جنوبی پنجاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پنجاب
سرائیکی وسیب پر مشتمل صوبہ پنجاب کی انتظامی اکائی
جنوبی پنجاب
قیادت
ایڈیشنل چیف سیکریٹری
فواد ہاشم ربانی
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس
محمد کامران خان
مقام ملاقات
جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ، بہاولپور، ملتان

جنوبی پنجاب سے مراد پاکستانی صوبہ پنجاب کے وہ اضلاع ہیں جہاں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے یکم جولائی 2020ء سے صوبہ پنجاب کی حدود میں الگ سیکرٹریٹ دیا اور کئی محکمے منتقل کر کے سول سیکرٹریٹ قائم کر دیا اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس تعینات کر دیے جو چیف سیکریٹری پنجاب کے ماتحت ہیں۔ عموماََ پنجاب کے جنوبی اضلاع سے مراد صوبہ پنجاب کے یہ تیرہ اضلاع ضلع بہاولپور، ضلع رحیم یار خان، ضلع بہاولنگر، ضلع ڈیرہ غازی خان، ضلع راجن پور، ضلع مظفر گڑھ، ضلع لیہ، ضلع کوٹ ادو، ضلع تونسہ، ضلع لودھراں،ضلع ملتان، ضلع خانیوال اور ضلع وہاڑی لیے جاتے ہے جو انتظامی طور پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ماتحت ہیں جبکہ سرائیکی وسیب کے جنوبی اضلاع کے اہم شہروں میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، لودھراں، مظفرگڑھ، لیہ، تونسہ شریف، کوٹ ادو، راجن پور، میلسی، جہانیاں، علی پور، اوچ شریف، یزمان، لیاقت پور، خان پور، روجھان صادق آباد وغیرہ شامل ہیں۔

آبادیات

جنوبی پنجاب کے لوگوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جو خطے کی آبادی کا 74 فیصد ہے جبکہ باقی 26 فیصد میں پنجابی، اردو، مارواڑی، پشتو، ہریانوی اور بلوچی زبانیں شامل ہیں۔ مذہبی اعتبار سے زیادہ تر افراد سنی مسلمان ہیں۔ قابل ذکر آبادی شیعہ مسلمانوں کی بھی ہے۔ دیگر مذاہبِ میں ہندو، عیسائی اور سکھ بھی موجود ہیں۔ کچھ علاقوں مثلاً اوچ شریف، چنی گوٹھ اور ملتان میں آغاخانی یا اسماعیلی نزاری عقیدے کے لوگ بھی موجود ہیں۔ ضلع بہاولپور سے سابقہ رکن اسمبلی حسن عسکری شیخ کا تعلق بھی اسماعیلی کمیونٹی سے ہے۔ پنجاب کے جنوب کے گیارہ اضلاع کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 34,743,590 نفوس پر مشتمل ہے۔

محل وقوع

جنوبی پنجاب کے مشرق میں بھارتی ریاست راجستھان واقع ہے۔ شمال میں بالائی پنجاب و پوٹھوہار، شمال مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا، مغرب میں صوبہ بلوچستان اور جنوب میں صوبہ سندھ واقع ہیں۔

جغرافیہ

جنوبی پنجاب کا وسیع علاقہ چولستان اور تھل کے ریگستانوں پر مشتمل ہے جبکہ ملتان ڈویژن زرخیز میدانوں کا علاقہ ہے۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے دو اضلاع لیہ اور مظفر گڑھ زرخیز میدانی علاقے ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع جزوی طور پر خشک پہاڑوں پر مشتمل ہیں البتہ جہاں سے دریائے سندھ گزرتا ہے وہاں پر زرخیز میدان موجود ہیں جہاں زراعت سب سے بڑا ذریعہ معاش ہے۔ سخی سرور، فورٹ منرو اور ماڑی کے پہاڑی علاقے کوہ سلیمان سے جڑے ہونے کی وجہ معدنیات سے مالامال ہیں جہاں پر یورینیم بھی پائی جاتی ہے جو پاکستان کا ایٹمی اثاثہ ہے۔ بہاولپور ڈویژن کا سرحدی علاقہ چولستان کے صحرا پر مشتمل ہے جہاں پانی کی کمی کے باوجود زمینیں زرخیز ہیں اور ایک معقول نہری نظام موجود ہے۔ تھل کا صحرا ضلع مظفرگڑھ، لیہ اور ضلع بھکر کے جزوی علاقوں پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ ضلع میانوالی میں بھی ہے۔ پنجاب کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھو ہے جو میانوالی میں کالاباغ اور چشمہ بیراج پر بڑے آبی ذخیرے رکھتا ہے۔ بعد ازاں یہ دریا بھکر، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع سے گذر کر صوبہ سندھ میں داخل ہو جاتا ہے۔ پنجاب وسیب کا دوسرا بڑا دریا چناب ہے جو ضلع خانیوال اور ملتان سے ہو کر ضلع مظفرگڑھ میں دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے ستلج بہاولپور ڈویژن سے ہو کر دریائے سندھ میں جا ملتا ہے۔ پنجاب کے سرائیکی وسیب کے تیرہ اضلاع کا رقبہ 102,301 مربع کلومیٹر (39,499 مربع میل) ہے۔

آب و ہوا

جنوبی پنجاب مجموعی طور پر گرم آب و ہوا رکھتا ہے۔ ملتان کا ضلع خصوصی طور پر گرمی کی وجہ سے مشہور ہے۔ البتہ کچھ ٹھنڈے اور صحت افزاء مقامات موجود ہیں جیسا کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں فورٹ منرو ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ضلع راجن پور کا مقام ماڑی اور ضلع میانوالی کے وہ علاقے جو جو وادی سون سکیسر میں آتے ہیں نیز کالاباغ صحت افزاء مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ چولستان اور تھل کے صحرا اپنی گرم آب و ہوا کے لیے مشہور ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پنجند کا مقام اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہاں پانچ دریا اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ ایک تفریحی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے لیے ذخیرے کا کام دیتا ہے۔ پنجند بیراج سے کئی بڑی نہریں نکلتی ہیں جو دور دراز تک علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ان دریاؤں کا پانی آگے جا کر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔

آبی وسائل

خطے کا ایک اہم دریا ستلج ہے جہاں سے کسی زمانے میں بہاولپور ڈویژن میں زمینوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔ اس پر بھارت کا حق تسلیم ہو جانے کے بعد اس میں رابطہ نہروں کے ذریعے دیگر دریاؤں کا پانی چھوڑ کر کسی حد تک آبپاشی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گذر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا، ضلع ہوشیار پور کے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔ یہاں سے ایک بڑی نہر کی شکل میں جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا دریائے بیاس میں گر کر پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور میں پاکستانی علاقہ میں داخل ہوتا ہے اور اوچ شریف سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہوجاتا ہے یہ مقام بہاولپور سے 62 کلومیٹر مغرب میں ہے۔ دیپالپور کے نزدیک ہیڈ سیلمانکی سے گزرتا ہوا بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ نواب بہاولپور نے اپنی ریاست کو زرخیز بنانے کے لیے دریائے ستلج سے نہریں نکالیں، جن کا پانی نہ صرف زمینوں کو سیراب کر رہا ہے بلکہ صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں میں فصلیں اگانے میں استعمال ہوتا ہے۔ 1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے دریائے ستلج پر بھاکڑہ ننگل ڈیم تعمیر کیا ہے۔

جنوبی پنجاب کے ملتان ڈویژن کو دریائے چناب سیراب کرتا ہے۔ یہ بالائی پنجاب سے ہوتا ہوا سرائیکی وسیب میں داخل ہوتا ہے جس میں سے نہریں نکال کر نہ صرف آبپاشی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں بلکہ رابط نہروں کے ذریعے دریائے ستلج میں بھی اس کا پانی چھوڑا جاتا ہے۔ دریائے چناب، چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ بالائی علاقوں میں اس کو چندرابھاگا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کے ضلع جھنگ میں تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ دریائے چناب کی کل لمبائی 960 کلومیٹر ہے اور سندھ طاس معاہدہ کی رو سے اس کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم ہے۔

دریائے سندھ وسیب سے گزرنے والا سب سے اہم دریا ہے، اس پر بیراج قائم کیے گئے ہیں جن سے نہریں نکال کر خطے کے وسیع و عریض علاقوں میں آبپاشی اور ماہی پروری کی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔ کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔

ذرائع آمد و رفت

خطے میں سفری سہولیات کے ضمن میں بڑے شہروں میں ملکی اور غیر ملکی فضائی سفر کے لیے ہوائی اڈے قائم کیے گئے ہیں جن میں ملتان اور بہاولپور کے ہوائی اڈے اس لیے اہم ہیں کہ یہاں سے ملکی پروازوں کے علاوہ غیر ملکی پروازوں کی سہولت موجود ہے۔ ان کے علاوہ ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی فضائی سفر کے لیے ایئرپورٹ موجود ہیں۔

