"طلحہ بن عبید اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی کے لیے
سطر 102: سطر 102:
حلیہ یہ تھا،قد میانہ بلکہ ایک حد تک پست، چہرہ کا رنگ سرخ وسفید،بدن خوب گٹھا ہوا سینہ چوڑا، پاؤں نہایت پرگوشت اورہاتھ کی انگلیاں غزوۂ احد میں شل ہوگئی تھیں۔
حلیہ یہ تھا،قد میانہ بلکہ ایک حد تک پست، چہرہ کا رنگ سرخ وسفید،بدن خوب گٹھا ہوا سینہ چوڑا، پاؤں نہایت پرگوشت اورہاتھ کی انگلیاں غزوۂ احد میں شل ہوگئی تھیں۔
=== اولاد وازواج ===
=== اولاد وازواج ===
حضرت طلحہ بن عبید اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چوہرے ہم ذلف تھے۔ان کی چار بیویاں چار امہات المؤمنین کی بہنیں تھیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض کی بہن ام کلثوم بنت ابى بكر رض۔ ام المؤمنين زينب بنت جحش رض کی بہن حمنہ بنت جحش رض۔ ام المؤمنين ام حبيبہ رض کی بہن فارعہ بنت ابى سفيان رض اور ام المؤمنين ام سلمہ رض کی بہن رقيہ بنت ابي امیہ رض<ref> الإصابة لابن حجر : 230/2</ref>۔
طلحہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں بیویوں کے نام یہ ہیں حمنہ بنت جحش،ام کلثوم بنت ابوبکر الصدیق، سعدی بنت عوف ،ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ، خولہ بنت القعقاع، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے متعدد اولاد ہوئی تھی، لڑکوں کے نام یہ ہیں۔
طلحہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں بیویوں کے نام یہ ہیں حمنہ بنت جحش،ام کلثوم بنت ابوبکر الصدیق، سعدی بنت عوف ،ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ، خولہ بنت القعقاع، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے متعدد اولاد ہوئی تھی، لڑکوں کے نام یہ ہیں۔
محمد، عمران، عیسیٰ، یحییٰ، اسمعیل، اسحاق، زکریا، یعقوب،موسی، یوسف، ان کے علاوہ چارصاحبزادیاں بھی تھیں، ان کے نام یہ ہیں۔
محمد، عمران، عیسیٰ، یحییٰ، اسمعیل، اسحاق، زکریا، یعقوب،موسی، یوسف، ان کے علاوہ چارصاحبزادیاں بھی تھیں، ان کے نام یہ ہیں۔
ام اسحاق، عائشہ،صعبہ، مریم۔
ام اسحاق، عائشہ،صعبہ، مریم۔

== وفات ==
== وفات ==
طلحہ کو [[مروان بن حکم|مروان بن حکم الاموی]] نے گھٹنے پر تیر مارا تھا (جس سے) آپ شہید ہو گئے۔<ref>طبقات ابن سعد 3، 223، وسند صحیح</ref>
طلحہ کو [[مروان بن حکم|مروان بن حکم الاموی]] نے گھٹنے پر تیر مارا تھا (جس سے) آپ شہید ہو گئے۔<ref>طبقات ابن سعد 3، 223، وسند صحیح</ref>

نسخہ بمطابق 14:40، 19 ستمبر 2021ء

طلحہ بن عبید اللہ
طلحہ بن عبید اللہ
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 595ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 656ء (60–61 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا[1]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل مروان بن حکم[2]  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ حمنہ بنت جحش
ام کلثوم بنت ابو بکر
قريبہ كبرى بنت ابی اميہ  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد بن طلحہ،  یوسف بن طلحہ،  زکریا بن طلحہ،  ام اسحاق بنت طلحہ،  عائشہ بنت طلحہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  عسکری قائد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

طلحہ مکمل نام طلحہ بن عبید اللہ ابومحمد کنیت،فیاض اورخیرلقب،والد کا نام عبید اللہ اوروالدہ کا نام صعبہ تھا، اسلام قبول کرنے والے پہلے آٹھ افراد میں سے ایک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔ غزوہ احد اور جنگ جمل میں انکا خاص کردار رہا۔[3][4] پورا سلسلہ نسب یہ ہے،طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمروبن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی ابن غالب القرشی التیمی،چونکہ مرہ بن کعب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں اس لیے طلحہ کا نسب چھٹی ساتویں پشت میں حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

