بلیک ہول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمومی اضافیت
وابستہ موضوعات

ترمیم

بلیک ہول کی پہلی تصویر

بلیک ہول یا سیاہ شگاف یا روزنِ سیاہ[1] مادے کی ایک بے پناہ کثیف و مرتکز حالت ہے جس کی وجہ سے اس کی کشش ثقل اس قدر بلند ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی شے اس کے افق وقیعہ (Event Horizon) سے فرار حاصل نہیں کرسکتی، ماسوائے اس کے کہ وہ کمیتی سرنگ گری (Quantum Tunnelling) کا رویہ اختیار کرے (اس رویہ کو Hawking Radiation بھی کہا جاتا ہے۔

بلیک ہول میں موجود مادے کا دائرۂ ثقل اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس دائرے سے نکلنے کے ليے جو رفتار (سمتی رفتار - velocity) درکار ہوتی ہے وہ روشنی کی رفتار (speed of light) سے بھی زیادہ ہے اور چونکہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی شے نہیں لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے، بلیک ہول سے نکل نہیں سکتی، فرار حاصل نہیں کرسکتی، یہاں تک کے روشنی بھی اس کے افق وقیعہ کے دائرہ اثر سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔ یعنی بلیک ہول خلا (اسپیس) میں مادے کی کثافت کا ایک ایسا مقام ہے جس سے کسی شے کو فرار حاصل نہیں۔

بلیک ہول کی موجودگی کی شہادت مختلف ہیئتی (Astronomical) مشاہدات سے ملتی ہے، بطور خاص ایکس رے اشعاعی مشاہدات۔

بلیک ہول

تاریخ[ترمیم]

ایک ایسے جسم کا تصور جس کی کشش سے روشنی سمیت کائنات کی کوئی شے فرار نہ ہو سکے، جغرافیہ دان John Michell نے 1783ء میں رائل سوسائٹیآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ royalsoc.ac.uk (Error: unknown archive URL) کے ليے لکھے گئے ایک مقالے میں کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ثقل کا نیوٹنی نظریہ اور سرعت فرار (escape velocity) تخیلات اپنی جگہ بناچکے تھے۔ جان میچل نے تحقیق کی کہ اگر سورج سے 500 گنا بڑی جسامت کا کوئی ایسا کائناتی جسم جس کی کثافت بھی اتنی ہی ہو جتنی کے سورج کی اور اس کی سطح پر سرعت فرار، روشنی کی رفتار کے برابر ہو جائے تو وہ مرئی (visible) یعنی موجود ہوتے ہوئے بھی غائب ہو جائے گا۔

اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ۔۔۔۔۔

اگر کسی کرہ کی کثافت اتنی ہی ہو جتنی کہ سورج کی اور اس کا نصف قطر سورج کے مقابلے میں 1 کی نسبت 500 تک بڑھ جائے تو ایک لامحدود بلندی سے اس کی جانب گرنے والا کوئی جسم، اس کی سطح پر آکے روشنی سے زیادہ سرعت (سمتی رفتار) حاصل کرلے گا اور اسی طرح اگر یہ فرض کیا جائے کے اسی قوت کے ساتھ روشنی کو بھی اس کے جمود (انرشیا) کے مقابلے پر کشش کیا جائے گا تو، دوسرے اجسام کے ساتھ ساتھ، ایسے جسم سے نکلنے (پھوٹنے) والی تمام روشنی کو اس کی ثقل مخصوصہ کے تحت اسی کی جانب واپس پلٹا دیا جائے گا۔
  • گو کہ اسنے اس کو بعید از امکان کہا لیکن اسنے کائنات میں ایسے کسی جسم کی موجودگی کے امکان کو جس کو دیکھا نا جاسکے یکسر مسترد بھی نہیں کیا۔

سادہ جائزہ[ترمیم]

البکر کبیر (Large Magellanic Cloud) کے سامنے موجود ایک بلیک ہول کے باعث پیدا ہونے والے بگاڑ (distortions) کی ایک مصوری تفسیر

