ایمان بالرسالت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایمان
ایمان باللہ ایمان بالملائکہ
ایمان بالکتب ایمان بالرسالت
ایمان بالقدر ایمان بالآخرت



اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو ہدایت اور رہنمائی دینے کے لیے جن برگزیدہ بندوں کے ذریعے اپنا پیغام حق مخلوق تک پہنچایا انھیں نبی اور رسول کہتے ہیں اور ان کے منصب کو نبوت اور رسالت کہا جاتا ہے۔

ایمان بالرسالت[ترمیم]

اسلامی عقائد کی رو سے ایمان بالرسالت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننا ہے، کیونکہ ہر نبی اور رسول اپنی اپنی جگہ اللہ کا بھیجا ہوا حق و صداقت کا کامل و اکمل نمونہ رہا ہے اور ان سب نے ایک ہی مشن اور مقصد کی تکمیل کے لیے ایک ہی لائحہ عمل کے تحت کام کیا ہے۔

نبی اور رسول[ترمیم]

عام طور پر نبی اور رسول یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں، البتہ نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے وحی دے کر بھیجا ہو اور رسول اس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت دے کر مخلوق میں مبعوث کیا ہو تاکہ وہ لوگوں کو اس کی طرف بلائے۔[1]

سابقہ انبیا کی رسالت اور رسالت محمدی میں فرق[ترمیم]

سابقہ انبیا کی رسالت مخصوص قوموں، علاقوں کے لیے اور ان کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تھی، جبکہ نبوت و رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق آدم سے قیامت تک کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا۔[2]

’’آپ فرما دیجیئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’مجھ سے پہلے ہر نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا گیا لیکن میں تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ [3]

ختم نبوت[ترمیم]

اس امر کی مزید وضاحت اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تخلیق آدم سے پہلے ہی خاتم النبیین کے وصف سے متصف تھا۔

حضرت عرباض بن ساریہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنِّی عِنْدَ اﷲِ فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فيْ طِيْنَتِه.[4]

’’میں اللہ تعالٰیٰ کے ہاں (اس وقت بھی) ام الکتاب میں خاتم النبیین تھا جب آدم ابھی خمیر سے پہلے مٹی میں تھے۔‘‘

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قسطلانی، المواھب اللدنيۃ، 2 : 47
    زرقانی، شرح المواھب اللدنيۃ، 4 : 286
  2. القرآن، الاعراف، 7 : 158
  3. صحيح بخاري، 1 : 128، رقم : 328
  4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 128
    حاکم المستدرک، 2 : 656، رقم : 4175