اسلام

ایک دفعہ جب کہ غالباً سترہ یا اٹھارہ برس کی عمر تھی تجارتی اغراض سے بصرہ تشریف لے گئے وہاں ایک راہب نے حضرت سرورِکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبعوث ہونے کی بشارت دی، لیکن یوم ولادت سے اس وقت تک جس قسم کی آب وہوا میں پرورش پائی تھی اورگرد وپیش جس قسم کے مذہبی چرچے تھے اس کا اثر صرف ایک راہب کی پیشن گوئی سے زائل نہیں ہو سکتا تھا، بلکہ ابھی مزید تعلیم و تلقین کی ضرورت تھی،مکہ واپس آئے تو حضرت ابوبکر صدیق کی صحبت اوران کے مخلصانہ وعظ وپندنے تمام شکوک رفع کردیے،چنانچہ ایک روز صدیق اکبر ؓکی وساطت سے دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے اورخلعت ایمان سے مشرف ہوکر واپس آئے اس طرح طلحہ ان آٹھ آدمیوں میں سے ہیں جو ابتدائے اسلام میں نجم صداقت کی پرتوضیاء سے ہدایت یاب ہوئے اورآخر کار خود بھی آسمان اسلام کے روشن ستارے بن کر چمکے۔[5] اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہ ؓ بھی عام مسلمانوں کی طرح کفار کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ رہے،عثمان بن عبید اللہ نے جو نہایت سخت مزاج اور طلحہ کا حقیقی بھائی تھا، ان کو اور ابوبکر صدیق کو ایک ہی رسی میں باندھ کر مارا کہ اس تشدد سے اپنے نئے مذہب کو ترک کر دیں،لیکن توحید کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا۔[6]

مواخات

مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زبیر بن عوام سے ان کا بھائی چارہ کرادیا۔

ہجرت

طلحہ نے مکہ میں نہایت خاموش زندگی بسر کی اوراپنے تجارتی مشاغل میں مصروف رہے، چنانچہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ تشریف لے جا رہے تھے،اس وقت وہ اپنے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے،راہ میں ملاقات ہوئی،انہوں نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ شامی کپڑے پیش کیے اور عرض کیا کہ اہل مدینہ نہایت بے چینی اوراضطراب کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں،غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہایت عجلت کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے اور طلحہ نے مکہ پہنچ کر اپنے تجارتی کاروبار سے فراغت حاصل کی اور ابوبکر کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ پہنچے، اسعد بن زرارہ نے ان کو اپنا مہمان بنایا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابی بن کعب انصاری سے ان کا بھائی چارہ کرادیا۔[7]

غزوات میں شرکت

جنگ بدرکے موقع پر طلحہ کسی خاص مہم پر مامور ہوکر ملک شام تشریف لے گئے تھے، واپس آئے تو دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں سے اپنے حصے ِ کی درخواست کی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں حصہ دیا اورفرمایا کہ تم جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں رہوگے۔بعض اہل سیر کا بیان ہے کہ حضرت طلحہ ؓ اپنے تجارتی اغراض سے شام گئے تھے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس صورت میں مالِ غنیمت میں حصہ طلب کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی،نیز ایک دوسری روایت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو اور سعید بن زید ؓ کو شام کی طرف قریش کے قافلہ کی تحقیق حال کی خدمت پر مامور کرکے بھیجا تھا، اس روایت سے بھی ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے، بہرحال اگرچہ حضرت طلحہ ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہ تھے تاہم وہ اپنی اہم کار گذاریوں کے باعث اس کے اجروثواب سے محروم نہیں رہے۔

غزوۂ احد

۳ ھ میں غزوۂ احد پیش آیا، اس جنگ میں پہلے مسلمانوں کی فتح ہوئی اورکفاربھاگ کھڑے ہوئے،لیکن مسلمان جیسے ہی اپنی اپنی جگہ سے ہٹ کر لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہوئے کفار نے پھر پلٹ کر حملہ کردیا، اس ناگہانی حملہ نے مسلمانوں کو ایسا بدحواس کیا کہ ان کو سرورِ کائنات کی حفاظت کا بھی خیال نہ رہا اور جو جس طرف تھا اسی طرف سے بھاگ کھڑا ہوا میدانِ جنگ میں صرف دس بارہ آدمی ثابت قدم رہ گئے تھے، لیکن وہ سب بھی شمع ہدایت سے دور تھے اوراس وقت صرف حضرت طلحہ ؓ پروانہ وار فدویت وجان نثاری کے حیرت انگیز مناظر دکھارہے تھے، کفار کا ہرطرف سے نرغہ تھا،تیروں کی بارش ہورہی تھی،خون آشام تلواریں چمک چمک کر آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں اور صدہاکفارصرف ایک مقدس ہستی کو فنا کردینے کے لیے ہرطرف سے یورش کررہے تھے اس نازک وقت میں جمال نبوت کا یہ شیدائی ہالہ بن کر خورشید نبوت کو آگے پیچھے داہنے بائیں ہر طرف سے بچارہا تھا،تیروں کی بوچھاڑ کو ہتھیلی پر روکتا،تلوار اورنیزہ کے سامنے اپنے سینہ کو سپر بناتا،پھر اسی حال میں کفار کا نرغہ زیادہ ہوجاتا تو شیر کی طرح تڑپ کر حملہ کرتا اوردشمن کو پیچھے ہٹا دیتا، ایک دفعہ کی نابکارنے ذات قدسی پر تلوار کا وار کیاخادم جاں نثار یعنی طلحہ ؓ جانبازنے اپنے ہاتھ پر روک لیا، اورانگلیاں شہید ہوئیں تو آہ کے بجائے زبان سے نکلا حسن"خوب ہوا،سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اس لفظ کے بجائے بسم اللہ کہتے تو ملائکہ آسمانی تمہیں بھی اٹھا لے جاتے! غرض حضرت طلحہ ؓ دیر تک حیرت انگیز جانبازی اوربہادری کے ساتھ مدافعت کرتے رہے، یہاں تک کہ دوسرے صحابہ ؓ بھی مدد کے لیے آپہنچے، مشرکین کا ہلہ کسی قدر کم ہوا تو سرورکائنات ﷺ کو اپنی پشت پر سوار کرکے پہاڑی پر لے آئے، اورمزید حملوں سے محفوظ کردیا۔غزوۂ احد میں فدویت جان نثاری اورشجاعت کے جو بے مثل جوہردکھائے یقناً تمام اقوامِ عالم کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے،تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا، ابوبکر صدیق نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کیے تھے۔[8] درباررسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اسی جان بازی کے صلہ میں “خیر" کا لقب مرحمت ہوا، صحابہ کو واقعہ احد میں ان کی اس غیر معمولی شجاعت اورجانبازی کا دل سے اعتراف تھا، ابوبکر صدیق غزوۂ احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ یہ طلحہ کا مخصوص دن تھا، عمرفاروق ان کو صاحبِِ احد فرمایا کرتے تھے خود طلحہ کو بھی اس پر فخر کارنامہ پر بڑا ناز تھا اورہمیشہ لطف وانبساط کے ساتھ اس کی داستان سنایا کرتے تھے۔[9]

