"اسحاق بن راہویہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 36: سطر 36:
اس بارے میں اہلِ تذکرہ کچھ زیادہ معلومات نہیں فراہم کرتے؛ مگرجستہ جستہ واقعات سے اس پرکچھ روشنی پڑتی ہے، تحصیلِ علم اور سماعِ حدیث کے بعد ان کا قیام زیادہ ترنیشاپور میں رہتا تھا؛ گویہ یہ جگہ اسلامی مملکت کے مرکزی مقامات سے بہت دور تھی؛ پھراس زمانہ میں سفر کی دقتیں بھی وہاں تک پہنچنے میں مانع تھیں؛ مگراس کے باوجود صدہاتشنگانِ علوم اس چشمہ علم سے سیراب ہوئے، خصوصیت سے خراسان کے علاسہ میں ان کا علم کافی پھیلا، خطب کا بیان ہے کہ ان کا علم خراسانیوں میں خوب پھیلا، ہب ابن جریر کا بیان ہے کہ مشرق میں جن لوگوں نے سنت کوزندہ کیا ان میں اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔
اس بارے میں اہلِ تذکرہ کچھ زیادہ معلومات نہیں فراہم کرتے؛ مگرجستہ جستہ واقعات سے اس پرکچھ روشنی پڑتی ہے، تحصیلِ علم اور سماعِ حدیث کے بعد ان کا قیام زیادہ ترنیشاپور میں رہتا تھا؛ گویہ یہ جگہ اسلامی مملکت کے مرکزی مقامات سے بہت دور تھی؛ پھراس زمانہ میں سفر کی دقتیں بھی وہاں تک پہنچنے میں مانع تھیں؛ مگراس کے باوجود صدہاتشنگانِ علوم اس چشمہ علم سے سیراب ہوئے، خصوصیت سے خراسان کے علاسہ میں ان کا علم کافی پھیلا، خطب کا بیان ہے کہ ان کا علم خراسانیوں میں خوب پھیلا، ہب ابن جریر کا بیان ہے کہ مشرق میں جن لوگوں نے سنت کوزندہ کیا ان میں اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔
<ref>(تاریخ بغداد:۳۷۶)</ref>
<ref>(تاریخ بغداد:۳۷۶)</ref>
ان سے جن لوگوں نے اکتساب فیض کیا ان میں امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ وغیرہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، ان تمام ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں اسحاق ابن راہویہ کی مرویات نقل کی ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کبار ائمہ کے علاوہ خلقِ کثیر نے ان سے روایت کی ہے، یحییٰ بن آدم ان کے شیوخ میں ہیں؛ مگرانہوں نے ان سے تقریباً دوہزار روایتیں نقل کی تھیں۔






نسخہ بمطابق 14:19، 25 اگست 2021ء

اسحاق بن راہویہ
(عربی میں: إسحاق بن راهويه ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 778ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 جنوری 853ء (74–75 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ محمد بن ادریس شافعی ،  حسین بن علی الجعفی ،  عبد الرحمن بن مہدی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد بن اسماعیل بخاری ،  مسلم بن حجاج ،  ابو عیسیٰ محمد ترمذی ،  احمد بن شعیب النسائی رضوان ،  ابن قتیبہ دینوری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مسند اسحاق بن راہویہ   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسحاق بن راہویہ (پیدائش: 161ھ/ 778ء– وفات: اتوار 15 شعبان 238ھ/ 29 جنوری 853ء) إسحاق بن إبراہيم بن مخلد حنظلی تميمی مروزی، ابو يعقوب ابن راہویہ: خراسان اور اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے۔خاندان خنظلہ، جو بنی تمیم کی شاخ ہے، سے تعلق تھا امام احمد بن حنبل امام بخاری امام مسلم امام ترمذي اور نسائی وغيرہم۔ کے اساتذہ میں سے تھے۔ آپ كبار حفاظ حدیث میں سے ایک ہیں۔بہت زیادہ شہروں کے سفر کیے اور حدیث کو اکٹھا کیا ان میں عراق، حجاز، شام اور يمن کے سفر بھی ہیں۔ مرو کے رہنے والے تھے جو خراسان کے مضافات میں سے تھا ان کے راہویہ لقب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین مکہ جا رہے تھے کہ یہ راستے میں پیدا ہوئے جس سے راہویہ کہلاتے ہیں۔

