94|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> منتخب ہونے والے 147 نمائندوں کو [[ارکان اسمبلی]]، یا [[ایم ایل اے]] کہا جاتا ہے۔ ایک "ایم ایل اے" گورنر کے ذریعہ "[[اینگلو ہندوستانی برادری]]" سے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ <ref>{{cite news|title=BJD's landslide victory in Odisha, wins 20 of 21 Lok Sabha seats|url=http://ibnlive.in.com/news/bjds-landslide-victory-in-odisha-wins-20-of-21-lok-sabha-seats/472363-3-234.html|access-date=18 March 2015|publisher=[[CNN-IBN]]|date=17 May 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20140908125021/http://ibnlive.in.com/news/bjds-landslide-victory-in-odisha-wins-20-of-21-lok-sabha-seats/472363-3-234.html|archive-date=8 September 2014|url-status=live}}</ref> عہدے کی مدت پانچ سال کے لیے ہے، جب کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں ہوجاتی ہے۔ <ref name="autogenerated5" />


[[عدليہ]]؛ [[اوڈیشا ہائی کورٹ]]" پر مشتمل ہے، جو [[کٹک]] میں واقع ہے اور نچلی عدالتوں کا ایک نظام ہے۔
[[عدليہ]]؛ [[اوڈیشا ہائی کورٹ]]" پر مشتمل ہے، جو [[کٹک]] میں واقع ہے اور نچلی عدالتوں کا ایک نظام ہے۔
سطر 107: سطر 106:
== ذیلی تقسیم ==
== ذیلی تقسیم ==


اڈیشہ کو 30 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان 30 اضلاع کو اپنی حکمرانی کو ہموار کرنے کے لیے تین مختلف محصولات ڈویژنوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ ڈویژنیں شمالی، وسطی اور جنوبی ہیں، جن کا صدر مقام بالترتیب "سمبل پور"، "کٹک" اور "برہم پور" میں ہے۔ ہر ڈویژن دس اضلاع پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے انتظامی سربراہ بطورِ محصول ایک "ڈویژنل کمشنر" (آر ڈی سی) ہوتا ہے۔ و84و انتظامی درجہ بندی میں "آر ڈی سی" کی پوزیشن ضلعی انتظامیہ اور ریاستی سکریٹریٹ کے درمیان میں ہے۔ و85و "آر ڈی سیز"؛ "بورڈ آف ریونیو" کو رپورٹ کرتے ہیں، جس کی سربراہی "انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس" کے ایک سینئر افسر کے ذریعہ ہوتی ہے۔ و84و
اڈیشہ کو 30 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان 30 اضلاع کو اپنی حکمرانی کو ہموار کرنے کے لیے تین مختلف محصولات ڈویژنوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ ڈویژنیں شمالی، وسطی اور جنوبی ہیں، جن کا صدر مقام بالترتیب "سمبل پور"، "کٹک" اور "برہم پور" میں ہے۔ ہر ڈویژن دس اضلاع پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے انتظامی سربراہ بطورِ محصول ایک "ڈویژنل کمشنر" (آر ڈی سی) ہوتا ہے۔ <ref name="autogenerated6">{{cite book|author=Rajesh Kumar|title=Universal's Guide to the Constitution of India|url=https://books.google.com/books?id=an78gq3JwzYC&pg=PA110|access-date=18 March 2015|publisher=Universal Law Publishing|isbn=978-93-5035-011-9|pages=107–110|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=an78gq3JwzYC&pg=PA110|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> انتظامی درجہ بندی میں "آر ڈی سی" کی پوزیشن ضلعی انتظامیہ اور ریاستی سکریٹریٹ کے درمیان میں ہے۔ <ref>{{cite book|author1=Ramesh Kumar Arora|author2=[[Rajni Goyal]]|title=Indian Public Administration: Institutions and Issues|url=https://books.google.com/books?id=nvzcy7o4sgAC&pg=PA205|access-date=18 March 2015|year=1995|publisher=New Age International|isbn=978-81-7328-068-9|pages=205–207|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=nvzcy7o4sgAC&pg=PA205|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> "آر ڈی سیز"؛ "بورڈ آف ریونیو" کو رپورٹ کرتے ہیں، جس کی سربراہی "انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس" کے ایک سینئر افسر کے ذریعہ ہوتی ہے۔ <ref name="autogenerated6" />


ہر ضلع پر کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ حکومت کرتا ہے، جو "انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس" سے مقرر ہوتا ہے۔ و86و و87و کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ ضلع میں محصول وصولی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ضلع کو "سَب ڈویژنوں" میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک "س‍‍َب کلکٹر" اور "سَب ڈویژن"؛ "مجسٹریٹ" کے زیرِ انتظام ہوتا ہے۔ سب ڈویژنوں کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کی سربراہی؛ تحصیلدار کرتے ہیں۔ اڈیشہ میں 58 سب ڈویژنز، 317 تحصیل اور 314 بلاک ہیں۔ و88و بلاک پنچایت (گاؤں کی کونسلوں) اور ٹاون میونسپلٹیوں پر مشتمل ہیں۔
ہر ضلع پر کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ حکومت کرتا ہے، جو "انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس" سے مقرر ہوتا ہے۔ <ref>{{cite book|author=Subhash Shukla|title=Issues in Indian Polity|url=https://books.google.com/books?id=CAs9PNOfL28C&pg=PA99|access-date=18 March 2015|year=2008|publisher=Anamika Pub. & distributors|isbn=978-81-7975-217-3|page=99|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=CAs9PNOfL28C&pg=PA99|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> <ref>{{cite web|title=About Department |url=http://odisha.gov.in/ |publisher=Revenue & Disaster Management Department, Government of Odisha |access-date=27 March 2015 |url-status=bot: unknown |archive-url=https://web.archive.org/web/20121206115854/http://odisha.gov.in//revenue/web/Aboutus.asp?GL=1&PL=1 |archive-date=6 December 2012 }}</ref> کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ ضلع میں محصول وصولی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ضلع کو "سَب ڈویژنوں" میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک "س‍‍َب کلکٹر" اور "سَب ڈویژن"؛ "مجسٹریٹ" کے زیرِ انتظام ہوتا ہے۔ سب ڈویژنوں کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کی سربراہی؛ تحصیلدار کرتے ہیں۔ اڈیشہ میں 58 سب ڈویژنز، 317 تحصیل اور 314 بلاک ہیں۔ <ref>{{cite book|author=Laxmikanth|title=Governance in India|url=https://books.google.com/books?id=DY1CAQAAQBAJ&pg=SA6-PA17|access-date=27 March 2015|publisher=McGraw-Hill Education (India) Pvt Limited|isbn=978-0-07-107466-7|pages=6–17|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=DY1CAQAAQBAJ&pg=SA6-PA17|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> بلاک پنچایت (گاؤں کی کونسلوں) اور ٹاون میونسپلٹیوں پر مشتمل ہیں۔


ریاست کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر "بھوبنیشور" ہے۔ دوسرے بڑے شہر کٹک، "راورکیلا"، "برہم پور" اور "سمبل پور" ہیں۔ اوڈیشا میں میونسپل کارپوریشنوں میں "بھوبنیشور"، "کٹک"، "برہم پور"، "سمبل پور" اور "راورکیلا" شامل ہیں۔
ریاست کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر "بھوبنیشور" ہے۔ دوسرے بڑے شہر کٹک، "راورکیلا"، "برہم پور" اور "سمبل پور" ہیں۔ اوڈیشا میں میونسپل کارپوریشنوں میں "بھوبنیشور"، "کٹک"، "برہم پور"، "سمبل پور" اور "راورکیلا" شامل ہیں۔
سطر 120: سطر 119:
'''میکرو-معاشی رجحان'''
'''میکرو-معاشی رجحان'''


اوڈیشا مستحکم معاشی نمو کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست کے مجموعی گھریلو مصنوعات میں متاثر کن ترقی کی اطلاع؛ وزارتِ شماریات اور پروگرام پر عمل درآمد نے دی ہے۔ اوڈیشا کی شرحِ نمو قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ و89و مرکزی حکومت کی شہری ترقیاتی وزارت نے حال ہی میں 20 شہروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، جنھیں اسمارٹ شہر کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کا دارالحکومت "بھوبنیشور" جنوری 2016ء میں جاری کردہ سمارٹ شہروں کی فہرست میں پہلا شہر ہے۔ جو ہندوستانی حکومت کا ایک پالتو جانور منصوبہ ہے۔ اس اعلان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پانچ سالوں میں 508.02 ارب روپے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ و90و
اوڈیشا مستحکم معاشی نمو کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست کے مجموعی گھریلو مصنوعات میں متاثر کن ترقی کی اطلاع؛ وزارتِ شماریات اور پروگرام پر عمل درآمد نے دی ہے۔ اوڈیشا کی شرحِ نمو قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ <ref>{{cite web |title=Administrative Unit |url=http://odisha.gov.in/ |publisher=Revenue & Disaster Management Department, Government of Odisha |access-date=27 March 2015 |url-status=dead |archive-url=https://web.archive.org/web/20130821033240/http://www.odisha.gov.in/revenue/web/AdministrativeUnit.asp?GL=2 |archive-date=21 August 2013 }}</ref> مرکزی حکومت کی شہری ترقیاتی وزارت نے حال ہی میں 20 شہروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، جنھیں اسمارٹ شہر کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کا دارالحکومت "بھوبنیشور" جنوری 2016ء میں جاری کردہ سمارٹ شہروں کی فہرست میں پہلا شہر ہے۔ جو ہندوستانی حکومت کا ایک پالتو جانور منصوبہ ہے۔ اس اعلان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پانچ سالوں میں 508.02 ارب روپے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ <ref>{{cite book|author=Siuli Sarkar|title=Public Administration in India|url=https://books.google.com/books?id=smahlYxg-8YC&pg=PA117|access-date=11 August 2015|date=9 November 2009|publisher=PHI Learning Pvt. Ltd.|isbn=978-81-203-3979-8|page=117|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110846/https://books.google.com/books?id=smahlYxg-8YC&pg=PA117|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref>


== صنعتی ترقی ==
== صنعتی ترقی ==


اڈیشہ میں وافر قدرتی وسائل اور ایک بہت بڑا ساحل ہے۔ اوڈیشا بیرون ملک مقیم سرمایہ کاروں کے لیے؛ سرمایہ کاری کی تجاویز کے ساتھ پسندیدہ مقام بن کر ابھرا ہے۔ و91و اس میں ہندوستان کے کوئلے کا پانچواں حصہ، اس کے فولاد کا ایک چوتھائی حصہ، اس کے "بوکسائٹ" ذخائر کا ایک تہائی حصہ اور زیادہ تر "کرومائٹ" شامل ہوتا ہے۔
اڈیشہ میں وافر قدرتی وسائل اور ایک بہت بڑا ساحل ہے۔ اوڈیشا بیرون ملک مقیم سرمایہ کاروں کے لیے؛ سرمایہ کاری کی تجاویز کے ساتھ پسندیدہ مقام بن کر ابھرا ہے۔ <ref>{{cite book|title=Public Administration Dictionary|url=https://books.google.com/books?id=Dg-7OFEp3E8C&pg=PA263|access-date=11 August 2015|year=2012|publisher=Tata McGraw Hill Education|isbn=978-1-259-00382-0|page=263|archive-url=https://web.archive.org/web/20160105110847/https://books.google.com/books?id=Dg-7OFEp3E8C&pg=PA263|archive-date=5 January 2016|url-status=live}}</ref> اس میں ہندوستان کے کوئلے کا پانچواں حصہ، اس کے فولاد کا ایک چوتھائی حصہ، اس کے "بوکسائٹ" ذخائر کا ایک تہائی حصہ اور زیادہ تر "کرومائٹ" شامل ہوتا ہے۔


"راورکیلا اسٹیل پلانٹ" و92و ؛ بھارت میں عوامی شعبہ میں پہلا مربوط "اسٹیل پلانٹ" تھا، جو جرمنی کے اشتراک سے تعمیر کیا گیا تھا۔
"راورکیلا اسٹیل پلانٹ" <ref>{{cite web|url=http://www.financialexpress.com/news/gdp-growth-most-states-grew-faster-than-national-rate-in-201213/1206770|title=GDP growth: Most states grew faster than national rate in 2012–13|work=The Financial Express|date=12 December 2013|access-date=23 May 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20131215183438/http://www.financialexpress.com/news/gdp-growth-most-states-grew-faster-than-national-rate-in-201213/1206770|archive-date=15 December 2013|url-status=live}}</ref> ؛ بھارت میں عوامی شعبہ میں پہلا مربوط "اسٹیل پلانٹ" تھا، جو جرمنی کے اشتراک سے تعمیر کیا گیا تھا۔


"آرسیلر مِتّل" نے ایک اور "میگا اسٹیل منصوبہ" میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایک روسی بڑی "میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی" (ایم ایم کے) نے بھی اوڈیشا میں بھی 10 میگا ٹن اسٹیل پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ "بندھابَہَل، اوڈیشا" میں کوئلے کی کھلی ہوئی کانوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ ریاست؛ "الومینیم" اور "کوئلہ" پر مبنی؛ بجلی گھروں، پیٹرو کیمیکلز، اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں بھی بے مثال سرمایہ کاری کی طرف رغبت کر رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں "ریلائنس پاور" (انیل امبانی گروپ) "جھارسگوڈا ضلع" کے "ہِرما" میں 13 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا "پاور پلانٹ" لگا رہا ہے۔ و93و
"آرسیلر مِتّل" نے ایک اور "میگا اسٹیل منصوبہ" میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایک روسی بڑی "میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی" (ایم ایم کے) نے بھی اوڈیشا میں بھی 10 میگا ٹن اسٹیل پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ "بندھابَہَل، اوڈیشا" میں کوئلے کی کھلی ہوئی کانوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ ریاست؛ "الومینیم" اور "کوئلہ" پر مبنی؛ بجلی گھروں، پیٹرو کیمیکلز، اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں بھی بے مثال سرمایہ کاری کی طرف رغبت کر رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں "ریلائنس پاور" (انیل امبانی گروپ) "جھارسگوڈا ضلع" کے "ہِرما" میں 13 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا "پاور پلانٹ" لگا رہا ہے۔ <ref>{{cite web|url=http://indianexpress.com/article/india/india-news-india/bhubaneswar-tops-first-list-of-smart-cities/|title=Bhubaneswar leads Govt's Smart City list, Rs 50,802 crore to be invested over five years|date=29 January 2016|website=The Indian Express|access-date=21 March 2016|archive-url=https://web.archive.org/web/20160318020954/http://indianexpress.com/article/india/india-news-india/bhubaneswar-tops-first-list-of-smart-cities/|archive-date=18 March 2016|url-status=live}}</ref>


کارپوریٹ سرمایہ کاری کے بارے میں "اینالائزس آف ASSOCHAM انوسٹمنٹ میٹر" (اے آئی ایم) کے مطالعے کے تجزیہ کے مطابق؛ 2009ء میں اوڈیشا دوسری گھریلو سرمایہ کاری کی منزل تھی، جس میں "گجرات" پہلے اور "آندھرا پردیش" تیسرے نمبر پر تھا۔ ملک میں کل سرمایہ کاری میں اڈیشہ کا حصہ 12.6 فیصد تھا۔ اسے پچھلے سال کے دوران میں سرمایہ کاری کی تجویز؛ 2،00،846₹₹ کروڑ روپے ڈالر کی شکل میں موصول ہوئی۔ "اسٹیل(لوہا)" اور "بجلی" ان شعبوں میں شامل تھے، جنھوں نے ریاست میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ و94و
کارپوریٹ سرمایہ کاری کے بارے میں "اینالائزس آف ASSOCHAM انوسٹمنٹ میٹر" (اے آئی ایم) کے مطالعے کے تجزیہ کے مطابق؛ 2009ء میں اوڈیشا دوسری گھریلو سرمایہ کاری کی منزل تھی، جس میں "گجرات" پہلے اور "آندھرا پردیش" تیسرے نمبر پر تھا۔ ملک میں کل سرمایہ کاری میں اڈیشہ کا حصہ 12.6 فیصد تھا۔ اسے پچھلے سال کے دوران میں سرمایہ کاری کی تجویز؛ 2،00،846₹₹ کروڑ روپے ڈالر کی شکل میں موصول ہوئی۔ "اسٹیل(لوہا)" اور "بجلی" ان شعبوں میں شامل تھے، جنھوں نے ریاست میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ <ref>{{cite web|url=http://www.rediff.com/business/slide-show/slide-show-1-indian-states-that-attracted-highest-fdi/20120829.htm|title=Indian states that attracted highest FDI|publisher=Rediff|date=29 August 2012|access-date=8 April 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20140408212658/http://www.rediff.com/business/slide-show/slide-show-1-indian-states-that-attracted-highest-fdi/20120829.htm|archive-date=8 April 2014|url-status=live}}</ref>