جنوبی پنجاب میں برطانوی دور سے ریلوے کا ایک وسیع نظام موجود ہے۔ اگرچہ بہت سارے ریلوے اسٹیشن بدعنوانیوں کی وجہ سے بند کیے جا چکے ہیں مگر پھر بھی علاقے کی کثیر عوام ریلوے پر سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں میں بہاولپور اسٹیشن انتہائی خوبصورت ہے جو علاقائی فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کے ملتان چھاونی، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، صادق آباد، ڈیرہ اسماعیل خان اور میانوالی کے اسٹیشن اہم ہیں۔ ریلوے جنکشنز میں ملتان، سمہ سٹہ، لودھراں، خانیوال، خان پور کٹورا زیادہ مشہور ہیں۔

ماضی میں ملک میں ریلوے کے محکمے کی تباہی کے بعد ملک کی طرح سرائیکی خطے میں بھی بسوں کے سفر کا رجحان بڑھ چکا ہے اور خطے کے شہروں کے دیگر ملکی شہروں کے سفر کے لیے لگژری بس سروسز موجود ہیں جن میں ڈائیوو، فیصل موورز، نیازی ایکسپریس، سندھو پاور وغیرہ مشہور ہیں۔ شہروں کے اندر مقامی سفر کے لیے وسیب کے بڑے شہروں میں بس سروسز موجود ہیں جن میں ملتان کی سپیڈو اور کے بی بس اہم ہیں۔ اس ضمن میں ملتان میٹرو بس سروس ایک شاندار سہولت ہے جو 18 کلومیٹر طویل ہے اور ملتان شہر کے وسیع علاقے کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ سہولت ملتان کو ملک کے اہم ترین شہروں میں شامل کرتی ہے۔

ذرائع نقل و حمل

جنوبی پنجاب میں قدیم زمانے میں تجارت کے لیے دریاؤں کوں استعمال کیا جاتا تھا جن کے پاٹ ان وقتوں میں چوڑے ہوا کرتے تھے اور دریا آج کی ڈرائی پورٹس کی مانند شہروں سے بالکل جڑے ہوتے تھے جن سے ہزاروں خاندانوں کا روزگار وابستہ تھا۔ جب دریاؤں پر بند باندھ کر بیراج بنا دیے گئے تب ان دریاؤں سے وہ نقل و حرکت جو ایک ملک سے دوسرے ملکوں تک ہوا کرتی تھی، محض چند اضلاع تک محدود ہو گئی۔ بعد کے وقتوں میں دریاؤں سے بہت تعداد میں نہریں نکالنے سے ان کے پاٹ کم چوڑے رہ گئے تو پہلے جہاں علاقائی تجارت اس وقت کے چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی، علاقائی محدودیت اور وسعت میں کمی کے باعث اب چھوٹی کشتیوں کی حد تک رہ گئی۔ پاکستان میں ایک آمرانہ حکومت کے سیاہ فیصلے کے تحت سرائیکی وسیب اور پنجاب کے تین دریا بھارت کو بیچ دیے گئے جس سے نہ صرف جنوبی پنجاب کا وسیع علاقہ بنجر ہوا بلکہ وہ محدود علاقائی تجارت جو دریاؤں کی فراوانی کی وجہ کشتیوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی اب محض ماضی کا قصہ ہے۔[1]

جنوبی پنجاب میں سامان اور اشیاء کی نقل و حمل اور تجارت کے لیے گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیاں ملک کے باقی حصوں کی طرح موجود ہیں۔ اس حوالے ضلع میانوالی مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنی نقل و حرکت ٹرکوں اور ٹرالرز کے ذریعے کرتی ہیں جن میں ہر قسم کا تجارتی سامان، صنعتی سامان، کپڑا، اجناس ، پھل اور سبزیاں درآمد اور برآمد کی جاتی ہیں۔ اشیاء کی نقل و حرکت کے لیے ریلوے ایک سستا ذریعہ ہے۔ جنوبی پنجاب میں مال گاڑیوں کا ایک وسیع نظام قائم جہاں سے ہر طرح کا سامان اور صنعتی خام مال لایا اور لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مسافر ریل گاڑیوں میں بھی کچھ بوگیاں سامان اور اشیاء کی علاقائی ترسیل کے لیے مختص ہوتی ہیں۔

مواصلاتی نظام

محکمہ ڈاک کی جانب سے ملتان میں خطے کے لیے الگ پوسٹ ماسٹر جنرل کی تعیناتی کی گئی ہے جہاں سے پورے وسیب میں ڈاک کی ترسیل کا کام سر انجام دیا جاتا ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کے ضمن میں نجی ادادوں کے بوسٹر ہر علاقے میں لگائے گئے ہیں جہاں سے موبائل فون سروسز مہیا کی جاتی ہیں۔ نیز پی ٹی سی ایل کی جانب سے لینڈ لائن سروسز کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی بہترین سہولت موجود ہے جس سے نہ صرف عام صارفین فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ اداروں اور کمپنیوں کا باہمی رابطہ قائم رہتا ہے۔

صنعت و تجارت

یہ خطہ زمانہ قدیم سے صنعت و حرفت اور علاقائی دستکاری کا مرکز رہا ہے۔ اس ضمن میں ملتان شہر ہمیشہ سے مرکزیت کا حامل رہا اور پورے وسیب کا سیاسی، روحانی اور صنعتی و تجارتی مرکز رہا۔ نیل کی کاشت اس علاقے کی انتہائی پرانی صنعت ہے۔ زمانہ قدیم کے سیاحوں نے یہاں کی اس صنعت کا ذکر کیا ہے جو بنیادی طور پر کاشت کی جاتی ہے اور فصل پک جانے کے بعد اسے پراسس سے گزارا جاتا ہے اس لیے اسے صنعت بھی کہا جاتا ہے۔ ملتان جو نیل کی پیداوار کا قدیم ترین علاقہ تھا میں اعلیٰ درجے کا نیل پیدا ہوتا تھا اور تجارتی قافلے دنیا کے مختلف خطوں میں ملتان سے نیل لے جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر مہر عبد الحق کے مطابق ’’حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ اپنے عہد میں تجارتی قافلے بیرونی ممالک بھیجا کرتے تھے‘ انھوں نے ملتان شہر میں جہاں تجارت کو فروغ دیا وہاں بہت سے دستکار بھی پیدا کیے۔ غوث بہاء الحقؒ اپنے خرچ پر طالب علموں اور مریدوں کو دنیا کے مختلف خطوں میں کارآمد ہنر سیکھنے کے لیے بھی بھیجا کرتے تھے، یوں ملتان میں دیکھتے ہی دیکھتے ہنرمندوں کے بہت سے محلے آباد ہو گئے جن میں کنگھی محلہ‘ درکھانہ محلہ‘ والوٹ‘ سوتری وٹ‘ ٹھٹھہ پاؤلیاں اور بستی چم رنگ شامل ہیں‘‘۔

یہاں یہ بات خاص اہمیت رکھتی ہے کہ ملتان میں نیل کی پیداوار کا سب سے اہم علاقہ نیل کوٹ بھی حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے د ور میں ہی آباد ہوا۔ نواح ملتان میں نیل کی پیداوار کے علاقے لودھراں‘ شجاع آباد کا علاقہ سردار واہ‘ تلمبہ‘ نیل گڑھ‘ کہروڑپکا اور ٹھٹھہ صادق آباد تھے لیکن ملتان میں نیل کی کاشت کا سب سے بڑا علاقہ نیل کوٹ ہی تھا‘ نیل کی پیداوار کے حوالے سے ہی اس علاقہ کا نام نیل کوٹ رکھا گیا۔

ملتان شہر قدیم عہد میں اپنے جغرافیائی محل وقوع کی نسبت سے تجارت کا اہم ترین مرکز تھا‘ یہاں نہ صرف زمینی راستوں سے تجارت ہوتی تھی بلکہ آبی راستے بھی تجارت کے لیے کھلے تھے۔ مرزا ابن حنیف کے مطابق ’’ملتان شہر نہ صرف دریائے راوی کے کنارے آباد ہے بلکہ دو عظیم الشان دریاؤں راوی اور چناب کا سنگم بھی بالکل پاس ہی تھا‘ ازمنہ قدیم میں افغانستان کے ساتھ جن جن پہاڑی دروں سے تجارت ہوتی تھی‘ ان میں درہ گومل خصوصی حیثیت رکھتا ہے درہ گومل کے ذریعے ملتان اور افغانستان کے درمیان بہت زیادہ تجارت ہوتی تھی یہی اس خطے کا قدیم تجارتی راستہ ہے۔[2]

