"سانحۂ ٹھیری" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 18: سطر 18:


=== قیام پاکستان کے بعد شیعہ مخالف تشدد ===
=== قیام پاکستان کے بعد شیعہ مخالف تشدد ===
پراسرار حالات میں جناح کے انتقال کے بعد وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے دیوبندی علمائے کرام سے اتحاد کیا اور [[قرارداد مقاصد]]<nowiki/>منظور کی جس میں مذہب کو قانون اور سیاست میں اہم مقام دیا گیا تھا۔ شیعہ اور احمدی مذہبی رہنماؤں نے بھی غیر مسلم شہری کے خلاف اس اقدام کی حمایت کی۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے جناح کے مقرر کردہ وزیر قانون ، [[جوگیندر ناتھ منڈل|جوگندر ناتھ منڈل]] نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
پراسرار حالات میں جناح کے انتقال کے بعد وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے دیوبندی علمائے کرام سے اتحاد کیا اور [[قرارداد مقاصد]]<nowiki/> منظور کی جس میں مذہب کو قانون اور سیاست میں اہم مقام دیا گیا تھا۔ شیعہ اور احمدی مذہبی رہنماؤں نے بھی غیر مسلم شہری کے خلاف اس اقدام کی حمایت کی۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے جناح کے مقرر کردہ وزیر قانون [[جوگیندر ناتھ منڈل|جوگندر ناتھ منڈل]] نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔


1950 کی دہائی میں ، تنظیم ''اہل سنت نامی شیعہ مخالف جماعت'' نے پورے پاکستان میں عوامی اجتماعات کا اہتمام کرنا شروع کیا تاکہ تشدد کو ہوا دی جاسکے اور شیعوں کا مذاق اڑایا جاسکے۔ اس تنظیم نے ایک شیعہ مخالف ماہنامہ” دعوت “بھی جاری کیا ۔ محرم 1955 میں پنجاب میں کم سے کم 25 مقامات پر عزاداری کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1956 میں ہزاروں مسلح افراد چھوٹے سے قصبےشہر سلطان میں عزاداری پر حملہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ، لیکن پولیس نے انہیں اس کام سے روک دیا۔ 7 اگست 1957 کو سیت پور ضلع مظفر گڑھ میں ایک حملے کے دوران تین شیعہ مارے گئے۔ مئی 1958 میں بھکر میں شیعہ خطیب آغا محسن کو نشانہ بنایا گیا۔ <ref>A. Rieck, "'''The Shias of Pakistan'''", pp. 88 – 98, Oxford University Press, (2015).</ref>
1950 کی دہائی میں ، تنظیم ''اہل سنت نامی شیعہ مخالف جماعت'' نے پورے پاکستان میں عوامی اجتماعات کا اہتمام کرنا شروع کیا تاکہ تشدد کو ہوا دی جاسکے اور شیعوں کا مذاق اڑایا جاسکے۔ اس تنظیم نے ایک شیعہ مخالف ماہنامہ” دعوت “بھی جاری کیا ۔ محرم 1955 میں پنجاب میں کم سے کم 25 مقامات پر عزاداری کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1956 میں ہزاروں مسلح افراد چھوٹے سے قصبےشہر سلطان میں عزاداری پر حملہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ، لیکن پولیس نے انہیں اس کام سے روک دیا۔ 7 اگست 1957 کو سیت پور ضلع مظفر گڑھ میں ایک حملے کے دوران تین شیعہ مارے گئے۔ مئی 1958 میں بھکر میں شیعہ خطیب آغا محسن کو نشانہ بنایا گیا۔ <ref>A. Rieck, "'''The Shias of Pakistan'''", pp. 88 – 98, Oxford University Press, (2015).</ref>

نسخہ بمطابق 21:42، 11 اپریل 2021ء

ٹھیری کا قتل عام
بسلسلہ پاکستان میں شیعہ کشی
ٹھیری is located in پاکستان
ٹھیری
ٹھیری
ٹھیری (پاکستان)
مقامٹھیری، سندھ، پاکستان
تاریخ3 جون 1963
نشانہشیعہ عزادار
حملے کی قسمقتل عام
ہلاکتیں118
زخمینامعلوم
مرتکب تنظیم اہل سنت (ایک دیوبندی جماعت)
مقصدضد شیعیت