== نقل و حمل ==
== نقل و حمل ==


اوڈیشا میں سڑکیں، ریلوے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بھوبنیشور باقی ہندوستان کے ساتھ ہوائی، ریل اور سڑک کے ذریعہ اچھی طرح سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ شاہراہیں "فور لینز (چار سڑکوں والی شاہراہوں)" تک پھیل رہی ہیں۔ و95و بھوبنیشور اور کٹک سے ملنے والی میٹرو ریل کے منصوبے بھی 30 کیلو میٹر کی علاقہ کے لیے شروع ہوچکے ہیں۔ و96و
اوڈیشا میں سڑکیں، ریلوے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بھوبنیشور باقی ہندوستان کے ساتھ ہوائی، ریل اور سڑک کے ذریعہ اچھی طرح سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ شاہراہیں "فور لینز (چار سڑکوں والی شاہراہوں)" تک پھیل رہی ہیں۔ <ref>{{cite web|url=http://www.sail.co.in/pnu.php?tag=rourkela |title=Rourkela Steel Plant |publisher=Sail.co.in |access-date=23 May 2012 |url-status=dead |archive-url=https://web.archive.org/web/20120531085659/http://www.sail.co.in/pnu.php?tag=rourkela |archive-date=31 May 2012 }}</ref> بھوبنیشور اور کٹک سے ملنے والی میٹرو ریل کے منصوبے بھی 30 کیلو میٹر کی علاقہ کے لیے شروع ہوچکے ہیں۔ <ref>{{cite web|url=http://www.dnaindia.com/money/report-reliance-to-invest-rs-60000-cr-for-orissa-power-plant-1042928|title=Reliance to invest Rs 60,000-cr for Orissa power plant|work=dna|access-date=31 August 2014|archive-url=https://web.archive.org/web/20140903141606/http://www.dnaindia.com/money/report-reliance-to-invest-rs-60000-cr-for-orissa-power-plant-1042928|archive-date=3 September 2014|url-status=live}}</ref>


== ہوائی اڈا ==
== ہوائی اڈا ==


اوڈیشا میں کل دو آپریشنل ہوائی اڈے، 17 "ایئر اِسٹرِپس" (زمین کے وہ تنگ ٹکڑے؛ جہاں طیارہ اتار سکتا ہو) اور 16 "ہیلی پیڈ" ہیں۔ و97و و98و و99و "جھارسگوڈا" کے ہوائی اڈے کو مئی 2018ء میں ایک مکمل گھریلو ہوائی اڈے پر تیار کیا گیا تھا۔ و100و حکومتِ اوڈیشا نے "انٹرا اسٹیٹ اور بین ریاستی شہری ہوا بازی" کو فروغ دینے کی کوشش میں "انگول"، "دھامرا"، "کلنگا نگر"، "پرادیپ" اور رائے گڈھ" میں پانچ "گرین فیلڈ (سبز میدانوں والے) ہوائی اڈوں" کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ "بڑبل"، "گوپال پور"، "جھارسگوڈا" اور "راورکیلا" میں موجودہ ایئروڈومز (زبردست ہوائی اڈوں) کو بھی اپ گریڈ کیا جانا تھا۔ و101و "دھامرا پورٹ کمپنی لمیٹیڈ"؛ "دھامرا بندرگاہ" سے 20 کلومیٹر دور "دھامرا ہوائی اڈا" بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ و102و "ایئر اوڈیشا"؛ بھونیشور میں واقع اوڈیشا کی واحد "ائیر چارٹر کمپنی" ہے۔
اوڈیشا میں کل دو آپریشنل ہوائی اڈے، 17 "ایئر اِسٹرِپس" (زمین کے وہ تنگ ٹکڑے؛ جہاں طیارہ اتار سکتا ہو) اور 16 "ہیلی پیڈ" ہیں۔ <ref>{{cite web |url=http://www.assocham.org/prels/shownews.php?id=2303 |title=Gujarat, Odisha and Andhra top 3 Domestic Investment Destinations of 2009 |publisher=Assocham |date=21 January 2010 |access-date=18 July 2010 |archive-url=https://web.archive.org/web/20110723170222/http://www.assocham.org/prels/shownews.php?id=2303 |archive-date=23 July 2011 |url-status=dead }}</ref> <ref>{{cite web |url=http://www.odishalinks.com/Odishagrowth/topics/tnc-all/roads-and-highways-infrastructure-in-Odisha/national-highways/nh-42 |title=NH 42 |publisher=Odishalinks.com |date=16 June 2004 |access-date=18 July 2010 |archive-url=https://web.archive.org/web/20101125170225/http://www.orissalinks.com/orissagrowth/topics/tnc-all/roads-and-highways-infrastructure-in-orissa/national-highways/nh-42 |archive-date=25 November 2010 |url-status=dead }}</ref> <ref>{{cite web|url=http://timesofindia.indiatimes.com/india/Odisha-plans-metro-signs-contract-for-detailed-project-report-preparation/articleshow/40781576.cms|title=Odisha plans metro, signs contract for detailed project report preparation|work=The Times of India|access-date=16 January 2016|archive-url=https://web.archive.org/web/20140831124032/http://timesofindia.indiatimes.com/india/Odisha-plans-metro-signs-contract-for-detailed-project-report-preparation/articleshow/40781576.cms|archive-date=31 August 2014|url-status=live}}</ref> "جھارسگوڈا" کے ہوائی اڈے کو مئی 2018ء میں ایک مکمل گھریلو ہوائی اڈے پر تیار کیا گیا تھا۔ <ref>{{cite web|url=http://www.dailypioneer.com/state-editions/bhubaneswar/85381-ten-year-roadmap-for-states-civil-aviation.html|title=Ten-year roadmap for State's civil aviation|work=The Pioneer|location=India|year=2012|quote=at present there are 17 airstrips and 16 helipads in Odisha,|access-date=5 August 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20130530180524/http://www.dailypioneer.com/state-editions/bhubaneswar/85381-ten-year-roadmap-for-states-civil-aviation.html|archive-date=30 May 2013|url-status=live}}</ref> حکومتِ اوڈیشا نے "انٹرا اسٹیٹ اور بین ریاستی شہری ہوا بازی" کو فروغ دینے کی کوشش میں "انگول"، "دھامرا"، "کلنگا نگر"، "پرادیپ" اور رائے گڈھ" میں پانچ "گرین فیلڈ (سبز میدانوں والے) ہوائی اڈوں" کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ "بڑبل"، "گوپال پور"، "جھارسگوڈا" اور "راورکیلا" میں موجودہ ایئروڈومز (زبردست ہوائی اڈوں) کو بھی اپ گریڈ کیا جانا تھا۔ <ref>{{cite web|url=http://www.odishanow.in/story.aspx?s_id=5551|archive-url=https://web.archive.org/web/20141015115504/http://www.odishanow.in/story.aspx?s_id=5551|url-status=dead|archive-date=15 October 2014|title=10-year roadmap set up to boost Odisha civil aviation|work=odishanow.in|year=2012|quote=Odisha has 17 airstrips and 16 helipads.|access-date=5 August 2012}}</ref> "دھامرا پورٹ کمپنی لمیٹیڈ"؛ "دھامرا بندرگاہ" سے 20 کلومیٹر دور "دھامرا ہوائی اڈا" بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ <ref>{{cite web|url=http://news.webindia123.com/news/Articles/India/20120803/2037069.html|title=Odisha initiate steps for intra and inter state aviation facilities|work=news.webindia123.com|year=2012|quote=Odisha has 17 airstrips and 16 helipads|access-date=5 August 2012|archive-url=https://web.archive.org/web/20150113150837/http://news.webindia123.com/news/Articles/India/20120803/2037069.html|archive-date=13 January 2015|url-status=live}}</ref> "ایئر اوڈیشا"؛ بھونیشور میں واقع اوڈیشا کی واحد "ائیر چارٹر کمپنی" ہے۔


== اڈیشہ میں موجود ہوائی اڈوں کے نام ==
== اڈیشہ میں موجود ہوائی اڈوں کے نام ==
سطر 163: سطر 162:
== بندرگاہیں ==
== بندرگاہیں ==


اڈیشہ میں ساحل کا فاصلہ 485 کلو میٹر ہے۔ اس کی ایک بڑی بندرگاہ "پرادیپ" میں ہے اور کچھ معمولی بندرگاہیں بھی ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں: و103و و104و
اڈیشہ میں ساحل کا فاصلہ 485 کلو میٹر ہے۔ اس کی ایک بڑی بندرگاہ "پرادیپ" میں ہے اور کچھ معمولی بندرگاہیں بھی ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں: <ref>{{cite news|title=J'suguda Airport fit for 320 Airbus flight|url=https://www.dailypioneer.com/2018/state-editions/jsuguda-airport-fit-for-320-airbus-flight.html|work=[[The Pioneer (newspaper)|The Pioneer]] |date=2 August 2018|access-date=11 September 2018}}</ref> <ref>{{cite news|url=http://www.thehindubusinessline.com/news/states/odisha-plans-five-new-airports/article3771546.ece|title=Odisha plans five new airports|work=[[Business Line]]|date=14 August 2012|access-date=14 May 2013|archive-url=https://web.archive.org/web/20131103100632/http://www.thehindubusinessline.com/news/states/odisha-plans-five-new-airports/article3771546.ece|archive-date=3 November 2013|url-status=live}}</ref>


"دھامارا" کا بندرگاہ
"دھامارا" کا بندرگاہ
سطر 187: سطر 186:
== آبادیات ==
== آبادیات ==


بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، اڈیشہ کی مجموعی آبادی 41،974،218 ہے، جن میں 21،212،136 (50.54٪) مرد اور 20،762،082 (49.46٪) خواتین ہیں، یا ہر "ایک ہزار نر" میں "978 خواتین" ہیں۔ یہ 2001ء میں آبادی کے مقابلہ میں 13.97 فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ آبادی کی کثافت 270 فی مربع کلومیٹر ہے۔ و105و
بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، اڈیشہ کی مجموعی آبادی 41،974،218 ہے، جن میں 21،212،136 (50.54٪) مرد اور 20،762،082 (49.46٪) خواتین ہیں، یا ہر "ایک ہزار نر" میں "978 خواتین" ہیں۔ یہ 2001ء میں آبادی کے مقابلہ میں 13.97 فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ آبادی کی کثافت 270 فی مربع کلومیٹر ہے۔ <ref>{{cite news|url= https://timesofindia.indiatimes.com/city/bhubaneswar/adani-group-plans-airport-at-dhamra/articleshow/66603746.cms |title= Adani Group plans airport at Dhamra |work=[[Times of India]] |date= 13 November 2018|access-date=3 February 2020}}</ref>


2011ء کی مردم شماری کے مطابق خواندگی کی شرح 73٪ فی صد ہے، جن میں 82٪ فی صد مرد اور 64٪ فی صد خواتین پڑھے لکھے ہیں۔
2011ء کی مردم شماری کے مطابق خواندگی کی شرح 73٪ فی صد ہے، جن میں 82٪ فی صد مرد اور 64٪ فی صد خواتین پڑھے لکھے ہیں۔


2004-2005ء میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 57.15٪ فی صد تھا، جو ہندوستانی اوسط 26 26.10٪ سے دگنا تھا۔ 2005ء سے ریاست نے غربت کی شرح میں ڈرامائی طور پر 24.6 فیصد پوائنٹس کی کمی کی ہے۔ موجودہ اندازے کے مطابق خطِ غربت کے تحت زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 32.6 فیصد تھا۔ و106و و107و
2004-2005ء میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 57.15٪ فی صد تھا، جو ہندوستانی اوسط 26 26.10٪ سے دگنا تھا۔ 2005ء سے ریاست نے غربت کی شرح میں ڈرامائی طور پر 24.6 فیصد پوائنٹس کی کمی کی ہے۔ موجودہ اندازے کے مطابق خطِ غربت کے تحت زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 32.6 فیصد تھا۔ <ref>{{cite book | last=Division | first=P. | title=INDIA 2019: A REFERENCE ANNUAL | publisher=Publications Division Ministry of Information & Broadcasting | isbn=978-81-230-3026-5 | url=https://books.google.com/books?id=8ZaSDwAAQBAJ&pg=PT701 | access-date=16 July 2019 | page=701}}</ref> <ref>{{cite book | author=India. Parliament. Rajya Sabha | title=Parliamentary Debates: Official Report | publisher=Council of States Secretariat | issue=v. 227, nos. 18–20 | year=2012 | url=https://books.google.com/books?id=UFyjP-0VEc8C | access-date=16 July 2019 }}</ref>


1996–2001ء کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں زندگی کی متوقع عمر 61.64 سال ہے جو سالوں کی قومی قدر سے زیادہ ہے۔ ریاست میں ہر سال ایک ہزار افراد کی پیدائش کی شرح 23.2 ہے، جس میں ہر سال 1000 افراد پر اموات کی شرح 9.1 ہے، بچوں کی شرح اموات 1000 ہر 1000 زندہ پیدائش میں اور زچگی کی شرح اموات ہر ایک ہزار زندہ پیدائش میں 358 ہے۔ اوڈیشا میں 2011ء کے مطابق؛ 0.442 کا "ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس" (انسانی ترقی فہرست) ہے۔
1996–2001ء کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں زندگی کی متوقع عمر 61.64 سال ہے جو سالوں کی قومی قدر سے زیادہ ہے۔ ریاست میں ہر سال ایک ہزار افراد کی پیدائش کی شرح 23.2 ہے، جس میں ہر سال 1000 افراد پر اموات کی شرح 9.1 ہے، بچوں کی شرح اموات 1000 ہر 1000 زندہ پیدائش میں اور زچگی کی شرح اموات ہر ایک ہزار زندہ پیدائش میں 358 ہے۔ اوڈیشا میں 2011ء کے مطابق؛ 0.442 کا "ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس" (انسانی ترقی فہرست) ہے۔


== مذہب ==
== مذہب ==
اوڈیشا میں مذہب؛ باعتبار مردم شماری (2011 ء) و108و
اوڈیشا میں مذہب؛ باعتبار مردم شماری (2011 ء) <ref>[http://www.censusindia.gov.in/2011census/PCA/A2_Data_Table.html Decadal Variation In Population Since 1901]</ref>


ہندو مت (93.63٪)
ہندو مت (93.63٪)
سطر 214: سطر 213:
دیگر (۔19٪)
دیگر (۔19٪)


اڈیشہ میں اکثریت (تقریباً 94٪ و109و ) ہندو ہیں اور ریاست میں ایک متناسب ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اڈیشہ میں متعدد ہندو شخصیات ہیں۔ "سَنت بھیما بھوئی"؛ "مَہِیما فرقہ" کا قائد تھا۔ ایک ہندو "کھنڈایت" "سَرلا داس"؛ "مہاکاوی مہابھارت" کا اوڈیا زبان میں ترجمہ کرنے والی تھیں۔ "چیتنیا داس"؛ ایک "بدھ مت - وشنو" اور "نِرگونا مہاتمَیا" کے مصنف تھے۔ "جے دیوا"؛ "گیتا گووِندا" کے مصنف تھے۔
اڈیشہ میں اکثریت (تقریباً 94٪ <ref name="autogenerated7">{{cite web|url=https://www.censusindia.gov.in/2011census/PCA/PCA_Highlights/pca_highlights_file/India/Chapter-1.pdf|title=Population, Size and Decadal Change|date=2018|work=Primary Census Abstract Data Highlights, [[Census of India]]|access-date=2020-06-16|url-status=live|archive-url=https://web.archive.org/web/20191019035341/https://www.censusindia.gov.in/2011census/PCA/PCA_Highlights/pca_highlights_file/India/Chapter-1.pdf|archive-date=2019-10-19|publisher=[[Registrar General and Census Commissioner of India]]}}</ref> ) ہندو ہیں اور ریاست میں ایک متناسب ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اڈیشہ میں متعدد ہندو شخصیات ہیں۔ "سَنت بھیما بھوئی"؛ "مَہِیما فرقہ" کا قائد تھا۔ ایک ہندو "کھنڈایت" "سَرلا داس"؛ "مہاکاوی مہابھارت" کا اوڈیا زبان میں ترجمہ کرنے والی تھیں۔ "چیتنیا داس"؛ ایک "بدھ مت - وشنو" اور "نِرگونا مہاتمَیا" کے مصنف تھے۔ "جے دیوا"؛ "گیتا گووِندا" کے مصنف تھے۔


1948ء کے "اوڈیشا ٹیمپل اتھارٹی ایکٹ" نے اوڈیشا حکومت کو دلتوں سمیت تمام ہندوؤں کے لیے مندر کھولنے کی طاقت دی۔ و110و
1948ء کے "اوڈیشا ٹیمپل اتھارٹی ایکٹ" نے اوڈیشا حکومت کو دلتوں سمیت تمام ہندوؤں کے لیے مندر کھولنے کی طاقت دی۔ <ref>{{cite web |title=India States Briefs – Odisha |publisher=World Bank |date=31 May 2016 |url=https://www.worldbank.org/en/country/india/brief/india-states-briefs-odisha |access-date=12 July 2019}}</ref>