ملتان عہدِ قدیم سے ہی صنعت و حرفت کا مرکز رھا ہے اور ہنرمندی صناعی اور کاریگری میں ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے روغنی مٹی اور نیلے رنگ کی آمیزش سے تیار کردہ اشیا ٕ کی صنعت ایک قابل یادگار صنعت ہے کاشی گری کی صنعت اور اس کے ہنر مند جنھیں کاشی گر کہا جاتا ہے ملتان کی صنعتی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ملتان شہر کی عمارات بالخصوص مساجد مقبرے اور خانقاہیں اس صنعت کے زمانہ عروج کی شاہد ہیں۔شروع میں یہ کام محض عمارات کی زیب و زینت کے لیے مخصوص تھا مگر اب سجاوٹ و آراٸش کے لیے برتنوں،مرتبانوں اور ستونوں وغیرہ پر بھی اس فن کو استعمال کیا جا رھا ہے۔

اس صنعت کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1853 میں انگریز منتظم کنگ الیگزینڈر نے قلعہ کہنہ قاسم باغ پر عمدہ پیمانے پہ کھداٸی کرواٸی تو ایسی روغنی اینٹیں برآمد ھوٸیں جن کے متعلق ماہرین نے اندازہ لگایا کہ وہ نویں صدی عیسوی میں تیار کی گٸی تھیں اور بعض مورخین کے مطابق جب محمد بن قاسم نے آٹھویں صدی عیسوی میں ملتان فتح کیا تو اس فن کے کاریگر اس کے ھمراہ ملتان آٸے اور یہیں آباد ھو گٸے کاشی گری کا خوبصورت ہنر جسے خالصتًا اسلامی ہنر بھی کہا جا سکتا ہے صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آ رھا ہے اس سلسلے میں ایک دلچسپ روایت ہے کہ اس فن کے ماہر اپنا ہنر کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ بیٹیوں کو بھی نہیں کہ ان کی شادی کے بعد یہ فن کہیں خاندان سے باہر منتقل نہ ھو جاٸے ہاں البتہ اپنی بہووں کو ضرور سکھاتے یعنی اس فن کو موروثی حیثیت حاصل تھی اور اس کی حفاظت کسی قیمتی میراث کی طرح کی جاتی مگر اب اس فن کو سکھانے کے لیے باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ وجود میں آ چکے ہیں اور نہ صرف پبلک اور پراٸیویٹ سیکٹر میں کام ھو رھا ہے بلکہ کٸی عالمی ادارے دنیا کو اس فن سے روشناس کرانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اب کاشی گری ہمارے قومی ورثے کاحصہ اور ھماری روایات کی باقاعدہ شناخت بن چکی ہے بیرون ممالک سے آٸے لوگ کاشی گری سے بنے شاہکار اپنے ھمراہ لے جاتے ہیں قلعہ کہنہ قاسم باغ میں قاٸم نگار خانہ سے خریدا گیا ایک گلدان لندن کے عجاٸب خانے کی زینت بھی بنا ھوا ہے۔ ملتان میں حضرت شاہ رکن عالم ؒ حضرت شاہ یوسف گردیز کے مقابر اور کںی مساجد اس شاہکار فن کا خوبصورت استعارہ ہیں۔ [3]

زراعت اور فصلیں

آئین اکبری میں ملتان پنجاب میں پیدا ہونے والی ان فصلوں کی فہرست دی گئی ہے جو تین صدیوں سے ملتان میں کاشت ہو رہی تھیں‘ ابوالفضل کی مرتب کردہ اس فہرست کے مطابق ملتان میں ان دنوں گنا‘ چاول‘ جو‘ تل‘ کپاس‘ چنا‘ مسور کی دال‘ میتھرا‘ تمباکو اور نیل کی بہت بڑی مقدار پیدا ہوتی تھی۔ شاہ جہاں نے اپنے ایک شاہی فرمان کے ذریعے نیل کی پیداوار بڑھانے کا حکم بھی دیا تھا۔ سترہویں صدی ہندوستان میں نیل کی پیداوار کے عروج کی صدی تھی‘ نیل اس دور میں بین الاقوامی تجارت کا اہم ترین آئٹم تھا۔ پرتگالی اور برطانوی تاجر نیل کی تجارت سے ہندوستانی تاجروں کو نکالنا چاہتے تھے تاکہ نیل کی تجارت مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں آ جائے‘ اسی مقصد کے حصول کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان آئی تھی۔

سیاحتی مقامات

جنوبی پنجاب ایک قدیم خطہ ہے۔ آسکے تاریخی اور سیاحتی مقامات میں درج ذیل زیادہ اہم ہیں۔

عباسی مسجد

دور قدیم کے دلفریب فنِ تعمیر کی شاہکار عباسی مسجد کو 1849ء میں ریاست کے نواب بہاول خان نے تعمیر کروایا تھا۔ تاریخ کے جھروکوں میں یہ بات عیاں ہے کہ نواب آف بہاولپور بہاول خان فنونِ لطیفہ، ثقافت اور شاہی طرزِ تعمیر کے ذوق کے حوالے سے اس وقت کے سماجی حلقوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے تھے۔ مسجد کے میناروں میں زمانہ قدیم سے نصب شدہ اعلیٰ معیار کا سنگِ مرمر آج بھی اس دور کے طرزِ تعمیر کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اس مسجد کو کچھ دیر اگر آپ تکتے رہیں تو یقین کیجیے کہ آپ برِصغیر کے انیسویں صدی کے اس سحرانگیز دور میں لوٹ جائیں گے۔ [4]

سینٹرل لائبریری بہاولپور

اطالوی فنِ تعمیر کا شاہکار بہاولپور کی سینٹرل لائبریری پنجاب کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔ اس میں ایک لاکھ قیمتی کتابوں کا خزانہ موجود ہے اور 1947ء سے لے کر اب تک کے تمام بڑے اخبارات کا اعزازی ریکارڈ بھی اس لائبریری کا حصہ ہیں۔ یہ لائبریری بصارت سے محروم اور دیگر معذور افراد کو بھی مطالعے کی سہولت فراہم کرتی ہے جو مطالعے کے شوقین افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ [5]

قلعہ ڈیراور

یہ بہاولپور شہر سے 130 کلومیٹر دور جنوب کی سمت میں واقع ہے۔ اس قلعے کی خوبصورتی دیکھنے کے لائق ہے۔ اس کے چالیس برج ہیں جو صحرائے چولستان میں چاروں اطراف میلوں تک نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل راجپوتوں کا قلعہ تھا اور اس کی تعمیر 9 ویں صدی عیسوی میں کی گئی۔ پانچ فٹ موٹی دیواریں اس قلعے کو آج بھی مضبوط اور قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں۔ صدیاں بیت جانے کے باوجود اس قلعے کی مضبوطی اور پائیداری سیاحوں اور ماہرینِ آثارِقدیمہ کے لیے آج بھی دلچسپی کا محور ہیں۔

نور محل بہاولپور

نواب آف بہاولپور کی شاہانہ طرزِ زندگی کا عکاس نور محل بہاولپور شہر سے گزرتی کنال روڈ کے قریب واقع ہے۔ اسے بہاولپور کے نواب صادق محمد خان نے 1872ء میں اپنی اہلیہ کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اس کا آرکیٹکچر اطالوی فنِ تعمیر سے مشابہت رکھتا ہے۔ محل کا مخصوص حصہ عوام کی سیروتفریح کے لیے کھولا گیا ہے جبکہ اس محل کو سرکاری گیسٹ ہاؤس کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

دربار محل بہاولپور

دربار روڈ پر واقع یہ خوبصورت محل دیکھنے والوں کو دنگ کر دیتا ہے۔ یہ محل بھی محبت کی داستان کا عکاس ہے۔ اسے 5 ویں نواب آف بہاولپور نے اپنی اہلیہ سے لازوال محبت کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ یاد رہے کہ اس محل کی تعمیر 1905ء میں مکمل ہوئی جبکہ 1971 کے بعد سے اسے عام عوام کی تفریح اور سیاحت مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے تاہم عمارت کے بیرونی حصے سے آپ اس خوبصورت محل کا بھرپور نظارہ کر سکتے ہیں۔

مقبرہ بی بی جیوندی اوچ شریف

یہ بہاولپور کے قریب اوچ شریف کے مقام پر واقع ہے۔ یہ مقبرہ 1493ء میں ایرانی بادشاہ دلشاد نے مشہور صوفی بزرگ خاتون کی قبر پر تعمیر کروایا تھا۔ صوفیا کی طرف مائل افراد کے لیے یہ مقبرہ دلچسپی کا حامل ہے۔ قبروں کے درمیان موجود یہ خوبصورت قدیم مقبرہ ایک الگ ہی منظر پیش کرتا ہے۔

