"پشاور" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
184.7.123.197 (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 690144 ویں ترمیم کا استرجع۔
سطر 104: سطر 104:


’خاموش فلموں کے دور میں ہندوستانی سینما پر پارسیوں اور بنگالیوں کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن جب بولنے والی فلمیں آئیں تو اداکار کی شخصیت کو مرکزی اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔ چوں کہ ہندوستانی معیار کے مطابق پشاور کے لوگ لمبے تڑنگے اور سرخ و سفید تھے، اور ہندی زبان زیادہ روانی سے بول سکتے تھے۔--[[صارف:محمد افضل|محمد افضل]] ([[تبادلۂ خیال صارف:محمد افضل|تبادلۂ خیال]]) 18:33, 29 نومبر 2012 (UTC)
’خاموش فلموں کے دور میں ہندوستانی سینما پر پارسیوں اور بنگالیوں کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن جب بولنے والی فلمیں آئیں تو اداکار کی شخصیت کو مرکزی اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔ چوں کہ ہندوستانی معیار کے مطابق پشاور کے لوگ لمبے تڑنگے اور سرخ و سفید تھے، اور ہندی زبان زیادہ روانی سے بول سکتے تھے۔--[[صارف:محمد افضل|محمد افضل]] ([[تبادلۂ خیال صارف:محمد افضل|تبادلۂ خیال]]) 18:33, 29 نومبر 2012 (UTC)

******** پشاورکے رقص و سرور کا ایک تمدنی عکس ******

**احمد سھیل**
=======
پچھلی صدی کے شروع میں پشاور میں "مجرا" شہری تہزیب و تمدن کی علامت کا جز تھا۔ اس زمانے میں مجرا کرنے والی رقصاؤں کے پوسٹ کارڈ بازار میں سر عام فروخت ھوتے تھے ۔ ان ناچنے والیوں کی ٹولی میں طبلہ نواز، سارنگی نواز، دف نواز اور ہارمونیم بجانے والے بھی شامل ھوا کرتے تھے۔ یہ عموما امراؤ کے گھروں میں رقص و موسیقی کی محافل برپا کرتے تھے۔کبھی کبھار "خواجہ سرا" بھی "باجا شامل" ھوتے تھے۔ زیادہ تر رقصاؤں کا تعلق کشمیر سے ھوتا تھا جو زیادہ تر پشاور شہر اور اس کے مضافات مین ناچ گانے کا کاروبار کرتے تھے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ھو گی کہ اس زمانے میں کئی رقصائیں، موسیقار اور گوئیے آزربئجان اور ازبکستان سے پشاور آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے ۔

== شماریات ==
== شماریات ==

نسخہ بمطابق 06:12، 31 جنوری 2013ء

پشاور
پرچم خیبر پختونخوا نشان پشاور
فائل:Islamiacollegepesh.jpeg
صوبہ خیبر پختونخوا
رقبہ 1257 مربع کلومیٹر
ضابطۂ کال 091
معیاری وقت پاکستان کا معیاری وقت (عالمی وقت +5)
ناظم حاجی غلام‌علی
پشاور ضلعی حکومت کا موقع جال


صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع پشاور کا محل وقوع

پشاور (پشتو: پیښور) پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخواہ کا صدر مقام ہے. کل آبادی2.242 ملین ہے۔ درہ خیبر یہاں سے صرف 11 میل کے فاصلے پر ہے۔ دستکاریوں ، اسلحہ سازی ، سگریٹ ، گتا ، فرنیچر اور ادویات سازی کے علاوہ سوتی، ریشمی، اونی کپڑے کے لیے بھی مشہور ہے۔

یہ قدیم زمانے میں گندھاراسلطنت کا دارلحکومت تھا اور اس کا قدیم نام پرش پور تھا۔ شہنشاہ اکبر اعظم نے اس کو پشاور کا نام دیا۔ برصغیر ہند میں ماسوا انگریزوں کے جتنے حملہ آور آئے ، اسی راستے سے آئے۔ ان میں ایرانی ، افغانی، یونانی ، مغل قابل ذکر ہیں ۔ انیسویں صدی میں اس پر سکھوں نے قبضہ کر لیا۔ 1848ء میں انگریز قابض ہوگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کا دارلحکومت بنا دیا گیا۔ 1955ء میں مغربی پاکستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس کو کمشنری کا صدر مقام بنا دیا گیا۔ یہاں کے عجائب گھر میں بدھ اور دوسرے راجاؤں کشن اور کنشک کے آثار ملتے ہیں۔ دوسری صدی کا بنا ہوا ایک سٹوپا بھی ہے۔ یہاں سے ایک ریلوے لائن لنڈی کوتل تک گئی ہے جو فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ یہاں ایک یونیورسٹی اور متعدد کالج ہیں۔ مشہور کالجز میں اسلامیہ کالج پشاور اور ایڈورڈ کالج پشاور شامل ہیں۔

