الموفق باللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
الموفق باللہ
(عربی میں: الموفق بالله ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

الموفق باللہ
دور حکومت جون 870 – 2 جون 891
خلیفہ المعتمد علی اللہ
شریک حیات Dirar
معلومات شخصیت
پیدائش 842
سامراء  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 2 جون 891[1]
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اہل سنت
اولاد المعتضد باللہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد المتوکل علی اللہ
والدہ ام اسحاق
بہن/بھائی
دیگر معلومات
پیشہ نائب السلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا نام طلحہ کنیت ابو احمد اور لقب الموفق باللہ اور الناصر الدین اللہ ہے۔ آپ کے والد کا نام المتوکل علی اللہ ہے۔ آپ کی پیدائش چار شنبہ 2 ربیع الاول 229ھ کو ہوئی۔ آپ کا نسب نامہ یہ ہے ابو احمد طلحہ الموفق باللہ ابن المتوکل علی اللہ ابن المعتصم باللہ ابن ہارون الرشید ابن ابو عبد اللہ محمد المہدی باللہ ابن ابو جعفر المنصور بن ابو ابراہیم محمد بن علی ابن ابو محمد علی بن عبد اللہ بن عباس ابن عبد اللہ بن عباس ابن عباس بن عبد المطلب ابن عبد المطلب ابن ہاشم ہے آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔[2]

ولی عہد[ترمیم]

جب امور خلافت آپ کے بھائی المعتمد علی اللہ کے ہاتھ میں آئے تو اس نے آپ سے وعدہ کیا اور ساتھ میں وصیتہ بھی کہا تھا کہ جعفر کے بعد خلافت آپ کو ملے گی اور آپ کا لقب الموفق باللہ رکھ دیا تھا لیکن جب آپ نے زمکی سردار کا مقابلہ کر کے اس کا قلع قمع کر دیا تو آپ کا لقب بدل کر الناصر الدین اللہ رکھ دیا۔[2]

علم و فراست[ترمیم]

الموفق باللہ بڑی گہری عقل اور عمدہ انتظامات کے مالک تھے۔ جس وقت لوگوں کی فریادرسی کے لیے بیٹھتا تھا اس وقت قاضیوں کو بھی اپنے پاس بیٹھتا تھا اور کھڑے کھڑے بلا تاخیر دادرسی کر کے مظلوموں کے حقوق دلواتا علمی لحاظ سے بڑا ہی ادب، نسب، فقہ اور ملکی سیاستوں کا ماہر تھا۔[2]

امور سلطنت[ترمیم]

جب آپ ولی عہد بنے تو چھوٹے بڑے امور سلطنت آپ کے قبضے میں آ گئے اور ملکی اخراج اور آمدنیاں سب آپ کے پاس جمع ہونے لگی اور آپ کے نام کا خطبہ منبروں پر پڑھا جانے لگا اور یوں کہا جانے لگا "اےاللہ امیر الناصر الدین اللہ ابو احمد الموفق باللہ جو مسلمانوں کے معاملات کے نگہبان ہے اور امیر المومنین کا بھائی ہے اس کی اصلاح کر"1

شہر منیعہ پر الموفق کا قبضہ[ترمیم]

267ھ میں الموفق نے اپنے بیٹے ابو العباس احمد کو تقریباً دس ہزار گھوڑ سوار اور پیادہ فوجیوں کے ساتھ انتہائی خوبصورتی اور پوری تیاری کے ساتھ حبشیوں سے قتال کرنے کے لیے بھیجا۔ ابو العباس اس وقت کم عمر، نوجوان اور ناتجربہ کار تھا بالخصوص لڑائی کے طور طریقوں سے ناواقف تھا اس کے باوجود اس نے بہت کامیابی حاصل کی۔ پہلے حبشی سرداروں نے واسط کے شہروں میں اور دجلہ کے علاقوں میں جہاں تک ان کا قبضہ تھا وہاں پر ابو العباس نے قبضہ کر لیا۔

