"فدک" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.3) (روبالہ محو: fa:فدک
م r2.7.2) (روبالہ جمع: fa:فدک
سطر 30: سطر 30:


[[ar:فدك]]
[[ar:فدك]]
[[fa:فدک]]
[[en:Fadak]]
[[en:Fadak]]
[[az:Fədək]]
[[az:Fədək]]

نسخہ بمطابق 22:39، 28 فروری 2013ء

فدک (عربی میں فدك ) ایک زمین کا ٹکرا ہے جو سعودی عرب کے شمال میں خیبر کے مقام پر مدینہ سے تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جنگِ خیبر کے موقع پر مئی 629ء یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت میں آیا۔[1] ان کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ علیہا السلام اور حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے درمیان اس کی ملکیت پر اختلاف پیدا ہوا۔[2] یہی اختلاف شیعہ اور سنی حضرات میں موجود ہے۔ حضرت عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور میں اسے مروان بن الحکم کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دور میں فدک کی آمدنی چالیس ھزار دینار تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی آل کو دے دیا مگر بعد کے خلفاء نے واپس لے لیا۔ فدک جنگ خیبر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی۔[3] ۔ شرعی لحاظ سے اسے مال فئی میں شامل کیا جاتا ہے یعنی ایسی جائیداد جس کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور جنگ نہیں کی۔[4]۔[5] اہل سنت کی اکثریت اور اہل تشیع مکمل طور پر اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جائیداد سمجھتے ہیں[6]۔[7]۔[8]۔[9]۔[10]۔[11]۔[12]۔[13]۔[14] تاہم ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے۔[15]
صحیح مسلم میں حضرت ابوسعدی الخدری اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔[16] دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک حضرت فاطمہ الزھراء کو ہبہ کر دیا۔[17]۔[18] شاہ عبدالعزیز نے فتاویٰ عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزھراء کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔[19] تاہم شاہ ولی اللہ اور ابن تیمیہ نے اس بات سے انکار کیا ہے۔[20]۔[21]
صحیح البخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ الزھراء اور حضرت ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں حضرت ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔[22]۔[23]۔[24]

اہل سنت کی کچھ روایات کے مطابق حضرت ابوبکر نے بعد میں حضرت فاطمہ سے صلح کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان سے ناراض نہ رہیں۔[25]

اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث حضرت ابوبکر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیاء کی وراثت کا ذکر ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع میں ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے مطابق وفات تک حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض نہ تھیں اور صلح ہو چکی تھی[26] جبکہ اہل تشیع کے مطابق وہ وفات تک ناراض تھیں اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔[27]


بیرونی روابط

حوالے

  1. تاریخ طبری جلد ۳
  2. صحیح بخاری 5:54:325
  3. سیرت رسول اللہ از ابن اسحاق
  4. تفسیر کبیر از فخر الدین رازی
  5. تفسیر مراغی از مصطفیٰ المراغی در تفسیر سورہ حشر
  6. تفسیر کبیر از فخر الدین رازی تفسیر سورہ حشر آیت 7
  7. فتوح البلدان از احمد ابن یحییٰ البلاذری
  8. معجم البلدان از یاقوت الحماوی الرومی صفحہ 139 جلد 14
  9. تاریخ طبری صفحہ 1583 جلد 3
  10. تاریخ الکامل از ابن اثیر جلد 2 صفحہ 108
  11. تاریخ خمیس از حسین دیار بکری
  12. وفاءالوفاء از علی ابن احمد السمھودی
  13. سیرت رسول اللہ معروف بہ سیرت ابن ھشام از ابو محمد عبدالمالک ابن ھشام
  14. تاریخ ابوالفداء از ابوالفداء ملک حماہ
  15. منہاج السنہ از ابن تیمیہ
  16. در المنثور از جلال الدین سیوطی جلد 4 صفحہ 177
  17. معراج النبوۃ از عبدالحق دہلوی متوفی 1642ء صفحہ 228 جلد 4 باب 10
  18. حبیب السیار از غیاث الدین محمد خواندامیر
  19. فتاویٰ عزیزیہ از شاہ عبدالعزیز
  20. قرۃ العین از شاہ ولی اللہ
  21. منہاج السنہ از ابن تیمیہ
  22. صحیح بخاری 59۔546
  23. صحیح بخاری اردو ترجمہ از مولانا داؤود مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند جلد 5 حدیث 4240۔4241
  24. صحیح البخاری جلد 4 53۔325
  25. سنن کبریٰ از بیہقی جلد 6 صفحہ 300
  26. سنن کبریٰ از بیہقی جلد 6 صفحہ 300
  27. صحیح البخاری جلد 4 53۔326