بالی وڈاور پشاور

کون ہے جس نے دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کا نام نہیں سنا۔ لیکن بہت سے لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ بالی وڈ کے ان سپر سٹاروں کی جڑیں اسی شہر میں تلاش کی جا سکتی ہیں آج جس کی پہچان عسکریت پسندی اور قدامت پرستی بن کر رہ گئی ہیں۔
پشاور میں ایک جگہ ڈھکی کہلاتی ہے۔ تنگ و پرپیچ گلیوں پر مشتمل یہ علاقہ پشاور کے قدیم ترین اور مشہور ترین بازار قصہ خوانی کے پہلو میں واقع ایک پہاڑی پر قائم ہے (پشاور کی زبان ہندکو میں ڈھکی کا مطلب ہی پہاڑی ہے)۔
اس علاقے میں چار سو میٹر کے دائرے کے اندر اندر بالی وڈ کے تین عظیم ترین ستاروں کے گھر پائے جاتے ہیں: دلیپ کمار، راج کپور اور شاہ رخ خان۔

ڈھکی کے اندر پہنچنے کے لیے میں قصہ خوانی بازار کے بائیں طرف ایک تاریک گلی میں داخل ہو گیا جس نے مجھے دوسری طرف ایک چھوٹے سے کھلے میدان میں پہنچا دیا۔

دائیں طرف کی بھول بھلیاں گلیوں نے مجھے پہاڑی کے اوپر راج کپور کے گھر تک پہنچا دیا جو 1950 کے عشرے میں بالی وڈ کے میگا سٹار تھے۔

راج کپور کے والد پرتھوی راج (جنھوں نے ’مغلِ اعظم‘ میں اکبر کا کردار ادا کیا تھا) اپنے آپ کو پہلا ہندو پٹھان کہتے تھے۔ وہ بالی وڈ میں اداکاروں کے پہلے خاندان کے بانی تھے جو اب چار نسلوں پر محیط ہے
ان کی تین منزلہ حویلی کے سامنے کا حصہ محرابی کھڑکیوں اور باہر کو نکلی ہوئی بالکونیوں پر مشتمل ہے، لیکن اب یہ عمارت یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

یہاں اب کوئی نہیں رہتا لیکن کپور خاندان کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔
ڈھکی کے ایک نوے سالہ باسی محمد یعقوب ہیں جو راج کپور کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔

’وہ 1920 کے عشرے میں میرا دوست تھا۔ وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا۔ ہم گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ ہم ایک ہی سکول جایا کرتے تھے۔‘

راج کپور کا خاندان 1930 کے عشرے میں ممبئی منتقل ہو گیا، البتہ وہ کبھی کبھی پشاور آتے جاتے رہے۔ محمد یعقوب کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بھی 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ٹھپ ہو گیا۔

کپور خاندان کی حویلی سے تین منٹ کے راستے پر ایک تنگ گلی سے گزر کر بالی وڈ کے ایک اور بڑے کا شکست و ریـخت کا شکار گھر ہے۔

دلیپ کمار کو ہندوستانی سینما کا شہنشاہِ جذبات کہا جاتا ہے۔ ان کے اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے، اور اس میں آٹھ فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہیں جو بھارت کے آسکر ایوارڈ سمجھے جا سکتے ہیں۔

ان کا آبائی گھر لرزتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کہ اب گرا کہ تب گرا۔ کھڑکیوں اور دروازوں پرلکڑی کا عمدہ کام ہوا ہے لیکن سب کچھ چٹخ گیا ہے اور جگہ جگہ مکڑی کے جالے پھیلے ہوئے ہیں۔

گھر کے اندر پشاوری طرز کا لکڑی کا نفیس کام پایا جاتا ہے لیکن یہ بھی بوسیدہ ہو چلا ہے۔ چھت سے پلاسٹر اکھڑ گیا ہے۔

یہ مکان اب کپڑوں کے گودام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اس عمارت میں میری ملاقات مالیار سے ہوئی جنھوں نے مجھے اس مکان کے بارے میں بتایا: ’یہ ان کے فخر کی بات ہے جنھوں نے اس چھوٹی سے جگہ سے اٹھ کر ساری دنیا میں نام کمایا، لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لیے یہ ایک تاریخی مکان ہے، جو اب گودام ہے، اور میں یہاں کام کرتا ہوں۔‘