اس کے بعد ماہ صفر میں الموفق بغداد سے ایک لشکر لے کر نکلے اور ماہ ربیع الاول میں واسط میں داخل ہوئے۔ دوسری طرف آپ کے بیٹے المعتضد باللہ نے آپ کا استقبال کیا اور بعد ملاقات کے لشکر کی تمام کارگزاری سنائی اور یہ کہ کس طرح لشکریوں نے جہاد کے سلسلے میں تمام دشواریوں کو ہنسی خوشی برداشت کیا۔ یہ سن کر الموفق نے تمام سرداروں کو ایک ایک کر کے قیمتی خلعت سے نوازا۔

اس کے بعد الموفق تمام لشکر کو لے کر شہر منیعہ کی طرف بڑھے جس کو اس نے خود بسایا تھا۔ وہاں پر حبشیوں نے جم کر مقابلہ کیااور گھمسان کی لڑائی ہوئی لیکن بالآخر الموفق نے ان کو شکست سے دوچار کیا۔ پھر تمام لشکر شہر میں داخل ہوا جس سے حبشیوں کا لشکر وہاں سے بھاگ نکلا۔ آپ کے لشکر نے ان کا پیچھا کیا اور ان کو بطائح کے علاقے میں پانے میں کامیاب ہوئے وہ جہاں ملے ان کو قتل کر دیا گیا اور بہت سے حبشی گرفتار بھی ہوئے۔ الموفق نے پانچ ہزار عورتوں کو رہا کروایا جو حبشیوں کے قبضے میں تھی اور ان کو اپنے گھروں میں پہنچانے کا انتظام کیا۔ آپ نے شہر کی چاردیواری اور شہر پناہ کو ڈھادینے اور ان کی خندقوں کو بھرنے کا حکم دیا اور شہر کو چٹیل میدان بنا دیا جبکہ اب تک وہ جگہ ساری شرارتوں کی آماجگاہ تھی۔1

مرض گھٹیا کا شکار ہونا[ترمیم]

آپ کی موت کی وجہ یہ بنی کے آپ مرض گھٹیا کا شکار ہو گئے تھے تو ماہ صفر میں آپ اپنے گھر بغداد آ کر رہنے لگے آپ کے پاؤں پھول کر موٹے کپے ہو گئے، آپ کے جسم میں گرمی کی وجہ سے جلن رہتی، اس لیے برف وغیرہ ٹھنڈی چیزوں کا وافر انتظام کیا جاتا، چار پایوں پر لٹا کر آپ کو ادھر سے ادھر کیا جاتا، جس کے لیے چالیس آدمی مقرر کر دیے گئے تھے، جن سے باری باری بیک وقت بیس آدمیوں کی ضرورت پڑتی، ایک دن آپ نے خود تنگ ہو کر کہا، مجھے یقین ہے تم لوگ میری وجہ سے تنگ آ چکے ہو، اے کاش! میں حاکم وقت نہ ہوتا اور تمھاری طرح ادنٰی آدمی ہوتا کہ تمھاری طرح ہی کھاتا اور تمھاری طرح ہی پیتا اور تمھاری طرح ہی آرام سے سوتا اور یہ بھی کہا کرتا کہ میرے رجسڑ میں ایک لاکھوں ایسے غریبوں اور متحاجوں کے نام لکھے ہوئے ہیں، جن کو میری طرف سے زندگی گزارنے کے اخراجات دیے جاتے ہیں، مگر اب کوئی بھی ان میں سے مجھ سے بدتر حالت میں نہیں ہے۔[2]

وفات[ترمیم]

مرض گھٹیا میں مبتلا ہو کر آپ اپنی زندگی سے تنگ آ چکے تھے بالآخر آپ کی وفات ماہ صفر 278ھ میں قصر حسنی میں ہوئی۔ ابن جوزی نے کہا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر کچھ ماہ اور چند دن کم چوالیس سال ہوئی تھی۔[2]

اولاد[ترمیم]

آپ کا ایک بیٹا تھا

ابو العباس احمد المعتضد باللہ بن ابو احمد طلحہ الموفق باللہ

آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے المعتضد باللہ کو ولی عہد بنایا گیا۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Fields 1987, p. 168.
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث تاریخ ابن کثیر جلد 11