"نباتات" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.3) (روبالہ جمع: bar:Pflanzna
م r2.7.2) (روبالہ: تبدیل pnb:پودا بجانب pnb:بوٹے
سطر 197: سطر 197:
[[uz:Oʻsimliklar]]
[[uz:Oʻsimliklar]]
[[pa:ਪੌਦਾ]]
[[pa:ਪੌਦਾ]]
[[pnb:پودا]]
[[pnb:بوٹے]]
[[ps:بوټی]]
[[ps:بوټی]]
[[koi:Быдмас]]
[[koi:Быдмас]]

نسخہ بمطابق 03:02، 6 مارچ 2013ء

اگر یہ آپ کا مطلوبہ صفحہ نہیں تو دیکھیے، نبات (ضدابہام)۔
پودے ، جانداروں کی دو بنیادی اقسام میں سے ایک، دوسری قسم حیوان۔

ایک بنیادی اور لغوی تعریف تو نباتات کی یوں ہے کہ، نباتات یا پودے ایسے جانداروں کو کہا جاتا ہے کہ جو تنقل (حیوانات کی طرح اپنے مقام سے انتقال) نہیں کرتے۔

ماہر فطرت ڈیوڈ ایٹن برا اپنی کتاب "پودوں کی نجی زندگی(The Private Life of Plants)" کے آغاز میں لکھتے ہیں:

پودے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ گن سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں وہ ہلکا سا چھونے پر رد عمل ظاہر کرنے کی سلاحیت رکھتے ہیں اور حیران کن درستگی کی حد تک وقت کا حساب رکھتے ہیں۔

Album

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

جڑی بوٹیاں قدرت کا بہت بڑا انعام اور بیش بہا دولت ہیں ۔انہیں انمول جواہرات بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ طب دور قدیم ہی سے علاج الامراض کے لئے جڑی بوٹیوں کے خواص و فوائد کی متلاشی رہی ہے ۔ ان پر تحقیقات کا کام روزاول سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہیگا ۔ انسانی ارتقاء کی تاریخ کی طرح جڑی بوٹیوں پر تحقیقات کی ارتقائی صورتوں کی تاریخ بھی بہت طویل اور تابناک ہے ۔ طب اسلامی یقینا نباتات پہ تحقیقات کا دلاویز مجموعہ اور عجوبہ ہے ۔ ’’یاد رکھئے اللہ تعالیٰ نے کوئی شے عبت پیدا نہیں فرمائی ۔ ہر بوٹی میں اپنی انفرادیت کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی خوبی پوشیدہ ہے ۔ کسی نہ کسی مرض کا شافی علاج ہے ۔ ادویاتی خواص و افادیت سے بھرپور ہے ۔ میرے نزدیک اس کی اتنی بڑی دلیل ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے رد کیا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :

یَخْرُجُ مِن مْ بُطُوْنِھَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِیْ ذٰالِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ’’اس کے پیٹ سے نکلتی ہے پینے کی رنگ برنگی چیز جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے ۔بیشک اس میں نشانی ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے ‘‘ (النحل : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

من لعق العسل ثلاث غدوات فی کل شھر لم یصبہ عظیم من البلاء ’’جو شخص ہر مہنیہ میں کم از کم تین دن صبح صبح شہد چاٹ لے اس کو اس مہینہ میں کوئی بڑی بیماری نہ ہوگی ‘‘ (ابن ماجہ / بہیقی )

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺنے فرمایا :

علیکم بالشفائین العسل والقراٰن ’’تمہارے لئے شفا کے دو مظہر ہیں ۔شہد اور قرآن ‘‘ (ابن ماجہ /مستدرک الحاکم )