شاید اوڈیشا کا سب سے قدیم صحیفہ پوری مندر کا "مَڈلا پَنجی" ہے، جو 1042 عیسوی سے مانا جاتا ہے۔ ہندو اوڈیا کے مشہور صحیفہ میں "جگناتھ داس" کی 16ویں صدی کی "بھگاباتا" بھی شامل ہے۔ و111و جدید دور میں "مَدھوسودَن راؤ" اوڈیا کے ایک بڑے مصنف تھے، جو "برہمو سماج پسند" تھے اور 20ویں صدی کے آغاز میں اوڈیا کے جدید ادب کی تشکیل کی۔ و112و
شاید اوڈیشا کا سب سے قدیم صحیفہ پوری مندر کا "مَڈلا پَنجی" ہے، جو 1042 عیسوی سے مانا جاتا ہے۔ ہندو اوڈیا کے مشہور صحیفہ میں "جگناتھ داس" کی 16ویں صدی کی "بھگاباتا" بھی شامل ہے۔ <ref>{{cite web |title=NITI Aayog report: Odisha tops in poverty reduction rate among other states |website=Pragativadi: Leading Odia Dailly |date=30 July 2017 |url=http://www.pragativadi.com/niti-aayog-report-odisha-tops-poverty-reduction-rate-among-states/ |access-date=12 July 2019}}</ref> جدید دور میں "مَدھوسودَن راؤ" اوڈیا کے ایک بڑے مصنف تھے، جو "برہمو سماج پسند" تھے اور 20ویں صدی کے آغاز میں اوڈیا کے جدید ادب کی تشکیل کی۔ <ref>{{cite web|title=Population by religion community – 2011|url=http://www.censusindia.gov.in/2011census/C-01/DDW00C-01%20MDDS.XLS|website=Census of India, 2011|publisher=The Registrar General & Census Commissioner, India|archive-url=https://web.archive.org/web/20150825155850/http://www.censusindia.gov.in/2011census/C-01/DDW00C-01%20MDDS.XLS|archive-date=25 August 2015}}</ref>


2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اوڈیشا میں عیسائی آبادی کا تقریباً 2.8 فیصد ہے، جب کہ اوڈیا مسلمان 2.2 فیصد ہیں۔ سکھ، بدھ اور جین برادری مل کر آبادی کا 0.1٪ بنتے ہیں۔ و109و
2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اوڈیشا میں عیسائی آبادی کا تقریباً 2.8 فیصد ہے، جب کہ اوڈیا مسلمان 2.2 فیصد ہیں۔ سکھ، بدھ اور جین برادری مل کر آبادی کا 0.1٪ بنتے ہیں۔ <ref name="autogenerated7" />


== زبانیں ==
== زبانیں ==
اوڈیشا کی زبانیں (2011ء) <ref>{{cite web |title=Census of India&nbsp;– Socio-cultural aspects |publisher=Government of India, Ministry of Home Affairs |url=http://censusindia.gov.in/Census_Data_2001/Census_Data_Online/Social_and_cultural/Religion.aspx |access-date=2 March 2011 |url-status=dead |archive-url=https://web.archive.org/web/20110520054852/http://www.censusindia.gov.in/Census_Data_2001/Census_Data_Online/Social_and_cultural/Religion.aspx |archive-date=20 May 2011 }}</ref>
اوڈیشا کی زبانیں (2011ء) و113و


اوڈیہ (بشمول سمبل پوری) (81.32٪)
اوڈیہ (بشمول سمبل پوری) (81.32٪)
سطر 234: سطر 233:
دیگر (8.76٪)
دیگر (8.76٪)


اوڈیا؛ اوڈیشا کی سرکاری زبان ہے و114و اور یہ ہندوستان کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ آبادی میں 82.7٪ بولی جاتی ہے۔ و115و یہ ہندوستان کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔ انگریزی ریاست اور ہندوستان کی یونین کے مابین خط و کتابت کی سرکاری زبان ہے۔ اسپوکین اوڈیا ہم جنس نہیں ہے؛ کیوں کہ ریاست بھر میں بولی جانے والی مختلف بولیاں مل سکتی ہیں۔ ریاست کے اندر پائی جانے والی کچھ بڑی بولیاں: "سمبل پوری"، "کٹکی"، "پوری"، "بالیسوَری"، "گنجامی"، "دیسیہ" اور "پھولبانی" ہیں۔ و116و
اوڈیا؛ اوڈیشا کی سرکاری زبان ہے <ref>P. 63 ''Case studies on human rights and fundamental freedoms: a world survey, Volume 4'' By Willem Adriaan Veenhoven</ref> اور یہ ہندوستان کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ آبادی میں 82.7٪ بولی جاتی ہے۔ <ref>P. 77 ''Encyclopedia Americana, Volume 30'' By Scholastic Library Publishing</ref> یہ ہندوستان کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔ انگریزی ریاست اور ہندوستان کی یونین کے مابین خط و کتابت کی سرکاری زبان ہے۔ اسپوکین اوڈیا ہم جنس نہیں ہے؛ کیوں کہ ریاست بھر میں بولی جانے والی مختلف بولیاں مل سکتی ہیں۔ ریاست کے اندر پائی جانے والی کچھ بڑی بولیاں: "سمبل پوری"، "کٹکی"، "پوری"، "بالیسوَری"، "گنجامی"، "دیسیہ" اور "پھولبانی" ہیں۔ <ref>''Madhusudan Rao'' By Jatindra Mohan Mohanty, Sahitya Akademi</ref>


ریاست میں اوڈیا کے علاوہ ہندی، تیلگو، اردو اور بنگالی جیسے دوسری بڑی ہندوستانی زبانیں بولنے والے لوگوں کی قابلِ ذکر آبادی بھی پائی جاتی ہے۔ و117و
ریاست میں اوڈیا کے علاوہ ہندی، تیلگو، اردو اور بنگالی جیسے دوسری بڑی ہندوستانی زبانیں بولنے والے لوگوں کی قابلِ ذکر آبادی بھی پائی جاتی ہے۔ <ref>{{cite web |title=Language – India, States and Union Territories |url=http://www.censusindia.gov.in/2011Census/C-16_25062018_NEW.pdf |work=Census of India 2011 |publisher=Office of the Registrar General |pages=13–14 |access-date=7 January 2019 |archive-url=https://web.archive.org/web/20181114073412/http://www.censusindia.gov.in/2011Census/C-16_25062018_NEW.pdf |archive-date=14 November 2018 |url-status=live }}</ref>


مختلف آدیباشی برادری جو زیادہ تر مغربی اوڈیشا میں رہتی ہیں، ان کی اپنی زبانیں "آسٹروسیاٹک" اور دراوڑی زبان" سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑی ادیبی زبانیں: "سنتالی"، "کیو" اور "ہو" ہیں۔ بیرونی لوگوں سے بڑھتے ہوئے رابطے، ہجرت اور سماجی و اقتصادی وجوہات کی وجہ سے ان میں سے بہت سی دیسی زبانیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہیں یا ناپید ہوجانے کے راستے پر ہیں۔ و118و
مختلف آدیباشی برادری جو زیادہ تر مغربی اوڈیشا میں رہتی ہیں، ان کی اپنی زبانیں "آسٹروسیاٹک" اور دراوڑی زبان" سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑی ادیبی زبانیں: "سنتالی"، "کیو" اور "ہو" ہیں۔ بیرونی لوگوں سے بڑھتے ہوئے رابطے، ہجرت اور سماجی و اقتصادی وجوہات کی وجہ سے ان میں سے بہت سی دیسی زبانیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہیں یا ناپید ہوجانے کے راستے پر ہیں۔ <ref>{{Cite web|url=http://lawodisha.gov.in/pages/viewYearActOrdinances/1954|title=:: Law Department (Government of Odisha) ::|website=lawodisha.gov.in|access-date=19 October 2019}}</ref>


"اوڈیشا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ"؛ 1957ء میں اوڈیہ زبان و ادب کی فعال طور پر ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اوڈیشا حکومت نے اوڈیا زبان اور ادب کے فروغ کے لیے 2018ء میں ایک پورٹل "https://ova.gov.in/en" شروع کیا تھا۔
"اوڈیشا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ"؛ 1957ء میں اوڈیہ زبان و ادب کی فعال طور پر ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اوڈیشا حکومت نے اوڈیا زبان اور ادب کے فروغ کے لیے 2018ء میں ایک پورٹل "https://ova.gov.in/en" شروع کیا تھا۔
سطر 276: سطر 275:
"بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، برہم پور"
"بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، برہم پور"


"اسپاٹ آؤٹونوموز کالج، راورکیلا"
"اسپاٹ آؤٹونوموز کالج، راورکیلا"


"بکسی جگا بندھو رڈیا دھار کالج، بھونیشور"
"بکسی جگا بندھو رڈیا دھار کالج، بھونیشور"


"سینٹرل یونیورسٹی آف اوڈیشا، کورا پوٹ"
"سینٹرل یونیورسٹی آف اوڈیشا، کورا پوٹ"
سطر 319: سطر 318:
"پرلا مہاراجا انجنئیرنگ کالج، برہم پور"
"پرلا مہاراجا انجنئیرنگ کالج، برہم پور"


"پرنا ناتھ آؤٹونوموز کالج، کھوردا"
"پرنا ناتھ آؤٹونوموز کالج، کھوردا"


"راما دیوی ویمنز یونیورسٹی، بھوبنیشور"
"راما دیوی ویمنز یونیورسٹی، بھوبنیشور"
سطر 339: سطر 338:
"ویر سریندر سائی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ" (VIMSAR) بُرلا، سمبل پور
"ویر سریندر سائی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ" (VIMSAR) بُرلا، سمبل پور


"شاویر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوبنیشور"
"شاویر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوبنیشور"


"شاویر یونیورسٹی، بھوبنیشور"
"شاویر یونیورسٹی، بھوبنیشور"
سطر 363: سطر 362:
"بھیم بوئی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، بلانگیر"
"بھیم بوئی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، بلانگیر"


"پنڈت رگوناتھ مُرمو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، باری پادا" <ref>{{cite book|last=Mahapatra|first=B. P.|title=Linguistic Survey of India: Orissa|year=2002|publisher=Language Division, Office of the Registrar General|location=Kolkata, India|pages=13–14|url=http://www.censusindia.gov.in/2011-documents/lsi/ling_Orissa.html|access-date=20 February 2014|format=PDF|archive-url=https://web.archive.org/web/20131113153328/http://www.censusindia.gov.in/2011-documents/lsi/ling_Orissa.html|archive-date=13 November 2013|url-status=live}}</ref>
"پنڈت رگوناتھ مُرمو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، باری پادا" و119و


"شہید لکشمن نایک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، کورا پوٹ" و120و
"شہید لکشمن نایک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، کورا پوٹ" <ref>{{Cite web|title=Atlas of languages in danger {{!}} United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization|url=http://www.unesco.org/new/en/culture/themes/endangered-languages/atlas-of-languages-in-danger/|access-date=19 October 2019|publisher=UNESCO}}</ref>
{{div col end}}
{{div col end}}


"بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی (بی پی یو ٹی) راورکیلا" کے ذریعہ 2003ء کے بعد سے جہاں نشستوں کی اہلیت کے مطابق نشستیں فراہم کی جاتی ہیں، خاص طور پر انجینئری ڈگری میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف اداروں میں داخلے کا مرکز اوڈیشا "جوائنٹ انٹریس امتحان" ہوتا ہے۔ و121و انجینئری کے بہت سارے انسٹی ٹیوٹ؛ جوائنٹ انٹری امتحان کے ذریعہ طلباء کو داخلہ دیتے ہیں۔ میڈیکل کورس کے لیے اسی طرح کی قومی اہلیت کے ساتھ داخلہ ٹیسٹ ہوتا ہے۔
"بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی (بی پی یو ٹی) راورکیلا" کے ذریعہ 2003ء کے بعد سے جہاں نشستوں کی اہلیت کے مطابق نشستیں فراہم کی جاتی ہیں، خاص طور پر انجینئری ڈگری میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف اداروں میں داخلے کا مرکز اوڈیشا "جوائنٹ انٹریس امتحان" ہوتا ہے۔ <ref>{{cite web |title=Pandit Raghunath Murmu Medical College & Hospital |publisher=prmmchbaripada.in |url=http://prmmchbaripada.in/ |access-date=9 September 2017 |archive-url=https://web.archive.org/web/20170909233246/http://prmmchbaripada.in/ |archive-date=9 September 2017 |url-status=live }}</ref> انجینئری کے بہت سارے انسٹی ٹیوٹ؛ جوائنٹ انٹری امتحان کے ذریعہ طلباء کو داخلہ دیتے ہیں۔ میڈیکل کورس کے لیے اسی طرح کی قومی اہلیت کے ساتھ داخلہ ٹیسٹ ہوتا ہے۔

== اوڈیشا کی علمی شخصیات ==


== ثقافت و کلچر ==
== ثقافت و کلچر ==
=== کھانے کی مشہور اشیاء ===
=== کھانے کی مشہور اشیاء ===
اوڈیشا میں صدیوں پر محیط ایک پاک روایت ہے۔ شری جگناتھ مندر، پوری کا باورچی خانہ دنیا میں سب سے بڑا باورچی ہے، جس میں 1،000 شیف (باورچی) ہر روز 10،000 سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے تقریباً 752 لکڑی سے جلنے والے مٹی کے چولوں پر کام کرتے ہیں۔ و122و و123و
اوڈیشا میں صدیوں پر محیط ایک پاک روایت ہے۔ شری جگناتھ مندر، پوری کا باورچی خانہ دنیا میں سب سے بڑا باورچی ہے، جس میں 1،000 شیف (باورچی) ہر روز 10،000 سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے تقریباً 752 لکڑی سے جلنے والے مٹی کے چولوں پر کام کرتے ہیں۔ <ref>{{cite web |title=SLN Medical College & Hospital |publisher=slnmch.nic.in |url=http://www.slnmch.nic.in/index.html |access-date=9 September 2017 |archive-url=https://web.archive.org/web/20170909234102/http://www.slnmch.nic.in/index.html |archive-date=9 September 2017 |url-status=live }}</ref> <ref>{{cite web |title=Biju Patnaik University of Technology |publisher=Bput.org |url=http://www.bput.org/ |access-date=18 July 2010 |archive-url=https://web.archive.org/web/20081205233536/http://www.bput.org/ |archive-date=5 December 2008 |url-status=live }}</ref>


اوڈیشا میں تیار کی گئی شیرہ سے بھری "پہاڑہ رسگولا" پوری دنیا میں مشہور ہے۔ و124و "چھینا پوڑا" اوڈیشا کا ایک اور بڑا میٹھا ڈِش ہے، جس کی شروعات نیاگڑھ میں ہوئی ہے۔ و125و "دالما" (دال اور منتخب سبزیوں کا مرکب) بڑے پیمانے پر پکوان میں مشہور ہے، گھی کے ساتھ بہتر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اوڈیشا میں تیار کی گئی شیرہ سے بھری "پہاڑہ رسگولا" پوری دنیا میں مشہور ہے۔ <ref>{{cite book |author1=National Association on Indian Affairs |author2=American Association on Indian Affairs |year=1949 |title=Indian Affairs |url=https://books.google.com/books?id=QcMVAQAAIAAJ |access-date=23 June 2012 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130606204607/http://books.google.com/books?id=QcMVAQAAIAAJ |archive-date=6 June 2013 |url-status=live }}</ref> "چھینا پوڑا" اوڈیشا کا ایک اور بڑا میٹھا ڈِش ہے، جس کی شروعات نیاگڑھ میں ہوئی ہے۔ <ref>{{cite book |author1=S.P. Sharma |author2=Seema Gupta |date=3 October 2006 |title=Fairs & Festivals of India |publisher=Pustak Mahal |isbn=978-81-223-0951-5 |pages=103– |url=https://books.google.com/books?id=54MSg3a63WgC&pg=PA103 |access-date=23 June 2012 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130608212537/http://books.google.com/books?id=54MSg3a63WgC&pg=PA103 |archive-date=8 June 2013 |url-status=live }}</ref> "دالما" (دال اور منتخب سبزیوں کا مرکب) بڑے پیمانے پر پکوان میں مشہور ہے، گھی کے ساتھ بہتر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔


مغربی بنگال کے ساتھ مشہور میٹھے کی ابتدا کے بارے میں طویل جنگ کے بعد 29 جولائی 2019 کو "اوڈیشا رسگولا" کو "جی آئی ٹیگ" سے نوازا گیا۔ و126و
مغربی بنگال کے ساتھ مشہور میٹھے کی ابتدا کے بارے میں طویل جنگ کے بعد 29 جولائی 2019 کو "اوڈیشا رسگولا" کو "جی آئی ٹیگ" سے نوازا گیا۔ <ref>{{cite news |author=Mitra Bishwabijoy |date=6 July 2015 |title=Who invented the rasgulla? |newspaper=The Times of India |url=http://timesofindia.indiatimes.com/life-style/food/food-features/Who-invented-the-rasgulla/articleshow/47909754.cms |access-date=2 August 2015 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150709071914/http://timesofindia.indiatimes.com/Life-Style/Food/Food-Features/Who-invented-the-rasgulla/articleshow/47909754.cms |archive-date=9 July 2015 |url-status=live }}</ref>