لال سہانڑا نیشنل پارک

لال سہانڑا نیشنل پارک بہاولپور سے تقریبا 25 کلومیٹر دور مشرق کی سمت میں واقع ہے اور یہ پارک ایک لاکھ ستائیس ہزار 480 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ اس پارک کا شمار جنوبی ایشیا کے چند بڑے نیشنل پارکس میں شمار ہوتا ہے۔ مذکورہ نیشنل پارک میں دیگر جانوروں کے ساتھ ساتھ نایاب کالے ہرن کی بہتات پائی جاتی ہے۔

ہرن کی ایک نایاب قسم چنکارہ بھی آپ کو یہاں دوڑتی اور پھدکتی ملے گی۔ دوسری جانب پارک میں موجود خوبصورت جھیلیں یہاں آنے والے سیاحوں، فیملیز اور بچوں کی تفریح کو چارچاند لگا دیتی ہیں۔

گلزار محل بہاولپور

گلزار محل خوبصورتی کے لحاظ سے تاریخی عمارتوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کی تعمیر یورپین طرزِ تعمیر سے کسی حد تک متاثر ہو کر عمل میں لائی گئی ہے جبکہ اس محل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ بہاولپور کی واحد عمارت ہے جہاں زمانہ قدیم میں ہی انڈر گراؤنڈ بجلی کی تاروں کا جدید نظام نصب تھا۔

صادق ڈین ہائی اسکول بہاولپور

صادق ڈین ہائی اسکول جو آج صادق پبلک اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کی تعمیر 1911ء میں اس وقت کے نواب آف بہالپور نے کروائی تھی۔ اس کے خوبصورت طرزِ تعمیر میں گھنٹہ گھر بھی شامل کیا گیا ہے جس سے یہ مزید پُرکشش دکھائی دیتا ہے۔ اسکول میں تقریبا 2000 طلبہ آج بھی سالانہ بنیادوں پر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔

فرید گیٹ

بہاولپور ایک ایسی تاریخی ریاست تھی جہاں شہر میں داخلے کے لیے 7 دروازے تھے اور فرید گیٹ ان 7 دروازوں میں سے وہ واحد دروازہ ہے جو آج بھی پورے جاہ و جلال کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ رات کی روشنیوں میں دمکتا ہوا یہ تاریخی دروازہ آپ کو سحر انگیز کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تاریخی شہر کی ترویج کے لیے مفید اقدامات بہالپور کے محلات، صحرا، مساجد، لائبریری اور تاریخی عمارتوں سمیت الغرض ہر طرح کی ثقافت اور ورثہ اس شہر کا خاصہ ہے۔ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی اس تاریخی اور ثقافتی شہر کی سیر اور تحقیق کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تاریخی اثاثوں کو محفوظ اور برقرار رکھنے لے لیے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے جیسا کہ یونیسکو مربوط اقدامات اٹھائیں۔ اس شہر کے محلات کی تاریخ پر دلچسپ ڈاکومینٹریز بنا کر دنیا بھر میں اس شہر کی تاریخی اہمیت، ثقافت اور ورثہ کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر اس تاریخی ورثے کی بھرپور تشہیر بین الاقوامی سیاحوں کو یہاں کا رخ کرنے کی جانب مائل کر سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیولز میں اس شہر کے تاریخی مقامات پر بنائی جانے والی ڈاکومینٹریز دنیا بھر میں پاکستان کی مثبت تصویر کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی سیاحوں کی پاکستان آمد سے نہ صرف امن کے حوالے سے ایک مثبت پیغام جائے گا بلکہ پاکستان اس سے غیر ملکی زرِمبادلہ کما کر ملکی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔ [6]

قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان

شہروں یا علاقوں کو دشمن کے حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے دفاعی نقطہ نظر سے گذشتہ ادوار میں قلعے تعمیر کیے جاتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی قدامت کی ایک بڑی نشانی ’قلعہ کہنہ‘ ہے۔ ملتان برصغیر کا صدر دروازہ تھا، جہاں سے گذرے بغیر کوئی حملہ آور آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ، مہم جُو اور جنگجو اس قلعہ کو تسخیر کرنے کے لیے اپنے بڑے لشکر لے کر آئے لیکن فتح کے بعد ہر کسی نے محلات، درباروں، بیرکوں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم جب ملتان آیا تو اس وقت قلعہ کہنہ کچی مٹی سے تعمیر شدہ تھا مگر اس کے باوجود بھی اس کی افواج اسے بآسانی فتح نہ کر سکی تھیں۔ اس بارے میں کوئی واضح تاریخ نہیں ملتی کہ اس قلعہ کو کب اور کس نے تعمیر کرایا۔ایک اندازے کے مطابق ملتان کا قلعہ2500قبل مسیح میں بھی موجود تھا۔ برطانوی دور کے آغاز میں سر الیگزینڈر کنگھم کو 40فٹ تک کھدائی کرنے کے بعد 7ہزار سال قبل کے آثار ملے۔ ان کی رائے کے مطابق ملتان کا قلعہ کہنہ آج بھی اسی جگہ قائم ہے، جہاں سکندر اعظم کے حملہ کے وقت تھا۔ 1853ء میں اپنے آرکیا لوجیکل سروے کے سلسلہ میں انھوں نے آثاریاتی کھدائیاں کیں۔ 11سال کے عرصہ میں انھوں نے قلعہ کہنہ پر دو جگہ کنویں کھدوائے، جن میں سے مختلف ادوار کی نادر اشیا برآمد ہوئیں۔انھوں نے کنوؤں کی گہرائی کے مختلف مقامات پر برآمد ہونے والی اشیا کی فہرست مختلف ادوار کو مدنظر رکھ کر مرتب کی۔ اس کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد 60فٹ گہرائی میں کی جانے والی کھدائی سے بھی ایسی بے شمار اشیا دریافت ہوئیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملتان کا قلعہ ہڑپہ کے قلعہ کی طرح کہیں زیادہ قدیم ہے۔ قلعہ کے اندر اسٹیڈیم کی تعمیرکے لیے کھودے گڑہوں سے دھات کے سکے، ہڈی کی چوڑیاں، پتھروں سے بنی مختلف اشیا، مٹی کے کھلونے، پکی مٹی کے ظروف، مختلف شکل و حجم کی اینٹیں، مٹی کے چراغ، تمباکو کی چلم، دھات کے برتن، گھونگھے، جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے وغیرہ برآمد ہوئے۔


