"محمد اقبال" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.2) (روبالہ جمع: ks:محمد اقبال
سطر 307: سطر 307:
[[it:Muhammad Iqbal]]
[[it:Muhammad Iqbal]]
[[jv:Muhammad Iqbal]]
[[jv:Muhammad Iqbal]]
[[ks:محمد اقبال]]
[[lv:Muhameds Ikbāls]]
[[lv:Muhameds Ikbāls]]
[[ml:മുഹമ്മദ് ഇഖ്‌ബാൽ]]
[[ml:മുഹമ്മദ് ഇഖ്‌ബാൽ]]

نسخہ بمطابق 03:26، 24 اکتوبر 2012ء

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال
علامہ محمد اقبال
علامہ محمد اقبال
ادیب
پیدائشی ناممحمد اقبال
تخلصاقبال
ولادت9 نومبر 1877ء، سیالکوٹ[1]
ابتداسیالکوٹ
وفات21 اپریل 1938(1938-40-21) (عمر  60 سال) لاہور[1]
اصناف ادبشاعری
نثر
ذیلی اصنافنظم
غزل
معروف تصانیفبانگ درا - 1924ء
بال جبریل- 1935ء
ضرب کلیم - 1936ء
پیام مشرق - 1923ء
جاوید نامہ - 1932ء
اسرار خودی - 1915ء
رموز بے خودی - 1917ء


ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

ولادت و ابتدائی زندگی

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ[2]) کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔

اقبال کے آبا‌ ؤ اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نُور محمد کشمیر کے سپر و برہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اسلام قبول کیا ۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضُرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی ۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے ۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آبسے ۔ ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا ۔کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ۔ لگتا ہے کہ یہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے ، پلے بڑھے اور گھر والے ہوئے ۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں اُٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے ، مرتے دم تک یہیں رہے ۔ ان کی وفات کے بعد شیخ نُور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو بڑھا لیا۔

شیخ نُور محمد دیندار آدمی تھے ۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم کو کافی سمجھتے تھے ۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علماء کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ۔ اقبال بسم اﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے ۔ مولانا ابوعبداﷲ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے ۔شیخ نُور محمد کا وہاں آنا جانا تھا ۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا ۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتداء ہوئی ۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک شہر کے نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آرہی تھی ۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے۔ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے ۔دونوں آپس میں قریبی واقف تھے ۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو ۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے ۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا ، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کردیا ۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میرحسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا ۔ تین سال گزر گئے ۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا ۔ اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے ۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے ۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا ۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں ۔ اچھے زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتا تھا ۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے ۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے ، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی ۔ اس کے علاوہ ادبیات ، معقولات ، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند کر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ احساس بن جائے ۔ عربی ، فارسی اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے ۔ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔

مولانا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معمول قضا نہیں کرتے تھے ۔ قرآن کے حافظ بھی تھے اور عاشق بھی۔شاگردوں میں شاہ صاحب کہلاتے تھے ۔ انسانی تعلق کا بہت پاس تھا ۔ حد درجہ شفیق ، سادہ ، قانع ، متین ، منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے ۔ روزانہ کا معمول تھ کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرستان جاتے ، عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے ۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دینے میں کَٹ جاتا ۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا ، یہاں تک کہ اسکول کو چل پڑتے ۔ شاگرد ساتھ لگے رہتے ۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے ۔ شام کو شاگردوں کولیے ہوئے گھر آتے ، پھر رات تک درس چلتا رہتا ۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے ۔ خود وہ بھی استاد پر فدا تھے ۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں ۔ سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے ۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے ۔

ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہوگئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی ۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی ۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے ۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے ۔ کتاب کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے ۔ زندگی اور اس کے بیچ فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں ، خونِ گرم کا حصّہ نہیں بنتے ۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا ۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے ۔ حاضر جواب بھی بہت تھے ۔ شیخ نُور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے ۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے ۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اور بے ساختگی کے ساتھ گزرا ۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہوگئے ، دونوں کا ہدف ایک ہوگیا ۔ یہ جو اقبال کے یہاں حِس اور فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے ۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجمالاً محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہوگئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغہ اور وظیفہ ملا ۔

اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کرلیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے ۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے ۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔اس وقت پورا برصغیر داغؔ کے نام سے گونج رہا تھا ۔ خصوصاً اُردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کویہی گرفت درکار تھی ۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی رُوپ تھے ، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے ۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔

تعلیم

۶مئی ۱۸۹۳ء میں اقبال نے میٹرک کیا اور ۱۸۹۵ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے ۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے ۔ اپنے لیے انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے ۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے ۔ اس وقت تک اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ ۱۸۹۸ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ)میں داخلہ لے لیا۔ یاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔

مارچ ۱۸۹۹ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھرمیں اوّل آئے ۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے ۔ نومبر ۱۸۹۹ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں کھینچ لے گئے ۔ بڑے بڑے سکّہ بند اساتذہ شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے ۔ سُننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا ۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے ، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا ۔ غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے ۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے ۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا ۔ مشاعروں میں باصرار بُلائے جانے لگے ۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا ۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے ۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کردیا ۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔

ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال ۱۳مئی۱۸۹۹ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوگئے ۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے ۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے ۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا ۔ ۱۹۰۴ء کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا ۔ دل کہتا تھا کہ اُڑ کر انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس میں اقبال نے اسٹبس کی ’’ارلی پلائجنٹس‘‘اور واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘کا اردو میں تلخیص و ترجمہ کیا ، شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظریۂ توحیدِ مطلق پر انگریزی میںایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی جو ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی ۔ اردو می اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے۔

اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہوگئی تو ۱۹۰۳ء میں اسسٹنٹ پروفیسرانگریزی کی حیثیت سے اقبال گورنمنٹ کالج میں تقرر ہوگیا ۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے ۔ وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لی۔


اعلیٰ تعلیم اور سفر یورپ

۲۵ دسمبر 1905 کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی ۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا ۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنزاِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

سر عبدالقادر بھی یہیں تھے ۔ اسی زمانے میں کیمبرج کے استادوں میں وائٹ ہیڈ ، میگ ٹیگرٹ ، وارڈ ، براؤن اور نکلسن ایسی نادرۂ روزگار اور شہرۂ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں ۔ میگ ٹیگرٹ اور نکلسن کے ساتھ اقبال کا قریبی ربط ضبط تھا بلکہ نکلسن کے ساتھ تو برابر کی دوستی اور بے تکلفی پیدا ہوگئی ۔ البتہ میگ ٹیگرٹ کی جلالت علمی کے ساتھ ان کی عمر بھی تھی ، وہ اقبال سے خاصے بڑے تھے جب کہ نکلسن کے ساتھ سن کا کوئی ایسا تفاوت نہ تھا۔ میگ ٹیگرٹ ٹرنٹی کالج میں کانٹ اور ہیگل کا فلسفہ پڑھاتے تھے ۔ خود بھی انگلستان کے بڑے فلسفیوں میں گِنے جاتے تھے ۔ براؤن اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے ۔ آگے چل کر نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہوگیا ۔ انگلستان سے آنے بعد بھی اقبال کی میگ ٹیگرٹ اور نکلسن سے خط و کتابت جاری رہی۔

آرنلڈ جو کیمبرج نہیں تھے ، لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے ،لیکن اقبال بڑی باقاعدگی سے ان سے ملنے جایا کرتے تھے ۔ ہر معاملے میں ان کا مشورہ لے کر ہی کوئی قدم اُٹھاتے ۔ انہی کے کہنے پر میونخ یونیورسٹی میں پی۔ ایچ ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروائی ۔ کیمبرج سے بی ۔ اے کرنے کے بعد جولائی ۱۹۰۷ء کو ہائیڈل برگ چلے گئے ۔ تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبانی امتحان کی تیاری ہوجائے جو اسی زبان میں ہوتا تھا۔ یہاں چار ماہ گزارے ۔ ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء‘‘ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کرچکے تھے ، ایک زبانی امتحان کا مرحلہ ابھی رہتا تھا ، اس سے بھی سرخروئی کے ساتھ گزر گئے ۔ ۴ نومبر ۱۹۰۷ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ دے دی ۔ ۱۹۰۸ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہوا ۔ انتساب آرنلڈ کے نام تھا۔

ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے ۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی ۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہوگئے ۔ جولائی ۱۹۰۸ء کو نتیجہ نکلا۔ کامیاب قرار دیے گئے ۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رُکے ، وطن واپس آگئے۔

لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا ، مثلاً اسلامی تصوّف ، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر ، اسلامی جمہوریت ، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ بدقسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔

مئی ۱۹۰۸ء میں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چُنے گئے اور اقبال کو مجلسِ عاملہ کا رُکن نامزد کیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کردینے کی ٹھان لی تھی، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبدالقادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا ۔ فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی۔ قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے ۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدتِ الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے ۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا ۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہوگئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔

یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی روح میں کارفرما مختلف تصوّرات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا ۔ مغرب سے مرعوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے ، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد ۔ بلکہ مغرب کے فکری ، معاشی ، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے گزشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا ۔یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہوگیا ۔

جولائی ۱۹۰۸ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ بمبئی سے ہوتے ہوئے ۲۵ جولائی ۱۹۰۸ء کی رات دہلی پہنچے۔

تدریس ،وکالت اور سماجی خدمات

ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔

اگست ۱۹۰۸ء میں اقبال لاہور آگئے ۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی ۔ اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم ۔ اے ۔ او کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری پیش کی گئی مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کرلی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر ۱۰ مئی ۱۹۱۰ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کردیا ، لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی ۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں ۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہوگیا۔

۱۸۔ مارچ ۱۹۱۰ء کو حیدرآبار دکن کا سفر پیش آیا ۔ وہاں اقبال کے قدیمی دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے ۔ اس دورے میں سر اکبر حیدری اور مہاراجاکشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بنا پڑی۔مارچ کی تئیسویں کو حیدرآباد سے واپس آئے ۔ اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے میں اورنگ آباد اُتر گئے ۔ دو دن وہاں ٹھہرے ۔ ۲۸ ۔ مارچ ۱۹۱۰ء کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے ۔اب معلمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جارہا تھا ۔ آخرکار ۳۱۔ دسمبر ۱۹۱۰ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہوگئے ، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا ۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور بر صغیر کی کئی دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہوگیا تھا ۔ پنجاب ، علی گڑھ ، الہ آباد، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے ۔ ان کے علاوہ بیت العلوم حیدر آباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے ۔ بعض اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ ، الہ آباد، ناگ پور وغیرہ بھی جانا ہوتا ۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا۔

۲۔ مارچ ۱۹۱۰ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے ۔ لالہ رام پرشاد ، پروفیسر تاریخ ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب ’’تاریخ ہند‘‘مرتب کی جو ۱۹۱۳ء کو چھپ کر آئی ۔ آگے چل کر مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی ، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے ۔ ۱۹۱۹ء میں اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے ۔ ۱۹۲۳ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی ، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے ۔ اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہو کر تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجان مینارڈ نے انھیں جانے نہ دیا ۔اس طرف سے اتنا اصرار ہوا کہ مروتاً استعفا واپس لے لیا ۔ اس دوران میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے ۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب ’’آئینہ عجم‘‘مرتب کی جو ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ غرض ، پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً ۱۹۳۲ء تک متعلق رہے ۔

سیاست

علامہ اقبال کا مزار

بیسویں صدی کے عشرہ اول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک ٹھہراؤ میں مبتلا تھی ۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی ، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے ۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا سر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے ۔طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے ۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا ۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل ۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے ۔ اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کر غیر وابستہ ہی رکھا ۔

