بعل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

” بعل “ ایلیاہ (الیاس علیہ السلام) کی قوم کا معبود تھا اسی کے نام پر ان کے شہر کا نام بعلبک رکھ دیا گیا تھا۔ قرآن میں اس کا ذکر ایک مرتبہ آیا

  • أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ

کیا تم بعل (نامی بت) کو پوجتے ہو اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟
مطلب۔ پوجا کرنا۔ اس سے حاجت مانگنا۔ بعلا مفعول ہے تدعون کا۔ ایک بت کا نام ہے جسے قدیم زمانہ میں اکثر مشرقی سامی قوموں میں پوجا جاتا تھا۔
مجاہد‘ عکرمہ اور قتادہ نے کہا : یمنی زبان میں بعل کا معنی ہے رب۔ بعل بمعنی شوہر بھی آیا ہے مثلاً قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ اور یہ میرے شوہر بوڑھے ہیں۔ اور وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلاَ جُنَاْحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے لڑنے کا اندیشہ ہو۔[1] بعل یہ سونے کا بنایا ہوا بت تھا۔ اس کی لمبائی بیس ہاتھ تھی۔ اس کے چار چہرے تھے۔ وہ اس کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ اور اس کی تعظیم کرنے لگے۔ یہاں تک کہ اس کے خدام کی تعداد چار سو تھی۔ اور ان سادھوؤں کو لوگ بعل کے رسول کہتے تھے۔ جس مقام پر یہ بت پایا جاتا تھا۔ وہ بک کے نام سے معروف تھا۔ پس دونوں ناموں کو جوڑ کر بعلبک بنا لیا گیا۔ یہ شام کا شہر ہے۔[2] لغوی معنی مالک یا امیر۔ قدیم سورج دیوتا کا نام۔ جس کی پرستش قدیم اشوری کلدانی اور فونیشی کرتے تھے۔ تقدس کی بنا پر بعل کا لفظ بہت سے شامی ناموں کا جز بھی ہے۔ جیسے جز العبل، ہنی بعل، بعل ز بوب، بعلبک وغیرہ۔ اس کی دوسری شکل شموس دیوتا ہے۔ یہ بھی شمس یعنی سورج دیوتا ہے اور اسی شموس کی ایک اور شکل ہندوؤں کے بھگوان شیو ہیں جو ہندو علم الاصنام میں پیدائش کے دیوتا ہیں۔ حضرت مسیح کی تاریخ پیدائش و وفات و دیگر روایات کی، بعدل کی معروف روایات سے اس قدر مشابہت ہے کہ بعض کا خیال ہے کہ مسیحی مذہب و رسومات کا ماخذ بعل ہی کی رسومات ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انوار البیان فی حل لغات القرآن سورہ الصافات 125
  2. تفسیر مدارک التنزیل ابو البرکات عبد اللہ النسفی، سورۃ الصافات آیت125