"سواں تہذیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م اضافہ ہوا د
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 3: سطر 3:
برصغیر کے ٹکڑا افریقہ سے الگ ہونے کے بعد جب ہمالیہ رونما ہوئے اور ہمالیہ کے دامن میں سطح مرتفع نیپال پڑوسی ملک اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جن مقامات پر ماہر آثار قدیمہ نے انیس سو تیس میں سواں کلچر یا سواں تہذیب کی جو اصلاح استعمال کی ہےس
برصغیر کے ٹکڑا افریقہ سے الگ ہونے کے بعد جب ہمالیہ رونما ہوئے اور ہمالیہ کے دامن میں سطح مرتفع نیپال پڑوسی ملک اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جن مقامات پر ماہر آثار قدیمہ نے انیس سو تیس میں سواں کلچر یا سواں تہذیب کی جو اصلاح استعمال کی ہےس


سوانین کلچر کا نام اسے 1930 میں اس وقت دیا گیا جب جرمن ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ڈی ٹیرہ نے موجودہ سواں کیمپ مورگاہ، پنڈی گھیب، میال، نرگئی، سہالہ، کہوٹہ، ادھوال اور گوجرخان سے ملنے والے فوسلز اور انسانی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو اسے ابتدائی پتھر کا زمانہ کہا
سوانین کلچر کا نام اسے 1930 میں اس وقت دیا گیا جب جرمن ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ڈی ٹیرہ نے موجودہ سواں کیمپ تخت پڑی مورگاہ، روات ما نکیگا پنڈی گھیب، میال، نرگئی، سہالہ، کہوٹہ، ادھوال اور گوجرخان سے ملنے والے فوسلز اور انسانی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو اسے ابتدائی پتھر کا زمانہ کہا


وہ صرف ڈسٹرک راولپنڈی کا خطہ ہی نہیں بلکہ دیگ ہمالیہ کے نچلے وقت آباد وی پائے جانے والی جگہ سوا ں ہی کہلاتی ہے ہم تک ییل یونیورسٹی کے معروف ماہر آثار قدیمہ جی ای لیوس نے پہلی مرتبہ 1910 میں پہنچائی تھیں جنہوں نے یہاں پر ایسے فوسلز دریافت کیے جو ایک کروڑ سال سے زیادہ قدیم ہیں۔ یہاں پتھروں کے ایسے اوزار بھی ملے جو 20 لاکھ سال تک پرانے ہو سکتے ہیں، اور ممکنہ طور پر انہیں جدید انسان سے پہلے آنے والے انسان نما جانوروں نے بنایا تھا۔  
وہ صرف ڈسٹرک راولپنڈی کا خطہ ہی نہیں بلکہ دیگ ہمالیہ کے نچلے وقت آباد وی پائے جانے والی جگہ سوا ں ہی کہلاتی ہے ہم تک ییل یونیورسٹی کے معروف ماہر آثار قدیمہ جی ای لیوس نے پہلی مرتبہ 1910 میں پہنچائی تھیں جنہوں نے یہاں پر ایسے فوسلز دریافت کیے جو ایک کروڑ سال سے زیادہ قدیم ہیں۔ یہاں پتھروں کے ایسے اوزار بھی ملے جو 20 لاکھ سال تک پرانے ہو سکتے ہیں، اور ممکنہ طور پر انہیں جدید انسان سے پہلے آنے والے انسان نما جانوروں نے بنایا تھا۔  

نسخہ بمطابق 20:57، 25 جون 2021ء

سواں تہذیب

برصغیر کے ٹکڑا افریقہ سے الگ ہونے کے بعد جب ہمالیہ رونما ہوئے اور ہمالیہ کے دامن میں سطح مرتفع نیپال پڑوسی ملک اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جن مقامات پر ماہر آثار قدیمہ نے انیس سو تیس میں سواں کلچر یا سواں تہذیب کی جو اصلاح استعمال کی ہےس

سوانین کلچر کا نام اسے 1930 میں اس وقت دیا گیا جب جرمن ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ڈی ٹیرہ نے موجودہ سواں کیمپ تخت پڑی مورگاہ، روات ما نکیگا پنڈی گھیب، میال، نرگئی، سہالہ، کہوٹہ، ادھوال اور گوجرخان سے ملنے والے فوسلز اور انسانی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو اسے ابتدائی پتھر کا زمانہ کہا

