"کووینٹرے پیٹ مور" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.3) (روبالہ جمع: de, es, fa, fr, id, it, no, pl, pt, sv
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[File:Coventry Patmore.jpg|thumb|کونٹرے پیٹ مور ]
[[تصویر:Coventry Patmore.jpg|تصغیر|کووینٹرے پیٹ مور]]

۱۸۹۶ تا ۱۸۲۸
۱۸۹۶ تا ۱۸۲۸



نسخہ بمطابق 11:26، 23 فروری 2013ء

کووینٹرے پیٹ مور

۱۸۹۶ تا ۱۸۲۸

کوونٹرے پیٹ مور ( COVENTRY PATMORE )ایک سادہ طبعیت انسان تھا جس کی عمر برٹش میوزیم لائبریری لندن میں ایک ذمے دار عہدے پر ملازمت کرتے گزری ۔ اس کا شمار اپنے عہد کے اچھے لکھنے والوں میں ہوتا تھا ۔ وہ نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک اچھا ادیب بھی تھا جس کے مضامین اس زمانے کے معیاری رسائل میں اکثر و بیشتر شائع ہوا کرتے اور ادبی حلقوں میں وقعت کی نگاہ سے دیکھتے جاتے تھے ۔ مقالے اور مضامین کے علاوہ اس نے بہت سی ناولیں لکھیں اور کئی شعری مجموعے یادگار چھوڑے ۔ اس کی تمام تخلیقات میں اخلاقی اور مذہبی عنصر خاص طور پر نمایاں ہے ۔

نظم

ذیل میں پیٹ مور کی مشہور نظم 'Toys' کا ترجمہ دیا جا رہا ہے ۔ جسے اصل نظم کے مشابہ پیش کیا گیا ہے ۔

کھلونے

سات سالہ مرا فرزند، مرا لختِ جگر

طفل وہ بے مادر ،

لیکن اُس نے میری تنبیہ کے باوصف پھر آج

ساتویں مرتبہ عمداً مرا توڑا قانون

کھولنے ہی تو لگا میرا خون

تھا مرے پاس نہ کچھ اس کے سوا کوئی علاج

سخت لہجے میں بری طرح سے اس کو ڈانٹا

اور اک منہ پہ لگایا چانٹا

اور اُس رات خلافِ معمول

دمِ رخصت نہ دعا دی نہ اسے پیار کیا ۔

بھرے آنکھوں میں تھا موتی وہ مرا دُر یتیم

سامنے میرے کھڑا

لیے ڈوبے ہوئے شبنم میں وہ نرگس کے دو پھول

صاحب ِ وضع، میں پابندِ اصول

کر سکا اپنے رویے میں نہ کوئی ترمیم

خواب گاہ کی طرف اپنی میں مڑا ، وہ اپنی

کچھ زیادہ ہی تھی اس رات فضا میں سردی


کروٹیں بدلا کیا ، نیند نہ آئی مجھ کو

آخرش جی میں یہ آئی کہ ذرا دیکھوں تو

کہ ہے کس حال میں میرا دل بند

جھانک کر میں نے جو دیکھا اندر ،

سو رہا تھا وہ مرا نورِ نظر

ایک خوابیدہ کلی کی مانند

پاس اک میز پہ کچھ اس کے کھلونے تھے سجے

سیپیاں،

گھونگھے،

گھروندے تھے کئی ان کے بنے

شیشیاں

چند پرانے سکے

کئی سنگ، خارا

ایک ٹوٹا سا قلم

بڑی نُدرت ، بڑی فنکاری سےان سب کو سجایا گیا

بھول جانے کو ہر اک اپنا غم

دیکھ کر اس کو ، مجھے اس پہ بہت آیا پیار

میرا معصوم ، وہ میرا فنکار

مضطرب ہو کے جو کی میں نے دعائے شب ادا

دل پگھل کر مرا آنکھوں سے مری بہنے لگا

گڑگڑا کر یہ کہا میں نے کہ اے رب رحیم

میں بھی اک طفلکِ ناداں ہوں ، اے خلاق عظیم

کھیلتا میں بھی کھلونوں سے ہوں اکثر یا رب

طبعِ طفلانہ سے مجبور ہوں یکسر یا رب

روزِ محشر کوئی طفلانہ ادا بھا جائے

بے بسی پر مری شاید تجھے رحم آجائے

(جام بجام ترجمہ : سید شاکر علی جعفری)

External links

روزنامہ دنیا ـ کراچی ایڈیشن 23-فروری 2013 صفحہ 15