"مسیح الزماں خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
 
م خودکار: درستی املا ← اور، کے ارکان، ہو گئے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 17: سطر 17:
|alma_mater = [[مظاہر علوم]]
|alma_mater = [[مظاہر علوم]]
}}
}}
''' مسیح الزماں خان ''' (1840 - 17 دسمبر 1910) ایک بھارتی عالم دین تھے، جنھوں نے [[دار العلوم ندوۃ العلماء]] کے دوسرے چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ [[میر لائق علی خان سالار جنگ دوم| میر لائق علی خان]] اور [[محبوب علی خان]] کے استاد تھے۔
''' مسیح الزماں خان ''' (1840 - 17 دسمبر 1910) ایک بھارتی عالم دین تھے، جنھوں نے [[دار العلوم ندوۃ العلماء]] کے دوسرے چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ [[میر لائق علی خان سالار جنگ دوم|میر لائق علی خان]] اور [[محبوب علی خان]] کے استاد تھے۔
==سوانح==
== سوانح ==
مسیح الزماں خان 1840 (1256 [[ہجری سال|ہجری]]) میں [[شاہجہاں پور]] میں پیدا ہوئے۔<ref name="edu">{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء|volume = 2|page=19 |language=ur}}</ref> انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد علی شاہ آبادی سے حاصل کی ، اور پھر اپنے ہی بھائی محمد زماں خان ہی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے [[حیدرآباد]] چلے گئے۔<ref name="edu"/>
مسیح الزماں خان 1840 (1256 [[ہجری سال|ہجری]]) میں [[شاہجہاں پور]] میں پیدا ہوئے۔<ref name="edu">{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء|volume = 2|page=19 |language=ur}}</ref> انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد علی شاہ آبادی سے حاصل کی اور پھر اپنے ہی بھائی محمد زماں خان ہی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے [[حیدرآباد]] چلے گئے۔<ref name="edu"/>


تعلیم کی تکمیل کے بعد مسیح الزماں خان؛ [[میر تراب علی خان، سالار جنگ اول]] کے دونوں بیٹوں [[میر لائق علی خان سالار جنگ دوم| میر لائق علی خان]] اور میر سعادت علی خان کے استاذ بن گئے۔ [[محرم]] 1293 ہجری میں وہ چھٹے [[نظام حیدرآباد]] [[محبوب علی خان]] کے استاذ مقرر ہوئے۔<ref name="work">{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=20 |language=ur}}</ref> تین سال بعد وہ نظام کے تمام تعلیمی امور کا ناظم مقرر ہوئے۔<ref name="work"/> سن 1300 ہجری میں میر تراب علی خان کی وفات کے بعد ، ایک نئی کونسل تشکیل دی گئی اور خورشید جاہ اور نریندر پرشاد اس کے ممبر مقرر ہوئے۔ وہ مسیح الزماں خان سے ناراض ہوگئے اور ان کا عہدہ کم کر دیا اور 4 [[محرم]] 1301 ہجری کو پنشن وارنٹ ارسال کر دیا۔<ref name="pension">{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|pages=21-22 |language=ur}}</ref> چار ماہ بعد وہ شاہجہاں پور واپس آگئے۔<ref name="pension"/>
تعلیم کی تکمیل کے بعد مسیح الزماں خان؛ [[میر تراب علی خان، سالار جنگ اول]] کے دونوں بیٹوں [[میر لائق علی خان سالار جنگ دوم|میر لائق علی خان]] اور میر سعادت علی خان کے استاذ بن گئے۔ [[محرم]] 1293 ہجری میں وہ چھٹے [[نظام حیدرآباد]] [[محبوب علی خان]] کے استاذ مقرر ہوئے۔<ref name="work">{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=20 |language=ur}}</ref> تین سال بعد وہ نظام کے تمام تعلیمی امور کا ناظم مقرر ہوئے۔<ref name="work"/> سن 1300 ہجری میں میر تراب علی خان کی وفات کے بعد ، ایک نئی کونسل تشکیل دی گئی اور خورشید جاہ اور نریندر پرشاد اس کے ارکان مقرر ہوئے۔ وہ مسیح الزماں خان سے ناراض ہو گئے اور ان کا عہدہ کم کر دیا اور 4 [[محرم]] 1301 ہجری کو پنشن وارنٹ ارسال کر دیا۔<ref name="pension">{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|pages=21-22 |language=ur}}</ref> چار ماہ بعد وہ شاہجہاں پور واپس آگئے۔<ref name="pension"/>