۱۹۱۱ء تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین ، سرسید کے حسب فرمان ، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے ، لیکن ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۲ء کے بیچ کے عرصے میں حالات جو ایک ڈھرّے پر چلے جارہے تھے ، اچانک پلٹا کھا گئے ۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے ، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے ، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے ۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی ۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کردیا گیا ۔ اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گزشتہ اندازِ فکری کی غلطی ان پر واضح ہوگئی ۔ انھیں اب آکر احساس ہوا کہ اپنی قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ رہنا یا انگریزوں کے بنائے ہوئے آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور بے معنی ہے ۔ بقول مولانا شبلی تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپّڑ مارنے کے مترادف تھی ، جس نے ان کے منہ کا رُخ پھیر کر رکھ دیا۔

تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری ۱۹۱۲ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا ، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے ۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں ۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اُٹھے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں ۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے ، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے ۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیاتھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا ، اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی ، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! ‘‘

اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لمحاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جو ابھی محدود تھی مگر آگے چل کر اسے وسعت پکڑنی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے چند حلقوں میں بیداری کے آثار پیدا ہوچلے تھے ، مگر اس بیداری کے مراکز ایک دوسرے سے لاتعلق چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح بٹے ہوئے تھے ۔ متفقہ ملّی قیادت میسر نہیں تھی ۔ نتیجتہً مسلمانوں کے اندر متحدہ ہندی قومیت کا رجحان پیدا ہوچلا تھا ۔ مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے ۔ابھی اقبال عملی سیاست سے الگ تھے مگر مسلم قومیت کے اس اصول پر پوری طاقت کے ساتھ قائم تھے جو ان پر قیامِ انگلستان کے زمانے میں منکشف ہوا تھا۔ یورپ سے واپسی کے بعد ۱۹۱۴ء تک کا زمانہ اقبال کی بنیادی فکر کی تشکیل و تکمیل کا زمانہ ہے۔ یورپ میں جنگِ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ اس کے اثرات ہندوستان میں بھی نمایاں ہوئے ۔ انگریزی حکومت کا رویہّ سخت سے سخت تر ہوتا گیا جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں نے زور پکڑ لیا تھا۔

۱۳۔ اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر شہر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا ۔ رُسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے لوگوں کو گھیرے میں لے کر اندھا دھند فائرنگ کروائی اور سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ گو کہ اقبال نے اس مانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دھمک ان کے دل تک بھی پہنچی ۔ انھوں نے مرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے

؎ ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ پاک

غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے

سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم

تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے

عبدالمجید سالک اپنی کتاب ’’ذکر اقبال‘‘میں تحریر کرتے ہیں:

’’اب پورا ملک بلا امتیاز مذہب و ملت احتجاج اور تنفر کا ہنگامہ زار بن رہا تھا ۔ مسلمانوں کے دلوں پر جلیانوالہ باغ اور پنجاب کے مظالم سے بھی زیادہ گہرا چرکا ترکی کی شکست سے لگ چکا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ترکان آلِ عثمان کی آزادی و خودمختاری خاک میں ملادی جائے گی خلافت اسلامیہ کی مسند کے گرد فرنگی گدھ منڈلا رہے تھے۔‘‘

اسی سال ستمبر کے مہینے میں مولانا محمدعلی جوہر چار سالہ نظر بندی کاٹ کے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اس مشہور احتجاجی جلسے میں شرکت کے لیے لکھنؤ پہنچے جس میں خلاف کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ خلافت کانفرنس کی تشکیل سے مسلمانوں نے بڑی امیدیں باندھ رکھی تھیں مگر بدقسمتی سے آگے چل کر اس نے کانگریس سے اتحاد کرلیا اور اس کے لیڈروں نے گاندھی کو اپنا قائد مان لیا ۔ اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رُکن تھے لیکن حالات کی اس تبدیلی نے ان کا قائدینِ خلافت سے شدید اختلاف پیدا کردیا ۔ وجہ اختلاف دو باتیں تھیں:

اوّل یہ کہ اقبال اس حق میں نہ تھے کہ خلافت وفد مذاکرات کے لیے انگلستان جائے، وہ اسے انگریز کی چال سمجھتے تھے۔