search قلعہ کہنہ قاسم باغ ... ملتان کے تاریخی شکوہ کی علامت تعمیرات NOVEMBER 19, 2021 قلعہ کہنہ قاسم باغ ... ملتان کے تاریخی شکوہ کی علامت شہروں یا علاقوں کو دشمن کے حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے دفاعی نقطہ نظر سے گذشتہ ادوار میں قلعے تعمیر کیے جاتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی قدامت کی ایک بڑی نشانی ’قلعہ کہنہ‘ ہے۔ ملتان برصغیر کا صدر دروازہ تھا، جہاں سے گذرے بغیر کوئی حملہ آور آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ، مہم جُو اور جنگجو اس قلعہ کو تسخیر کرنے کے لیے اپنے بڑے لشکر لے کر آئے لیکن فتح کے بعد ہر کسی نے محلات، درباروں، بیرکوں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم جب ملتان آیا تو اس وقت قلعہ کہنہ کچی مٹی سے تعمیر شدہ تھا مگر اس کے باوجود بھی اس کی افواج اسے بآسانی فتح نہ کر سکی تھیں۔ اس بارے میں کوئی واضح تاریخ نہیں ملتی کہ اس قلعہ کو کب اور کس نے تعمیر کرایا۔ایک اندازے کے مطابق ملتان کا قلعہ2500قبل مسیح میں بھی موجود تھا۔ برطانوی دور کے آغاز میں سر الیگزینڈر کنگھم کو 40فٹ تک کھدائی کرنے کے بعد 7ہزار سال قبل کے آثار ملے۔ ان کی رائے کے مطابق ملتان کا قلعہ کہنہ آج بھی اسی جگہ قائم ہے، جہاں سکندر اعظم کے حملہ کے وقت تھا۔ 1853ء میں اپنے آرکیا لوجیکل سروے کے سلسلہ میں انھوں نے آثاریاتی کھدائیاں کیں۔ 11سال کے عرصہ میں انھوں نے قلعہ کہنہ پر دو جگہ کنویں کھدوائے، جن میں سے مختلف ادوار کی نادر اشیا برآمد ہوئیں۔انھوں نے کنوؤں کی گہرائی کے مختلف مقامات پر برآمد ہونے والی اشیا کی فہرست مختلف ادوار کو مدنظر رکھ کر مرتب کی۔ اس کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد 60فٹ گہرائی میں کی جانے والی کھدائی سے بھی ایسی بے شمار اشیا دریافت ہوئیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملتان کا قلعہ ہڑپہ کے قلعہ کی طرح کہیں زیادہ قدیم ہے۔ قلعہ کے اندر اسٹیڈیم کی تعمیرکے لیے کھودے گڑہوں سے دھات کے سکے، ہڈی کی چوڑیاں، پتھروں سے بنی مختلف اشیا، مٹی کے کھلونے، پکی مٹی کے ظروف، مختلف شکل و حجم کی اینٹیں، مٹی کے چراغ، تمباکو کی چلم، دھات کے برتن، گھونگھے، جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے وغیرہ برآمد ہوئے۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ ... ملتان کے تاریخی شکوہ کی علامت یہ قلعہ شہر کی تاریخی، سماجی، سیاسی، مذہبی، روحانی اور ثقافتی شکوہ کی بھی علامت ہے۔ قلعہ کو مختلف ادوار میں نقصان بھی پہنچا اور اس کی تزئین نو بھی ہوتی رہی۔ 1640ء میں مغل دور حکومت میں شہزادہ مراد بخش نے ملتان کے قلعہ کو ازسرنو تعمیر کرایا تھا۔ قلعہ سطح زمین سے 150 فٹ کی بلندی پر قائم ہے اور اس کا کُل رقبہ ایک میل سے زائد ہے۔ اونچے ٹیلے پر واقع ملتان کے اس قلعہ سے کبھی اردگرد میلوں دور کا علاقہ نظر آتا تھا۔ قلعہ کے چار دروازے (قاسم دروازہ، خضری دروازہ، سکی دروازہ اور حریری دروازہ)تھے، تاہم اب صرف بیرونی دروازہ ہی باقی ہے۔ہر دروازے کے ساتھ ایک برج جبکہ ان کے علاوہ مزید 38برج بنائے گئے تھے، جن پر ہر وقت چاق و چوبند فوجی کھڑے پہرہ دیتے تھے تاکہ دشمن پر نظر رکھی جاسکے۔ کسی زمانے میں قلعہ کے دو حصار تھے اور اس کے گرد دریائے راوی بہتا تھا۔ بیرونی حصار 150فٹ چوڑا مٹی کا ایک پشتہ تھا جبکہ اندرونی حصار پختہ اینٹوں سے بنایا گیا تھا اوریہ بیرونی حصار سے تقریباً 35سے 40 فٹ اونچا تھا۔ قلعے کی حفاظت کے لیے بیرونی حصار کے چاروں جانب 26فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق کھودی گئی تھی، جو ہر وقت پانی سے بھری رہتی تھی اور بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا تھا۔ اس کا اندرونی رقبہ تقریباً 6 ہزار600فٹ تھا۔ اس کی اندرونی فصیل اتنی چوڑی تھی جس پر کئی گھڑ سوار برابر دوڑ سکتے تھے۔ دشمن پر تیراندازی اور گولہ باری کرنے کے لیے تین دمدمے بھی بنائے گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق قلعہ کی دیواریں تقریباً 40 سے 70فٹ اونچی اور 6ہزار800 فٹ علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔قلعہ کہنہ پر موجود حضرت بہاء الدین زکریا ؒ اور حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزارات خطے کے قدیم فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ آج بھی، انہی مزارات سے ملتان شہر کے تاریخی شکوہ کی تصویر بنتی ہے۔ 1541ء میں ملتان شیرشاہ سوری کے زیرِ اقتدار آیا تو اس نے قلعہ میں دو مساجد، ایک حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے مقبرہ اور دوسری حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مقبرہ کے اندر تعمیر کرائیں۔قلعہ کی بیرونی فصیلوں کے حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30حفاظتی مینار، ایک مسجد، ایک مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ سکھوں اور انگریزوں کی یلغار نے قلعہ کہنہ کو مکمل تباہی سے دوچار کیا اور یوں اس تاریخی قلعہ نے 1848ء میں اپنا وجود کھودیا۔قیام پاکستان کے وقت قلعہ کی فصیل کے کچھ آثار موجود تھے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے۔ نومبر1949ء میں قلعہ کی تزئین وآرائش کا کام شروع ہوا اور ساتھ ہی ابن قاسم پارک بنایا گیا۔ قلعہ کی باقیات میں سے دو عمارات، دمدمہ اور نگارخانہ آج بھی اس تاریخی قلعہ کی شان و شوکت کی یاد دلاتے ہیں، جس کے نیچے ہزاروں سال کی تہذیب وثقافت کے راز دفن ہیں۔ [7]

کالاباغ، میانوالی

اس شہر کے نام کے پیچھے بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ وہ یہ کہ اس شہر کے بانی نواب آف کالاباغ نے یہاں وسیع و عریض رقبے پر آموں کے باغات لگوائے۔ یہ باغات اتنے گھنے تھے کہ اکثر دھوپ میں ان کے گہرے سبز پتے راہ چلتے لوگوں کو کالے محسوس ہوتے تھے۔ نظر کے اس دھوکے نے اس شہر کو کالے باغات کا شہر یعنی ”کالاباغ” کا نام دے دیا، جس کی وجہ سے یہاں کے نواب بھی نواب آف کالا باغ کے نام سے جانے گئے۔ اس نام کے متعلق ایک اور رائے بھی ہے۔ ترکی زبان میں کالا سے مراد “مال” اور باغ سے مراد ”منڈی” کے ہیں۔ کالاباغ کا یہ نام تجارتی اور گھریلو صنعت کے حوالے سے بہت حد تک درست بھی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نواب آف کالا باغ کی ریاست سِکھ دور سے پہلے آج کے بنوں، ڈیرہ اسمٰعیل خان، بھکر اور میانوالی تک پھیلی ہوئی تھی، جب کہ آج کا کالاباغ شہر نواب کے قلعے کے اردگرد تک پھیلا ہوا ہے۔ قلعہ نواب صاحب کے نام سے پکارا جانے والا یہ قلعہ آج بھی نوابوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

جب خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ٹانک اور بنوں کو ریلوے لائن کے ذریعے پنجاب اور دیگر علاقوں سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو کالاباغ کے مقام پر ایک پُل کی ضرورت محسوس کی گئی جس پر سے ریل گزاری جا سکے۔ نارتھ ویسٹ ریلوے کے افسر ڈبلیو-ڈی کروکشینک کی 1929 میں مرتب شدہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ؛

اس پُل کے لیے 1888 سے سروے شروع کردیے گئے، جب کہ 1919 سے 1924 تک تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ آخرکار 1927 میں اس منصوبے کی منظوری دے کر کام شروع کر دیا گیا۔ یہ پل صرف ریل کے گزرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جس پر پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی انتظام نہ تھا۔ اِس نے سندھ کے مشرق میں چوڑے گیج کی لائن کو مغرب میں واقع 2 فٹ 6 انچ کی تنگ لائن سے منسلک کرنا تھا۔ پل کا بنیادی مقصد ریل کو لاہور سے آگے بنوں اور کوہاٹ سے لے کر وزیرستان تک پہنچانا تھا تاکہ برطانوی افواج کو رسد مہیا کی جا سکے۔

مگر ہماری بدقسمتی کہ 1990 میں ریل کے نظام پر اسی پل کے مقام پر ”پُل اسٹاپ” لگا دیا گیا یعنی ماڑی اسٹیشن جو عین اس پل کے مشرقی حصے پر واقع ہے وہاں تک ریل کا سفر محدود ہو گیا۔ اس پل کو ٹھیک اس جگہ بنایا گیا ہے جہاں سے دریائے سندھ پہاڑیوں سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ 1929 کے سیلاب کے بعد پل کا ڈیزائن بدلا گیا اور اسے ماڑی انڈس کی طرف سے خشکی پر اور لمبا کر دیا گیا۔ ماڑی اور کالاباغ کو ملانے والا یہ پل ایوب خان کے دور تک پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر تھا مگر بعد میں بنوں کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کو میانوالی کے ساتھ ملا دیا گیا اور یہ صوبہ پنجاب کی جھولی میں آگیا۔ جو ٹریک ماڑی سے بنوں تک بچھایا گیا تھا اس کی چوڑائی صرف اڑھائی فٹ تھی اور اس پل کی تعمیر بھی ٹریک کے مطابق ہی کی گئی تھی۔ 1995 تک یہاں سے مسافر ٹرین بنوں تک جاتی رہی جسے بعد ازاں مستقل طور پر بند کر دیا گیا اور یہ پل حکام کی عدم توجّہ سے خستہ حالی کا شکار ہو گیا۔ اس کی تعمیر میں استعمال کیے گئے دیار کی لکڑی کے پھٹے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع بھی ہوئیں۔ تقریباً ایک صدی پرانا یہ پل آج پاکستان کا سب سے قدیم پل مانا جاتا ہے، جس پر کھڑے ہو کر آپ بیک وقت کالاباغ، بوہڑ بنگلہ، ماڑی انڈس اور جناح بیراج کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یقیناً یہ پل کسی شاہ کار سے کم نہیں۔