سانحۂ ٹھیری ایک اجتماعی قتل تھا جو 3 جون 1963 کو پاکستان کے صوبے سندھ کے قصبے ٹھیری میں پیش آیا۔ اس میں دس محرم کے دن دیوبندی مسلمانوں کے ہجوم نے 118 شیعہ مسلمان مارے۔ اگرچہ یہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف پاکستان کا تشدد کا پہلا واقعہ نہیں تھا، لیکن یہ حملہ قیامِ پاکستان کے بعد اس ملک میں شیعہ شہریوں کا پہلا بڑا قتل عام سمجھا جاتا ہے۔[1][2][3]

پس منظر

سید احمد بریلوی کی میراث

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی برصغیر میں جدید شیعہ مخالف کےبانی سمجھے جاتے ہیں۔ پروفیسر باربرا مٹکاف کا کہنا ہے کہ:

” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:

’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔

سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“۔ [4]

یہ حملے 1818 سے 1820 کے درمیان کیے گئے تھے۔1831 میں بالاکوٹ میں ان کی موت کے بعد ان کی فرقہ وارانہ میراث دیوبند مکتب فکر میں منتقل ہوئی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد مذہبی دہشت گرد عقیدے کے لحاظ سے دیوبندی ہیں اور ان میں سے بہت سے پشتون بیلٹ (جس علاقے میں سید احمد نے اپنی مذہبی ریاست بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ [5]

قیام پاکستان کے بعد شیعہ مخالف تشدد

پراسرار حالات میں جناح کے انتقال کے بعد وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے دیوبندی علمائے کرام سے اتحاد کیا اور قرارداد مقاصد منظور کی جس میں مذہب کو قانون اور سیاست میں اہم مقام دیا گیا تھا۔ شیعہ اور احمدی مذہبی رہنماؤں نے بھی غیر مسلم شہری کے خلاف اس اقدام کی حمایت کی۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے جناح کے مقرر کردہ وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

1950 کی دہائی میں ، تنظیم اہل سنت نامی شیعہ مخالف جماعت نے پورے پاکستان میں عوامی اجتماعات کا اہتمام کرنا شروع کیا تاکہ تشدد کو ہوا دی جاسکے اور شیعوں کا مذاق اڑایا جاسکے۔ اس تنظیم نے ایک شیعہ مخالف ماہنامہ” دعوت “بھی جاری کیا ۔ محرم 1955 میں پنجاب میں کم سے کم 25 مقامات پر عزاداری کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1956 میں ہزاروں مسلح افراد چھوٹے سے قصبےشہر سلطان میں عزاداری پر حملہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ، لیکن پولیس نے انہیں اس کام سے روک دیا۔ 7 اگست 1957 کو سیت پور ضلع مظفر گڑھ میں ایک حملے کے دوران تین شیعہ مارے گئے۔ مئی 1958 میں بھکر میں شیعہ خطیب آغا محسن کو نشانہ بنایا گیا۔ [6]

ایوب خان نے 1958 میں مارشل لا نافذ کیا۔ 1960 کی دہائی میں کچھ جگہوں پر عزاداری کے جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی اور یہ پابندی صرف احتجاج کے بعد ہی ختم کی گئی۔ لاہور میں موچی گیٹ کے مرکزی جلوس کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 1962 میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد شیعہ مخالف نفرت پروپیگنڈہ ایک بار پھر کتابوں اور ہفتہ وار مقالوں کی شکل میں شروع ہوا۔ دیوبندی جماعت تنظیم اہل سنت نے 3 جون 1963 کو لاہور میں عاشورہ کے جلوس پر حملہ کیا جس میں دو شیعہ ہلاک اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔[1]