مسیح الزماں خان 1895 میں [[لکھنؤ]] میں [[ندوۃ العلماء]] کے دوسرے اجلاس عام میں شریک ہوئے اور انھیں رکن{{زیر}} انتظامیہ مقرر کیا گیا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=27 |language=ur}}</ref> 19 جولائی 1903 کو [[محمد علی مونگیری]] کے استعفٰی کے بعد تین سال کے لیے انھیں ندوۃ العلماء کا ناظم عبوری (چانسلر) مقرر کیا گیا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=31 |language=ur}}</ref><ref>{{cite book |author1=سید محمد الحسنی|title=سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء|page=238|date=مئی 2016 |publisher=مجلس صحافت و نشریات، ندوۃ العلماء|location=لکھنؤ|edition=4 |language=ur}}</ref> ندوۃ العلماء کا جریدہ '' الندوہ '' [[شاہجہاں پور]] سے شروع کیا گیا تھا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=35 |language=ur}}</ref> انھوں نے 21 اپریل 1905 کو ندوۃ العلماء سے استعفٰی دے دیا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=39 |language=ur}}</ref> ان کا انتقال 17 دسمبر 1910 کو ہوا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=25 |language=ur}}</ref>
مسیح الزماں خان 1895 میں [[لکھنؤ]] میں [[ندوۃ العلماء]] کے دوسرے اجلاس عام میں شریک ہوئے اور انھیں رکن{{زیر}} انتظامیہ مقرر کیا گیا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=27 |language=ur}}</ref> 19 جولائی 1903 کو [[محمد علی مونگیری]] کے استعفٰی کے بعد تین سال کے لیے انھیں ندوۃ العلماء کا ناظم عبوری (چانسلر) مقرر کیا گیا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=31 |language=ur}}</ref><ref>{{cite book |author1=سید محمد الحسنی|title=سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء|page=238|date=مئی 2016 |publisher=مجلس صحافت و نشریات، ندوۃ العلماء|location=لکھنؤ|edition=4 |language=ur}}</ref> ندوۃ العلماء کا جریدہ '' الندوہ '' [[شاہجہاں پور]] سے شروع کیا گیا تھا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=35 |language=ur}}</ref> انھوں نے 21 اپریل 1905 کو ندوۃ العلماء سے استعفٰی دے دیا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=39 |language=ur}}</ref> ان کا انتقال 17 دسمبر 1910 کو ہوا۔<ref>{{cite book |author1=شمس تبریز خان|title=تاریخ ندوۃ العلماء |volume = 2|page=25 |language=ur}}</ref>
==حوالہ جات==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
== کتابیات ==
== کتابیات ==

نسخہ بمطابق 07:05، 8 جولائی 2021ء


مسیح الزماں خان
دار العلوم ندوۃ العلماء کے دوسرے چانسلر
برسر منصب
20 جولائی 1903 سے 21 اپریل 1905 تک
پیشرومحمد علی مونگیری
جانشینخلیل الرحمن سہارنپوری
ذاتی
پیدائش1840
وفات17 دسمبر 1910(1910-12-17) (عمر  69–70 سال)
مذہباسلام
فقہی مسلکحنفی
مرتبہ
استاذاحمد علی شاہ آبادی

مسیح الزماں خان (1840 - 17 دسمبر 1910) ایک بھارتی عالم دین تھے، جنھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کے دوسرے چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ میر لائق علی خان اور محبوب علی خان کے استاد تھے۔

سوانح

مسیح الزماں خان 1840 (1256 ہجری) میں شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔[1] انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد علی شاہ آبادی سے حاصل کی اور پھر اپنے ہی بھائی محمد زماں خان ہی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے حیدرآباد چلے گئے۔[1]

تعلیم کی تکمیل کے بعد مسیح الزماں خان؛ میر تراب علی خان، سالار جنگ اول کے دونوں بیٹوں میر لائق علی خان اور میر سعادت علی خان کے استاذ بن گئے۔ محرم 1293 ہجری میں وہ چھٹے نظام حیدرآباد محبوب علی خان کے استاذ مقرر ہوئے۔[2] تین سال بعد وہ نظام کے تمام تعلیمی امور کا ناظم مقرر ہوئے۔[2] سن 1300 ہجری میں میر تراب علی خان کی وفات کے بعد ، ایک نئی کونسل تشکیل دی گئی اور خورشید جاہ اور نریندر پرشاد اس کے ارکان مقرر ہوئے۔ وہ مسیح الزماں خان سے ناراض ہو گئے اور ان کا عہدہ کم کر دیا اور 4 محرم 1301 ہجری کو پنشن وارنٹ ارسال کر دیا۔[3] چار ماہ بعد وہ شاہجہاں پور واپس آگئے۔[3]

مسیح الزماں خان 1895 میں لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کے دوسرے اجلاس عام میں شریک ہوئے اور انھیں رکنِ انتظامیہ مقرر کیا گیا۔[4] 19 جولائی 1903 کو محمد علی مونگیری کے استعفٰی کے بعد تین سال کے لیے انھیں ندوۃ العلماء کا ناظم عبوری (چانسلر) مقرر کیا گیا۔[5][6] ندوۃ العلماء کا جریدہ الندوہ شاہجہاں پور سے شروع کیا گیا تھا۔[7] انھوں نے 21 اپریل 1905 کو ندوۃ العلماء سے استعفٰی دے دیا۔[8] ان کا انتقال 17 دسمبر 1910 کو ہوا۔[9]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 19 
  2. ^ ا ب شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 20 
  3. ^ ا ب شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 21–22 
  4. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 27 
  5. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 31 
  6. سید محمد الحسنی (مئی 2016)۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء (4 ایڈیشن)۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات، ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 238 
  7. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 35 
  8. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 39 
  9. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ صفحہ: 25 

کتابیات

  • شمس تبریز خان (2015)۔ "مولانا مسیح الزماں خان کا دورِ نظامت"۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات، ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 19–39