دوم یہ کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر عدم تعاون کی تحریک چلانے کو مسلمانوں کے لیے مضر خیال کرتے تھے کیونکہ کسی قابلِ قبول ہندو مسلم معاہدے کے بغیر محض انگریز دشمنی کی مشترکہ بنیاد پر متحدہ قومیت کا ناقص تصّور مسلمانوں کی جداگانہ ملّی حیثیت کو ختم کردے گا۔ یہ اختلافات حل نہ ہوئے تو اقبال صوبائی خلافت کمیٹی سے الگ ہوگئے ۔ اقبال کی بصیرت نے بھانپ لیا تھا کہ خود خلافتِ عثمانیہ کا مستقبل مخدوش ہے لہذا مسلمان اقوام کے ملّی اتحاد کی بنیاد اس کی بجائے کسی اور اصول پر رکھنی چاہیے۔

۱۶۔ اپریل ۱۹۲۲ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے اپنی طویل نظم’’خضر راہ‘‘سنائی۔ عبدالمجید سالک وہاں موجود تھے ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ایک تو اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بدیع اسلوب کا جمال پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر اربابِ ذوقِ سلیم وجد کر رہے تھے ، دوسرے اس میں علامہ نے جنگ عظیم کے سلسلے میں فاتح اقوام کی دھاندلی، ان کی ابلیسانہ سیاست ، سرمایہ داری کی عیارّی ، مزدور کی بیداری عالم اسلام خصوصا ترکانِ آلِ عثمان کی بے دست و پائی پرمؤثر اور بلیغ تبصرہ کیا ہے اور اسی سلسلے میں نسلی قومیت اور امتیاز رنگ وخون کے خیالات پر بھرپور چوٹ کی ہے ۔‘‘

جنوری ۱۹۲۳ء کو اقبال کر سَر کا خطاب ملا ۔ ان کے پُرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادیٔ اظہار سے کام نہ لے سکیں تو اقبال نے جواب میں تحریر کیا :

’’میں آپ کو اس اعزاز کی اطلاع خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فرو تر ہیں ۔ سیکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں ۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے ۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود( ﷺ) کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں ، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی ۔ ان شاء اﷲ۔

۳۰ ۔ مارچ ۱۹۲۳ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی ۔ یہ نظم یونانیوں پر ترکوں کی فتح کے موقعے پر لکھی گئی تھی ۔ نظم کیا ہے مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے

؎ دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی

خلافت کانفرنس نے برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات ابھار کر انھیں اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ مسلم لیگ کا وجود آنکھوں سے اوجھل ہوگیا ۔ ۱۹۲۴ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی لگاتار کوششوں سے اس کا احیا ہوا ۔ ادھر پنجاب میںبھی مسلم سیاست بحران کا شکار تھی۔ مسلمانوں کے اندر شہری اور دیہاتی جھگڑا کھڑا ہوگیا تھا ، جس نے یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا ۔ ۱۹۲۳ء کے صوبائی انتخبات کے موقعے پر اقبال سے اصرار کیا گیا کہ لیجسلیٹوکونسل کا الیکشن لڑیں مگر انھوں نے انکار کردیا کیونکہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کرچکے تھے جو اقبال کے لیے تجویز کیا جا رہا تھا ۔ اقبال حسبِ معمول وکالت میں مصروف تھے کہ ۱۹۲۶ء آ گیا ۔ اس سال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے دوبارہ انتخابات ہونے تھے ۔ دوستوں نے پھر زور ڈالا ۔ اس مرتبہ میاں عبدالعزیز نے بھی کہہ دیا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے ۔ اس بار اقبال مان گئے ۔ امیدواری کا باقاعدی اعلان چھاپ دیا گیا ۔ الیکشن ہوئے ، ظاہر ہے کہ اقبال ہی کو کامیاب ہونا تھا ۔ کونسل کے اندر یونینسٹ پارٹی اکثریت میں تھی ۔ اس کی قوّت کو مسلمانوں کے قومی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اقبال یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے مگر جب اس جماعت کی ناقابلِ اصلاح خرابیاں مشاہدے میں آئیں تو اقبال نے علیحدگی اختیار کرلی ۔ باقی مدت ایک تنہا رُکن کی حیثیت سے گزار دی ۔ اسی سال پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری بنائے گئے جس سے برّصغیر کی مسلم سیاست کا دروازہ ان پر کھل گیا ۔ اب اقبال عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔

ہندوؤں کی طرف شدھی اور سنگھٹن کی رُسوائے زمانہ تحریکوں کا زور تھا جس کی وجہ سے قدم قدم پر ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے ۔ ان فتنوں کا تدارک کرنے کے لیے مسلمانوں میں بھی مختلف تبلیغی مشن بنائے جارہے تھے ۔ غلام بھیک نیرنگ نے ایسی ہی ایک جماعت کی مدد کے لیے لکھا تو علامہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے تحریر کیا:

’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے ۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے روییّ سے معلوم ہوتا ہے ، تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔‘‘

دیکھنے میں تو یہ سیدھے سادے دو جملے ہیں مگر علامہ کے اس ارشاد میں تحریکِ پاکستان کا جوہر سمایا ہوا ہے۔

۲۔ جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال دہلی سے جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہوگئے ۔ وہاں الہیات اسلامیہ کی نئی تشکیل کے موضوع پر مدراس ، میسور ، بنگلور اور حیدرآباد دکن میں خطبات دیے۔ حبّوری کے آخر میں لاہور واپس پہنچ گئے۔

۱۹۲۹ء ہی میں افغانستان کے ساتھ اقبال کے عملی تعلق کی ابتدا ہوئی ۔ ۱۷ جنوری ۱۹۲۹ء کو بچّہ سقّہ نے امیرامان اﷲ خان والیٔ افغانستان کو ملک بدر کر کے کابل پر قبضہ کر لیا۔ پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ۔ آخر جنرل نادر خان بچہّ سقہّ کی سرکوبی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اقبال انھیں جانتے تھے ۔ علامہ نے مختلف ذرائع سے ان کی مدد کی۔

جنرل نادر خان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جسے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم بھی اس کے مخاطب ہیں: ’’اس وقت اسلام کی ہزارہا مربع میل سر زمین اور لاکھوں فرزندان اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درد مند اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانان ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہوکر گزریں۔‘‘

فلسطین میں یہودیوں بڑھتے ہوئے پُرتشدّد غلبے اور خاص طور پر مسجدِ اقصیٰ پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسے ہورہے تھے ، ۷۔ ستمبر۱۹۲۹ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: ’’یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حبّ ِ وطن سے خالی ہے ۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حبّ ِ وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبّت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے اور کر کے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا ...... ۱۹۱۴ء میں انگریز مدبرّوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلۂ کار بنایا ، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصّے کے مالکانہ تصرّف کا دعوٰی کر رہے ہیں ۔ انھوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے ۔ مسلمان ، ان کی عورتیں اور بچّے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جارہے ہیں ..... اب حکومتِ برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں۔‘‘ ۱۹۳۰ء کا سال پاکستان اور اقبال دونوں حوالوں سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ دسمبر کی انتیسویں تاریخ کو الٰہ آباد کے شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا ۔ قائداعظم پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لے لندن گئے ہوئے تھے ۔ آپ کے ارشاد کے مطابق اس اجلاس کی صدارت اقبال کو کرنی تھی ۔ یہیں انھوں نے وہ تاریخ ساز خطبۂ صدارت دیا جو خطبۂ الہ آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خطبے میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش کیا گیا۔

برطانوی حکومت نے دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی مدعو کیا ۔ لندن جانے کے لیے ۸ ۔ ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے ۔ اگلی صبح دہلی پہنچے ۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کا مجمع استقبال کو موجود تھا ۔