دریائے سندھ کے کنارے نواب آف کالاباغ کے تاریخی مہمان خانے کو “بوہڑ بنگلہ ” کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ بنگلہ کے وسط میں ڈیڑھ سو سالہ پْرانا “برگد” کا ایک درخت ہے۔ نواب آف کالاباغ اسی درخت کے نیچے بیٹھک لگا کر عوام الناس کے مسائل سنا کرتے اور موقع پر فیصلہ کیا کرتے تھے۔ اس بنگلے میں ملکہ الزبتھ سے لے کر پرویز مشرف تک بے شمار ملکی اور غیر ملکی شخصیات جن میں جواہر لعل نہرو اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بھی شامل ہیں، قیام کرچکی ہیں۔ سفید رنگ کے اس بنگلے کو میانوالی کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ضلع کی سیاست میں جو فیصلہ بوہڑ بنگلہ کر دیتا وہی پورے ضلع کا فیصلہ ہوا کرتا۔ ایک طرف دریائے سندھ کا ٹکراتا ہوا پانی تو دوسری جانب قدیم گھنا بوہڑ کا درخت، بوہڑ بنگلہ واقعی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بوہڑ بنگلے کی دوسری جانب ہی نواب آف کالاباغ کی رہائش گاہ، اصطبل اور مہمان خانہ واقع ہے۔ مہمان خانے کی عمارت بھی اپنی مثال آپ ہے جسے دیکھنے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ یہ مہمان خانہ ایک استقبالی کمرے، ایک ہال، ڈائننگ روم اور ایک برآمدے پر مشتمل ہے جس کے ساتھ کھلا صحن واقع ہے۔ اس عمارت کو بھورے پہاڑی پتھر سے بنایا گیا ہے۔ یہاں سے کالاباغ کی پہاڑیوں کا دل کش نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مہمان خانے میں نواب صاحب کی چند قیمتی تصاویر، دستاویزات اور غیر ملکی سربراہوں کی طرف سے دیے جانے والے تحائف بھی رکھے گئے ہیں، جب کہ کھانے کے کمرے میں برطانوی طرز کے برتن اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ یہ مہمان خانہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ اگر آپ کالاباغ جائیں تو بوہڑ بنگلہ دیکھے بنا واپس مت آئیے گا۔

دریائے سندھ کے علاوہ کالاباغ کی ایک پہچان ”سلاگر” کا بلند و بالا پہاڑ بھی ہے جو کالاباغ کا سب سے بڑا پہاڑ ہے اور دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ سلاگر کے معنی ہیں مسلسل یا لگاتار کیوںکہ اس پہاڑ کی ڈھلوان لگاتار بڑھتی جاتی ہے اس وجہ سے اسے سلاگر کا نام دیا گیا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر کچھ قبریں بھی موجود ہیں۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ ایک ہی دور کی قبریں ہیں جنہیں بعد میں اصحابؓ رسولؓؐ سے منسوب کر دیا گیا لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں بتا سکا۔

ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ کھیوڑہ میں پاکستان کی سب سے بڑی نمک کی کان واقع ہے، لیکن اس کے علاوہ ہمیں کبھی کسی اور نمک کی کان کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کالاباغ شہر کے اندر ہی دو تین نمک کی کانیں واقع ہیں جن میں سے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) سالٹ مائین سب سے مشہور ہے۔ یہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے جہاں سے روم اور پلر کے اصول کے مطابق نمک نکالا جاتا ہے۔ یہاں کچھ چیمبر 80 میٹر تک گہرے ہیں جہاں آج بھی کاری گر ہاتھوں سے نمک نکاتے ہیں۔ یہاں تقریباً 13 مختلف اقسام اور رنگوں کا نمک نکالا جاتا ہے جسے چھوٹی چھوٹی ٹرالیوں میں بھر کر دوسرے شہروں کو منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کا سفید و گلابی نمک 96 فی صد خالص ہے۔ 2018 میں یہاں سے ایک لاکھ بیالیس ہزار پانچ سو چالیس ٹن نمک نکالا گیا تھا۔ نمک کے علاوہ کالاباغ لوہے کی پیداوار میں بھی مشہور ہے۔ خام لوہے کے یہ ذخائر مکڑوال سے کالاباغ اور پھر سکیسر تک پھیلے ہوئے ہیں۔

کالاباغ کا ریلوے اسٹیشن اگرچہ کوئی مشہور مقام نہیں ہے نہ ہی یہاں کوئی جاتا ہے لیکن عبرت پکڑنے کے لیے یہ جگہ سب سے بہتر ہے۔ ایک زمانے میں چہل پہل اور ریلوے انجن کی سیٹیوں سے گونجتا یہ خوب صورت ریلوے اسٹیشن آج ویران اور اجاڑ جگہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کالاباغ ریلوے اسٹیشن کے نام پر آج یہاں ایک بند دروازے والا گودام ہے جس کے سامنے چھوٹے بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس کے ماتھے پر موہوم سے نشانات ہیں جنہیں غور سے پڑھیں تا کالاباغ کے الفاظ دکھائی دیں گے بس یہی اس کے ریلوے اسٹیشن ہونے کی نشانی ہے۔ اس کے سامنے آج بھی ریلوے کا تباہ حال ٹریک ہماری نااہلی کا رونا رو رہا ہے جس پر ایک زمانے میں بنوں تک ریل جایا کرتی تھی جسے بھاپ سے چلنے والے انجن کھینچتے تھے۔ بنوں جانے والی ٹرین کا دُخانی انجن جب یہاں رکتا تھا تو اس کے عقب میں سلاگر پہاڑ کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

پنجاب میں دریائے سندھ اور جہلم کے بیچ کے دوآبے کو ”سندھ ساگر دوآب” کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ زیادہ تر بنجر، بے آب و گیاہ زمینوں اور صحرائے تھل پر مشتمل تھا۔ پھر ایک شاہ کار منصوبے نے اس علاقے کی قسمت بالکل بدل دی اور یہ تھا 1946 میں دریائے سندھ پر بنایا جانے والا جناح بیراج جو کالاباغ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ بیراج تھل پراجیکٹ کا ایک حصہ ہے جس سے انیس لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کی جاتی ہے۔ اس بیراج سے پانی گریٹر تھل کینال میں ڈالا جاتا ہے اور اس کے ذریعے میانوالی، بھکر، خوشاب، لیہ اور مظفرگڑھ تک کے اضلاع کی لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب کی جاتی ہے۔ تھل کینال نہ صرف صحرائے تھل کی سرسبزوشادابی کی امین ہے بلکہ اہل تھل کے باسیوں کی معیشت کی شہ رگ بھی ہے۔ اس بیراج پر رات کا شان دار نظارہ کرنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اب چلتے ہیں ایک اور تاریخی شہر کی طرف جو کالاباغ برج کے دوسری جانب واقع ہے۔ یہ ہے ماڑی جسے ماڑٰی انڈس بھی کہا جاتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا خوب صورت قصبہ ہے لیکن اس کی ایک مستند تاریخی، ثقافتی، جغرافیائی اور معاشی حیثیت ہے۔ ماڑی انڈس مندرجہ ذیل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

ماڑی انڈس سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ کنارے ماڑی واقع ہے جو ایک قدیم گاؤں ہے۔ یہ جگہ اپنے قدیم ہندو مندروں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی اور خوب صورت پہاڑیوں کے بیچ بسا ہوا یہ گاؤں زمانہ قدیم میں ہندو مذہب میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں مغرب کی طرف موجود ایک پہاڑی پر دو قدیم تاریخی ہندو ” شِومنوتی مندر ” واقع ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سکندراعظم نے اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں پڑاؤ ڈالا تھا اور ماڑی کے مقام سے دریائے سندھ عبور کر کے دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تھا جہاں راجا پورس کے ساتھ اس کا گھمسان کا رن پڑا تھا۔ انھیں دنوں ماڑی اور آس پاس کے علاقوں میں نندا خاندان کی حکومت تھی۔ اس وقت کی حکومت نے سکندر سے تعاون کرتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا اور یہ علاقہ بغیر جنگ و جدل کے فتح ہو گیا تھا۔ سکندر کے جانے کے بعد یہاں کے حکم راں کے اپنے بیٹے چندر گپت موریہ سے اختلافات شدید ہو گئے تھے اور راجا نے زبردستی اسے اپنی سلطنت سے نکال دیا تھا۔ کسی طرح اس نے چند باغی اور ہم خیال لوگوں کی فوج بنائی اور ماڑی پر حملہ آور ہو گیا اور اپنے باپ کو شکست فاش دینے کے بعد اپنی حکومت قائم کرلی۔ چندر گپت موریہ کی جائے پیدائش کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ میانوالی کے قریبی گاؤں پپلاں میں پیدا ہوا تھا اور انتہائی سخت جان اور باغی طبیعت کا مالک تھا۔ ان مندروں کا طرزِتعمیر بھی کوہستان نمک کے دوسرے مندروں جیسا ہے جو کٹاس راج، ملوٹ، بلوٹ اور کافر کوٹ میں واقع ہیں۔ ماڑی کے ان مندروں تک جانے کے لیے دو اطراف سے پیدل ٹریک جاتے ہیں، جب کہ تیسری طرف دریائے سندھ اور چوتھی طرف قدرے ناہموار پہاڑی سلسلہ ہے۔ [8]

