"براعظم" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 57: سطر 57:
مندرجہ ذیل جدول سات براعظم ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے آبادی کا خلاصہ بلحاظ کمی رقبہ ہے۔
مندرجہ ذیل جدول سات براعظم ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے آبادی کا خلاصہ بلحاظ کمی رقبہ ہے۔


[[File:ContinentStatistics.svg|thumb|500px|رقبہ کا موازنہ (دسیوں ملین مربع کلومیٹرمیں) اور آبادی (بلحاظ بلین افراد)]]
[[File:ContinentStatistics.svg|thumb|right|500px|رقبہ کا موازنہ (دسیوں ملین مربع کلومیٹرمیں) اور آبادی (بلحاظ بلین افراد)]]





نسخہ بمطابق 09:49، 10 اکتوبر 2013ء

سات براعظم

زمین کا ایک بڑا علاقہ جو عام خیال سے سمندر میں گھرا ہو، براعظم کہلاتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق سات براعظم ہیں۔ ایشیا ، یورپ ، افریقہ ، انٹارکٹیکا ، آسٹریلیا ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ۔ مگر یہ خیال کچھ درست نہیں کیونکہ یورپ اور ایشیا روس کے زمینی راستے سے جڑے ہوئے ہیں اور یوریشیا کہلاتے ہیں۔ اسی طرح جنوبی اور شمالی امریکہ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ براعظموں کی اصل تعداد پانچ سمجھی جاتی ہے۔ اولمپک تنظیم کا نشان بھی پانچ براعظموں کے لئے پانچ دائروں پر مشتمل ہے۔

پانچ براعظموں کی نمائندگی کرنے والا اولمپک تنظیم کا نشان

رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے سب سے بڑا براعظم ایشیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت ایشیا میں رہتی ہے۔ ساتوں براعظم مل کر زمین کا صرف ایک تہائی بنتے ہیں اور باقی حصہ سمندروں پر مشتمل ہے۔

براعظموں کی تعداد

براعظموں کی تعداد کے شمار کے متعدد طریقے ہیں۔

نمونے
رنگ مختلف براعظموں کی نمائندگی کر رہے ہیں
4 براعظم[1]
          افریقہ یوریشیا
       امریکین
    انٹارکٹکا
    آسٹریلیا
5 براعظم
[2][3][4]
    افریقہ
       یوریشیا
       امریکین
    انٹارکٹکا
    آسٹریلیا
6 براعظم[5]
    افریقہ
    یورپ
    ایشیاء
       امریکین
    انٹارکٹکا
    آسٹریلیا
6 براعظم
[6][2]
    افریقہ
       یوریشیا
    شمالی امریکہ
    جنوبی امریکہ
    انٹارکٹکا
    آسٹریلیا
7 براعظم
[7][8][6][9][10][11]
    افریقہ
    یورپ
    ایشیاء
    شمالی امریکہ
    جنوبی امریکہ
    انٹارکٹکا
    آسٹریلیا

رقبہ اور آبادی

مندرجہ ذیل جدول سات براعظم ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے آبادی کا خلاصہ بلحاظ کمی رقبہ ہے۔

رقبہ کا موازنہ (دسیوں ملین مربع کلومیٹرمیں) اور آبادی (بلحاظ بلین افراد)


براعظم رقبہ (کلومیٹر²) رقبہ (میل²) کل زمینی رقبہ
کا فیصد
کل آبادی کل آبادی
کا فیصد
کثافت
افراد فی
کلومیٹر²
کثافت
افراد فی
میل²
Most populousسب سے زیادہ آبادی
شہر (صحیح)
ایشیاء 43,820,000 4.717×1014 29.5% 4,164,252,000 60% 95.0 246 Shanghai, China
افریقہ 30,370,000 3.269×1014 20.4% 1,022,234,000 15% 33.7 87 Lagos, Nigeria
شمالی امریکہ 24,490,000 2.636×1014 16.5% 542,056,000 8% 22.1 57 Mexico City, Mexico
جنوبی امریکہ 17,840,000 1.920×1014 12.0% 392,555,000 6% 22.0 57 São Paulo, Brazil
انٹارکٹکا 13,720,000 1.477×1014 9.2% 4,490[12] 0% 0.0003 0.00078 McMurdo Station
یورپ 10,180,000 1.096×1014 6.8% 738,199,000 11% 72.5 188 Moscow, Russia[13]
آسٹریلیا 9,008,500 9.6967×1013 5.9% 29,127,000 0.4% 3.2 8.3 Sydney, Australia

حوالہ جات

  1. R. W. McColl، مدیر (2005, Golson Books Ltd.)۔ "'continents' - Encyclopedia of World Geography, Volume 1"۔ صفحہ: 215۔ ISBN 9780816072293۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جون 2012۔ And since Africa and Asia are connected at the Suez Peninsula, Europe, Africa, and Asia are sometimes combined as Afro-Eurasia or Eurafrasia. 
  2. ^ ا ب "Continent". The Columbia Encyclopedia. 2001. New York: Columbia University Press - Bartleby.
  3. Océano Uno, Diccionario Enciclopédico y Atlas Mundial, "Continente", page 392, 1730. ISBN 84-494-0188-7
  4. Los Cinco Continentes (The Five Continents), Planeta-De Agostini Editions, 1997. ISBN 84-395-6054-0
  5. ^ ا ب "Continent". Encyclopædia Britannica. 2006. Chicago: Encyclopædia Britannica, Inc.
  6. World, National Geographic - Xpeditions Atlas. 2006. Washington, DC: National Geographic Society.
  7. The World - Continents, Atlas of Canada
  8. The New Oxford Dictionary of English. 2001. New York: Oxford University Press.
  9. "Continent". MSN Encarta Online Encyclopedia 2006.. Archived 2009-10-31.
  10. "Continent". McArthur, Tom, ed. 1992. The Oxford Companion to the English Language. New York: Oxford University Press; p. 260.
  11. Non-permanent, varies. See also: Demographics of Antarctica. Antarctica. CIA World Factbook. March 2011 data. Retrieved December 24, 2011.
  12. "Forbes проигнорировал Москву"۔ www.irn.ru