== رقص ==
== رقص ==


[[اوڈیسی]] ([[اوڑیسی]]) رقص اور موسیقی [[کلاسیکی آرٹ]] کی شکل ہے۔ [[آثار قدیمہ]] کے شواہد کی بنیاد پر ہندوستان میں قدیم زندہ بچ جانے والا رقص ہے۔ و127و اوڈیسی کی 2،000 سال کی طویل غیر متزلزل روایت ہے، اور اس کا ذکر؛ ممکنہ طور پر تحریری تقریباً 200 قبل مسیح سے "[[بھرٹامونی]]" کے "[[ناٹیا شاستر]]" میں ملتا ہے۔ تاہم برطانوی دور میں رقص کی شکل تقریباً معدوم ہوگئی تھی، صرف چند گروؤں کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اسے زندہ کیا جاسکتا تھا۔
[[اوڈیسی]] ([[اوڑیسی]]) رقص اور موسیقی [[کلاسیکی آرٹ]] کی شکل ہے۔ [[آثار قدیمہ]] کے شواہد کی بنیاد پر ہندوستان میں قدیم زندہ بچ جانے والا رقص ہے۔ <ref>{{cite web |title=Chhenapoda |publisher=Simply TADKA |url=http://www.simplytadka.com/2012/04/chhena-poda-cottage-cheese-cake.html |access-date=9 January 2015 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150109232431/http://www.simplytadka.com/2012/04/chhena-poda-cottage-cheese-cake.html |archive-date=9 January 2015 |url-status=live }}</ref> اوڈیسی کی 2،000 سال کی طویل غیر متزلزل روایت ہے، اور اس کا ذکر؛ ممکنہ طور پر تحریری تقریباً 200 قبل مسیح سے "[[بھرٹامونی]]" کے "[[ناٹیا شاستر]]" میں ملتا ہے۔ تاہم برطانوی دور میں رقص کی شکل تقریباً معدوم ہوگئی تھی، صرف چند گروؤں کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اسے زندہ کیا جاسکتا تھا۔


رقص کی مختلف اقسام میں "[[گھمورا]] ([[گھومر]]) رقص"، "[[چھاؤ رقص]]"، "[[جُھمیر]]"، "[[مَہاری رقص]]"، "[[دَلکھائی]]" اور "[[گوٹی پُوا]]" شامل ہیں۔
رقص کی مختلف اقسام میں "[[گھمورا]] ([[گھومر]]) رقص"، "[[چھاؤ رقص]]"، "[[جُھمیر]]"، "[[مَہاری رقص]]"، "[[دَلکھائی]]" اور "[[گوٹی پُوا]]" شامل ہیں۔
سطر 390: سطر 387:


== اڈیشہ میں سیاحت ==
== اڈیشہ میں سیاحت ==
بھوبنیشور کے "لنگاراجا مندر" میں 150 فٹ (46 میٹر) اونچا دیولا (مندروں کے اوپر کا گنبد نما حصہ) ہے، جب کہ "جگناتھ مندر، پوری" تقریباً 200 فٹ (61 میٹر) اونچائی پر ہے اور اسکائی لائن پر تسلط رکھتا ہے۔ "پوری ضلع" میں "کونارک" میں "کونارک سورج مندر" کا صرف ایک حصہ، جو "ہولی گولڈن ٹرائنگ" کے سب سے بڑے مندروں میں موجود ہے، اور یہ اب بھی حیرت زدہ ہے۔ یہ اڈیشہ کی فنِ تعمیر میں ایک شاہکار کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ "شکت ازم" کے سب سے زیادہ روحانی اظہارِ خیالات میں سے ایک سمجھے جانے والا "سُرالا مندر"؛ ضلع جگت سنگھ پور میں ہے۔ یہ اڈیشہ میں ایک سب سے پُرجوش مقام اور سیاحوں کی ایک بڑی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ ضلع "کیندوجھر" میں "گھٹگاؤں" علاقہ میں واقع "ماتا رانی مندر" بھی ایک مشہور زیارت گاہ ہے۔ ہر روز ہزاروں ناریل اپنی خواہشات کو پورا کرنے پر عقیدت مندوں کے ذریعہ "ما تا رانی" کو دیے جاتے ہیں۔ و128و
بھوبنیشور کے "لنگاراجا مندر" میں 150 فٹ (46 میٹر) اونچا دیولا (مندروں کے اوپر کا گنبد نما حصہ) ہے، جب کہ "جگناتھ مندر، پوری" تقریباً 200 فٹ (61 میٹر) اونچائی پر ہے اور اسکائی لائن پر تسلط رکھتا ہے۔ "پوری ضلع" میں "کونارک" میں "کونارک سورج مندر" کا صرف ایک حصہ، جو "ہولی گولڈن ٹرائنگ" کے سب سے بڑے مندروں میں موجود ہے، اور یہ اب بھی حیرت زدہ ہے۔ یہ اڈیشہ کی فنِ تعمیر میں ایک شاہکار کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ "شکت ازم" کے سب سے زیادہ روحانی اظہارِ خیالات میں سے ایک سمجھے جانے والا "سُرالا مندر"؛ ضلع جگت سنگھ پور میں ہے۔ یہ اڈیشہ میں ایک سب سے پُرجوش مقام اور سیاحوں کی ایک بڑی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ ضلع "کیندوجھر" میں "گھٹگاؤں" علاقہ میں واقع "ماتا رانی مندر" بھی ایک مشہور زیارت گاہ ہے۔ ہر روز ہزاروں ناریل اپنی خواہشات کو پورا کرنے پر عقیدت مندوں کے ذریعہ "ما تا رانی" کو دیے جاتے ہیں۔ <ref>{{Cite web|url=https://www.businesstoday.in/latest/trends/odisha-rasagola-receives-gi-tag-two-years-after-west-bengal/story/368775.html|title=Odisha Rasagola receives geographical indication tag; here's what it means|website=www.businesstoday.in|access-date=2019-11-17}}</ref>


اڈیشہ کے مغربی حصے میں "سمبل پور ضلع" کا "ہیراکود ڈیم"؛ دنیا کا سب سے طویل مٹی والا ڈیم ہے۔ یہ ایشیاء کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل بھی تشکیل دیتا ہے۔ "ڈیبری گڑھ وائلڈ لائف سَنچُری"؛ "ہیراکود ڈیم" کے قریب واقع ہے۔ "سمَلیسوَری مندر"؛ "سمبل پور شہر" کا ایک ہندو مندر ہے، جو "سمبل پور" کی صدارت کرنے والا دیوتا "سمَلیسوَری" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ریاستِ "اوڈیشا" اور "چھتیس گڑھ" کے مغربی حصہ میں ایک مضبوط مذہبی قوت ہے۔ "ہُما کا جھکاؤ مندر"؛ "سمبل پور" کے قریب واقع ہے۔ مندر؛ ہندو دیوتا لورڈ "بِمَلیشور" کے لیے وقف ہے۔ "سری سری ہَری شنکر دیوستھان"؛ بلانگیر ضلع؛ "گَنداماردَھن پہاڑیوں" کی ڈھلوان پر واقع ایک مندر ہے۔ یہ اپنی فطرت کے مناظر اور دو ہندوؤں، "وِشنو" اور "شیو" سے وابستہ ہونے کے سبب مشہور ہے۔ "گَنداماردَھن پہاڑیوں" کے مخالف سمت میں "سری نُرسِنگھا ناتھ کا مندر" ہے، "ضلع بارگڑھ" کے "پَیکمال" کے قریب "گندامردھن پہاڑی" کے دامن میں واقع ہے۔ و129و
اڈیشہ کے مغربی حصے میں "سمبل پور ضلع" کا "ہیراکود ڈیم"؛ دنیا کا سب سے طویل مٹی والا ڈیم ہے۔ یہ ایشیاء کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل بھی تشکیل دیتا ہے۔ "ڈیبری گڑھ وائلڈ لائف سَنچُری"؛ "ہیراکود ڈیم" کے قریب واقع ہے۔ "سمَلیسوَری مندر"؛ "سمبل پور شہر" کا ایک ہندو مندر ہے، جو "سمبل پور" کی صدارت کرنے والا دیوتا "سمَلیسوَری" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ریاستِ "اوڈیشا" اور "چھتیس گڑھ" کے مغربی حصہ میں ایک مضبوط مذہبی قوت ہے۔ "ہُما کا جھکاؤ مندر"؛ "سمبل پور" کے قریب واقع ہے۔ مندر؛ ہندو دیوتا لورڈ "بِمَلیشور" کے لیے وقف ہے۔ "سری سری ہَری شنکر دیوستھان"؛ بلانگیر ضلع؛ "گَنداماردَھن پہاڑیوں" کی ڈھلوان پر واقع ایک مندر ہے۔ یہ اپنی فطرت کے مناظر اور دو ہندوؤں، "وِشنو" اور "شیو" سے وابستہ ہونے کے سبب مشہور ہے۔ "گَنداماردَھن پہاڑیوں" کے مخالف سمت میں "سری نُرسِنگھا ناتھ کا مندر" ہے، "ضلع بارگڑھ" کے "پَیکمال" کے قریب "گندامردھن پہاڑی" کے دامن میں واقع ہے۔ <ref>{{cite web |title=Odissi Kala Kendra |publisher=odissi.itgo.com |url=http://odissi.itgo.com/ |access-date=18 July 2010 |archive-url=https://web.archive.org/web/20110512041730/http://odissi.itgo.com/ |archive-date=12 May 2011 |url-status=live }}</ref>


اڈیشہ کے جنوبی حصے میں ضلع گنجام میں برہم پور شہر کے قریب واقع "رُشِکُلیہ ندی" کے کنارے میں "کُماری پہاڑیوں" پر واقع "تارا تَرینی مندر" ہے، جہاں چھاتی (پستان) کی عبادت گاہ (ستھنا پیٹھہ) اور آدی طاقت کے مظہر کے طور پر پوجا کی جاتی ہے۔ "تارا تارینی شکتی پیٹھہ"؛ دیوی کے قدیم ترین یاترا مراکز میں سے ایک ہے اور یہ بھارت میں چار بڑے قدیم تنتر پیٹھہ" اور شکتی پیٹھوں" میں سے ایک ہے۔ "دیومالی"؛ مشرقی گھاٹوں کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ یہ "ضلع کورا پوٹ" میں واقع ہے۔ یہ چوٹی تقریباً 1,672 میٹر کی بلندی کے ساتھ، اڈیشہ کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔
اڈیشہ کے جنوبی حصے میں ضلع گنجام میں برہم پور شہر کے قریب واقع "رُشِکُلیہ ندی" کے کنارے میں "کُماری پہاڑیوں" پر واقع "تارا تَرینی مندر" ہے، جہاں چھاتی (پستان) کی عبادت گاہ (ستھنا پیٹھہ) اور آدی طاقت کے مظہر کے طور پر پوجا کی جاتی ہے۔ "تارا تارینی شکتی پیٹھہ"؛ دیوی کے قدیم ترین یاترا مراکز میں سے ایک ہے اور یہ بھارت میں چار بڑے قدیم تنتر پیٹھہ" اور شکتی پیٹھوں" میں سے ایک ہے۔ "دیومالی"؛ مشرقی گھاٹوں کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ یہ "ضلع کورا پوٹ" میں واقع ہے۔ یہ چوٹی تقریباً 1,672 میٹر کی بلندی کے ساتھ، اڈیشہ کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔
سطر 412: سطر 409:
{{زمرہ کومنز|Orissa}}
{{زمرہ کومنز|Orissa}}


[[زمرہ:اوڈیشا|اوڈیشا]]
[[زمرہ:اوڈیشا| ]]
[[زمرہ:1936ء میں قائم ہونے والے ممالک اور علاقے]]
[[زمرہ:1936ء میں قائم ہونے والے ممالک اور علاقے]]
[[زمرہ:بھارت کے صوبے اور مرکزی علاقے]]
[[زمرہ:بھارت کے صوبے اور مرکزی علاقے]]

نسخہ بمطابق 10:19، 2 مارچ 2021ء


 
اڈيشا
(اڈیا میں: ଓଡ଼ିଶା)
(سنسکرت میں: उड़ीसा)
(انگریزی میں: Odisha ویکی ڈیٹا پر (P1448) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

اڈيشا
اڈيشا
پرچم

تاریخ تاسیس 1 اپریل 1936  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 
نقشہ

انتظامی تقسیم
ملک بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1][2]
دار الحکومت بھوبنیشور  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تقسیم اعلیٰ بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 20°09′N 85°30′E / 20.15°N 85.5°E / 20.15; 85.5  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[3]
رقبہ
آبادی
کل آبادی
  • مرد
  • عورتیں
مزید معلومات
سرکاری زبان اڑیہ  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-2 IN-OD[4]  ویکی ڈیٹا پر (P300) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جیو رمز 1261029  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

اوڈیشا (انگریزی: [Odisha] ) [5]، سابقہ ​​اڑیسہ [oɽiˈsaː]) [6] بھارت کی ایک ریاست؛ جو مشرقی ہند میں واقع ہے۔ یہ رقبہ کے لحاظ سے بھارت کی آٹھویں بڑی ریاست ہے، اور آبادی کے لحاظ سے یہ 11 ویں بڑی ریاست ہے۔ اس ریاست میں بھارت کی درج فہرست قبائل کی تیسری بڑی آبادی ہے۔ [7] یہ شمال میں بنگال کے کچھ حصہ اور جھارکھنڈ سے، مغرب میں چھتیس گڑھ سے اور جنوب میں آندھرا پردیش کی ریاستوں کا ہمسایہ ہے۔ اڈیشہ کی ساحلی پٹی 485 کلومیٹر (301 میل) خلیج بنگال کے ساتھ ہے۔ [8] اس علاقہ کو اتکلہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور بھارت کے قومی ترانہ: "جن من گن" میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ [9] اوڈیشا کی زبان اوڈیا ہے، جو ہندوستانی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔ [10]

کلنگ کی قدیم سلطنت؛ جس پر موریہ شہنشاہ اشوک نے حملہ کیا تھا (جسے بادشاہ کھاراویلا نے اس سے دوبارہ جیت لیا تھا) 261 قبل مسیح میں کلنگا جنگ کا نتیجہ تھی، جو جدید دور کی اڈیشہ کی سرحدوں کے ساتھ ملحق ہے۔ [11] برطانوی ہندوستانی حکومت کے ذریعہ اڈیشہ کی جدید حدود کی حد بندی اس وقت کی گئی جب 1 اپریل 1936 کو صوبہ اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا، جس میں اوڈیا بولنے والے بہار و اڑیسہ پرووِنس کے اضلاع شامل تھے۔ [11] 1 اپریل کو اُتکلہ دیبسہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ [12] کٹک کو اننتھ ورمن چوڈاگنگا نے تقریباً سن 1135ء میں اس خطہ کا دارالحکومت بنایا تھا۔ [13] جس کے بعد 1948 تک انگریزوں کے دور میں یہ شہر بہت سارے حکمرانوں کے دارالحکومت کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد بھونیشور؛ اوڈیشا کا دارالحکومت بن گیا۔ [14]

اڈیشہ کی معیشت؛ مجموعی گھریلو پیداوار میں ₹5.33 لاکھ کروڑ (75 ارب امریکی ڈالر) کے ساتھ بھارت کی 16 ویں سب سے بڑی ریاستی معیشت ہے اور فی کس جی ڈی پی 116،614 (1،600 امریکی ڈالر) ہے۔ [15] انسانی ترقیاتی انڈیکس میں اوڈیشا؛ 23 ویں نمبر پر ہے۔ [16]

لفظ اوڈیشا کا مصدر و ماخذ

لفظ اوڈیشا (ଓଡ଼ିଶା) قدیم پراکرت لفظ "اوڈا وِسیا" (نیز "اُڈرا بِبھاشا" یا "اوڈرا بھاشا") سے ماخوذ ہے جیسا کہ راجندر چولا اول کے تیروملائی لکھاوٹ میں ہے، جس کی تاریخ 1025ء ہے۔ [17] سرلا داس؛ جنھوں نے 15 ویں صدی میں مہابھارت کا اوڈیا زبان میں ترجمہ کیا تھا، نے اس خطہ اوڈرا راشٹر کو اوڈیشا کہا ہے۔ پوری میں مندروں کی دیواروں پر گجاپتی سلطنت (67-1435ء) کے کپلندر دیوا کے نقشے؛ اس خطہ کو اوڈیشا یا اوڈیشا راجیہ کہتے ہیں۔ [18]

سن2011ء میں ریاست کا نام اڑیسہ سے تبدیل کرکے اڈیشہ کر دیا گیا تھا، اور اس کی زبان کا نام اڑیا سے اوڈیا رکھ دیا گیا تھا۔ اڑیسہ نام کی تبدیلی بل ؛ 2010ء اور پارلیمنٹ میں آئینى (113 ویں ترمیم) بل ؛ 2010ء کی منظوری سے ایک مختصر بحث و مباحثہ کے بعد ایوان زیریں لوک سبھا نے 9 نومبر 2010 کو بل اور ترمیم منظور کی۔ [19] 24 مارچ 2011ء کو پارلیمنٹ کے ايوان بالا راجیہ سبھا نے بھی اس بل اور ترمیم کو منظور کیا۔ [20] نام کی تبدیلی ہندی کے سابق نام उड़ीसा اور انگریزی کے سابق نام اوڈیشا کو اوڈیہ ہجّے اور اس کے تلفظ کے مطابق کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ [21]

تاریخ

خطہ میں مختلف مقامات پر لوئر پیلیوتھک عہد سے پہلے کے ملنے والے اچیلین ادوات دریافت ہوئے ہیں، جو انسانوں کے ذریعہ ابتدائی آباد کاری کا مطلب ہے۔ [22] کلنگ کا ذکر قدیم متون جیسے مہابھارت، وایو پورنہ اور مہا گووندا ستنتا میں کیا گیا ہے۔ [23] [24]

مہا بھارت میں اوڈیشا کے سابر لوگوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ [25] [26] بودھیانہ نے کلنگ کا تذکرہ کیا ہے؛ کیونکہ ابھی تک وہ ویدک روایات سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر قبائلی روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔ [27]

موریان خاندان کے اشوک نے 261 قبل مسیح میں خونی کالنگا جنگ میں کلنگ کو فتح کیا، [28] جب کہ اس کے دور حکومت کا آٹھواں سال تھا۔ [29] ان کی اپنی ہدایات کے مطابق؛ اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ پکڑے گئے اور مزید لوگ متاثر ہوئے۔ [28]