متفرق غزوات

غزوۂ احد کے بعد فتح مکہ تک جس قدر غزوات ہوئے، طلحہ سب میں نمایاں طور پر شریک رہے،بیعتِ رضوان کے وقت بھی موجود تھے اورشرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین آیا، اس معرکہ میں بھی غزوۂ احد کی طرح پہلے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے،لیکن چند بہادر اورثابت قدم مجاہدین کے استقلال وثبات نے پھر اس کو سنبھال لیا، اوراس طرح جم کر لڑے کہ غنیم کی فتح شکست سے بدل گئی اوربیشمار سامان اورمال غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا، حضرت طلحہ ؓ اس جنگ میں بھی ثابت قدم اصحاب ؓ کی صف میں تھے۔ 9ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر ملی کہ قیصر روم بڑے سازوسامان کے ساتھ عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور جنگی اسباب و سامان کے لیے مال وزر صدقہ کرنے کی ترغیب دی، طلحہ نے اس موقع پر ایک بیش قراررقم پیش کی اوربارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فیاض کا لقب حاصل کیا۔[9]سرورِکائنات ﷺ ایک طرف حملہ قیصر کے مدافعانہ اہتمام میں مصروف تھے دوسری طرف منافقین جو ہمیشہ درپئے تخریب رہتے تھے، اس موقع پر بھی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے،اورمدینہ سے کچھ فاصلہ پر سویلم یہودی کے مکان میں مجتمع ہوکر ان تدابیر پر غور کرتے تھے جن سے مسلمانوں میں بددلی پیدا ہو اس مہم میں شرکت سے انحراف کریں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ ؓ کو اس خانہ برانداز جماعت کی تنبہہ پر مامور فرمایا، انہوں نے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر نہایت مستعدی کے ساتھ سویلم کے مکان کا محاصرہ کرلیا اوراس میں آگ لگادی،ضحاک بن خلیفہ نے مکان کے پشت سے کود کر حملہ کیا اوراس حالت میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اوراس کے ساتھی اس کو مسلمانوں کے پنجۂ اقتدار سے بچا کر لے بھاگے۔ [10] غرض تیس ہزار مجاہدین نہایت جاہ و جلال کے ساتھ رومیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے،تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی، اس لیے وہاں چودہ دن قیام کر کے سب لوگ واپس آئے پھر۱۰ ھ میں رسول اللہ ﷺ نے آخری حج کیا، حضرت طلحہ ؓ ہمرکاب تھے ،حج سے واپس آنے کے بعد ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ دوشنبہ کے دن آفتاب رسالت دنیا سے غروب ہوا، حضرت طلحہ ؓ کو اس سانحہ کبریٰ سے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ جس وقت سقیفۂ بنی ساعدہ میں سیادت وخلافت کا فیصلہ ہورہاتھا، اس وقت یہ کسی گوشہ تنہائی میں مصروف گریہ تھے۔

عہد صدیقی ؓ

صقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت پر اتفاق کیا، حضرت طلحہ ؓ نے بھی کچھ دنوں کے بعد بیعت کی اور مہماتِ امور میں رائے اورمشورہ کے لحاظ سے جانشین رسول کے ہمیشہ دست وبازوثابت ہوئے ،سوا دو برس کی خلافت کے بعد جب خلیفہ اول مرض الموت کے بستر پر تھے اورانہوں نے منصب کے لیے فاروق اعظم ﷺ کو نامزد کیا تو حضرت طلحہ ؓ نے نہایت آزادی کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ سے جا کر کہا کہ آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمرؓ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے؟ آپ اب خدا کے ہاں جاتے ہیں، یہ سوچ لیجئے کہ خدا کو کیا جواب دیجئے گا، حضرت ابو بکر ؓ نے کہا میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر کیا جوان میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔

عہد ِفاروقی ؓ

حضرت عمر ؓ کے متعلق حضرت طلحہ ؓ کی جو رائے تھی وہ کسی بغض و عداوت سے ملوث نہ تھی ؛بلکہ اکثر صحابہ ؓ کی یہی رائے تھی کہ ان کا تشدد ناقابل تحمل ہوگا،لیکن جب حضرت عمر ؓ نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اس منصب عظیم کے لیے سب سے موزوں ہیں تو دفعۃً حضرت طلحہ ؓ کا خیال بھی بدل گیااور مجلس شوریٰ کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ فاروق اعظم ؓ کی اعانت کی،اختلافی مسائل میں ساتھ دیا، اوراہم امور میں نہایت مخلصانہ مشورے دیئے،ایک دفعہ عہد فاروقی ؓ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ممالک مفتوحہ مجاہدین میں با ہم تقسیم کردیئے جائیں اورایک بڑی جماعت اس کی موئد ہوگئی،صرف حضرت عمرؓ اورچند دوسرے صحابہ ؓ کواس سے اختلاف تھا، تین دن تک بحث ہوتی رہی، حضرت طلحہ ؓ نے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ اس مسئلہ میں حضرت عمرؓ کی تائید کی،یہاں تک کہ ان ہی کی رائے پر آخری فیصلہ ہوا،اسی طرح معرکہ نہاوند کے موقع پر ایرانی ٹڈی دل نے فاروق اعظم ؓ کو مشوش کردیا اورانہوں نے صحابہ ؓ سے اس کے متعلق مشورہ چاہا، توحضرت طلحہ ؓ نے کھڑے ہوکر کہا آپ ہم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں،البتہ ہم لوگ تعمیل حکم کے لیے تیار ہیں۔ فاروق اعظم ؓ نے ؁ ۲۳ھ میں دس برس کی خلافت کے بعد سفرِ آخرت کی تیاری کی اورعہدہ خلافت کے لیے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا،ان میں حضرت طلحہ ؓ بھی تھے، لیکن انہوں نے نہایت فراخ حوصلگی کے ساتھ حضرت عثمان ؓ کو اپنے اوپر ترجیح دی اوران کا نام اس منصب کے لیے پیش کیا، چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی کوشش اورحضرت طلحہ ؓ کی تائید سے وہی خلیفہ منتخب ہوئے۔

عہد عثمانی ؓ

حضرت عثمان ؓ نے بارہ برس تک خلافت کی ؛لیکن آخری چھ سالہ عہد خلافت میں تمام ملک عام طورپر شورش و بے چینی کا آماجگاہ ہوگیا تھا اورہر طرف ریشہ دوانی و فتنہ پردازی کا بازار گرم تھا، حضرت طلحہ ؓ نے دربار خلافت کو مشورہ دیا کہ اسباب شورش کی تفتیش وتحقیق کے لیے تمام ملک میں وفود روانہ کیے جائیں، چنانچہ یہ رائے پسند کی گئی اور۳۵ھ میں محمد بن مسلمہ ؓ،اسامہ بن زیدؓ، عمار بن یاسر ؓ اورعبداللہ بن عمر ؓ مختلف حصصِ ملک میں روانہ کیے گئے، ان لوگوں نے واپس آکر اپنی تحقیقات کا جو نتیجہ پیش کیا اس پر عمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ مفسدین نے بارگاہ خلافت کا محاصرہ کرلیا، گوحضرت طلحہ ؓ نے اس موقع پر حضرت عثمان ؓ کی کوئی خاص اعانت نہیں کی، تاہم وہ اکثر خود ایک غیر جانب دارشخص کی حیثیت سے دریافت حال کےلیے محاصرین کی جماعت میں تشریف لے گئے،چنانچہ وہ ایک دفعہ وہاں موجود تھے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے بالاخانہ پر کھڑے ہوکر کبارصحابہ ؓ میں ایک ایک کا نام لے کر پکارا اس ضمن میں حضر ت طلحہ ؓ کا نام بھی آیا، انہوں نے جواب دیا، ہاں !میں حاضر ہوں، حضرت عثمان ؓ نے اپنے احسانات اورفضائل ومناقب بیان کرکے ان سے تصدیق چاہی تو انہوں نے مفسدین کے سامنے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ اس کی تصدیق کی۔ [11] آخر میں جب محاصرہ زیادہ خطرناک ہوگیا تو حضرت علی ؓ اورحضرت زبیر ؓ کی طرح حضرت طلحہ ؓ نے بھی اپنے صاحبزادہ محمد کو حضرت عثمان ؓ کی حفاظت کے لیے متعین کردیا، چنانچہ جب مفسدین نے یورش کی تو محمد بن طلحہ ؓ نے نہایت تندہی اورجانفشانی سے ان کا مقابلہ کیا۔ [12] محافظین نے باوجود قلت تعداد کے اس سیلاب کو روکے رکھا، لیکن چند نابکار دوسری طرف سے اندر گھس آئے اورصبروحلم کے آفتاب کو شہید کردیا، حضرت طلحہ ؓ کو معلوم ہوا تو افسوس کے ساتھ فرمایا خدا عثمان ؓ پر رحم کرے،لوگوں نے کہا مفسدین اب اپنے فعل پر نادم ہیں، فرمایااللہ ا نہیں ہلاک کرے اس کے بعد یہ آیت پڑھی: "فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَۃً وَّلَآ اِلٰٓى اَہْلِہِمْ یَرْجِعُوْنَ" (یٰسٓ:۵۰) (پھر نہ یہ کوئی وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاسکیں گے)

حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر بادلِ نخواستہ بیعت کی

حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مصریوں نے حضرت علی ؓ کو عنانِ خلافت سنبھالنے پر مجبور کیا، اورمسجد نبوی ﷺ میں لوگوں کو بیعت عام کے لیے جمع کیا، حضرت طلحہ ؓ گوبرابر کے دعویدار تھے؛ تاہم اس شورش وہنگامہ کے وقت زبان نہ ہلاسکے اوربادل نخواستہ بیعت کرلی۔ [13]

خلیفۂ وقت کے مقابلہ میں خروج اوراس کی وجہ

خلیفۂ وقت کا قتل کوئی معمولی حادثہ نہ تھا، اس سے تمام میں شورش اوربدنظمی پھیل گئی اور مفسدین کی مطلق العنانی نے خود مدینہ کو پرفتن بنادیا، حضرت طلحہ ؓ کامل چارماہ تک خاموشی کے ساتھ اس فتنہ وفساد کا تماشا دیکھتے رہے،لیکن جب دربارِ خلافت کی طرف سے اس کے انسداد کی کوئی امید نہ رہی تو خود علم اصلاح بلند کرنے کے لیے حضرت زبیر ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ سے مکہ چلے آئے، حضرت عائشہ ؓ حج کے خیال سے مکہ آئی تھیں اورمدینہ کی شورشوں کا حال سن کر اس وقت تک یہیں مقیم تھیں،اس لیے ان دونوں نے سب سے پہلے ام المومنین ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر مدینہ کی کیفیت بیان کی اورعلم اصلاح بلند کرنے پر آمادہ کیا، تھوڑی دیر کی بحث ومباحث کے بعد حضرت عائشہ ؓ راضی ہوگئیں اورحضرت طلحہ ؓ کی رائے کے مطابق بصرہ جانے کی تیاری ہوئی،کیونکہ وہاں ان کے طرفداروں کی ایک بڑی جماعت موجود تھی اورنہایت آسانی کے ساتھ اس مہم کی شرکت پر آمادہ ہوسکتی تھی۔

بصرہ پر قبضہ

غرض داعیان اصلاح کی ایک ہزار جماعت مکہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوئی بنوامیہ بھی جومدینہ سے بھاگ کر مکہ میں پناہ گزین تھے جوشِ انتقام میں ساتھ ہوگئے،بصرہ کے قریب پہنچے تو عثمان بن حنیف والی بصرہ نے مزاحمت کی،پہلے کچھ دنوں تک ان سے مصالحت کی سلسلہ جنبانی ہوتی رہی ؛لیکن جب وہ راہ پر نہ آئے توبزور شہرپر قابض ہوگئے اورحضرت طلحہ ؓ کے حامیوں نے جوش وخروش کے ساتھ اہل دعوت کو لبیک کہا۔

حضرت علی ؓ کی فوج سے مقابلہ کے لیے بڑھنا

حضرت علی ؓ کو مدعیانِ اصلاح کے خروج کا حال معلوم ہوچکا تھا، اس لیے مدینہ سے روانہ ہوکر ذی قار پہنچے اوریہاں سے تقریبا کوفہ کے نوہزار جنگ آزما نوجوان ساتھ لے کر بصرہ کی طرف بڑے، حضرت طلحہ ؓ وزبیر ؓ نے اس فوج کا حال سنا تو انہوں نے بھی اپنی فوج کو منظم و مرتب کرکے آگے بڑھایا، دسویں جمادی الآخرہ ۳۶ھ میں دونوں فوجوں میں مٹ بھیڑ ہوئی۔

شہادت

جنگ شروع ہونے سے پہلے صلح کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی،اورحضرت علی ؓ نے حضرت زبیر ؓ کو رسول خدا ﷺ کی ایک پیشن گوئی یاد دلائی کہ اسی وقت ان کا دل اس خانہ جنگی سے پھر گیا، حضرت طلحہ ؓ نے اپنے زور بازو کو برداشتہ خاطر دیکھا تو ان کا ارادہ بھی متزلزل ہوا، اورجنگ سے کنارہ کش ہونے کی رائے قائم کرلی، مروان نے جو حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے معاملہ میں ان سے بدظن تھا، اس موقع کو غنیمت جان کر ایک تیرمارا جو اگرچہ پاؤں میں لگا؛ لیکن ان کے لیے تیر قضا ثابت ہوا،[14]لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی تو فرمایا چھوڑدو،یہ تیر نہیں بلکہ پیام خداوندی ہے۔