امام اسحٰق بن راہویہ

تابعین کے فیضِ تربیت سے جولوگ بہرہ ور ہوئے اور ان کے بعد علومِ دینیہ کی اشاعت وترویج کی انہی میں امام المسلمین اسحاق بن راہویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں، ان کا شمار ان اساطینِ اُمت میں ہوتا ہے جنہوں نے دینی علوم خصوصاً تفسیر وحدیث کی بے بہا خدمات انجام دی ہیں اور اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں۔

نام ونسب

نام اسحاق اور ابویعقوب کنیت تھی والد کا نام ابراہیم تھا؛ مگرراہویہ کے نام سے مشہور تھے (عبداللہ بن طاہر امیرخراسان نے ایک بار ان سے دریافت کیا کہ آپ ابنِ راہویہ کے نام سے کیوں مشہور ہیں؟ اس نام سے آپ کومخاطب کیا جائے توآپ برا نہیں مانیں گے؟ بولے کہ میرے والد کی ولادت رات میں ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اہلِ مرو اُن کوراہوی کہنے لگے؛ یہی راہوی عربی میں آکر راہویہ ہوگیا، میرے والد اس لفظ کواپنے لیے پسند نہیں کرتے تھے؛ لیکن مجھے پسند ہے۔ [2] عام طور پرارباب رجال ان کا پورا سلسلۂ نسب بیان نہیں کرتے، ودلابی نے ان کا پورا سلسلۂ نسب بیان کیا ہے، جس کوصاحب تہذیب نے جلد:۱، صفحہ:۲۱۸ پرنقل کیا ہے۔ ان کا اصلی وطن مرو (ایران) تھا؛ کشی وجہ سے قیام نیشاپور میں تھا۔ [3]

تعلیم وتربیت

سنہ۱۶۱ھ یاسنہ۱۶۳ھ میں ولادت ہوئی (سنہ وفات میں اختلاف ہے، اس اختلاف کی وجہ سے ان کی تاریخِ ولادت میں بھی اختلاف ہوگیا ہے؛ مگرصحیح یہ ہے کہ سنہ۱۶۱ھ میں ولادت ہوئی اور سنہ۲۳۸ھ میں وفات پائی) ابتدائی تعلیم کے بعد حدیث کی طرف توجہ کی سب سے پہلے امام وقت عبداللہ بن مبارک کی خدمت میں گئے؛ مگراس کی کم سنی استفادہ میں مانع بنی؛ پھردوسرے شیوخ حدیث کی مجالسِ درس میں شریک ہوئے اور ان سے استفادہ کیا، اس وقت ممالکِ اسلامیہ میں دینی علوم کے جتنے مراکز تھے وہ سب ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور تھے؛ مگرابنِ راہویہ نے اِن تمام مقامات کا سفر کیا اور وہاں کے تمام ممتاز محدثین وعلماء سے استفادہ کیا، خطیب بغدادی نے اس سلسلہ میں عراق، حجاز، یمن، مکہ اور شام وغیرہ کا نام لیا ہے؛ مگران مقامات کی حیثیت محض ایک شہر کی نہیں تھی؛ بلکہ یہ مملکتِ اسلام کے بڑے بڑے صوبے یاعلاقے تھے، جن میں سینکڑوں علمی مراکم تھے اور بیشمار جگہوں پرفقہ وحدیث کی مجلسیں برپا تھیں، اس لیے ان مرکزی مقامات کی نہ جانے کتنے بستیوں کی خاک چھانی ہوگی، ان کے اساتذہ کے چند نام یہ ہیں: سفیان بن عیینہ مکہ، جریر بن عبدالحمید راموی، اسماعیل بن عیلہ بصرہ، وکیع بن جراح، یحییٰ بن آدم، ابومعاویہ، ابوآسامہ کوفہ، عبدالرزاق بن ہمام، عبداللہ بن وہب، عبداللہ بن مبارک خراسان، یہ ان کے چند مشاہیراساتذہ کے نام دیئے گئے ہیں؛ ورنہ یہ تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔

تفسیر

ان کوابتدا ہی سے علم حدیث سے شغف تھا اور اسی کے حصول میں انہوں نے سب سے زیادہ محنت وکوشش کی؛ مگرتفسیر وفقہ وغیرہ میں بھی ان کو دسترس تھی، خطیب نے لکھا ہے کہ وہ حدیث وفقہ کے جامع تھے، جب وہ قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے تواس میں بھی سند کا تذکرہ کرتے تھے، ابوحاتم اس بارے میں کہتے ہیں کہ حدیث کے سلسلہ روایت اور الفاظ کا یاد کرنا تفسیر کے مقابلہ میں آسان ہے، ابنِ راہویہ میں یہ کمال ہے کہ وہ تفسیر کے سلسلہ سند کوبھی یاد کرلیتے ہیں۔ [4]

قوتِ حافظہ اور حدیث سے شغف واعتماد

اس کدوکاوش کے ساتھ خدا نے قوتِ حافظہ بھی غیرمعمولی دیا تھا، بے شمار احادیث زبانی یاد تھیں، کئی کئی ہزار احادیث تلامذہ کووہ اپنی یادداشت سے لھا دیا کرتے تھے اور کبھی کتاب دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی؛ خود کہتے تھے کہ میں جوکچھ سنتا ہوں اسے یاد کرلیتا ہوں اور جوکچھ یاد کرلیتا ہوں؛ پھرنہیں بھولتا، فرماتے تھے: سترہزار حدیثیں ہروقت میری نظروں کے سامنے رہتی ہیں، ابوذرعہ مشہور محدث کہتے تھے کہ ان کے جیسا قوتِ حفظ رکھنے والا نہیں دیکھا گیا۔ [5] ان سے ایک بار کہا گیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کوایک لاکھ حدیثیں زبانی یاد ہیں، فرمایا کہ میں ایک دولاکھ کچھ نہیں جانتا مگر میں نے آج تک جتنی حدیثیں سنی ہیں وہ سب یاد ہیں، ابوداؤد خفاف جوان کے تلامذہ میں ہں کہتے تھے کہ ایک بار گیارہ ہزار حدیثیں انہوں نے املا کرائیں اور پھران کودوبارہ دہرایا توایک حرف کا فرق نہیں تھا۔ [6]

حدیث سے شغف کا نتیجہ

خداداد استعداد وصلاحیت اور قوتِ حافظہ کے ساتھ حدیث سے ان کے شغف واہنماک نے جلد ہی ان کوتبع تابعین کے زمرہ میں ایک ممتاز حیثیت کا مالک بنادیا، بڑے بڑے ائمہ حدیث ان کے فضل وکمال کے معترف اور ان کے جلالت علم کے قائل ہوگئے، ابنِ خزیمہ کہتے تھے کہ اگروہ تابعین کے زمانہ میں ہوتے تواپنے علم وفضل کی بناء پراس زمرہ میں بھی ایک ممتاز حیثیت حاصل کرتے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے سامنے جب کوئی شخص ابنِ راہویہ کہتا تھاتوان کوبرا معلوم ہوتا تھا، وہ کہتے تھے کہ خراسان کے علاقہ میں ان کے زمانہ میں ان کے جیسا صاحب علم آدمی نہیں پیدا ہوا؛ گوہمارے اور ان کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف تھا؛ مگریہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اختلاف توہرزمانہ کے اہلِ علم میں ہوا ہے؛ مقصد یہ تھا کہ اختلاف کی بناء پرکسی کے فضل کا اعتراف نہ کرنا صحیح نہیں ہے؛ یحییٰ بن یحییٰ ایک ممتاز محدث تھے، ان کے پاس جب ابنِ راہویہ آتے تھے تووہ ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ ان کے قریب کے لوگوں کوتعجب ہوتا تھا، کسی نے ان سے پوچھا کہ وہ توآپ سے عمر میں بھی چھوٹے ہیں، ان کی اتنی عزت افزائی کیوں کرتے ہیں؛ انہوں نے کہا کہ: إِسْحَاقُ أَكْثَرُ عِلْماً مِنِّي، وَأَنَا أَسَنُّ مِنْهُ۔ [7] ترجمہ: اسحاق علم میں مجھ سے بڑے ہیں اور میں عمر میں اُن سے بڑا ہوں۔ انہی کا قول ہے کہ اسحاق کے پاس علم کا ایک خزانہ ہے۔ [8] محمد بن یحییٰ الذہلی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سنہ۱۹۹ھ میں اسحاق بن راہویہ کے ساتھ رصافہ گیا؛ یہاں پرتمام معاصر ائمہ حدیث مثلاً احمد بن حنبل یحییٰ، ابن معین وغیرہ جمع تھے؛ مگراس مجلس کے صدر نشین اسحاق بن راہویہ بنائے گئے۔ [9]