کہا جاتا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی خوں ریزی اور مصائب نے اشوکا کو گہرا متاثر کیا۔ وہ ایک امن پسند ہوگیا اور بدھ مت میں مذہب تبدیل کرلی۔ [29] [30]

تقریباً 150 قبل مسیح میں شہنشاہ کھاراویلا نے؛ جو ممکنہ طور پر باختریہ کے ڈیمیٹریس اول کے ہم عصر تھے، [31] برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیا۔ کھاراویلا ایک جین حکمران تھا۔ اس نے ادے گری پہاڑی کے اوپر مٹھ بھی تعمیر کی۔ [32] اس کے بعد اس علاقے پر بادشاہوں، جیسے سمدرا گپت [33] اور ششنکا [34] کی حکومت تھی۔ یہ ہرشا کی سلطنت کا بھی ایک حصہ تھا۔ [35]

اوڈیشا کا شہر برہم پور؛ چوتھی صدی عیسوی کے اختتامی برسوں کے دوران؛ پوراواس کا دارالحکومت رہا تھا۔ تقریباً تیسری صدی عیسوی میں پوراواس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا ؛ کیوں کہ یودھیا جمہوریہ نے ان کا قبضہ کر لیا تھا، اور اس کے نتیجے میں وہ موریوں کے سامنے پیش ہوگئے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اختتام پر ہی انھوں نے تقریباً 700 سالوں کے بعد برہم پور میں شاہی حکومت قائم کی۔

بعد میں سوماوسی خاندان کے بادشاہوں نے اس خطہ کو متحد کرنا شروع کیا۔ یایاٹی دوم کے دور تک تقریباً 1025 عیسوی میں انھوں نے اس خطہ کو ایک ہی ریاست میں ضم کیا تھا۔ یایاٹی دوم نے بھوبنیشور میں لنگا راج مندر تعمیر کیا تھا۔ [11] ان کی جگہ مشرقی گنگا خاندان نے لے لی۔ اس خاندان کے قابل ذکر حکمران اننتھ ورمن چوڈاگنگا تھے، جنھوں نے پوری میں (تقریباً سن 1135ء) میں موجودہ شری جگناتھ مندر اور نرسمھا دیوا اول کی (تقریباً 1250ء میں) تعمیر کردہ کونارک مندر دوبارہ تعمیر کیے تھے۔ [36] [37]

مشرقی گنگا خاندان کے بعد "گجاپتی بادشاہت" آئی۔ جس نے 1568ء تک اس خطہ کے مغلیہ سلطنت میں انضمام کے خلاف مزاحمت کی؛ یہاں تک کہ اس کو سلطنت بنگال نے فتح کرلیا۔ [38] "مکندا دیوا"؛ جسے کلنگ کا آخری آزاد بادشاہ سمجھا جاتا ہے، شکست کھا گیا اور ایک باغی رام چندر بھنجا کی لڑائی میں مارا گیا۔ خود رام چندر بھنجا کو بایزید خان کرانی نے قتل کیا تھا۔ [39] سن1591ء میں بہار کے اس وقت کے گورنر مان سنگھ اول نے بنگال کے کرانیوں سے اڈیشہ لینے کے لیے ایک فوج کی قیادت کی۔ وہ معاہدے پر راضی ہوگئے؛ کیوں کہ ان کے رہنما قطلو خان ​​لوہانی کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن پھر انھوں نے پوری کے ہیکل قصبہ پر حملہ کرکے معاہدہ توڑا۔ مان سنگھ کی 1592ء میں واپسی ہوئی اور اس نے دوبارہ اس خطہ کو پرسکون بنایا۔ [40]

سنہ1751ء میں نواب بنگال علی وردی خان نے اس علاقہ کو مراٹھا سلطنت کے حوالے کردیا۔ [11]

سنہ 1760ء تک دوسری کارناٹِک جنگ کے نتیجہ میں انگریزوں نے اڈیشہ کے جنوبی ساحلوں پر مشتمل شمالی حلقوں پر قبضہ کر لیا تھا، اور آہستہ آہستہ انھیں مدراس پریزیڈنسی میں شامل کرلیا تھا۔ [41]

1803ء میں انگریزوں نے دوسری اینگلو مراٹھا دوسری اینگلو مراٹھا جنگ کے دوران میں اڈیشہ کے پوری-کٹک خطے سے مراٹھوں کو بے دخل کردیا۔ اڈیشہ کے شمالی اور مغربی اضلاع کو بنگال پریزیڈنسی میں شامل کیا گیا۔ [42]

1866ء میں اڑیسہ میں قحط کے نتیجہ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ [43] اس کے بعد بڑے پیمانے پر آبپاشی کے منصوبے شروع کیے گئے۔ [44] 1903ء میں اوڈیا بولنے والے علاقوں کو ایک ریاست میں متحد کرنے کے مطالبہ میں؛ "اتکل سمیلانی تنظیم" کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ [45] یکم اپریل 1912ء کو صوبہ بہار اور اڑیسہ تشکیل پایا۔ [46] یکم اپریل 1936ء کو صوبہ بہار اور اڑیسہ کو الگ الگ دو صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ [47] اور 15 نومبر 2000ء کو جنوبی بہار کو بھی جھارکھنڈ کی نئی ریاست بنانے کے لیے دستبردار کر دیا گیا۔ [48]

اڑیسہ کا نیا صوبہ؛ ہندوستان میں انگریزوں کی حکمرانی کے دوران؛ لسانی بنیادوں پر معرض وجود میں آیا، سر جون آسٹن ہُوب بیک پہلے گورنر کے طور پر مقرر کیے گئے۔ [49] [50] بھارت کی آزادی کے بعد 15 اگست 1947ء کو 27 ریاستوں نے (جو اس وقت اڈیشہ کے الگ الگ اضلاع ہیں) اڑیسہ میں شامل ہونے کے لیے اس دستاویز پر دستخط کیے۔ [51] مشرقی یونین ریاستوں کے خاتمہ کے بعد؛ اڑیسہ کی بیشتر ریاستیں (اڑیسہ ٹریبیوٹری اسٹیٹس) یعنی ریاستوں کا ایک گروپ 1948ء میں اڑیسہ سے جڑ گیا۔ [52]

جغرافیہ

اوڈیشا؛ عرض البلد میں 17.780N اور 22.730N اور طول البلد میں 81.37E اور 87.53E کے درمیان میں ہے۔

ریاست کا کل رقبہ 155،707 (ایک لاکھ پچپن ہزار، سات سو سات) مربع کلومیٹر ہے، جو ہندوستان کے کل رقبہ کا ٪4.87 فی صد ہے، اور 450 کلومیٹر کا ساحل ہے۔ [53] ریاست کے مشرقی حصہ میں ساحلی پٹی ہے۔ یہ شمال میں دریائے سبرنا ریکھا سے لیکر جنوب میں رشکلیہ دریا تک پھیلا ہوا ہے۔

چیلیکا جھیل؛ ساحلی میدانی علاقوں کا ایک حصہ ہے۔ میدانی علاقے خلیج بنگال میں بہنے والے چھ بڑے دریا؛ سبرنا ریکھا، بدھ بلنگا، بیترنی، برہمنی، مہاندی اور رشکلیہ کے ذریعہ جمع زرخیز مٹی سے مالا مال ہیں۔ [53]

سینٹرل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی آر آر آئی) ایک فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے ذریعہ تسلیم شدہ "رائس (چاول) جین بینک" اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ؛ کٹک میں مہاندی کے کنارے واقع ہے۔ [54]

اوڈیشا میں پوری اور بھدرک کے مابین؛ سمندر کا تھوڑا سا پھیلا ہوا حصہ نکلتا ہے، جس سے (سی آر آر آئی کو) کسی بھی طوفانی سرگرمی کا خطرہ ہوتا ہے۔ [55]

ریاست کا تین چوتھائی حصہ پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ ندیوں کے ذریعہ ان میں گہری اور وسیع وادیاں بنائی گئی ہیں۔ ان وادیوں میں زرخیز مٹی ہے اور گنجان آباد ہے۔ اڈیشہ میں بھی پلیٹاؤس اور اوپر کی طرف لڑھکتے حصے ہیں، جو موازنہ میں پہاڑیوں سے کم اونچائی پر ہیں۔ [53] ریاست کا سب سے اونچا مقام "دیومالی" 1،672 میٹر پر ہے۔ دوسری اونچی چوٹیاں یہ ہیں: "سِنکارام" (1،620 میٹر پر)، "گولیکوڈا" (1،617 میٹر پر)، اور "یندِریکا" (1،582 میٹر پر)۔ [56]

آب و ہوا

ریاست چار موسمیاتی موسموں کا تجربہ کرتی ہے: سردی (جنوری تا فروری)، "پری-مون سون سیزن (بارش سے پہلے کا موسم)" (مارچ سے مئی)، "جنوب مغربی مانسون کا سیزن" (جون تا ستمبر) اور "شمال مشرقی مون سون کا سیزن" (اکتوبر – دسمبر)۔ تاہم مقامی طور پر سال کو چھ روایتی موسموں (یا روٹس) میں تقسیم کیا جاتا ہے: "گِرِشما" (موسمِ گرما)،

"بَرشا" (بارش کا موسم)،

"شَرَٹا" (موسمِ خزاں، پت جھڑ کا موسم)،

"ہیمنتا" (اوس)،

"شِیتا" (موسمِ سرما کا موسم)

بَسنتا (موسمِ بہار)۔ [53]

حیاتیاتی تنوع

2012ء میں "فوریسٹ سروے آف انڈیا" کی ایک رپورٹ کے مطابق؛ اڈیشہ میں 48،903 مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جو ریاست کے کل رق٪31. صد ہیں۔ جنگلات کی درجہ بندی کی جاتی ہے: "گھنے جنگل" (7،060 مربع کلومیٹر)، "درمیانے گھنے جنگل" (21،366 مربع کلومیٹر)، "کھلا جنگل" (بغیر چھتری والا جنگل 20 20،477 مربع کلومیٹر) اور "جھاڑی والا جنگل" (4،734 مربع کلومیٹر )۔ "ریاست میں بانس کے جنگلات" (10،518 مربع کلومیٹر ) اور "مینگروز" (221 مربع کلومیٹر ) بھی ہیں۔ ریاست؛ لکڑیوں کی اِسمگلنگ، کان کَنی، صنعتی کمپنیوں اور چرنے چرانے (grazing) سے اپنے جنگلات کھو رہی ہے۔ تحفظ اور جنگلات کی کَٹائی کے سلسلے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔ [57]

آب و ہوا اور اچھی بارش کی وجہ سے اوڈیشا کے سدا بہار اور نم جنگل؛ جنگلی آرکڈز (orchids) کے لیے مناسب رہائش گاہ ہیں۔ ریاست سے 130 کے قریب پرجاتیوں (جانوروں کے اقسام) کی اطلاع ملی ہے۔ [58] ان میں سے 97 اکیلے "میوربھنج ضلع" میں پائے جاتے ہیں۔ "نندَن کانَن بایولوجیکل پارک" کا "آرکڈ ہاؤس" ان میں سے کچھ پرجاتیوں کی میزبانی کرتا ہے۔ [59]

سملی پال نیشنل پارک ایک محفوظ وائلڈ لائف ایریا اور میوربھنج ضلع کے شمالی حصے کے 2،750 مربع کلومیٹر علاقے میں پھیلا ہوا ٹائیگر ریزرو ہے۔ اس میں پودوں کی 1078 اقسام ہیں، جن میں 94 آرکڈز شامل ہیں۔

سال درخت وہاں درختوں کی بنیادی نوع ہے۔ اس پارک میں 55 ممالیہ (ستنداری) جانور ہیں، جن میں "بھونکنے والے ہرن"، "بنگال ٹائیگر"، "عام لنگر"، "چار سینگوں والا ہرن"، "ہندوستانی بائسن"، "ہندوستانی ہاتھی"، "بھارتی دیو گلہری"، "ہندوستانی چیتا"، "جنگلی بلی"، "سمبر ہرن"، اور "جنگلی سور" شامل ہیں۔ اس پارک میں پرندوں کی 304 اقسام ہیں، جیسے "عام پہاڑی میناہندوستانی سرمئی ہارن بل"، "انڈین پائیڈ ہورن بل" اور "مالابار پیڈ ہارن بل"۔ اس میں 60 قسم کے رینگنے والے جانور بھی موجود ہیں، ان میں "کنگ کوبرا"، "بینڈیڈ کرائٹ" اور "ٹرائرینیٹ پہاڑی کچھی/کچھوا" شامل ہیں۔ "قریبی رامتیرتھا" میں مگرمچھ پالنے کا پروگرام بھی ہے۔ [60]

"چَندَکا ایلیفینٹ سینکوریری" (ہاتھیوں کا ایک محفوظ مقام) دارالحکومت بھوبنیشور کے قریب 190 مربع کلومیٹر محفوظ علاقہ ہے۔ تاہم شہری توسیع اور زیادہ چرنے سے جنگلات کم ہوگئے ہیں اور ہاتھیوں کے ریوڑ کو ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔ 2002ء میں تقریباً 80 ہاتھی تھے۔ لیکن 2012 تک ان کی تعداد کم ہوکر 20 ہوگئی تھی۔ بہت سارے جانور "باربرا رِیزَرو جنگل"، "چیلیکا"، "نیاگڑھ ضلع"، اور "آٹھ گڑھ" کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ ہاتھی دیہاتیوں کے ساتھ تنازعات میں ہلاک ہوگئے ہیں، جبکہ کچھ ہجرت کے دوران میں بجلی کی لائنوں سے بجلی گرنے یا ٹرینوں کی زد میں آنے سے انتقال کرگئے ہیں۔ محفوظ علاقے کے باہر وہ شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ [61] [62] ہاتھیوں کے علاوہ، اس مقدس جگہ میں "ہندوستانی چیتے"، "جنگلى بلیاں" اور "چیتل" (جیسے داغدار ہرن) بھی ہیں۔ [63]

"ضلع کیندرا پاڑہ" کا "بھیتر کنیکا نیشنل پارک" 650 پر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں سے 150 مربع کلومیٹر "مینگرووز" ہیں۔ مینگروو؛ ایک جھاڑی یا چھوٹا درخت ہے، جو ساحلی نمکین یا کھارے پانی میں اگتا ہے۔ "بِھیتر کنیکا" کا "گہیرا ماتھا ساحل سمندر" "زیتون کے رائڈلی سمندری کچھووں" کے لیے دنیا کا سب سے بڑا گھونسلا کرنے کی جگہ ہے۔ [64]

ریاست میں کچھی کے لیے گھونسلے کے دیگر بڑے میدان "گنجام ضلع" میں "رشوکولیا" اور "دیوی ندی" کا منہ ہیں۔ [65] [66] "بھیتر کنیکا سنچری" میں وافر "نمک-پانی مگرمچھوں" کی بڑی آبادی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ [67] سردیوں کے موسم میں اس پناہ گاہ میں مہاجر پرندے بھی جاتے ہیں۔ "سَنچُری" میں پائے جانے والے پرندوں کی انواع میں "سیاہ فام نائٹ ہیرون"، "ڈارٹر"، "گرے (سرمئی) بگلا"، "انڈین کورمورنٹ"، "اورینٹل وائٹ آئبیس"، "جامنی رنگ کا بگلا"، اور "سارس کرین" شامل ہیں۔ [68]

اس خطے میں ممکنہ طور پر خطرے سے دوچار "گھوڑے کی نعل کی شکل کا کیکڑا" بھی پایا جاتا ہے۔ [69]


"چیلیکا جھیل"؛ اڈیشہ کے مشرقی ساحل پر ایک کھارے پانی کی کھاڑی والا جھیل ہے جس کا رقبہ 1،105 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ 35 کلومیٹر طویل "تنگ چینل" کے ذریعہ خلیج بنگال سے منسلک ہے اور "مہاندی ڈیلٹا" کا ایک حصہ ہے۔ خشک موسم میں "جوار"؛ نمکین پانی لاتے ہیں۔ بارش کے موسم میں نالے میں گرنے والی ندیوں کی نمکینی میں کمی آ جاتی ہے۔ [70] "بحر کیسپین"، "بیکال جھیلروس کے دیگر حصوں، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، "لداخ" اور "ہمالیہ" کے مقامات سے پرندے؛ سردیوں میں جھیل میں ہجرت کرتے ہیں۔ [71] نشان زد پرندوں میں "یوریشین ویگن"، "پنٹیل"، "بار سر والا ہنس"، "گریلاگ ہنس"، "فلیمنگو"، "ملارڈ" اور "گولیتھ بگلا" موجود ہیں۔ [72] [73] کھاڑی میں خطرے سے دوچار "اراوڑی ڈولفن" کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے۔ [74] ریاست کے ساحلی علاقوں یعنی اس کے پانیوں میں "فائنلیس پورپائز"، "بوٹلنوز ڈالفن"، "ہمپ بیک ڈولفن" اور "اسپنر ڈالفن" بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ [75]

"ساتا پاڑہچیلیکا جھیل اور خلیج بنگال بنگال کے شمال مشرقی "کیپ" کے قریب واقع ہے۔ یہ اپنے قدرتی رہائش گاہ میں "ڈالفن" دیکھنے کے لیے مشہور ہے۔ وہاں ڈالفن دیکھنے کے لیے ایک چھوٹا جزیرہ ہے، جہاں سیاح اکثر ایک چھوٹا سا وقفہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جزیرہ ""چھوٹے چھوٹے سرخ کیکڑوں" کا گھر بھی ہے۔