اب ہم اگر شہد کے منبع اور ماخذ پر غور کریں تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے جس سے نباتات کے ذریعے علاج میں یقینی صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔ شہد کیا ہے ؟جڑی بوٹیوں کے پھولوں کا جوہر ہے ۔ رس ہے ۔ جو کہ شہد کی مکھیاں اپنے چھتوں میں جمع کرتی رہتی ہیں گویا شہد نباتات کا لطیف ترین مرکب ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے شفا کی ضمانت قرار دیا ہے ۔ اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نباتات میں شفا ہے ۔ معلوم ہوا نباتات میں آب حیات ہے ۔ قرآن کریم زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل طور پر رہنمائی عطا کرتا ہے ۔ غور و فکر کرنے والوں کو موجودات کی ہرشے اور ہر پہلو کے بارے میں اعتماد آفرین اور یقین افروز اصول فطرت تک رسائی عطا کرتا ہے ۔ طب نبوی پر بھی تحقیقاتی فکر سلیم کے ساتھ غور کیا جائے تو اس عظیم ترین طبیب انسانیت نے انسانی صحت کے لئے جو تحفے عطا فرمائے ہیں وہ بھی سب کے سب نباتاتی ہیں طب نبوی کے مطابق بھی نباتات ہی صحت و شفا یعنی تن درستی کا خزانہ ہیں ۔ نباتات میں بھی اغذیہ کا پلہ بھاری ہے اور علاج بالغذا علاج الامراض کا شاہکار ہے۔ اس بات کو اس دور کے ایک مرد درویش حضرت ابو انیس حضرت محمد برکت علی قدس سرہٗ العزیز نے یوں بیان فرمایا ہے : ’’نباتات میں حیوانات کے لئے آب حیات ہے ۔‘‘ (مقالاتِ حکمت شما ر، ۲۰۳۷) ’’جنگل میں کوئی بوٹی ایسی نہیں جو کسی نہ کسی مرض کی دوا نہ ہو ۔‘‘ (مقالاتِ حکمت شما ر،۳۰۷۲) ’’ہر ملک میں ہر قسم کی نباتات ،جسے کہ ہم جڑی بوٹیاں کہتے کہتے ہیں ،پائی جاتی ہیں اور وہ صرف بھیڑ ،بکری،اونٹ اور دیگر چرندوں ہی کے کھانے کی خوراک نہیں ،بلکہ اس ملک میں بسنے والے انسانوں کے جسم الوجود میں پیدا ہونے والی امراض کا علاج ہوتی ہیں ۔‘‘ (مقالاتِ حکمت شما ر، ۲۰۳۵) ’’اگر کوئی جنگلوں میں پائی جانے والی بے شمار بوٹیوں تک نہ پہنچ سکے تو تو میدانوں کی چیزوں تک ضرور پہنچے ،پیپل ،نیم ،کیکر، آک اور دھتورے تک ضرور پہنچے ۔‘‘ (مقالاتِ حکمت شما ر، ۳۰۳۹) طب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو روسائے فن میں سے ایک ایک صاحب نے تن تنہا اتنا کام کیا کہ اسے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے ۔ نہ ان کے پاس اس دور کی طرح کے وسائل تھے ۔آج ہمارے پاس ادویات کے خواص و فوائد سے لبریز کتب موجود ہیں ۔ ادویہ جمع کرنے کے لئے وسائل موجود ہیں ۔ ٹیلیفون پہ باہمی رابطہ نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب ترین کر دیا ہے ۔ باہم مشارت گھر بیٹھے بٹھائے کر سکتے ہیں اپنے اپنے علاقے کی نباتات جمع کر کے تحقیقات کے لئے ایک دوسرے تک بھیج سکتے ہیںلیکن ان وسائل اور آسانیوں کے باوجود تحقیقات سے کنارہ کشی کر لی گئی ہے ۔ ہر طبیب کے چند معمولات ہیں ان کے ذریعے روٹی کمانے پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے ۔ آج کے اس سائنسی دور میں بھی جڑی بوٹیوں کی افادیت کے بارے کھوج لگانے کی کوشش نہیں ہو رہی ۔ کتنی نباتات ہیں جن کے خواص و فوائد سے آج کے سائنسدان بھی نا واقف اور محروم ہیں ۔ ان جڑی بوٹیوں کے فوائد و خواص کے بارے کوئی خاص تحقیقات نہیں ہو رہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ طب کے ایک نامور سائنسدان سے ملاقات ہوئی ۔ بندہ نے ان سے پوچھا، ماشاء اللہ !اللہ تعالیٰ نے آپ کو کافی وسائل دے رکھے ہیںملکی نباتات و مفردات پر بھی کوئی تحقیقی کام کر رہے ہیں ؟ان کا جواب تھا جو کام ایک ہزار سال پہلے ہو چکا ہے، اب ان پہ کام کی کیا ضرورت رہی ہے ؟ اس دور جدید کے اطباء کی اکثریت نے علم العقاقیر کو افسانہ طرازی سمجھ رکھا ہے ۔ ان عطاروں کی نظروں میں جڑی بوٹیوں کی حیثیت ایک کوڑا کرکٹ کی سی ہے ۔ یہ نام نہاد ایلوپیتھی ادویہ کے سہارے چل رہے ہیں یہ علم العقاقیراور یونانی طریقہ علاج کی ناؤ کو غرق کردینے کے لئے سرگرداں ہیں جڑی بوٹیوں پر تحقیقات کرنے والے خال خال ہیں اور کہیں کہیں نظر آتے ہیں جو کام ہو رہا ہے اسے نہ ہونے کے برابر ہی کہنا درست ہو گا ۔ دیسی دواخانہ کے روپ میں ایلوپیتھی کی مضر ادویہ استعمال کراتے وقت کسی اصول کومد نظر نہیں رکھتے ۔ ان کارباری اور مال بنانے والے اطباء کو انسانی صحت عزیز نہیں صرف مال چاہئے اگر اسی طرح مزید نصف صدی تک یہ عمل جاری رہا تو نباتاتی ادویہ متروک ہو کر صرف مصنوعی طریقہ سے تیار کردہ ادویہ ہی رہ جائیں گی ۔ صحت کا سلسلہ دن بہ دن خطر ناک صورت اختیار کرتا جائے گااور علاج کی دنیا صرف عطائیت تک محدود ہو کر رہ جائے گی ۔ فطرت کی عطا کردہ ان بے پایاں نعمتوں کی بے قدری کی جا رہی ہے ۔ ہمارے اپنے اپنے علاقوں میں جو جڑی بوٹیاں بکثرت نشو نما پاتی ہیں ان کا ستعمال نہیں ہو رہا ۔اپنے اپنے موسم میں جنم لیتی ہیں ،پروان چڑھتی ہیں ،بہار پہ آتی ہیںبالآخر پھر اسی زمین کی خوراک بن جاتی ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی ان انمول نعمتوں کو خاک میں رول رہے ہیں اس طرح ایک طرف تو ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا اور دوسری طرف خطر ناک زہریں جیسے ویڈے سائیڈز ایجاد ہو رہے ہیں جن سے جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جارہا ہے اس سے یہ جڑی بوٹیاں نا پید بھی ہونے لگی ہیں ور ان زہریلی ادویات سے زمین میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا اور پودوں کے دیگر مفید اجزاء بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔ بہت جلد دنیا میں یہ واویلا شروع ہونے والا ہے کہ کچھ کرو ۔نباتات کو تباہ ہونے سے بچالو ۔ نباتات کے تحفظ پر عالمگیر تحریکات جنم لینے والی ہیں ۔مسقتبل قریب میں نباتات کے ذریعے علاج تمام طریقہ ہائے علاج کی روح رواں بننے والا ہے ۔ ادویہ کی دنیا میں نباتات کا عالمگیر راج شروع ہونے کو ہے ۔ ہر دور کے اطباء کا اس بات پر اجماع ہے کہ غیر ملکی ادویہ کے ساتھ علاج کرنے سے وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو کہ مقامی ادویہ یعنی جڑی بوٹیوں کے استعمال سے ہوتے ہیں روسائے فن کا قول ہے عالجوا لامراض بعقاقیر ارضھم’’کہ مریض کا علاج اس سرزمین کی جڑی بوٹیوں سے کرو ‘‘۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ مقامی ادویہ کا استعمال مناسب اورقرین فطرت ہے ۔بلا شک و شبہ یہ کراماتی نتائج کی حامل ہیں یہ نباتات فطرت کے گرانقدر عجائب اور صحت و شفا کے انمول خزانے ہیں ۔ بلکہ بندہ تو کہا کرتا ہے ہر بوٹی دوا کی ایک قدرتی فیکٹری ہے شفا کا فطری دواخانہ ہے ۔ کیونکہ انسانی صحت بہت اہم ہے اس لئے قدرت نے شفا کی یہ فیکٹریاں زمین پر جابجا ہر طرف لگا دی ہیں اور یہ خود رو ہیں کوئی اگائے نہ اگائے قدرت کی طرف سے لگائی گئی ڈیوٹی کو پوری ہمت سے نبھا رہی ہیں ۔ اگر ہم ان کو کارخانہ قدرت کا ایک عجوبہ سمجھ کر اس کے عجائبات کی تلاش میں جستجو کے گھوڑے دوڑاتے ہیں تو قدرت ضرور ہماری قدردانی کرے گی اور ہمیں ان کے کرشماتی فوائد سے آشنائی بخشے گی ۔ علم و آگاہی اور تحقیق و مشاہدات کے اس ارتقائی دور میں قوانین فطرت کی روشنی میں نباتات کے خواص و فوائد پر کام کرنا وقت کی اہم پکار ہے ۔ نباتات پہ تحقیقات کے لئے صدیوں کا تجربہ ان کی پشت پر موجود ہے ۔ جن کی روشنی میں تحقیقات کی انتہائی ضرورت ہے اکابرین فن کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے نقل در نقل کے رجحان ترک کر کے عملی مشاہدات کے ذریعے ان کے عجائب تک پہنچنا اطباء کے فرائض میں داخل ہے ۔ اگر ہم سب باہم مل کر محنت کریں تو علم العقاقیر میں نہایت مفید اور گرانقدر اضافہ کر سکتے ہیں۔ روسائے فن اور اکابرین طب کی دی گئی روشن کرنوں کے ذریعے صحت کے تاریک گوشوں کو روشنی بخشی جا سکتی ہے آج بھی ہم قانون فطرت کو پہچان کر دنیا بھر کی آنکھیں خیرہ کر سکتے ہیں ۔مجدد طب حکیم انقلاب نے قانون فطرت میں غوطہ زن ہو کر ایسے اسرار رموز دئیے ہیں جن کی روشنی میں خواص المفردات میں ایک نئی روح پھونکی جا سکتی ہے ۔مجدد طب نے نباتات کے خواص و افعال پر تحقیقات کرنے کے لئے جو قوانین فطرت تلاش کئے ہیں ان کی روشنی میں کام کو آگے بڑھانا کوئی مشکل نہیں ۔قانون مفرد اعضاء کے تحت جڑی بوٹیوں کے خواص و افعال پر تحقیقات کر کے ہم دنیا ئے طب کے امام بن سکتے ہیں آخر میں پھر دھراؤں گا کہ یہ نباتات اپنے اپنے اثرات میں مغربی پیٹنٹ ا دویہ پر بھاری ہیں ۔ جڑی بوٹیوں پر کام کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کو مدِ نظر رکھیں۔