تجہیز وتکفین

طلحہ نے باسٹھ یا چونسٹھ برس کی عمر میں ذی قار شہادت حاصل کی، اورغالباً اسی میدان جنگ کے کسی گوشہ میں مدفون ہوئے ؛لیکن یہ زمین نشیب میں تھی اس لیے اکثر غرقِ آب رہتی تھی، ایک شخص نے مسلسل تین دفعہ طلحہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی لاش کو اس قبر سے منتقل کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں، عبداللہ بن عباس نے خواب کا حال سنا تو ابوبکر صحابی کا مکان دس ہزار درہم میں خرید کر ان کی لاش کواس میں منتقل کر دیا، دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اتنے دنوں کے بعد بھی یہ جسم خاکی اسی طرح مصئون ومحفوظ تھا،یہاں تک کہ آنکھوں میں جو کافور لگایا گیا تھا وہ بھی بعینہ موجود تھا،[15]

اخلاق وعادات

حضرت طلحہ ؓ کا اخلاقی پایہ نہایت ارفع واعلی تھا، خشیت الہی اوررسول اللہ ﷺ کی محبت سے ان کا پیمانہ لبریز تھا،معرکہ احد اوردوسرے غزوات میں جس جوش وفداکاری کے ساتھ پیش پیش رہے وہ اسی جذبہ کااثر تھا اس راہ میں ان کو جان کے ساتھ مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ غزوات کے مصارف کے لیے اپنا مال راہِ خدا میں دیا کریں گے،اس نذر کو انہوں نے اس پابندی کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کی کہ خاص قرآن پاک میں ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی۔ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیْہِoفَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى [16] یعنی کچھ آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کردکھایا،چنانچہ بعض ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنی مدد پوری کی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت طلحہ ؓ بارگاہِ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئےتو ارشاد ہوا،"طلحہ ؓ تم بھی ان لوگوں میں ہو جنہوں نے اپنی نذر پوری کی" [17] حضرت طلحہ ؓ اقلیم سخاوت کے بادشاہ تھے،فقراء ومساکین کے لیے ان کا دروازہ کھلا رہتا تھا، قیس ابن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے طلحہ ؓ سے زیادہ کسی کو بے طلب کی بخشش میں پیش پیش نہ دیکھا۔ [18] غزوۂ ذی القرد میں آنحضرت ﷺ مجاہدین کے ساتھ پانی کے ایک چشمہ پر گذرے جس کا نام بیسان مالح تھا، حضرت طلحہ ؓ نے اس کو خرید کر وقف کردیا،[19]اسی طرح غزوۂ ذی العسرہ میں تمام مجاہدین کی دعوت کی ،غزوۂ تبوک کے موقع پر جب کہ عموما ًتمام مسلمان افلاس وناداری کی مصیبت میں مبتلا تھے، انہوں نے مصارفِ جنگ کے لیے ایک گرانقدر رقم پیش کی اوردربارِ رسالت سے فیاض کا خطاب حاصل کیا۔ [20] ایک دفعہ حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ اپنی جائیداد سات لاکھ درہم میں فروخت کی اورسب راہِ خدا میں صرف کردیا، آپ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے انہیں غمگین دیکھا،پوچھا آپ اس قدر اداس کیوں ہیں مجھ سے کوئی خطا تو سرزد نہیں ہوئی؟ بولے نہیں تم نہایت اچھی بیوی ہو، تمہاری کوئی بات نہیں ہے،اصل قصہ یہ ہے کہ میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی ہے، اس وقت اسی کی فکر میں تھا کیا کروں، میں نے کہا اس کو تقسیم کرادیجئے، یہ سن کر انہوں نے اسی وقت لونڈی کو بلایا اورچار لاکھ کی رقم اپنی قوم میں تقسیم کرادی۔ [21] حضرت طلحہ ؓ بنو تمیم کے تمام محتاج و تنگدست خاندانوں کی کفالت کرتے تھے، لڑکیوں اوربیوہ عورتوں کی شادی کردیتے تھے،جولوگ مقروض تھے ان کا قرض ادا کردیتے تھے؛ چنانچہ صبیحہ تیمی پر تیس ہزار درہم قرض تھا، وہ سب انہوں نے اپنے پاس سے ادا کردیا ،ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے بھی خاص عقیدت تھی اورہرسال دس ہزار درہم پیش خدمت کرتے تھے۔ [22] مہمان نوازی حضرت طلحہ ؓ کا خاص شیوہ تھا، ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین آدمی مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے؟حضرت طلحہ ؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا"میں یارسول اللہ!"اوروہ تینوں نو مسلم مہمانوں کو خوشی خوشی گھر لے آئے ان میں سے دو نے یکے بعد دیگرے مختلف غزوات میں شہادت حاصل کی اور تیسرے نے بھی ایک مدت کے بعد حضرت طلحہ ؓ کے مکان میں وفات پائی ان کو اپنے مہمانوں سے جو انس پیدا ہوگیا تھا اس کا اثریہ تھا کہ ہر وقت ان کی یاد تازہ رہتی تھی اوررات کے وقت خواب میں بھی ان ہی کا جلوہ نظرآتا تھا، ایک روز خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے تینوں مہمانوں کے ساتھ جنت کے دروازہ پر کھڑے ہیں،لیکن جو سب سے پیچھے مراتھا وہ سب سے آگے ہے،اورجو سب سے پہلے شہید ہوا تھا وہ سب سے پیچھے ہے،حضرت طلحہ ؓ کو اس تقدم وتاخر پر سخت تعجب ہوا، صبح کے وقت سرور کائنات ﷺ سے خواب کا واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا،اس میں تعجب کی کیابات ہے، جو زیادہ دنوں تک زندہ رہا اس کو عبادت ونیکو کاری کا زیادہ موقع ملا، اس لیے وہ جنت کے داخلہ میں اپنے ساتھیوں سے پیش تھا۔ [23] احباب کی مسرت وشادمانی ان کے لیے بھی سامانِ انبساط بن جاتی تھی،حضرت کعب بن مالک ؓ غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے باعث معتوب بارگاہ تھے ،ایک مدت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی خطا معاف کردی اور وہ خوش خوش دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضرت طلحہ ؓ نے دوڑ کر ان سے مصافحہ کیا اورمبارک باد دی،حضرت کعب ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں طلحہ ؓ کے اس اخلاق کو کبھی نہ بھولوں گا؛ کیونکہ مہاجرین میں سے کسی نے ایسی گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ [24] حضرت طلحہ ؓ کو دوستوں کی خدمت گذاری سے بھی دریغ نہ تھا، ایک دفعہ ایک اعرابی مہمان ہوا اوراس نے درخواست کی کہ بازار میں میرا اونٹ فروخت کرادیجئے،حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا گورسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری،دیہاتی کا معاملہ نہ چکائے تاہم میں تمہارے ساتھ چلوں گااور اس کے ساتھ جاکر مناسب قیمت پر اس کا اونٹ فروخت کرادیا، اعرابی نے اس کے بعد خواہش ظاہر کی کہ دربارِ رسالت ﷺ سے زکوٰۃ کی وصولی کا ایک مفصل ہدایت نامہ دلوادیجئے تاکہ عمال کو اسی کے مطابق دیا کروں حضرت طلحہ ؓ نے اپنے مخصوص تقرب کے باعث اس کی یہ خواہش بھی پوری کردی۔ [25] رسول خدا ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو طرز عمل بنانا ہر مسلمان کی سب سے بڑی سعادت ہے،حضرت طلحہ ؓ نے اس سعادت کے حصول کو اپنے فرائض میں شامل کر لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مختلف صحبتوں میں جو کچھ دیکھتے یا سنتے اس کو ہمیشہ یاد رکھتے اوراگر اتفاق سے کبھی کوئی بات بھول جاتے تو سخت مغموم ورنجیدہ نظر آتے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ان کو مغموم دیکھ کر پوچھا،تمہارا حال کیسا ہے؟ کسی سے کوئی جھگڑاتو نہیں ہوا؟ کہنے لگے"مجھے اس وقت وہ کلمہ معلوم تھا، لیکن اب یاد نہیں آتا،حضرت عمر ؓ نے کہا کیا تم اس کلمہ سے بھی زیادہ باعظمت وپراثر کلمہ جانتے ہو جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا یعنی لا الہ الاّ اللہ حضرت طلحہ ؓ سن کا اچھل پڑے فرمایا"ہاں! خدا کی قسم یہی کلمہ ہے" [26]