حکومت اور سیاست

بھارت میں تمام ریاستوں پر عالمی جمہوری حق رائے دہی پر مبنی حکومت کے ایک پارلیمانی نظام کی حکومت ہوتی ہے۔ [76] [77]

اوڈیشا کی سیاست میں سرگرم مرکزی پارٹیاں: "بیجو جنتا دل"، "انڈین نیشنل کانگریس" اور "بھارتیہ جنتا پارٹی" ہیں۔ 2019ء میں اوڈیشا کے ریاستی اسمبلی انتخابات کے بعد؛ نوین پٹنائک کی زیر قیادت؛ بیجو جنتا دل مسلسل چھٹی بار اقتدار میں رہی، نوین نوین پٹنائک سن 2000ء کے بعد سے وزیر اعلی کے 14 ویں وزیر اعلی ہیں۔ [78]

قانون ساز اسمبلی

ریاست اوڈیشہ میں ایک ہی "یکسانیت پسندی والی مقننہ" ہے۔ [79] اڈیشہ قانون ساز اسمبلی میں 147 منتخب ممبران، [80] اور اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر جیسے خصوصی عہدہ دار شامل ہیں، جو ممبران کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں کی صدارت اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے یا اسپیکر کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر کے ذریعہ ہوتا ہے۔ [81] ایگزیکٹو اتھارٹی وزیر وزیر اعلی کی سربراہی میں وزرا کی کونسل میں رکھی گئی ہے، حالاں کہ حکومت کے ٹائٹل سربراہ اوڈیشا کے گورنر ہیں۔ گورنر کا تقرر؛ بھارت کے راشٹر پتی کرتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں اکثریت کی حامل پارٹی یا اتحاد کے رہنما؛ گورنر کے ذریعہ وزیر اعلی کے عہدے پر مقرر ہوتے ہیں اور وزیر اعلی کے مشورے پر گورنر کے ذریعہ قانون ساز اسمبلی کی کونسل کا تقرر کیا جاتا ہے۔ وزرا کی کونسل قانون ساز اسمبلی کو رپورٹ کرتی ہے۔ [82] منتخب ہونے والے 147 نمائندوں کو ارکان اسمبلی، یا ایم ایل اے کہا جاتا ہے۔ ایک "ایم ایل اے" گورنر کے ذریعہ "اینگلو ہندوستانی برادری" سے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ [83] عہدے کی مدت پانچ سال کے لیے ہے، جب کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں ہوجاتی ہے۔ [81]

عدليہ؛ اوڈیشا ہائی کورٹ" پر مشتمل ہے، جو کٹک میں واقع ہے اور نچلی عدالتوں کا ایک نظام ہے۔

ذیلی تقسیم

اڈیشہ کو 30 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان 30 اضلاع کو اپنی حکمرانی کو ہموار کرنے کے لیے تین مختلف محصولات ڈویژنوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ ڈویژنیں شمالی، وسطی اور جنوبی ہیں، جن کا صدر مقام بالترتیب "سمبل پور"، "کٹک" اور "برہم پور" میں ہے۔ ہر ڈویژن دس اضلاع پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے انتظامی سربراہ بطورِ محصول ایک "ڈویژنل کمشنر" (آر ڈی سی) ہوتا ہے۔ [84] انتظامی درجہ بندی میں "آر ڈی سی" کی پوزیشن ضلعی انتظامیہ اور ریاستی سکریٹریٹ کے درمیان میں ہے۔ [85] "آر ڈی سیز"؛ "بورڈ آف ریونیو" کو رپورٹ کرتے ہیں، جس کی سربراہی "انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس" کے ایک سینئر افسر کے ذریعہ ہوتی ہے۔ [84]

ہر ضلع پر کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ حکومت کرتا ہے، جو "انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس" سے مقرر ہوتا ہے۔ [86] [87] کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ ضلع میں محصول وصولی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ضلع کو "سَب ڈویژنوں" میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک "س‍‍َب کلکٹر" اور "سَب ڈویژن"؛ "مجسٹریٹ" کے زیرِ انتظام ہوتا ہے۔ سب ڈویژنوں کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کی سربراہی؛ تحصیلدار کرتے ہیں۔ اڈیشہ میں 58 سب ڈویژنز، 317 تحصیل اور 314 بلاک ہیں۔ [88] بلاک پنچایت (گاؤں کی کونسلوں) اور ٹاون میونسپلٹیوں پر مشتمل ہیں۔

ریاست کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر "بھوبنیشور" ہے۔ دوسرے بڑے شہر کٹک، "راورکیلا"، "برہم پور" اور "سمبل پور" ہیں۔ اوڈیشا میں میونسپل کارپوریشنوں میں "بھوبنیشور"، "کٹک"، "برہم پور"، "سمبل پور" اور "راورکیلا" شامل ہیں۔

اڈیشہ کی دیگر میونسپلٹیوں میں "انگول"، "بلانگیر"، بالیسور"، "بڑبل"، "بارگڑھ"، "باری پادا"، "بیل پہاڑ"، "بھدرک"، "بھوانی پٹنہ"، بیرامترا پور"، "بَودھ"، "برَجراج نگر"، "بیاسا نگر"، "چھترا پور"، "دیوگڑھ"، "ڈھینکانال"، "گوپال پور"، "گُنو پور"، "ہِنجِلی کٹ"، "جگت سنگھ پور"، "جوڑا"، "کیندرا پاڑہ"، "کیونجھر" (کیندوجھر گڑھ)، "کھوردا"، "کونارک"، "کوراپوٹ"، "مالکَن گیری"، "نَبرَنگ پور"، "نیاگڑھ"، "نُوا پاڑہ"، "پرادیپ"، "پارا لَکھے مُنڈی"، "پھول بانی"، "پوری"، "راجگنگ پور"، "رائے گڈھ"، "سونپور"، "سُندر گڑھ"، "تالچیر"، "تِتِلا گڑھ" اور "عمیرکوٹ" شامل ہیں۔

پنچایتوں کے نام سے معاون اعلیٰ حکام؛ جن کے لیے باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں، دیہی علاقوں میں مقامی امور چلاتے ہیں۔

معیشت (ایکونومی)

میکرو-معاشی رجحان

اوڈیشا مستحکم معاشی نمو کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست کے مجموعی گھریلو مصنوعات میں متاثر کن ترقی کی اطلاع؛ وزارتِ شماریات اور پروگرام پر عمل درآمد نے دی ہے۔ اوڈیشا کی شرحِ نمو قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ [89] مرکزی حکومت کی شہری ترقیاتی وزارت نے حال ہی میں 20 شہروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، جنھیں اسمارٹ شہر کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کا دارالحکومت "بھوبنیشور" جنوری 2016ء میں جاری کردہ سمارٹ شہروں کی فہرست میں پہلا شہر ہے۔ جو ہندوستانی حکومت کا ایک پالتو جانور منصوبہ ہے۔ اس اعلان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پانچ سالوں میں 508.02 ارب روپے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ [90]

صنعتی ترقی

اڈیشہ میں وافر قدرتی وسائل اور ایک بہت بڑا ساحل ہے۔ اوڈیشا بیرون ملک مقیم سرمایہ کاروں کے لیے؛ سرمایہ کاری کی تجاویز کے ساتھ پسندیدہ مقام بن کر ابھرا ہے۔ [91] اس میں ہندوستان کے کوئلے کا پانچواں حصہ، اس کے فولاد کا ایک چوتھائی حصہ، اس کے "بوکسائٹ" ذخائر کا ایک تہائی حصہ اور زیادہ تر "کرومائٹ" شامل ہوتا ہے۔

"راورکیلا اسٹیل پلانٹ" [92] ؛ بھارت میں عوامی شعبہ میں پہلا مربوط "اسٹیل پلانٹ" تھا، جو جرمنی کے اشتراک سے تعمیر کیا گیا تھا۔

"آرسیلر مِتّل" نے ایک اور "میگا اسٹیل منصوبہ" میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایک روسی بڑی "میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی" (ایم ایم کے) نے بھی اوڈیشا میں بھی 10 میگا ٹن اسٹیل پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ "بندھابَہَل، اوڈیشا" میں کوئلے کی کھلی ہوئی کانوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ ریاست؛ "الومینیم" اور "کوئلہ" پر مبنی؛ بجلی گھروں، پیٹرو کیمیکلز، اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں بھی بے مثال سرمایہ کاری کی طرف رغبت کر رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں "ریلائنس پاور" (انیل امبانی گروپ) "جھارسگوڈا ضلع" کے "ہِرما" میں 13 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا "پاور پلانٹ" لگا رہا ہے۔ [93]


کارپوریٹ سرمایہ کاری کے بارے میں "اینالائزس آف ASSOCHAM انوسٹمنٹ میٹر" (اے آئی ایم) کے مطالعے کے تجزیہ کے مطابق؛ 2009ء میں اوڈیشا دوسری گھریلو سرمایہ کاری کی منزل تھی، جس میں "گجرات" پہلے اور "آندھرا پردیش" تیسرے نمبر پر تھا۔ ملک میں کل سرمایہ کاری میں اڈیشہ کا حصہ 12.6 فیصد تھا۔ اسے پچھلے سال کے دوران میں سرمایہ کاری کی تجویز؛ 2،00،846₹₹ کروڑ روپے ڈالر کی شکل میں موصول ہوئی۔ "اسٹیل(لوہا)" اور "بجلی" ان شعبوں میں شامل تھے، جنھوں نے ریاست میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ [94]

نقل و حمل

اوڈیشا میں سڑکیں، ریلوے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بھوبنیشور باقی ہندوستان کے ساتھ ہوائی، ریل اور سڑک کے ذریعہ اچھی طرح سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ شاہراہیں "فور لینز (چار سڑکوں والی شاہراہوں)" تک پھیل رہی ہیں۔ [95] بھوبنیشور اور کٹک سے ملنے والی میٹرو ریل کے منصوبے بھی 30 کیلو میٹر کی علاقہ کے لیے شروع ہوچکے ہیں۔ [96]

ہوائی اڈا

اوڈیشا میں کل دو آپریشنل ہوائی اڈے، 17 "ایئر اِسٹرِپس" (زمین کے وہ تنگ ٹکڑے؛ جہاں طیارہ اتار سکتا ہو) اور 16 "ہیلی پیڈ" ہیں۔ [97] [98] [99] "جھارسگوڈا" کے ہوائی اڈے کو مئی 2018ء میں ایک مکمل گھریلو ہوائی اڈے پر تیار کیا گیا تھا۔ [100] حکومتِ اوڈیشا نے "انٹرا اسٹیٹ اور بین ریاستی شہری ہوا بازی" کو فروغ دینے کی کوشش میں "انگول"، "دھامرا"، "کلنگا نگر"، "پرادیپ" اور رائے گڈھ" میں پانچ "گرین فیلڈ (سبز میدانوں والے) ہوائی اڈوں" کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ "بڑبل"، "گوپال پور"، "جھارسگوڈا" اور "راورکیلا" میں موجودہ ایئروڈومز (زبردست ہوائی اڈوں) کو بھی اپ گریڈ کیا جانا تھا۔ [101] "دھامرا پورٹ کمپنی لمیٹیڈ"؛ "دھامرا بندرگاہ" سے 20 کلومیٹر دور "دھامرا ہوائی اڈا" بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ [102] "ایئر اوڈیشا"؛ بھونیشور میں واقع اوڈیشا کی واحد "ائیر چارٹر کمپنی" ہے۔

اڈیشہ میں موجود ہوائی اڈوں کے نام

انگول۔ ساویتری جِندَل ایئر پورٹ

بارگڑھ۔ سَتیوَتا ایئر اِسٹرِپ

بھوانی پٹنہ - اتکلہ ایئر اِسٹرِپ ("یو ڈی اے ایم اسکیم" کے تحت تیار کیا جارہا ہے)

بھوبنیشور۔ "بیجو پٹنائک بین الاقوامی ہوائی اڈا (باقاعدگی سے کام کررہا ہے)

برہم پور۔ برہم پور ہوائی اڈا

کٹک - چاربٹیا ایئر بیس

جی پور - جیپور ہوائی اڈا ("یو ڈی اے ایم اسکیم" کے تحت تیار کیا جارہا ہے)

جھار سوگوڈا۔ وِیر سُریندر سائی ہوائی اڈا ("یو ڈی اے ایم اسکیم" کے تحت کام کر رہا ہے)

راورکیلا - راورکیلا ایئرپورٹ ("یو ڈی اے ایم اسکیم" کے تحت تیار کیا جارہا ہے)

سمبل پور۔ ہیراکود ایئر اِسٹرِپ

بندرگاہیں

اڈیشہ میں ساحل کا فاصلہ 485 کلو میٹر ہے۔ اس کی ایک بڑی بندرگاہ "پرادیپ" میں ہے اور کچھ معمولی بندرگاہیں بھی ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں: [103] [104]

"دھامارا" کا بندرگاہ

"گوپال پور" کا بندرگاہ

پرادیپ پورٹ

"سُبرنا ریکھا" کا بندرگاہ

اَستَرنگ" کا بندرگاہ

"چاندی پور" کا بندرگاہ

"چوڑامانی" کا بندرگاہ

"پَلُور" کا بندرگاہ

ریلوے

اوڈیشا کے بڑے شہر براہِ راست روزانہ ٹرینوں اور ہفتہ وار ٹرینوں کے ذریعہ ہندوستان کے تمام بڑے شہروں سے اچھی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اوڈیشا میں زیادہ تر ریلوے نیٹ ورک؛ "مشرق کوسٹ ریلوے" (ای سی او آر) کے دائرۂ اختیار میں ہیں، جس کا صدر مقام بھوبنیشور اور کچھ حصوں میں "جنوب مشرقی ریلوے" اور "جنوب مشرقی وسطی ریلوے" کے ماتحت ہے۔

آبادیات

بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، اڈیشہ کی مجموعی آبادی 41،974،218 ہے، جن میں 21،212،136 (50.54٪) مرد اور 20،762،082 (49.46٪) خواتین ہیں، یا ہر "ایک ہزار نر" میں "978 خواتین" ہیں۔ یہ 2001ء میں آبادی کے مقابلہ میں 13.97 فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ آبادی کی کثافت 270 فی مربع کلومیٹر ہے۔ [105]

2011ء کی مردم شماری کے مطابق خواندگی کی شرح 73٪ فی صد ہے، جن میں 82٪ فی صد مرد اور 64٪ فی صد خواتین پڑھے لکھے ہیں۔

2004-2005ء میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 57.15٪ فی صد تھا، جو ہندوستانی اوسط 26 26.10٪ سے دگنا تھا۔ 2005ء سے ریاست نے غربت کی شرح میں ڈرامائی طور پر 24.6 فیصد پوائنٹس کی کمی کی ہے۔ موجودہ اندازے کے مطابق خطِ غربت کے تحت زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 32.6 فیصد تھا۔ [106] [107]

1996–2001ء کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں زندگی کی متوقع عمر 61.64 سال ہے جو سالوں کی قومی قدر سے زیادہ ہے۔ ریاست میں ہر سال ایک ہزار افراد کی پیدائش کی شرح 23.2 ہے، جس میں ہر سال 1000 افراد پر اموات کی شرح 9.1 ہے، بچوں کی شرح اموات 1000 ہر 1000 زندہ پیدائش میں اور زچگی کی شرح اموات ہر ایک ہزار زندہ پیدائش میں 358 ہے۔ اوڈیشا میں 2011ء کے مطابق؛ 0.442 کا "ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس" (انسانی ترقی فہرست) ہے۔

مذہب

اوڈیشا میں مذہب؛ باعتبار مردم شماری (2011 ء) [108]

ہندو مت (93.63٪)

عیسائیت (2.77٪)

اسلام (2.17٪)

سرنزم (1.14٪)

سکھ مت (0.05٪)

بدھ مت (0.03٪)

جین مت (0.02٪)

دیگر (۔19٪)

اڈیشہ میں اکثریت (تقریباً 94٪ [109] ) ہندو ہیں اور ریاست میں ایک متناسب ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اڈیشہ میں متعدد ہندو شخصیات ہیں۔ "سَنت بھیما بھوئی"؛ "مَہِیما فرقہ" کا قائد تھا۔ ایک ہندو "کھنڈایت" "سَرلا داس"؛ "مہاکاوی مہابھارت" کا اوڈیا زبان میں ترجمہ کرنے والی تھیں۔ "چیتنیا داس"؛ ایک "بدھ مت - وشنو" اور "نِرگونا مہاتمَیا" کے مصنف تھے۔ "جے دیوا"؛ "گیتا گووِندا" کے مصنف تھے۔

1948ء کے "اوڈیشا ٹیمپل اتھارٹی ایکٹ" نے اوڈیشا حکومت کو دلتوں سمیت تمام ہندوؤں کے لیے مندر کھولنے کی طاقت دی۔ [110]

