اسلام میں تعدد ازواج

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعدد ازواج (انگریزی: Polygyny) قبل از اسلام تعدد ازواج کا رواج تھا عام طور پر محبت یا بچوں کی کثرت ایک سے زیادہ ازواج کی سبب تھی۔ بعض اوقات یہ تصور بھی کہ خاندان میں عورتیں زیادہ اور مرد کم ہیں اورعورت کو تحفظ کی ضرورت ہے لہذا تعدد ازواج کا سلسلہ چل نکلا۔ اس میں کوئی قید نہیں تھی، امرا اور مال دار لوگ بہت زیادہ شادیاں رچا لیتے تھے۔ جو عورت اچھی محسوس ہوتی اسے اپنے گھر لے آتے۔

تعدد ازواج کی وجوہات[ترمیم]

مرد کا ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا یعنی تعدد ازدواج ایک قدیم رواج ہے جو ہر ملک اور قوم میں جاری رہا۔ اس کا محرک آبادی میں اضافہ کرنے کا جذبہ تھا۔ اب سے کئی ہزار برس پیشتر جب شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ لڑائیوں کی کثرت اور وباؤں کے باعث بہت زیادہ جانیں ضائع ہوتی تھیں۔ آبادی کم تھی اور زمین وافر۔ اس وقت قبیلوں کی زندگی اور موت کا انحصار اپنے قبیلے کی افرادی قوت پر ہوتا تھا۔ اس لیے ایک مرد کئی کئی عورتوں سے شادی کر لیتا تھا۔ بعد میں جب آبادی بڑھ گئی اور خوراک اور ذرائع معاش تنگ ہو گئے تو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا صرف بادشاہوں اور امیروں کا مشغلہ رہ گیا۔ کیونکہ وہ معاش کی فکر سے آزاد تھے۔

تعدد ازواج مذاہب عالم میں[ترمیم]

زرتشتیوں اور عیسائیوں میں تعدد ازدواج بہر صورت ممنوع ہے۔ قدیم ہندو راجاؤں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی تھیں۔ لیکن عام ہندو مرد بیوی کے بانجھ یا دائم المرض ہونے کی صورت میں دوسری شادی کر سکتا تھا۔ قدیم یہودی سماج میں تعدد ازدواج کا رواج تھا لیکن اب ناپید ہے۔ البتہ اسلام نے فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ عورت کو تحفظ حاصل ہو۔ جس سے محبت ہے زناکاری میں نہ پڑ جائے یا اس کی خواہش پوری ہو جائے لیکن اس کو محدود کر دیا…صرف چار میں۔ بشرطیکہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔

ارشادِ رب العزت ہے:

فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث و رباع فان خفتم الا تعد لوا فواحدة او ما ملکت ایمانکم ذلک ادنیٰ ان لا تعولوا۔[1]

ترجمہ: جو دوسری عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو یا تین یا چار سے نکاح کرلو۔ اور اگر تمھیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے کہ تو پھر صرف ایک عورت یا وہ (لونڈی) جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)۔ یہ ناانصافی سے بچنے کی بہترین صورت ہے۔

تعدد ازواج کی مختلف ممالک میں حیثیت[ترمیم]

عرب ممالک میں تعدد ازدواج عام ہے لیکن ترکی اور تیونس میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں۔ پہلے پاکستان میں بھی عائلی قوانین کے تحت، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا خلاف قانون تھا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سورۃ النساء 3