زیادہ تر سیارے اور اجرام فلکی پائدار اور مستحکم حالت میں ہوتے ہیں کیونکہ برقات کے درمیان پائی جانے والی پالی قوت کی وجہ سے جوہر منہدم ہونے سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ ثقل، برقناطیسیت اور قوی تفاعل کی قوتیں انھیں باندھ کر رکھتی ہیں اور ان تمام قوتوں کے توازن کی وجہ سے ہی تمام مادے اپنی ساخت کو قائم اور مستقل رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انتہائی حالات پیدا ہوجائیں، جیسے کہ کثیر المقدار مادہ کسی قلیل جگہ میں سمو دیا جائے تو پھر ثقل (gravity) دوسری تمام قوتوں سے حد سے زیادہ بڑھ کر جیت جاتی ہے اور ایسی صورت میں اوپر بیان کردہ قوتوں کا توازن ختم ہوجاتا ہے۔

اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برقات اور جوہروں کے مرکزوں کے درمیان مقررہ فاصلہ باقی نہیں رہتا اور ایک طرح سے وہ جیسے مرکزوں کی جانب منہدم ہوجاتے ہیں یا سادہ سے الفاظ میں یوں کہ لیں کہ گویا جوہر پچک گئے ہوں اور نتیجتاً ظاہر ہے کہ وہ مادہ بھی پچک جاتا ہے اور بے انتہا کثیف ہو جاتا ہے (اس قسم کے مادے کے ليے Neutronium نامی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے)

اب اگر اسی قدر جگہ (جو اوپر فرض کی گئی تھی) میں یہی صورت حال مادے کی ایک نہایت ہی بڑی مقدار کے ساتھ پیش آجائے تو مرکزیہ جات (nucleons) تک کے درمیان پائی جانے والی پالی قوتیں تک کشش ثقل کی طاقت کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں اور یوں تمام مادی جسم، خود اپنے ہی اندر منہدم ہوجاتا ہے یا سمٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں بلیک ہول یا black hole کی پیدائش واقع ہوتی ہے۔ ایک بار جب یہ قوتوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو اور مادے کے پچکنے کے عمل کی ابتدا ہو جائے تو پھر اس عمل کو روکا نہیں جا سکتا اور مادہ اس قدر پچک جاتا ہے یا منہدم ہو جاتا ہے کہ اس میں موجود تمام بین الذراتی فضائیں ختم ہوجاتی ہیں اور یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ مادہ اپنے مرکز کی جانب سکڑ اور سمٹ کر اپنی تمام اونچائی اور چوڑائی کھو دیتا ہے اور ایک طرح سے صفر ہو جاتا ہے اسی مقام کو وحدانیت یا Singularity کہا جاتا ہے۔


اقسام[ترمیم]

بلیک ہول تین طرح کے ہوتے ہیں۔ بلیک ہولز کی پہلی قسم primordial بلیک ہول کہلاتی ہے، جس میں انتہائی ننھے ایٹمی سائز کے بلیک ہول ہوتے ہیں، ایسے بلیک ہول کائنات کے شروعات میں بنے تھے، اب ہم لیبارٹری میں بنا سکتے ہیں۔ دوسری قسم سٹیلر بلیک ہول کہلاتی ہے۔ یہ نارمل سائز کے بلیک ہولز ہوتے ہیں جو کہکشاؤں میں ستاروں کے ساتھ ہی چکر لگا رہے ہوتے ہیں، یہ لاکھوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں۔ تیسری قسم کے بلیک ہولز کو Super massive کہا جاتا ہے، ایسے بلیک ہول سورج سے لاکھوں اور کروڑوں گنا بڑے ہو سکتے ہیں اور کہکشاں کے مرکز میں ہوتے ہیں، یہ کسی کے گرد چکر نہیں لگاتے، کہکشاں کی ہر شے ان کے گرد چکر لگا رہی ہوتی ہے۔ سورج ہماری کہکشاں کے درمیان میں موجود سپر میسو بلیک ہول کے گرد چکر لگا رہا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.bbc.com/urdu/science-42289111