دلیپ کمار اور راج کپور تو ماضی کے درخشاں ستارے تھے، بالی وڈ کے چند حالیہ چوٹی کے اداکاروں کا شجرہ تقسیم کے 66 برس بعد بھی پشاور سے جا ملتا ہے۔

تین منٹ اور آگے چلیں تو بالی وڈ کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے سپر سٹار کا آبائی گھر آتا ہے۔

شاہ رخ خان کے والد تاج محمد خان اس مکان میں پیدا ہوئِے اور پلے بڑھے۔ خود شاہ رخ نے اپنے لڑکپن میں یہاں کئی دن گزارے ہیں جب وہ دہلی سے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے یہاں آئے تھے۔
ان کی کزن نورجہان اس مکان میں رہتی ہیں۔ وہ دو بار ممبئی جا کر شاہ رخ سے مل چکی ہیں۔
انھوں نے 1978 اور 1979 میں شاہ رخ کے یہاں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اسی کمرے میں سوئے تھے جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔

’وہ یہاں پہ بہت خوش تھے کیوں کہ وہ پہلی بار اپنے ددھیال سے ملے تھے۔ بھارت میں ان کا صرف ننھیال ہے۔‘

نورجہاں کے 12 سالہ بیٹے کا نام بھی شاہ رخ ہے، اور وہ اپنے آپ کو شاہ رخ خان ثانی کہتا ہے۔

’انکل نے وعدہ کیا ہے کہ اگر میں کرکٹ کا اچھا کھلاڑی بن گیا تو وہ مجھے اپنی ٹیم میں شامل کریں گے۔‘

شاہ رخ خان انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے والی کولکتہ نائٹ رائیڈرز ٹیم کے ملک ہیں۔

یہی نہیں بلکہ پشاور بالی وڈ کے کئی اور مشہور و معروف ستاروں کا گھر بھی ہے۔ ان میں مدھوبالا بھی شامل ہیں جنھیں بالی وڈ کی تاریخ کی حسین ترین ہیرؤین کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 1975 کی ریکارڈ توڑ فلم شعلے کے مشہور ویلن امجد خان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔

1970 کی دہائی میں بالی وڈ کے سب سے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک دنود کھنہ ہیں۔ وہ بھی پشاور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ انیل کپور کے والد سریندر کپور بھی یہیں کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے دور کے معروف فلم پروڈیوسر تھے۔

شکست و ریخت

آخر پشاور اتنے مشہور اداکاروں سے مالامال کیوں ہے؟

پشاور میں اتنے مشاہیر کے مکانات کو محفوظ رکھنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔

دلیپ کمار کے ایک رشتے دار فواد اسحٰق کہتے ہیں، ’دلیپ کمار کے گھر کو محفوظ بنانا چاہیے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ ہم پشاوری کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘

لیکن خیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے ان کے گھر کو سرکاری تحویل میں لینے کی ایک حالیہ کوشش مکان کی ملکیت کے تنازعے کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔

اسی طرح راج کپور کے گھر کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں لیا جا سکا۔ بحالی کے کاموں کی ماہر اور صوبائی حکومت کی مشیر فریال علی گوہر نے اس کی وجوہات ’فنڈز کی کمی، اور اس مکان تک رسائی اور سیکیورٹی کے مسائل‘ بتائیں۔
پشاور ہی کیوں؟


سوال یہ ہے کہ آخر پشاور ہی کیوں؟ اس شہر میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ یہاں اتنے بڑے ستاروں کا جنم ہوا؟

مقامی تاریخ دان ابراہیم ضیا اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں:

’خاموش فلموں کے دور میں ہندوستانی سینما پر پارسیوں اور بنگالیوں کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن جب بولنے والی فلمیں آئیں تو اداکار کی شخصیت کو مرکزی اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔ چوں کہ ہندوستانی معیار کے مطابق پشاور کے لوگ لمبے تڑنگے اور سرخ و سفید تھے، اور ہندی زبان زیادہ روانی سے بول سکتے تھے۔--محمد افضل (تبادلۂ خیال) 18:33, 29 نومبر 2012 (UTC)

شماریات

ضلع کا کُل رقبہ 1257 مربع کلوميٹر ہے۔

یہاں في مربع کلو میٹر 2040 افراد آباد ہيں

سال 2004-05 ميں ضلع کي آبادي 2564000 تھی

دیہي آبادي کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے ۔

کُل قابِل کاشت رقبہ78930 ہ ھيکٹيرزھے