"حرکت الجہاد الاسلامی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 11: سطر 11:
[[زمرہ:جہادی تنظیمیں]]
[[زمرہ:جہادی تنظیمیں]]
[[زمرہ:متحدہ مملکت کے ہوم آفس کی جانب سے قرار دیے جانے والے دہشت گرد گروہ]]
[[زمرہ:متحدہ مملکت کے ہوم آفس کی جانب سے قرار دیے جانے والے دہشت گرد گروہ]]
[[زمرہ:1990ء کی دہائی میں قائم ہونے والی تنظیمیں]]

نسخہ بمطابق 02:06، 22 مارچ 2021ء

حرکت الجہاد الاسلامی یا حرکة الجہاد الاسلامی نامی تنظیم دنیا کی حالیہ شدت پسندی میں جنوبی ایشیا کی ابتدائی عسکریت پسند تحریکوں میں سے ایک ہے۔ اسے ہم جنوبی ایشیا کی مادر شدت پسند تحریک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس تنظیم کی بنیاد روس کے افغانستان آنے کے بعد سال 1980 کے اوائل میں رکھی گئی۔ تنظیم کے بانی پاکستان کے ایک دیوبندی عالم مولانا ارشاد تھے۔ جو بعد ازاں روسی فوج کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہوگئے۔ مولانا ارشاد پاکستان سے اپنے 3 ساتھیوں کے ہمراہ روس کے خلاف جنگ کے لیے افغانستان گئے تھے جہاں وہ مولوی نبی محمدی کی تنظیم حرکت انقلاب اسلامی کے زیر سایہ روسی فوج سے لڑتے رہے۔ اور اپنے لڑاکوں میں اضافے کے بعد اپنی علیحدہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔ افغانستان میں تنظیم کے ابتدائی کمانڈروں میں قاری سیف اللہ اختر ، بنگلہ دیش سے مولانا عبدالرحمان فاروقی ، کمانڈر خالد محمد کراچوری ، جنوبی پنجاب کے مولانا خالد زبیر ، مولانا فضل الرحمان خلیل اور دیگر شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی تقریبا تمام عسکریت کی جڑیں مذکورہ تنظیم سے ہی ملتی ہیں۔ روس کے خلاف اس تنظیم نے جنوبی افغانستان کے تقریبا تمام مقامات پر جنگ کی ہے۔ بانی مولانا ارشاد کے جاں بحق ہوجانے کے بعد قاری سیف اللہ اختر کو نیا سربراہ بنایا گیا۔ اور اس کے بعد مولانا فضل الرحمان خلیل کی قیادت میں ایک دھڑا علیحدہ ہوگیا جس نے اپنا نام حرکت المجاہدین رکھا۔ روس کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد حرکت الجہاد کے جنگجو تاجکستان، میں وہاں کی روس نواز حکومت سے جنگ کو چلے گئے۔ 1988 میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں مسلح مزاحمت شروع ہونے پر تنظیم اپنی لڑاکوں کو ہندوستان کے خلاف جنگ میں جھونک دیا۔ اور پاکستانی زیر قبضہ کشمیر سے ہندوستانی فوج پر حملے شروع کردیے۔ جن کی قیادت کمانڈر خالد محمد کراچوری کر رہے تھے جو بعد میں ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ تنظیم کے دوسرے امیر سیف اللہ اختر پاکستانی فوج کے کئی جرنیلوں کے ساتھ مل کر اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا تختہ الٹنے اور متبادل طالبان طرز کی روایتی اسلامی حکومت قائم کرنے کی سازش میں بھی ملوث رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف بغاوت کی یہ کوشش ناکام بنادی گئی اور کئی جرنیل گرفتار ہوئے۔ جبکہ سیف اللہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس ناکام بغاوت کی کوشش کو "آپریشن خلافت" کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم روس کے خلاف جنگ اور اس کے بعد پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر سارک ممالک کے کئی ہزار جنگجووں کی حامل ہوگئی۔ اور طالبان کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد یہ اپنے ہزاروں ملکی و غیرملکی جنگجووں کے ہمراہ طالبان کی شمالی اتحاد اور سابقہ مجاہدین کے خلاف جنگوں کا حصہ بنی۔ جب ایک جانب تنظیم کشمیر اور افغانستان کی عام جنگوں میں خود کو کھپا رہی تھی ، پاکستانی زیر قبضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا تنظیم کا ایک عام جنگجو تنظیم کی تاریخ اور نام کو ایک نئے عروج پر لے جانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ محمد الیاس نامی اس شخص کو بعد میں دنیا کے خطرناک ترین دہشت گرد کمانڈر الیاس کشمیری کے نام سے جانا گیا۔