واقعہ

3 جون 1963 کو عاشورہ کے دن ٹھیری میں حسب معمول شیعوں نے جلوس اور مجلس عزا کا اہتمام کر رکھا تھا۔ خیرپور کے ایک دیوبندی مدرسے کے طلبہ نے تنظیم اہل سنت کے کارکنان سے مل کر امامبارگاہ پر حملہ کیا۔ اس وقت مجلس ہو رہی تھی۔ کلہاڑیوں اور چھریوں سے لیس افراد کا مقابلہ کرنے کے لیے عزاداروں کے پاس کچھ نہ تھا۔ وہاں موجود لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد امام بارگاہ کو آگ لگا دی گئی۔ اس سے زخمیوں کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہ رہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک سو اٹھارہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ [7]

اخبارات نے ان واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے حملہ آوروں اور متاثرہ افراد کی شناخت چھپا دی۔ [8] 16 جون کو 6 دیوبندی تنظیموں نے لاہور میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا ، جس میں انہوں نے متاثرہ افراد کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جولائی میں ، فسادات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ۔ اس کی رپورٹ اسی سال دسمبر میں شائع ہوئی تھی ، لیکن اس میں کسی شخص یا تنظیم کا نام نہیں لیا گیا نہ کسی کو سزا دی گئی۔ [9]

بعدیہ

1969 میں جھنگ میں ساتویں محرم کے جلوس پر حملہ ہوا۔ 26 فروری 1972 کو ڈیرہ غازیخان میں عاشورہ کے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔ مئی 1973 میں شیخوپورہ کے علاقے گوبند گڑھ کے شیعہ محلے پر ہجوم نے حملہ کیا۔ اس سال پاراچنار اور گلگت میں بھی شیعہ آبادیوں پرحملے ہوئے۔ 1974 میں گلگت میں شیعہ دیہات پر مسلح دیوبندی افراد نے حملہ کیا۔ جنوری 1975 میں کراچی ، لاہور ، چکوال اور گلگت میں شیعہ جلوسوں پر متعدد حملے ہوئے۔ لاہور کے قریبی گاؤں بابو صابو میں مجلس عزا پر حملےکے نتیجے میں تین شیعہ ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ [10]

بین الاقوامی رد عمل

اس وقت کے عالمی شیعہ مذہبی رہنما آیت اللہ محسن الحکیم نے صدر پاکستان محمد ایوب خان کو ایک خط لکھ کر اس سانحے کی شدید مذمت کی۔ [11]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب A. Rieck, "The Shias of Pakistan", p. 110, Oxford University Press, (2015).
  2. "Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism"۔ The Nation۔ March 27, 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 01-03-21  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت);
  3. Syed Arfeen (Jan 31, 2015)۔ "Banned terrorist outfits trying to establish network in Interior Sindh"۔ Geo News۔ اخذ شدہ بتاریخ 01-03-21 
  4. B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900", p. 58, Princeton University Press (1982).
  5. S. E. Hussain, "Terrorism in Pakistan: Incident patterns, terrorists’ characteristics, and the impact of terrorist arrests on terrorism". PhD thesis. University of Pennsylvania, (2010). Available online:
  6. A. Rieck, "The Shias of Pakistan", pp. 88 – 98, Oxford University Press, (2015).
  7. Eamon Murphy (18 October 2018)۔ Islam and Sectarian Violence in Pakistan: The Terror Within۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 100–۔ ISBN 978-1-351-70961-3۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2019 
  8. Abbas Zaidi, "Covering Faith-Based Violence: Structure and Semantics of News Reporting in Pakistan", in: J. Syed et al. (eds.), Faith-Based Violence and Deobandi Militancy in Pakistan, Palgrave Macmillan, (2016).
  9. A. Rieck, "The Shias of Pakistan", pp. 111 – 114, Oxford University Press, (2015).
  10. A. Rieck, "The Shias of Pakistan", pp. 181– 184, Oxford University Press, (2015).
  11. S. W. Fuchs, "In a Pure Muslim Land: Shi'ism Between Pakistan and the Middle East", p. 113, The University of North Carolina Press, (2019).

مزید دیکھیے