اپنے اپنے علاقوں کی جڑی بوٹیوں کی شناخت کریں ۔ ان جڑی بوٹیوں کے خواص و فوائد بطور مفرد اور مرکب حالت میں جو طبی کتب میں موجود ہیں ان کو بحوالہ کتب یکجا کریں۔ ان جڑی بوٹیوں کے خوص و فوائداور افعال سے آگاہی کے لئے یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ کثرت سے ہونے والی نباتات کے بارے میں اس علاقہ کے لوگوں سے بھی استسفار کیا جائے کہ وہ اسے کس مرض کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اگر ایسا ہو تو پھر اسے بھی آزمایا جائے ۔ جیسا کہ ہمارے علاقے میں ایک دھودھک نامی بوٹی ہے جسے ہزار دانی کلاں بھی کہتے ہیں ۔آنتوں سے پاخانہ کے ساتھ آنے والا خون جو کسی دوائی سے نہ رکتا ہو اس بوٹی کو رگڑ کر پینے سے صرف تین دن میں رک جاتا ہے اور یہ چالیس سالہ آزمودہ ہے۔ جن بوٹیوں کے بارے کسی کتاب میں کچھ درج نہیں ان کے ذائقے ،رنگ و موسم کو مدِ نظر رکھ کر مزاج قائم کر کے اس کے فوائد و افعال معلوم کریں ۔کوئی جڑی بوٹی عبت نہیں یہ بھی یاد رکھیں جو بھی جڑی بوٹی کہیں بکثرت پائی جاتی ہے۔وہ اس علاقہ کے لوگوں کے لئے نصیحت گیر متروکہ ہے اس پر تحقیقات کریں ۔ جڑی بوٹیوں کے مفید حصوں کو مناسب وقت پر حاصل کریں ۔ ہر علاقے میں پائے جانے والے درخت بھی ادویاتی خواص رکھتے ہیں ۔ ان پر بھی تحقیقات کی ضرورت ہے یہ کسی فرد واحد کا کام نہیں بلکہ ٹیم ورک ہے اگر ہم سے ہر ایک صاحب فن ایک ماہ کے دوران صرف ایک بوٹی پر بھی کام کرے تو تحقیقات کے ڈھیر لگ سکتے ہیں۔