شاید اوڈیشا کا سب سے قدیم صحیفہ پوری مندر کا "مَڈلا پَنجی" ہے، جو 1042 عیسوی سے مانا جاتا ہے۔ ہندو اوڈیا کے مشہور صحیفہ میں "جگناتھ داس" کی 16ویں صدی کی "بھگاباتا" بھی شامل ہے۔ [111] جدید دور میں "مَدھوسودَن راؤ" اوڈیا کے ایک بڑے مصنف تھے، جو "برہمو سماج پسند" تھے اور 20ویں صدی کے آغاز میں اوڈیا کے جدید ادب کی تشکیل کی۔ [112]

2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اوڈیشا میں عیسائی آبادی کا تقریباً 2.8 فیصد ہے، جب کہ اوڈیا مسلمان 2.2 فیصد ہیں۔ سکھ، بدھ اور جین برادری مل کر آبادی کا 0.1٪ بنتے ہیں۔ [109]

زبانیں

اوڈیشا کی زبانیں (2011ء) [113]

اوڈیہ (بشمول سمبل پوری) (81.32٪) کوئی (2.24٪) سنتالی (2.06٪) اردو (1.60٪) تیلگو (1.59٪) ہندی (1.23٪) بنگالی (1.20٪) دیگر (8.76٪)

اوڈیا؛ اوڈیشا کی سرکاری زبان ہے [114] اور یہ ہندوستان کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ آبادی میں 82.7٪ بولی جاتی ہے۔ [115] یہ ہندوستان کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔ انگریزی ریاست اور ہندوستان کی یونین کے مابین خط و کتابت کی سرکاری زبان ہے۔ اسپوکین اوڈیا ہم جنس نہیں ہے؛ کیوں کہ ریاست بھر میں بولی جانے والی مختلف بولیاں مل سکتی ہیں۔ ریاست کے اندر پائی جانے والی کچھ بڑی بولیاں: "سمبل پوری"، "کٹکی"، "پوری"، "بالیسوَری"، "گنجامی"، "دیسیہ" اور "پھولبانی" ہیں۔ [116]

ریاست میں اوڈیا کے علاوہ ہندی، تیلگو، اردو اور بنگالی جیسے دوسری بڑی ہندوستانی زبانیں بولنے والے لوگوں کی قابلِ ذکر آبادی بھی پائی جاتی ہے۔ [117]

مختلف آدیباشی برادری جو زیادہ تر مغربی اوڈیشا میں رہتی ہیں، ان کی اپنی زبانیں "آسٹروسیاٹک" اور دراوڑی زبان" سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑی ادیبی زبانیں: "سنتالی"، "کیو" اور "ہو" ہیں۔ بیرونی لوگوں سے بڑھتے ہوئے رابطے، ہجرت اور سماجی و اقتصادی وجوہات کی وجہ سے ان میں سے بہت سی دیسی زبانیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہیں یا ناپید ہوجانے کے راستے پر ہیں۔ [118]

"اوڈیشا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ"؛ 1957ء میں اوڈیہ زبان و ادب کی فعال طور پر ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اوڈیشا حکومت نے اوڈیا زبان اور ادب کے فروغ کے لیے 2018ء میں ایک پورٹل "https://ova.gov.in/en" شروع کیا تھا۔

تعلیم

تعلیمی ادارے

انڈین انسٹیٹیوٹس آف ہینڈلوم ٹیکنالوجی (IIHT Bargarh) "بارہ گڑھ" میں

"انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹورِزم اینڈ ٹریول مینیجمنٹ، بھوبنیشور" (IITTM BBSR)

"سی، وی، رمن گلوبل یونیورسٹی، بھوبنیشور" (CVRGU)

"ریجنل انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن، بھوبنیشور " (RIE BBSR)

"انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوبنیشور" (IIT BBS)

"نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ، بھوبنیشور" (NISER)

"نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، راورکیلا" (NIT)

"انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ، سمبل پور" (IIM-SB)

"انڈین انسٹیٹیوٹس آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، برہم پور" (IISER BPR)

"آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، بھوبنیشور " (AIIMS)

"ویر سریندر سائی یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، بُرلا سمبل پور " (VSSUT)

"نیشنل لا یونیورسٹی، کٹک"

"انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، بھونیشور" (IIIT)

"برہم پور یونیورسٹی، برہم پور"

"بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، برہم پور"

"اسپاٹ آؤٹونوموز کالج، راورکیلا"

"بکسی جگا بندھو رڈیا دھار کالج، بھونیشور"

"سینٹرل یونیورسٹی آف اوڈیشا، کورا پوٹ"

"کالج آف ایگریکلچر، بھوانی پٹنہ"

"کالج آف بیسک سائنس اینڈ ہیومنٹیز، بھوبنیشور"

"کالج آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی، بھوبنیشور"

"دھرنیدھار کالج، کیونجھر"

"فقیر موہن یونیورسٹی، بالیسور"

"گنگا دھر مہر یونیورسٹی، سمبل پور"

"گورنمنٹ کالج آف انجینئری، کالا ہانڈی" بھوانی پٹنہ میں

"ہائی ٹیک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، بھوبنیشور"

"اندرا گاندھی انسٹیٹیوٹ، سَارنگ"

"کے آئی آئی ٹی یونیورسٹی، بھوبنیشور" (KIIT University)

"کالی کوٹ یونیورسٹی، برہم پور"

"مہاراجا کرشن چندر گجاپتی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، برہم پور"

"نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، برہم پور"

"نارتھ اوڈیشا یونیورسٹی، باری پادا؛ مَیُور بھنج"

"اوڈیشا اسٹیٹ اوپن یونیورسٹی، سمبل پور"

"اڑیسہ انجینئری کالج، بھوبنیشور"

"اوڈیشا یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی، بھوبنیشور"

"پرلا مہاراجا انجنئیرنگ کالج، برہم پور"

"پرنا ناتھ آؤٹونوموز کالج، کھوردا"

"راما دیوی ویمنز یونیورسٹی، بھوبنیشور"

"ریونشا یونیورسٹی، کٹک"

"سمبل پور یونیورسٹی، سمبل پور"

"سمبل پور یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، سمبل پور"

"شری رام چندر بھنج میڈیکل کالج، کٹک"

"سکشا و انوساندھن یونیورسٹی، بھوبنیشور"

"اتکل یونیورسٹی، بھوبنیشور"

"اتکل یونیورسٹی آف کلچر، بھوبنیشور"

"ویر سریندر سائی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ" (VIMSAR) بُرلا، سمبل پور

"شاویر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوبنیشور"

"شاویر یونیورسٹی، بھوبنیشور"

"انسٹیٹیوٹ آف ٹیکسٹائل ٹکنالوجی، چودھوار، کٹک"

"انسٹیٹیوٹ آف میتھمیٹکس اینڈ ایپلیکیشنز، بھوبنیشور"

"شری شری یونیورسٹی، کٹک"

"سنچُرین یونیورسٹی، جٹنی بھوبنیشور"

"اسٹیورٹ اسکول، بخشی بازار، کٹک"

"نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ریہابلوٹیشن ٹریننگ اینڈ، کٹک"

"نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سوشل ورک اینڈ سوشل سائنس، بھوبنیشور" (NISWASS)

"راجیندر نارائن یونیورسٹی، بلانگیر"

"کالا ہانڈی یونیورسٹی، بھوانی پٹنہ"

"بھیم بوئی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، بلانگیر"

"پنڈت رگوناتھ مُرمو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، باری پادا" [119]

"شہید لکشمن نایک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، کورا پوٹ" [120]

"بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی (بی پی یو ٹی) راورکیلا" کے ذریعہ 2003ء کے بعد سے جہاں نشستوں کی اہلیت کے مطابق نشستیں فراہم کی جاتی ہیں، خاص طور پر انجینئری ڈگری میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف اداروں میں داخلے کا مرکز اوڈیشا "جوائنٹ انٹریس امتحان" ہوتا ہے۔ [121] انجینئری کے بہت سارے انسٹی ٹیوٹ؛ جوائنٹ انٹری امتحان کے ذریعہ طلباء کو داخلہ دیتے ہیں۔ میڈیکل کورس کے لیے اسی طرح کی قومی اہلیت کے ساتھ داخلہ ٹیسٹ ہوتا ہے۔

ثقافت و کلچر

کھانے کی مشہور اشیاء

اوڈیشا میں صدیوں پر محیط ایک پاک روایت ہے۔ شری جگناتھ مندر، پوری کا باورچی خانہ دنیا میں سب سے بڑا باورچی ہے، جس میں 1،000 شیف (باورچی) ہر روز 10،000 سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے تقریباً 752 لکڑی سے جلنے والے مٹی کے چولوں پر کام کرتے ہیں۔ [122] [123]

اوڈیشا میں تیار کی گئی شیرہ سے بھری "پہاڑہ رسگولا" پوری دنیا میں مشہور ہے۔ [124] "چھینا پوڑا" اوڈیشا کا ایک اور بڑا میٹھا ڈِش ہے، جس کی شروعات نیاگڑھ میں ہوئی ہے۔ [125] "دالما" (دال اور منتخب سبزیوں کا مرکب) بڑے پیمانے پر پکوان میں مشہور ہے، گھی کے ساتھ بہتر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مغربی بنگال کے ساتھ مشہور میٹھے کی ابتدا کے بارے میں طویل جنگ کے بعد 29 جولائی 2019 کو "اوڈیشا رسگولا" کو "جی آئی ٹیگ" سے نوازا گیا۔ [126]

رقص

اوڈیسی (اوڑیسی) رقص اور موسیقی کلاسیکی آرٹ کی شکل ہے۔ آثار قدیمہ کے شواہد کی بنیاد پر ہندوستان میں قدیم زندہ بچ جانے والا رقص ہے۔ [127] اوڈیسی کی 2،000 سال کی طویل غیر متزلزل روایت ہے، اور اس کا ذکر؛ ممکنہ طور پر تحریری تقریباً 200 قبل مسیح سے "بھرٹامونی" کے "ناٹیا شاستر" میں ملتا ہے۔ تاہم برطانوی دور میں رقص کی شکل تقریباً معدوم ہوگئی تھی، صرف چند گروؤں کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اسے زندہ کیا جاسکتا تھا۔

رقص کی مختلف اقسام میں "گھمورا (گھومر) رقص"، "چھاؤ رقص"، "جُھمیر"، "مَہاری رقص"، "دَلکھائی" اور "گوٹی پُوا" شامل ہیں۔

کھیل

ریاست اوڈیشا نے کھیلوں کے کئی بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کی ہے، جن میں "2018 مینز ہاکی ورلڈ کپ" بھی شامل ہے، اور "2020 فِیفا انڈر 17 ویمنز ورلڈ کپ" بھی شامل ہے اور "2023 مینز ہاکی ورلڈ کپ" کے لیے میچوں کی میزبانی کرے گا۔

اڈیشہ میں سیاحت

بھوبنیشور کے "لنگاراجا مندر" میں 150 فٹ (46 میٹر) اونچا دیولا (مندروں کے اوپر کا گنبد نما حصہ) ہے، جب کہ "جگناتھ مندر، پوری" تقریباً 200 فٹ (61 میٹر) اونچائی پر ہے اور اسکائی لائن پر تسلط رکھتا ہے۔ "پوری ضلع" میں "کونارک" میں "کونارک سورج مندر" کا صرف ایک حصہ، جو "ہولی گولڈن ٹرائنگ" کے سب سے بڑے مندروں میں موجود ہے، اور یہ اب بھی حیرت زدہ ہے۔ یہ اڈیشہ کی فنِ تعمیر میں ایک شاہکار کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ "شکت ازم" کے سب سے زیادہ روحانی اظہارِ خیالات میں سے ایک سمجھے جانے والا "سُرالا مندر"؛ ضلع جگت سنگھ پور میں ہے۔ یہ اڈیشہ میں ایک سب سے پُرجوش مقام اور سیاحوں کی ایک بڑی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ ضلع "کیندوجھر" میں "گھٹگاؤں" علاقہ میں واقع "ماتا رانی مندر" بھی ایک مشہور زیارت گاہ ہے۔ ہر روز ہزاروں ناریل اپنی خواہشات کو پورا کرنے پر عقیدت مندوں کے ذریعہ "ما تا رانی" کو دیے جاتے ہیں۔ [128]

اڈیشہ کے مغربی حصے میں "سمبل پور ضلع" کا "ہیراکود ڈیم"؛ دنیا کا سب سے طویل مٹی والا ڈیم ہے۔ یہ ایشیاء کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل بھی تشکیل دیتا ہے۔ "ڈیبری گڑھ وائلڈ لائف سَنچُری"؛ "ہیراکود ڈیم" کے قریب واقع ہے۔ "سمَلیسوَری مندر"؛ "سمبل پور شہر" کا ایک ہندو مندر ہے، جو "سمبل پور" کی صدارت کرنے والا دیوتا "سمَلیسوَری" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ریاستِ "اوڈیشا" اور "چھتیس گڑھ" کے مغربی حصہ میں ایک مضبوط مذہبی قوت ہے۔ "ہُما کا جھکاؤ مندر"؛ "سمبل پور" کے قریب واقع ہے۔ مندر؛ ہندو دیوتا لورڈ "بِمَلیشور" کے لیے وقف ہے۔ "سری سری ہَری شنکر دیوستھان"؛ بلانگیر ضلع؛ "گَنداماردَھن پہاڑیوں" کی ڈھلوان پر واقع ایک مندر ہے۔ یہ اپنی فطرت کے مناظر اور دو ہندوؤں، "وِشنو" اور "شیو" سے وابستہ ہونے کے سبب مشہور ہے۔ "گَنداماردَھن پہاڑیوں" کے مخالف سمت میں "سری نُرسِنگھا ناتھ کا مندر" ہے، "ضلع بارگڑھ" کے "پَیکمال" کے قریب "گندامردھن پہاڑی" کے دامن میں واقع ہے۔ [129]

اڈیشہ کے جنوبی حصے میں ضلع گنجام میں برہم پور شہر کے قریب واقع "رُشِکُلیہ ندی" کے کنارے میں "کُماری پہاڑیوں" پر واقع "تارا تَرینی مندر" ہے، جہاں چھاتی (پستان) کی عبادت گاہ (ستھنا پیٹھہ) اور آدی طاقت کے مظہر کے طور پر پوجا کی جاتی ہے۔ "تارا تارینی شکتی پیٹھہ"؛ دیوی کے قدیم ترین یاترا مراکز میں سے ایک ہے اور یہ بھارت میں چار بڑے قدیم تنتر پیٹھہ" اور شکتی پیٹھوں" میں سے ایک ہے۔ "دیومالی"؛ مشرقی گھاٹوں کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ یہ "ضلع کورا پوٹ" میں واقع ہے۔ یہ چوٹی تقریباً 1,672 میٹر کی بلندی کے ساتھ، اڈیشہ کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔

ریاست میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا حصہ پورے ہندوستان کی سطح پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ و133و

"کِھچنگ"؛ سُکرُولی بلاک کے تحت ایک قدیم گاؤں ہے۔ سکرولی؛ بھارت کے اڈیشہ کے ضلع میوربھنج کے مشہور مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ "کِچَا کیشوَری مندر" کا مقام ہے، جو کالے پتھر سے بنایا گیا ہے۔ "کِھچِنگ"؛ "کَرَنجِیا" سے 24 کلومیٹر مغرب میں اور "کیندوجھر گڑھ شہر" سے تقریباً 50 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ و134و

"پوری بیچ" یا "گولڈن بیچ" بھارت کی ریاست اڈیشہ ریاست میں پوری شہر کا ایک ساحل ہے۔ یہ "خلیجِ بنگال" کے کنارے ہے۔ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز اور ہندو مقدس جگہ ہونے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اور اسی شہر میں "جگناتھ مندر" واقع ہے۔ و135و