حسن معاشرت

طلحہ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے،وہ اپنے کنبہ میں جس لطف ومحبت کے ساتھ زندگی بسرکرتے تھے اس کا اندازہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ کی لڑکی ام ابان سے اگرچہ بہت سے معزز اشخاص نے شادی کی درخواست کی،لیکن انہوں نے طلحہ کو سب پر ترجیح دی، لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا میں ان کے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں،وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے ،باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے ،کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اورخاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے، اگر کوئی کام کردو شکر گزار ہوتے ہیں اورخطا ہو جائے تو معاف کردیتے ہیں۔[27]

ذریعہ ٔمعاش

حضرت طلحہ ؓ کے معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا،چنانچہ نیر اسلام کے طلوع ہونے کی بشارت بھی اسی تجارتی سفر میں ملی تھی،جب مدینہ پہنچے تو زراعت کا شغل بھی شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس کو نہایت وسیع پیمانہ پر پھیلادیا،خیبر کی جاگیر کے علاوہ عراق عرب میں متعدد علاقے حاصل کیے،ان میں سے قناۃ اور سراۃ نہایت مشہور ہیں، ان دونوں مقامات میں کاشتکاری کا نہایت وسیع اہتمام تھا، صرف قناۃ کے کھیتوں پر بیس اونٹ سیرابی کا کام کرتے تھے ،ان علاقوں کی پیداوار کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت طلحہ ؓ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینا ر تھا۔ [28]

تمول

غرض تجارت وزراعت نے ان کو غیر معمولی دولت وثروت کا مالک بنادیا تھا،چنانچہ لاکھوں دینا ودرہم راہ خدا میں لٹادینے کے بعد بھی اہل وعیال کے لیے ایک عظیم الشان دولت چھوڑ گئے،ایک دفعہ امیر معاویہ ؓ نے موسیٰ بن طلحہ ؓ سے پوچھا کہ تمہارے والد نے کسی قدر دولت چھوڑی تو انہوں نے کہا بائیس لاکھ درہم اوردولاکھ دینار، اس کے علاوہ نہایت کثیر مقدار میں سونا اورچاندی ،یہ نقدی کی تفصیل تھی،جائیداد غیر منقولہ اس کے علاوہ تھی جس کی کل قیمت کا اندازہ تین کروڑ درہم تھا۔ [29]