چشمہ بیراج، میانوالی

چشمہ بیراج آبپاشی اور سیلاب سے بچاو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چشمہ بیراج 1966 میں شروع ھوا اور 1971 میں مکمل ہوا.چشمہ بیراج سے دو نہریں نکالی گیئ ہیں۔چشمہ جہلم لنک کینال مشرقی سایئڈ سے اور رائیٹ بینک کینال مغربی سائیڈ سے۔رائیٹ بینک کینال کی سائیڈ پر ھائیڈرو پاور بھی بنایا گیا ہے جو 180 میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے جبکہ ایک اور نہر رائیٹ پر زیر تجویز ہے جس پر ایک اور ھائیڈرو پاور بھی زیر غور ہے۔ یہ جس جگہ بنایا گیا، وہاں ایک گاؤں بکھڑا شریف آباد تھا جو تلوکر کا پہلا گاؤں مانا جاتا ہے اس کے جنوب میں دوسرا بکھڑا میاں غلام محمد تھا اور شمال میں دولانوالہ تھا۔اس کے شمال میں مہانڑانوالہ ۔۔حسین خیلانوالہ اور اس کے شمال میں سیلو ۔۔بانڑ کے گاؤں آباد تھے۔اس وقت چشمہ بیراج کی دونوں طرف تلوکر قبیلہ کی آبادیاں ہیں۔اس کے مشرق میں کچہ کالو ۔۔شیرے خیلانوالہ ۔۔۔یارو خیلانوالہ ۔۔سکو خیلانوالہ ہیں جبکہ مغرب میں خطہ ء اطلس ۔۔۔شاہباز خیلانوالہ ۔۔۔جلال خیلانوالہ ۔۔فوجے خیلانوالہ و بلوچی خیلانوالہ ہیں۔آج کل یہ یونین کونسل کچہ گجرات کے ساتھ ہے جبکہ پہلے یہ یونین کونسل کھولہ کا ہی حصہ تھا۔یہ ساری آبادی قدیم بکھڑا سے بچ جانے والے رقبہ پر مشتمل ہے اور موضع بکھڑا کہلاتی ہے ۔۔ چشمہ بیراج و جھیل کی وجہ سے کچہ میں بسنے والے تلوکر قبیلہ کے لوگ تو اپنے تھل کے گھروں میں منتقل ہو گیئے جو ڈنگ کھولہ وغیرہ پر مشتمل تھے جبکہ باقی کے متاثرین مختلف جگھوں پر نقل مکانی کر گیئے جن میں کندیاں ۔۔علووالی ۔۔دوآبہ کے ساتھ میانوالی و عیسی' خیل و آس پاس کے علاقے شامل ہیں۔تقریباً 28 موضع جات اس چشمہ بیراج کی وجہ سے متاثر ھوئے۔ان متاثرین میں تلوکرقبیلہ کا سب سے زیادہ شیئر ہے۔

فورٹ منرو

فورٹ منرو (Fort Munro) ڈیرہ غازی خان میں سطح سمندر سے 6470 فٹ کی بلندی پر ایک پہاڑی مستقر ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے قریباً 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ملتان سے اس کا فاصلہ تقریباً 185 کلومیٹر ہے۔ فورٹ منرو جانے والا راستا پاکستان میں ایک ’اوپن ائیر میوزیم‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس پرفضاء مقام پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب جنوبی پنجاب میں سورج غضب کی گرمی برساتا ہے تو عوام کی ایک بڑی تعداد اس پر فضاء اور ٹھنڈے تفریحی مقام کا رخ کرتی ہے۔ فورٹ منرو کو اگر جنوبی پنجاب کا مری کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ فورٹ منرو میں سہولیات کی کمی ہے، اگر اس علاقے میں سہولیات فراہم کر دی جائیں تو اس علاقے کو پاکستان میں گرمیوں کی بہترین سیر گاہ (سمر ریزورٹ Summer Resort) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ماڑی

ماڑی, ضلع راجنپور سرائیکی وسیب میں واقع تحصیل جامپور کا ٹرائبل ایریا ہے جو جام پور سے ہی لگ بھگ 100کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ پُرفضا آب و ہوا کی مناسبت سے اسے صحت افزاء مقام قرار دیا جا چکا ہے۔ شدید گرمیوں کے موسم میں یہاں کی ٹھنڈک کی وجہ سے اسے جنوبی پنجاب کا "مرّی" بھی کہا جاتا ہے۔ موسم چاہے جو بھی ہو, ماڑی میں ٹھنڈی ہوا کبھی نہیں رکتی. ہوا اس قدر ٹھنڈی ہوتی ہے کہ آپ دھوپ میں چاہے جتنا پیدل چل لیں, آپ کو پسینہ نہیں آئے گا. عصر کے وقت سے موسم ٹھنڈا ہونا شروع ہوتا ہے تو یہی ہوا آپ کو مغرب کے وقت تک شالیں یا لحاف پہننے پر مجبور کر دے گی. ماڑی ٹاپ پر ہوا کبھی نہیں تھمتی مگر جس دن ہوا کا دباؤ کم ہو جائے تو سمجھ لیجئے کہ موسلادھار بارش آنے والی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 4800 سے 5000 فٹ کے درمیان ہے۔ اگر آپ نے ماڑی جانا ہے تو آپ کو پہلے جام پور آنا ہو گا. جام پور کیوں آنا ہو گا, اس کی وجہ یہ ہے کہ تحصیل جام پور تاریخی حوالے سے بہت ہی زرخیر ہے۔ جام پور آنے سے آپ کو کم وقت میں بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا.

جام پور میں ہی آپ کو لال حویلی و مسجد جیسی خوبصورت و دلفریب عمارات ملیں گی جو شاہی طرز تعمیر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ قدیم عمارات کی اگر بات کی جائے تو جام پور میں ان کی کمی نہیں ہے۔ اندرون ڈیمز گیٹ یا سرکلر روڈ کے اندر والا سارا علاقہ قدیم طرز تعمیر کی دولت سے مالا مال ہے۔ جام پور کا فرنیچر پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ, پین نقاشی جو یہیں سے شروع ہوئی, مولانا عبیداللّٰہ سندھی جیسے عظیم لوگوں کی درسگاہ, ماڈل ہائی اسکول جام پور اور لکڑی پر نقش و نگاری کا کام یہاں کا خاصہ ہے۔ پورے پاکستان سمیت افغانستان و دیگر ممالک جہاں جہاں نسوار کھائی جاتی ہے, وہ آپ کو یہاں سے ہی ملے گی. صرف جام پور شہر کو ہی تسخیر کرنے کے لیے, اگر آپ عجلت بھی کریں تو, پورا دن درکار ہو گا.

جام پور سے مغرب کی طرف 5کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی شہر "ٹھیڑھ دَلْو رائے" موجود ہے جسے دیکھے بغیر آپ آگے نہیں جا سکتے. ٹھیڑھ دَلْو رائے" سے مغرب کی طرف 16کلومیٹر، داجل آپ کا دوسرا اسٹاپ ہے۔ یہاں اگر آپ نہ رکے اور یہاں کے مشہور "کھیر پیڑے" نہ کھائے جو پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو آپ کی خود کے ساتھ زیادتی ہو گی.

مزید مغرب کی طرف ہڑند روڈ ہے۔ ہڑند روڈ سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی طرف ایک سڑک آپ کو مشہور بزرگ امیر حمزہ_سلطان لے جائے گی, اگر آپ جانا چاہیں تو۔ اگر امیر حمزہ سلطان نہیں جانا تو آپ ہڑند روڈ سیدھا مغرب کی طرف چلے جائیں. 7 کلومیٹر کے فاصلے پر آپ کو چوکی ریخ ملے گی جہاں آپ کو ریت کے بڑے بڑے ٹیلے نظر آئیں گے اور ساتھ ہی قدیم طرز کی مسجد اور کنواں بھی دیکھنے کو ملے گا جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہو چکے ہیں۔

مزید مغرب کی طرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر دو روڈ آئیں گے. ایک سیدھا, مغرب کی طرف جو آپ کو مڈ رندان, ٹبی لنڈان اور مشہور درہ کاہ سلطان اور کاہ سلطان کے نزدیک مشہور جگہ سہل_بن_عدی کے مزار پر لے جائے گا۔ اگر آپ وہاں نہیں جانا چاہتے تو ہڑند روڈ جہاں سے آپ مغرب کی طرف سیدھا چل کے مڈ رندان والے رستے گئے تھے, وہاں سے جنوب کی طرف مڑ لیں. راستے میں قبول_چوک آئے گا. وہاں سے مزید دو راستے ہیں, اگر آپ مشہور قلعہ_ہڑند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ شمال کی طرف 3 کلومیٹر چلے جائیں, اگر آپ نے ماڑی جانا ہے تو جنوب کی طرف لنڈی سیدان چلے جائیں.