۱۰ ۔ ستمبر ۱۹۳۱ء کو بمبئی پہنچے ۔ اگلے روز وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے انگلستان کے لیے روانہ ہوگئے اور ۲۷ ۔ ستمبر کو لندن پہنچ گئے ۔ ویسے تو اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے مگر انگلستان میں ان کی علمی اور ادبی شہرت نے جو سیاسی شہرت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی ، ان کی مصروفیات کو دو حصّوں میں بانٹ دیا ۔ کانفرنس کی ابتداء ہی سے کچھ ایسے آثار رونما ہونے شروع ہوئے کہ اقبال بد دل ہوگئے ۔ کچھ اجلاسوں میں ایک اندازِ لاتعلقی کے ساتھ شریک رہے مگر جب کسی بھی مثبت نتیجے سے بالکل مایوسی ہوگئی تو بآلاخر ۱۹ نومبر ۱۹۳۱ء کو مسلمان وفد سے الگ ہو کر اس کانفرنس سے علانیہ کنارہ کش ہوگئے ۔ اب لندن میں ٹھہرنا بیکار تھا ۔ مولانا غلام رسول مہر کو ساتھ لے کر ۲۲۔ نومبر کی رات روم پہنچے ۔

۲۱۔ مارچ کو لاہور میں اقبال کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس ہوا ۔ اقبال نے خطبۂ صدارت پڑھا ، جس میں انھوں نے دوسری گول میز کانفرنس کا ماجرا سنایا، اس زمانے کے اہم سیاسی مسائل کا گہرا جائزہ لیا اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر نظر ڈالی ۔ یہ خطبہ ہر لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ اسے نظر انداز کر کے برّصغیر کی مسلم تاریخ کے جوہر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ ۱۹۳۲ء کے آخر میں برطانوی حکومت کی طرف سے لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال اس مرتبہ بھی بلائے گئے ۔ ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو انگلستان روانہ ہوئے ۔ ۳۰ دسمبر تک وہیں رہے ۔ اقبال نے پھر کانفرنس میں کوئی دلچسپی نہ کی ، کیوں کہ اس میں اُٹھائے گئے بیشتر مباحث وفاق سے متعلق تھے ، جس سے اقبال کوئی سروکار نہ رکھتے تھے ۔ وہ تو ہندوستان کے اندر صوبوں کی ایسی خودمختاری کے قائل تھے جس میں مرکزی حکومت نام کی کوئی شے موجود نہ ہو ۔ صوبوں کا براہِ رات تعلق لندن میں بیٹھے ہوئے وزیرِ ہند سے ہو۔

برّصغیر میں مسلم سیاسی جماعتیں سخٹ انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں ۔ اپنا اپنا راگ الاپا جا رہا تھا ۔ مسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عملاً فراموش کیا جا چکا تھا ۔ قائداعظم مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے، یہ سب دیکھنے اور کُڑھنے کو ایک اقبال رہ گئے تھے ، لیکن قدرت کو مسلمانوں کی بہتری منظور تھی ، اقبال اور دوسرے مخلصوں کے اصرار پر قائداعظم ہندوستان واپس آگئے اور ۴۔ مارچ ۱۹۳۴ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۔ لیگ کے تن مردہ جان پڑ گئی اور برّصغیر کے مسلمانوں کے دن پھرنے کا آغاز ہوگیا۔

۶۔ مئی ۱۹۳۶ء کو حضرت قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ اقبال سے ملنے ’’جاوید منزل‘‘ تشریف لائے ۔ آپ نے اقبال کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا ممبر بننے کی دعوت دی جسے اقبال نے اپنی شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول کرلیا۔

۱۲۔ مئی کو اقبال دوبارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے. آپ کی تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔

شاعری

جنوبی ایشیا کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ محمد اقبال کو شاعر مشرق کے طور پہ جانتے ہیں۔ محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسےبڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتب کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسرے زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔

تصانیف

نثر

  • علم الاقتصاد-1903[3]

فارسی شاعری

اردو شاعری

انگریزی تصانیف

اقبال کی نظموں کا فنی فکری تجزیہ

تصورات و نظریات

حوالہ جات

  1. ^ ا ب Iqbal in Years - علامہ اقبال کی سرکاری ویب سائیٹ (انگریزی)
  2. ڈاکٹر سلیم، اختر، سیّد علی اکبر شاہ کاظمی [2003ء]۔ “مفکر و مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم تقویم کے آئینہ میں”، ڈاکٹر سلیم اختر علامہ اقبال - حیات، فکر و فن (101 مقالات)۔ لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 92۔ ISBN 969-35-1434-3۔
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ
  4. Iqbal Academy Pakistan

مزید دیکھیے

بیرونی روابط