حوالہ جات

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"صفحہ اڈيشا في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2024ء 
  2.   ویکی ڈیٹا پر (P982) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ اڈيشا في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2024ء 
  3.   ویکی ڈیٹا پر (P402) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ اڈيشا في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2024ء 
  4. https://www.iso.org/obp/ui/#iso:code:3166:IN — اخذ شدہ بتاریخ: 24 نومبر 2023
  5. "Report of the Commissioner for linguistic minorities: 47th report (July 2008 to June 2010)" (PDF)۔ Commissioner for Linguistic Minorities, Ministry of Minority Affairs, Government of India۔ صفحہ: 122–126۔ 13 مئی 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2012 
  6. "Palapitta: How a mindless dasara ritual is killing our state bird palapitta – Hyderabad News"۔ The Times of India۔ 29 September 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2019 
  7. Blue Jay (PDF)، Orissa Review، 2005 
  8. Blue Jay (PDF)، Orissa Review، 2005، صفحہ: 87 
  9. Pipal(Ficus religiosa) – The State Tree of Odisha (PDF)، RPRC، 2014 
  10. "State Fishes of India" (PDF)۔ National Fisheries Development Board, Government of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2020 
  11. ^ ا ب پ ت "Odisha (əˈdɪsə)"۔ Collins English Dictionary۔ 06 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015  The 'sha' spelling comes about from the historical or Sanskritic letter śa (ଶ), however all Odia sibilants today are realised as sa (ସ).
  12. Daniel Jones (2003) [1917]۔ مدیران: Peter Roach، James Hartmann، Jane Setter۔ English Pronouncing Dictionary۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ISBN 3-12-539683-2 
  13. "ST & SC Development, Minorities & Backward Classes Welfare Department:: Government of Odisha"۔ stscodisha.gov.in۔ 01 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2018 
  14. "Coastal security"۔ Odisha Police۔ 06 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2015 
  15. "The National Anthem of India" (PDF)۔ Columbia University۔ 24 جنوری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2015 
  16. https://www.jagranjosh.com/current-affairs/cabinet-approved-odia-as-classical-language-1392954604-1
  17. "Detail History of Orissa"۔ Government of Odisha۔ 12 نومبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  18. "Utkala Dibasa hails colours, flavours of Odisha"۔ The Times of India۔ 2 April 2014۔ 08 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2015 
  19. Rabindra Nath Chakraborty (1985)۔ National Integration in Historical Perspective: A Cultural Regeneration in Eastern India۔ Mittal Publications۔ صفحہ: 17–۔ GGKEY:CNFHULBK119۔ 15 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2012 
  20. Ravi Kalia (1994)۔ Bhubaneswar: From a Temple Town to a Capital City۔ SIU Press۔ صفحہ: 23۔ ISBN 978-0-8093-1876-6۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  21. "Sub-national HDI – Area Database"۔ Global Data Lab۔ Institute for Management Research, Radboud University۔ 23 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2018 
  22. C.B Patel (April 2010)۔ Origin and Evolution of the Name ODISA (PDF)۔ Bhubaneswar: I&PR Department, Government of Odisha۔ صفحہ: 28, 29, 30۔ 19 جون 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2015 
  23. Pritish Acharya (11 March 2008)۔ National Movement and Politics in Orissa, 1920–1929۔ SAGE Publications۔ صفحہ: 19۔ ISBN 978-81-321-0001-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  24. "Amid clash, House passes Bills to rename Orissa, its language"۔ The Hindu۔ 9 November 2010۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  25. "Parliament passes bill to change Orissa's name"۔ NDTV۔ 24 March 2011۔ 03 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  26. "Orissa wants to change its name to Odisha"۔ Rediff.com۔ 10 June 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2020 
  27. Amalananda Ghosh (1990)۔ An Encyclopaedia of Indian Archaeology۔ BRILL۔ صفحہ: 24۔ ISBN 9004092641۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2012 
  28. ^ ا ب Subodh Kapoor، مدیر (2004)۔ An Introduction to Epic Philosophy: Epic Period, History, Literature, Pantheon, Philosophy, Traditions, and Mythology, Volume 3۔ Genesis Publishing۔ صفحہ: 784۔ ISBN 9788177558814۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2012۔ Finally Srutayudha, a valiant hero, was son Varuna and of the river Parnasa. 
  29. ^ ا ب Devendrakumar Rajaram Patil (1946)۔ Cultural History from the Vāyu Purāna۔ Motilal Banarsidass Pub.۔ صفحہ: 46۔ ISBN 9788120820852۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2015 
  30. "Dance bow (1965.3.5)"۔ Pitt Rivers Museum۔ 02 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 فروری 2015 
  31. Rabindra Nath Pati (1 January 2008)۔ Family Planning۔ APH Publishing۔ صفحہ: 97۔ ISBN 978-81-313-0352-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  32. Suhas Chatterjee (1 January 1998)۔ Indian Civilization And Culture۔ M.D. Publications Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 68۔ ISBN 978-81-7533-083-2۔ 15 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2013 
  33. Hermann Kulke، Dietmar Rothermund (2004)۔ A History of India۔ Routledge۔ صفحہ: 66۔ ISBN 9780415329194۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2012 
  34. Mookerji Radhakumud (1995)۔ Asoka۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 214۔ ISBN 978-81-208-0582-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015 
  35. Sailendra Nath Sen (1 January 1999)۔ Ancient Indian History and Civilization۔ New Age International۔ صفحہ: 153۔ ISBN 978-81-224-1198-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015 
  36. Austin Patrick Olivelle Alma Cowden Madden Centennial Professor in Liberal Arts University of Texas (19 June 2006)۔ Between the Empires : Society in India 300 BCE to 400 CE: Society in India 300 BCE to 400 CE۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 78۔ ISBN 978-0-19-977507-1۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  37. Reddy (1 December 2006)۔ Indian Hist (Opt)۔ Tata McGraw-Hill Education۔ صفحہ: A254۔ ISBN 978-0-07-063577-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  38. Indian History۔ Allied Publishers۔ 1988۔ صفحہ: 74۔ ISBN 978-81-8424-568-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  39. Ronald M. Davidson (13 August 2013)۔ Indian Esoteric Buddhism: A Social History of the Tantric Movement۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 60۔ ISBN 978-0-231-50102-6۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  40. R. C. Majumdar (1996)۔ Outline of the History of Kalinga۔ Asian Educational Services۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-81-206-1194-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  41. Roshen Dalal (18 April 2014)۔ The Religions of India: A Concise Guide to Nine Major Faiths۔ Penguin Books Limited۔ صفحہ: 559۔ ISBN 978-81-8475-396-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  42. Indian History۔ Tata McGraw-Hill Education۔ صفحہ: 2۔ ISBN 978-0-07-132923-1۔ 01 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مئی 2013 
  43. Sailendra Sen (2013)۔ A Textbook of Medieval Indian History۔ Primus Books۔ صفحہ: 121–122۔ ISBN 978-93-80607-34-4 
  44. Orissa General Knowledge۔ Bright Publications۔ صفحہ: 27۔ ISBN 978-81-7199-574-5۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  45. L.S.S. O'Malley (1 January 2007)۔ Bengal District Gazetteer : Puri۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-81-7268-138-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  46. Sailendra Nath Sen (2010)۔ An Advanced History of Modern India۔ Macmillan India۔ صفحہ: 32۔ ISBN 978-0-230-32885-3۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  47. Bandita Devi (January 1992)۔ Some Aspects of British Administration in Orissa, 1912–1936۔ Academic Foundation۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-81-7188-072-0۔ 21 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2016 
  48. William A. Dando (13 February 2012)۔ Food and Famine in the 21st Century [2 volumes]۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 47۔ ISBN 978-1-59884-731-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  49. J. K. Samal، Pradip Kumar Nayak (1 January 1996)۔ Makers of Modern Orissa: Contributions of Some Leading Personalities of Orissa in the 2nd Half of the 19th Century۔ Abhinav Publications۔ صفحہ: 32۔ ISBN 978-81-7017-322-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  50. K.S. Padhy (30 July 2011)۔ Indian Political Thought۔ PHI Learning Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 287۔ ISBN 978-81-203-4305-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  51. Usha Jha (1 January 2003)۔ Land, Labour, and Power: Agrarian Crisis and the State in Bihar (1937–52)۔ Aakar Books۔ صفحہ: 246۔ ISBN 978-81-87879-07-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  52. Bandita Devi (1 January 1992)۔ Some Aspects of British Administration in Orissa, 1912–1936۔ Academic Foundation۔ صفحہ: 214۔ ISBN 978-81-7188-072-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  53. ^ ا ب پ ت "Hubback's memoirs: First Governor Of State Reserved Tone Of Mild Contempt For Indians"۔ The Telegraph۔ 29 November 2010۔ 04 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  54. B. Krishna (2007)۔ India's Bismarck, Sardar Vallabhbhai Patel۔ Indus Source۔ صفحہ: 243–244۔ ISBN 978-81-88569-14-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  55. "Merger of the Princely States of Odisha – History of Odisha" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2020 
  56. "Geography of Odisha"۔ Know India۔ Government of India۔ 04 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  57. "Cuttack"۔ Government of Odisha۔ 06 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015 
  58. Alakananda Dasgupta، Subhra Priyadarshini (29 May 2019)۔ "Why Odisha is a sitting duck for extreme cyclones"۔ Nature India۔ doi:10.1038/nindia.2019.69 (غیر فعال 18 January 2021) 
  59. Socio-economic Profile of Rural India (series II).: Eastern India (Orissa, Jharkhand, West Bengal, Bihar and Uttar Pradesh)۔ Concept Publishing Company۔ 2011۔ صفحہ: 73۔ ISBN 978-81-8069-723-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 فروری 2015 
  60. "Monthly mean maximum & minimum temperature and total rainfall based upon 1901–2000 data" (PDF)۔ India Meteorological Department۔ 13 اپریل 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2015 
  61. "Study shows Odisha forest cover shrinking"۔ The Times of India۔ 16 February 2012۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  62. Underutilized and Underexploited Horticultural Crops۔ New India Publishing۔ 1 January 2007۔ صفحہ: 116۔ ISBN 978-81-89422-60-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  63. "Orchid House a haven for nature lovers"۔ The Telegraph۔ 23 August 2010۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  64. "Similipal Tiger Reserve"۔ World Wide Fund for Nature, India۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  65. "Banished from their homes"۔ The Pioneer۔ 29 August 2012۔ 04 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  66. "Away from home, Chandaka elephants face a wipeout"۔ The New Indian Express۔ 23 August 2013۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  67. Sharad Singh Negi (1 January 1993)۔ Biodiversity and Its Conservation in India۔ Indus Publishing۔ صفحہ: 242۔ ISBN 978-81-85182-88-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  68. Venkatesh Salagrama (2006)۔ Trends in Poverty and Livelihoods in Coastal Fishing Communities of Orissa State, India۔ Food & Agriculture Org.۔ صفحہ: 16–17۔ ISBN 978-92-5-105566-3۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  69. "Olive Ridley turtles begin mass nesting"۔ The Hindu۔ 12 February 2014۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  70. "Mass nesting of Olive Ridleys begins at Rushikulya beach"۔ The Hindu۔ 15 March 2004۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  71. "Bhitarkanika Park to be Closed for Crocodile Census"۔ The New Indian Express۔ 3 December 2013۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  72. "Bird Count Rises in Bhitarkanika"۔ The New Indian Express۔ 14 September 2014۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  73. "Concern over dwindling horseshoe crab population"۔ The Hindu۔ 8 December 2013۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  74. Pushpendra K. Agarwal، Vijay P. Singh (16 May 2007)۔ Hydrology and Water Resources of India۔ Springer Science & Business Media۔ صفحہ: 984۔ ISBN 978-1-4020-5180-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  75. "Number of birds visiting Chilika falls but new species found"۔ The Hindu۔ 9 January 2013۔ 31 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  76. "Chilika registers sharp drop in winged visitors"۔ The Hindu۔ 13 January 2014۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  77. "Two new species of migratory birds sighted in Chilika Lake"۔ The Hindu۔ 8 January 2013۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  78. "Dolphin population on rise in Chilika Lake"۔ The Hindu۔ 18 February 2010۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  79. "Maiden Dolphin Census in State's Multiple Places on Cards"۔ The New Indian Express۔ 20 January 2015۔ 23 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  80. Chandan Sengupta، Stuart Corbridge (28 October 2013)۔ Democracy, Development and Decentralisation in India: Continuing Debates۔ Routledge۔ صفحہ: 8۔ ISBN 978-1-136-19848-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2015 
  81. ^ ا ب "Our Parliament" (PDF)۔ Lok Sabha۔ Government of India۔ 03 فروری 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  82. Ada W. Finifter۔ Political Science۔ FK Publications۔ صفحہ: 94۔ ISBN 978-81-89597-13-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2015 
  83. "BJD's landslide victory in Odisha, wins 20 of 21 Lok Sabha seats"۔ CNN-IBN۔ 17 May 2014۔ 08 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  84. ^ ا ب Rajesh Kumar۔ Universal's Guide to the Constitution of India۔ Universal Law Publishing۔ صفحہ: 107–110۔ ISBN 978-93-5035-011-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  85. Ramesh Kumar Arora، Rajni Goyal (1995)۔ Indian Public Administration: Institutions and Issues۔ New Age International۔ صفحہ: 205–207۔ ISBN 978-81-7328-068-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  86. Subhash Shukla (2008)۔ Issues in Indian Polity۔ Anamika Pub. & distributors۔ صفحہ: 99۔ ISBN 978-81-7975-217-3۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  87. "About Department"۔ Revenue & Disaster Management Department, Government of Odisha۔ 06 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  88. Laxmikanth۔ Governance in India۔ McGraw-Hill Education (India) Pvt Limited۔ صفحہ: 6–17۔ ISBN 978-0-07-107466-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  89. "Administrative Unit"۔ Revenue & Disaster Management Department, Government of Odisha۔ 21 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  90. Siuli Sarkar (9 November 2009)۔ Public Administration in India۔ PHI Learning Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 117۔ ISBN 978-81-203-3979-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015 
  91. Public Administration Dictionary۔ Tata McGraw Hill Education۔ 2012۔ صفحہ: 263۔ ISBN 978-1-259-00382-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015 
  92. "GDP growth: Most states grew faster than national rate in 2012–13"۔ The Financial Express۔ 12 December 2013۔ 15 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2012 
  93. "Bhubaneswar leads Govt's Smart City list, Rs 50,802 crore to be invested over five years"۔ The Indian Express۔ 29 January 2016۔ 18 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2016 
  94. "Indian states that attracted highest FDI"۔ Rediff۔ 29 August 2012۔ 08 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2014 
  95. "Rourkela Steel Plant"۔ Sail.co.in۔ 31 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2012 
  96. "Reliance to invest Rs 60,000-cr for Orissa power plant"۔ dna۔ 03 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2014 
  97. "Gujarat, Odisha and Andhra top 3 Domestic Investment Destinations of 2009"۔ Assocham۔ 21 January 2010۔ 23 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  98. "NH 42"۔ Odishalinks.com۔ 16 June 2004۔ 25 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  99. "Odisha plans metro, signs contract for detailed project report preparation"۔ The Times of India۔ 31 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2016 
  100. "Ten-year roadmap for State's civil aviation"۔ The Pioneer۔ India۔ 2012۔ 30 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2012۔ at present there are 17 airstrips and 16 helipads in Odisha, 
  101. "10-year roadmap set up to boost Odisha civil aviation"۔ odishanow.in۔ 2012۔ 15 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2012۔ Odisha has 17 airstrips and 16 helipads. 
  102. "Odisha initiate steps for intra and inter state aviation facilities"۔ news.webindia123.com۔ 2012۔ 13 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2012۔ Odisha has 17 airstrips and 16 helipads 
  103. "J'suguda Airport fit for 320 Airbus flight"۔ The Pioneer۔ 2 August 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018 
  104. "Odisha plans five new airports"۔ Business Line۔ 14 August 2012۔ 03 نومبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2013 
  105. "Adani Group plans airport at Dhamra"۔ Times of India۔ 13 November 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2020 
  106. P. Division۔ INDIA 2019: A REFERENCE ANNUAL۔ Publications Division Ministry of Information & Broadcasting۔ صفحہ: 701۔ ISBN 978-81-230-3026-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولا‎ئی 2019 
  107. India. Parliament. Rajya Sabha (2012)۔ Parliamentary Debates: Official Report۔ Council of States Secretariat۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولا‎ئی 2019 
  108. Decadal Variation In Population Since 1901
  109. ^ ا ب "Population, Size and Decadal Change" (PDF)۔ Primary Census Abstract Data Highlights, Census of India۔ Registrar General and Census Commissioner of India۔ 2018۔ 19 اکتوبر 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2020 
  110. "India States Briefs – Odisha"۔ World Bank۔ 31 May 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2019 
  111. "NITI Aayog report: Odisha tops in poverty reduction rate among other states"۔ Pragativadi: Leading Odia Dailly۔ 30 July 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2019 
  112. "Population by religion community – 2011"۔ Census of India, 2011۔ The Registrar General & Census Commissioner, India۔ 25 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  113. "Census of India – Socio-cultural aspects"۔ Government of India, Ministry of Home Affairs۔ 20 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2011 
  114. P. 63 Case studies on human rights and fundamental freedoms: a world survey, Volume 4 By Willem Adriaan Veenhoven
  115. P. 77 Encyclopedia Americana, Volume 30 By Scholastic Library Publishing
  116. Madhusudan Rao By Jatindra Mohan Mohanty, Sahitya Akademi
  117. "Language – India, States and Union Territories" (PDF)۔ Census of India 2011۔ Office of the Registrar General۔ صفحہ: 13–14۔ 14 نومبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019 
  118. ":: Law Department (Government of Odisha) ::"۔ lawodisha.gov.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2019 
  119. B. P. Mahapatra (2002)۔ Linguistic Survey of India: Orissa۔ Kolkata, India: Language Division, Office of the Registrar General۔ صفحہ: 13–14۔ 13 نومبر 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2014 
  120. "Atlas of languages in danger | United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization"۔ UNESCO۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2019 
  121. "Pandit Raghunath Murmu Medical College & Hospital"۔ prmmchbaripada.in۔ 09 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2017 
  122. "SLN Medical College & Hospital"۔ slnmch.nic.in۔ 09 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2017 
  123. "Biju Patnaik University of Technology"۔ Bput.org۔ 05 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  124. National Association on Indian Affairs، American Association on Indian Affairs (1949)۔ Indian Affairs۔ 06 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012 
  125. S.P. Sharma، Seema Gupta (3 October 2006)۔ Fairs & Festivals of India۔ Pustak Mahal۔ صفحہ: 103–۔ ISBN 978-81-223-0951-5۔ 08 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012 
  126. Mitra Bishwabijoy (6 July 2015)۔ "Who invented the rasgulla?"۔ The Times of India۔ 09 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2015 
  127. "Chhenapoda"۔ Simply TADKA۔ 09 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جنوری 2015 
  128. "Odisha Rasagola receives geographical indication tag; here's what it means"۔ www.businesstoday.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2019 
  129. "Odissi Kala Kendra"۔ odissi.itgo.com۔ 12 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 

5. https://en.m.wikipedia.org/wiki/Odisha

بیرونی روابط