درس وتدریس

اس بارے میں اہلِ تذکرہ کچھ زیادہ معلومات نہیں فراہم کرتے؛ مگرجستہ جستہ واقعات سے اس پرکچھ روشنی پڑتی ہے، تحصیلِ علم اور سماعِ حدیث کے بعد ان کا قیام زیادہ ترنیشاپور میں رہتا تھا؛ گویہ یہ جگہ اسلامی مملکت کے مرکزی مقامات سے بہت دور تھی؛ پھراس زمانہ میں سفر کی دقتیں بھی وہاں تک پہنچنے میں مانع تھیں؛ مگراس کے باوجود صدہاتشنگانِ علوم اس چشمہ علم سے سیراب ہوئے، خصوصیت سے خراسان کے علاسہ میں ان کا علم کافی پھیلا، خطب کا بیان ہے کہ ان کا علم خراسانیوں میں خوب پھیلا، ہب ابن جریر کا بیان ہے کہ مشرق میں جن لوگوں نے سنت کوزندہ کیا ان میں اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔ [10] ان سے جن لوگوں نے اکتساب فیض کیا ان میں امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ وغیرہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، ان تمام ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں اسحاق ابن راہویہ کی مرویات نقل کی ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کبار ائمہ کے علاوہ خلقِ کثیر نے ان سے روایت کی ہے، یحییٰ بن آدم ان کے شیوخ میں ہیں؛ مگرانہوں نے ان سے تقریباً دوہزار روایتیں نقل کی تھیں۔


علما کی رائے

امام ذہبی انہیں امام الکبیر، شیخ المشرق، سید الحفاظ لکھتے ہیں [11] اسحاق بن راہویہ ثقہ محدثین میں شمار ہوتے ہیں امام دارمی کہتے ہیں "اسحاق بن راہویہ اہل مشرق و مغرب کے صداقت فی الحدیث میں سردار ہیں " جبکہ خطيب بغدادی کہتے ہیں : "ان کی ذات حديث، فقہ، حفظ، صداقت، ورع اورزهد سب کی جامع تھی" ان کی مشہور تصنيف، "مسنداسحاق بن راہویہ" ہے ان کا وطن نيشاپورتھا اوروفات بھی اسی جگہ پائی .[12][13]

تصانیف

ابن راہویہ نے قرآن (تفسیر)، حدیث اور فقہ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھیں :

  • المسند
  • الجامع الكبير
  • الجامع الصغير
  • المصنف
  • العلم
  • التفسير الكبير: گم شدہ یا تباہ شدہ

حوالہ جات

  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/102508062 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. (تاریخِ بغداد:۲/۲۷۵)
  3. (تہذیب التہذیب:۲/۲۱۶)
  4. (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۱۸)
  5. (تاریخ بغداد:۲)
  6. (تاریخ بغداد:۲)
  7. (تاریخ دمشق، ابن عساکر:۸/۱۲۷، شاملہ،ملفات وورد من على ملتقى أهل الحديث)
  8. (تاریخ بغداد)
  9. (تاریخِ بغداد)
  10. (تاریخ بغداد:۳۷۶)
  11. سير اعلام النبلاء،شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد الذَہبی
  12. موسوعۃ الفقہیہ جلد1، صفحہ449، اسلامی فقہ اکیڈمی، دہلی، انڈیا
  13. الاعلام، جلد 1، صفحہ 292، خير الدين زركلی الدمشقی