وہ صرف ڈسٹرک راولپنڈی کا خطہ ہی نہیں بلکہ دیگ ہمالیہ کے نچلے وقت آباد وی پائے جانے والی جگہ سوا ں ہی کہلاتی ہے ہم تک ییل یونیورسٹی کے معروف ماہر آثار قدیمہ جی ای لیوس نے پہلی مرتبہ 1910 میں پہنچائی تھیں جنہوں نے یہاں پر ایسے فوسلز دریافت کیے جو ایک کروڑ سال سے زیادہ قدیم ہیں۔ یہاں پتھروں کے ایسے اوزار بھی ملے جو 20 لاکھ سال تک پرانے ہو سکتے ہیں، اور ممکنہ طور پر انہیں جدید انسان سے پہلے آنے والے انسان نما جانوروں نے بنایا تھا۔  

1928 میں جیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ ڈاکٹر ڈی این واڈیا نے بھی کھدائیاں کیں اور انہیں بھی یہاں سے پہلے پتھر کے زمانے کی اشیا ملیں۔ دریائے سواں کی تہذیب کے بارے میں اٹک کے گزیٹیئر 1930 میں لکھا ہے کہ دریائے سواں کے کنارے ڈھوک پٹھان میں پتھر کے اوزار ملے ہیں جن میں پتھر کے بنے چاقو، چھریاں، سکریپر اور کلہاڑیاں شامل ہیں۔ ایسے ہی اوزار فرانس میں بھی ملے ہیں جو 40 ہزار سال پرانے ہیں۔

پاکستان میں پتھرائے ہوئے مردہ جانوروں اور آثار صوبہ پنجاب پوٹھوہار کے علاقے، سندھ میں روہڑی کے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان میں کوہ کرتھار کے علاقے میں پائے گئے ہیں۔ پنجاب میں ان کے زیادہ تر ذخائرروات تخت پڑی چکوال کے مضافات اٹک کے دیہاتوں مثلاً نگری، ڈھوک پٹھان اور جھنجھی کے علاقوں میں کھدائیوں سے ملے ہیں جھنجھی کے ذخیرے دنیا بھر میں وسیع ترین سمجھے گئے ہیں۔ یہاں سے گھوڑے، ہاتھی،ہرن، سور اور مانس انسان کے محجرات کثیر تعداد میں ملے ہیں۔ حال ہی میں ایسے محجرات کا ایک عظیم ذخیرہ پنجاب میں ضلع چکوال کے نزدیک بن امیر خاتون سے ملا ہے۔ دوسرے محجرات کے علاوہ یہاں گینڈا، مال مویشی(Bovids)اور زرافے(Giraffe)کے محجرات بھی ملے ہیں ماہرین کے نزدیک زمانی طور پر یہ محجرات آج سے سات کروڑ سال قبل سے لے کر ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل کے عرصے پر محیط ہیں گویا پنجاب کے خطہ میں سوا چھ کروڑ سال مسلسل حیوانی زندگی کی مختلف ارتقائی شکلوں کی ذخیرہ اندوزی ہوتی رہی۔ دنیا میں اور کسی بھی مقام سے تعداد میں اتنے زیادہ اور زمانی طور پر اتنے وسیع عرصے پر پھیلے ہوئے محجرات نہیں ملتے جتنے پنجاب کے علاقے پوٹھوہار میں ملے ہیں ‘‘) پنجاب میں پوٹھوہار کے علاقے، سندھ میں روہڑی کے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان میں کوہ کرتھار کے علاقے میں پائے گئے ہیں۔ پنجاب میں ان کے زیادہ تر ذخائر ضلع اٹک کے دیہاتوں مثلاً نگری، ڈھوک پٹھان اور جھنجھی کے علاقوں میں کھدائیوں سے ملے ہیں جھنجھی کے ذخیرے دنیا بھر میں وسیع ترین سمجھے گئے ہیں۔ یہاں سے گھوڑے، ہاتھی،ہرن، سور اور مانس انسان کے محجرات کثیر تعداد میں ملے ہیں۔ حال ہی میں ایسے محجرات کا ایک عظیم ذخیرہ پنجاب میں ضلع چکوال کے نزدیک بن امیر خاتون سے ملا ہے۔ دوسرے محجرات کے علاوہ یہاں گینڈا، مال مویشی(Bovids)اور زرافے(Giraffe)کے محجرات بھی ملے ہیں ماہرین کے نزدیک زمانی طور پر یہ محجرات آج سے سات کروڑ سال قبل سے لے کر ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل کے عرصے پر محیط ہیں گویا پنجاب کے خطہ میں سوا چھ کروڑ سال مسلسل حیوانی زندگی کی مختلف ارتقائی شکلوں کی ذخیرہ اندوزی ہوتی رہی۔ دنیا میں اور کسی بھی مقام سے تعداد میں اتنے زیادہ اور زمانی طور پر اتنے وسیع عرصے پر پھیلے ہوئے محجرات نہیں ملتے جتنے پنجاب کے علاقے پوٹھوہار میں ملے ہیں ‘‘