غذاولباس

طرز معاش نہایت سادہ تھا،کپڑے اکثر رنگین پہنتے تھے، ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے حالت احرام میں رنگین لباس زیب حسم دیکھا بولے"طلحہ ؓ یہ کیا ہے؟ عرض کیا امیرالمومنین یہ گیروارنگ ہے" فرمایا آپ لوگ ائمہ دین ہیں عوام آپ کا اتباع کرتے ہیں، کوئی جاہل دیکھ لے گا تو وہ بھی رنگین کپڑے استعمال کرے گا اور دلیل پیش کرے گا کہ میں نے طلحہ ؓ کو حالتِ احرام میں پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ [30] حضرت طلحہ ؓ کے ہاتھ میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس میں نفیس سرخ یاقوت کا رنگ جڑا ہواتھا، لیکن بعد کو یاقوت نکال کر معمولی پتھر سے مرصع کرایا تھا،(طبقات ابن سعد:۱۵۷)دسترخوان بھی وسیع تھا، لیکن پر تکلف نہ تھا۔

حلیہ

حلیہ یہ تھا،قد میانہ بلکہ ایک حد تک پست، چہرہ کا رنگ سرخ وسفید،بدن خوب گٹھا ہوا سینہ چوڑا، پاؤں نہایت پرگوشت اورہاتھ کی انگلیاں غزوۂ احد میں شل ہوگئی تھیں۔

اولاد وازواج

حضرت طلحہ بن عبید اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چوہرے ہم ذلف تھے۔ان کی چار بیویاں چار امہات المؤمنین کی بہنیں تھیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض کی بہن ام کلثوم بنت ابى بكر رض۔ ام المؤمنين زينب بنت جحش رض کی بہن حمنہ بنت جحش رض۔ ام المؤمنين ام حبيبہ رض کی بہن فارعہ بنت ابى سفيان رض اور ام المؤمنين ام سلمہ رض کی بہن رقيہ بنت ابي امیہ رض[31]۔ طلحہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں بیویوں کے نام یہ ہیں حمنہ بنت جحش،ام کلثوم بنت ابوبکر الصدیق، سعدی بنت عوف ،ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ، خولہ بنت القعقاع، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے متعدد اولاد ہوئی تھی، لڑکوں کے نام یہ ہیں۔ محمد، عمران، عیسیٰ، یحییٰ، اسمعیل، اسحاق، زکریا، یعقوب،موسی، یوسف، ان کے علاوہ چارصاحبزادیاں بھی تھیں، ان کے نام یہ ہیں۔ ام اسحاق، عائشہ،صعبہ، مریم۔

وفات

طلحہ کو مروان بن حکم الاموی نے گھٹنے پر تیر مارا تھا (جس سے) آپ شہید ہو گئے۔[32]

حدیث میں ذکر

ان 10 صحابہ کرام کا ذکر عبدالرحمن بن عوف کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ جنتی ہیں۔[33]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب عنوان : Тальха ибн Убайдулла
  2. رَأيْتُ مَرْوانَ بنَ الحَكَمِ حينَ رَمى طَلحةَ يومَئِذٍ بسَهمٍ، فوَقَعَ في رُكبَتِه، فما زال يَنسَحُّ حتى مات (الراوي : ”قيس بن أبي حازم“، المحدث : شعيب الأرناؤوط، المصدر : تخريج سير أعلام النبلاء، الصفحة أو الرقم: 1/36 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح)
  3. Hadith - Chapters on Virtues - Jami` at-Tirmidhi - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 01 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2014 
  5. ابن سعد قسم اول :3/53
  6. اسد الغابہ:3/59
  7. طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث صفحہ 154
  8. فتح الباری:7/66
  9. ^ ا ب بخاری کتاب المغازی غزوۂ احد
  10. (سیرت ابن ہشام:۲/۳۱۵)
  11. (ابن سعد جزو۳ قسم اول صفحہ ۴۷)
  12. (ابن اثیر:۳/۴۰)
  13. (طبقات ابن سعد جزو۳ ق ۱)
  14. (مستدرک حاکم:۲/۳۷۱)
  15. اسد الغابہ:3/161
  16. (احزاب:۲۳)
  17. (فتح الباری :۸/۳۹۰)
  18. (فتح الباری : ۷/۶۶)
  19. (اصابہ:۳/۲۹۱)
  20. (اسد الغابہ :۳/۶۰)
  21. (طبقات ابن سعد قسم اول جو ثالث : ۱۵۷)
  22. (طبقات ابن سعد:۱۵۸)
  23. (مسند ابن حنبل :۱/۱۶۳)
  24. (بخاری باب غزوۂ تبوک)
  25. (بخاری باب غزوۂ تبوک)
  26. (مسند:۱/۱۶۱)
  27. کنز العمال:6/413
  28. (کنز العمال:۶/۴۱۳)
  29. (طبقات ابن سعد قسم اول جو ثالث :۱۵۸)
  30. (طبقات ابن سعد :۱۵۶)
  31. الإصابة لابن حجر : 230/2
  32. طبقات ابن سعد 3، 223، وسند صحیح
  33. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713