انتخابات 1945-1946

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

برصغیر میں عام انتخابات منعقد کروانا ضروری تھا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے اور شملہ کانفرس کی ناکامی کے بعد یہ اندازہ لگانا لازم ہو گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی عوام میں کیا حیثیت ہے اور وہ برصغیر کے مستقبل کے بارے میں کس جماعت کے مؤقف سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ قائد اعظم کا مؤقف درست تھا یا غلط، واحد طریقہ تھا کی عوام سے رجوع کر کے ان کی رائے معلوم کی جائے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا کی نئی سپر پاور بن گیا۔ اس طرح حکومت برطانیہ پر بھی امریکا کا دبائو بڑھ گیا تھا کہ برصغیر کے سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ اس صورتِ حال میں برطانوی حکومت نے عوامی رجحانات کا پیہ چلانے کے کی خاطر عام انتخابات کا اعلان کیا۔ دسمبر 1945 ء میں مرکزی اسمبلی اور جنوری 1946 ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا۔ تمام جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔

انڈین نیشنل کانگرس کا منشور[ترمیم]

انڈین نیشنل کانگرس کا منشور یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کو ایک وحدت کی صورت میں آزاد کروایا جائے گا۔ تقسیم کی کوئی سکیم قابل قبول نہ ہو گی۔ کانگرس نے انتخابات میں "اکھنڈ بھارت" کا نعرہ لگایا۔ کانگرس کا دعوی تھا کہ وہ برصغیر میں رہنے والے تمام گروہوں اور فرقوں کی نمائندہ جماعت ہے اور مسلمان بھی گانگرس کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور[ترمیم]

آل انڈیا مسلم لیگ نے انتخابی اکھاڑے میں قدم اس دعوے کے ساتھ رکھا کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ مسلمان مسلم لیگ کے علاوہ کسی اور جماعت سے تعلق نہیں رکھتے۔ مسلم لیگ چاہتی ہے کہ قرارداد پاکستان کے مطابق جنوبی ایشیا کو تقسیم کر دیا جائے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو مکمل اقتدار اعلی حاصل ہو جائے۔ قائد اعظم کا دعوی تھا کی عام انتخابات پاکستان کے بارے میں استصوات رائے(Referendum) ہوں گے۔ اگر مسلمان پاکستان کے حق میں ہیں تو وہ مسلم لیگ کا ساتھ دیں ورنہ اس مطالبہ کو از خود مسترد سمجھا جائے۔

انتخابی مہم[ترمیم]

تمام جماعتوں نے زبردست مہم چلائی۔ تمام جماعتوں کے قائدین نے پورے ملک میں دورے کیے۔ کانگرس نے یونینیسٹ پارٹی، مجلس احرار، جمعیت العلمائے ہند اور دیگر اسلامی جماعتوں سے زبردست انتخابی اتحاد بنایا۔ اور مسلم لیگ کا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔

دوسری جانب انتخابات چونکہ مسلمانوں کے لیے موت اور حیات کا معاملہ تھے اس لیے مسلم لیگ کے لیڈروں کے پورے ملک کے دورے کیے اور ہر کونے میں پاکستان کا پیغام پہنچایا۔ قائد اعظم نے اپنی خرابی صحت کے باوجود پورے ملک میں طوفانی دورے کیے اور مسلمانوں کا وقت کی اہمیت کا احساس دلایا۔ مسلم لیگ تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگی تھی۔ بہت سے مسلمان لیڈر دوسری جماعتوں سے کٹ کٹ کر مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع ہو گئے تھے۔

محمد علی جناح نے اپنے جلسوں میں کھلم کھلا کانگرس کو چیلنج کیا کہ انتخابات میں مسلم لیگ، پاکستان کے بارے میں مطالبے کا سچا ثابت کر کے اور مسلمانان برصغیر کے لیے پاکستان تخلیق کر کے دم لیں گے۔ مسلمانوں نے بھی زبردست جذبات کا اظہار کیا۔ مسلم طلبہ اور طالبات میدان میں نکل آئے اور شہر شہر قریہ قریہ لیگی کارکنوں کی ٹولیاں پہنچیں۔ فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔"بن کے رہے گا پاکستان"، "لے کے رہیں گے پاکستان"اور "پاکستان کا مطلب کیا' لااله الا الله ' کے نعرے زبان زدِ عام تھے۔ہر آنے والا دن مسلم لیگ کے موقف کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا گیا۔

انتخابات کے نتائج[ترمیم]

مرکزی قانوں ساز اسمبلی کے انتخاب دسمبر 1945 میں کروائے گئے۔ یہ جداگانہ طریق انتخاب کی بنیاد پر منعقد ہوئے۔ پورے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے 30 نشستیں مخصوص تھیں۔ مسلم لیگ نے ہر نشست پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ 1946 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔

  • مرکزی اسمبلی میں مسلم سیٹوں کی تعداد: 30
  • مسلم لیگ کی جیتی ہوئی سیٹیں : 30
  • صوبائی اسمبلیوں میں مسلم سیٹوں کی مخصوص تعداد: 495
  • مسلم لیگ کی جیتی ہوئی سیٹیں : 434

یہ مسلم لیگ کی شاندار فتح تھی۔ کئی سیاسی جماعتوں نے کانگرس کی حمایت کی تھی لیکن مسلم لیگ نے ان سب کو شکست دی۔اور جو دوسرے پارٹیز تھے وہ نہ ادھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے۔