لنڈی سیدان سے مغرب کی طرف ماڑی روڈ پر روانہ ہو لیں. راستے میں آپ جلیبی موڑ جیسے خوب صورت روڈ سے گزریں گے. 15 کلومیٹر کے فاصلے پر آپ کو شہزاد گور کا اسٹاپ ملے گا. اگر آپ نے نیلا پانی, سفید ریت اور خوبصورت مناظر دیکھنے ہیں تو شمال کی طرف 15 کلومیٹر مٹ کُنڈ جسے کالا پانی یا انگریز والی ڈھنڈ بھی کہتے ہیں وہاں چلے جائیں.

اگر آپ نے مٹ کنڈ نہیں جانا تو آپ پھر شہزاد گور سے سیدھا مغرب کی طرف چلتے جائیں. راستے میں آپ کو "مقناطیسی پہاڑی" کے نام سے مشہور ایک راستہ ملے گا جہاں آپ کو سڑک بظاہر سیدھی دکھائی دے گی مگر آپ کی گاڑی مشکل میں پڑ جائے گی. کہا جاتا ہے کہ اس جگہ پر پہاڑ میں مقناطیسیت زیادہ جو گاڑیوں کے لوہے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہاں سے آگے چلتے چلے جائیں, آپ ماڑی پہنچ جائیں گے. وہاں آپ کو ہر سہولت ملے گی. قیام و طعام کے ریٹس آپ کی سوچ سے بھی انتہائی کم ہیں۔

راستہ کافی حد تک مہم جوئی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے یہاں جو دوست بھی آئے, تمام آسائشات کو ایک طرف رکھ کر سفر کرے کیوں کہ آپ کو راستے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں, خطرناک موڑیں, کبھی نہ ختم ہونے والی چڑھائی اور بارش کی وجہ سے وجود میں آئیں رودکوہیاں آپ کے استقبال کے لیے ہمہ وقت موجود ہیں۔ [9]

کوٹ مٹھن شریف

کوٹ مٹھن شریف، حضرت خواجہ غلام فرید کی جائے مدفن کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ سرائیکی زبان کے نامور صوفی شاعر تھے۔ ان کو ہفت زبان شاعر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے سرائیکی کے علاوہ اردو، پنجابی، فارسی، سنسکرت اور انگریزی میں بھی نظمیں کہیں ہیں۔ یوں کل ملا کر سات زبانیں بنتی ہیں۔یہ شہرماضی قریب میں ایک شاندار تجارتی بندرگاه رہا ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد ہے۔ جبکہ اس کے عین سامنے دریا سندھ کے مشرقی کنارے پر چاچڑاں شریف واقع ہے۔

پتن منارہ

رحیم یار خان سے جانب جنوب 8 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے۔ پتن منارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندراعظم نے تعمیر کروایا تھا۔ اور یہاں اک بہت بڑی درسگاہ تعمیر کی تھی۔ جبکہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا۔ اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا ہاکڑا یا گھاگھرا پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندراعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا۔ جس کا نام پتن منارہ تھا۔

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یہ مینار شائد سکندراعظم نے تعمیر کروایا یا اس سے پہلے ہی موجود تھا۔ اس لیے اوپر عنوان کے ساتھ جو 326 قبل مسیح کا سال لکھا گیا ہے۔ وہ پتن منارہ کی تاریخ تعمیر ہے اور یہ ایک محتاط اندازے سے ہے۔ اس سال سکندر اعظم نے اس علاقے میں پڑاؤ ڈالا تھا اور یہ مینار تعمیر کروایا تھا۔

پتن پور موہن جوڈارو اور ٹیکسلا کی تہزیبوں کا امین رہا ہے۔ اور تاریخ میں ہندومت، بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے۔ اس کے کنارے بہنے والا دریا ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہو گیا۔ دریا خشک ہونے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ اور ایک وقت آیا کہ پورا علاقہ ویران ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق پتن منارہ خزانہ دفن ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں 1849 میں کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔

رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد پتن پور جو کبھی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار تھا، آج یہ کھنڈر اس کی داستان بتانے سے بھی قاصر ہیں۔ دریائے ہاکڑہ نے اپنا رستہ بدلا تو لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے۔ آج یہ صرف اینٹوں کا مینار باقی رہ گیا ہے۔ جو کسی وقت بھی زمین بوس ہونے والا ہے۔ قریبی گاؤں کے پچھلی طرف سے اس مینار کا راستہ ہے۔ احاطے میں داخل ہوکر سامنے پرانی سیڑھیاں ہیں۔ جو مینار کے اوپر تک جاتی ہیں۔ مینار کا کافی حصہ زمین میں دھنس چکا ہے۔ پتن پور تہذیب کی آخری نشانی پتن منارہ کی بحالی کے لیے محکمہ آرکیالوجی کی طرف سے لاکھوں کے فنڈز بھی جاری ہوئے مگر بات کاغذی کارروائیوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر پتن منارہ کی حفاظت پر فوری توجہ نا دی گئی تو آنے والے چند سالوں میں اس کا شائد نشان ہی باقی رہ پائے۔

پتن منارہ کے قریبی گاؤں میں ایک 1840 کی دہائی کی قدیم مسجد بھی ہے۔ جسے وہاں کے مقامی راہنما ابوبکر سانول نے تعمیر کروایا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسجد بھی محکمہ اوقاف اور آثارقدیمہ کی نااہلی پر نوحہ کناں ہے۔ محمکہ آثار قدیمہ اور محمکہ سیاحت پنجاب سے گزارش ہے کہ پتن منارہ کی حفاظت اور بحالی کا کام شروع کیا جائے۔ تاکہ یہ تاریخی ورثہ آنے والی نسلیں کیلے محفوظ ہو سکے۔

کھیل

ترقیاتی منصوبے

جنوبی پنجاب میں درج منصوبے اہم ہیں جو یا تو مکمل کیے جا چکے ہیں، ان پر کام ہو رہا ہے یا مشاورت کی جا رہی ہے۔

  • جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ ملتان کی عمارت کی تعمیر
  • قومی منصوبہ برائے پختگی کھالہ جات
  • نہروں کی پختگی کے منصوبے
  • دریائے ستلج میں بہاولپور کے مقام پر مصنوعی جھیل کا منصوبہ
  • میٹرو بس ملتان فیز 1 اور 2
  • قائد اعظم سولر پارک لال سہانرا، بہاولپور
  • کالاباغ ڈیم، ضلع میانوالی کی تعمیر کا منصوبہ
  • تھل یونیورسٹی بھکر کے قیام کا منصوبہ
  • سپیڈو بس سروس، بہاولپور تا لودھراں

تعلیمی ادارے

  • اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپُور
  • بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
  • غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان
  • گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان
  • چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز بہاولپُور
  • نمل یونیورسٹی میانوالی
  • تھل یونیورسٹی بھکر
  • یونیورسٹی آف میانوالی
  • خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان
  • میر چاکر رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان
  • محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان
  • محمد شہباز شریف زرعی یونیورسٹی ملتان
  • ایمرسن یونیورسٹی ملتان
  • قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپُور
  • نشتر میڈیکل کالج ملتان
  • شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان
  • گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپُور
  • عیسیٰ خیل کیڈٹ کالج ضلع میانوالی

نشریاتی مراکز

2008ء میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان ٹیلی ویژن کا ملتان مرکز قائم کیا جو خطے کے فنکاروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل نشریاتی ادارے اس خطے میں کام کر رہے ہیں:

  1. پی ٹی وی نیشنل ملتان
  2. روہی ٹی وی
  3. وسیب ٹی وی
  4. ریڈیو پاکستان بہاولپور، ملتان، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان

اخبارات و رسائل

  1. ملتان سے باقاعدہ شائع ہونے والے اخبارات، روزنامہ خبریں، نوائے وقت، جنگ، ایکسپریس، پاکستان
  2. ماہنامہ لولاک، ملتان، ترجمان عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
  3. ماہنامہ الہام، بہاولپور
  4. روزنامہ جھوک، ملتان

سیاسی جماعتیں

  • سرائیکی لوک سانجھ
  • پاکستان سرائیکی پارٹی
  • سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی
  • سرائیکستان قومی کونسل
  • سرائیکی لوک پارٹی
  • سوجھل دھرتی واس
  • پاکستان سرائیکی قومی اتحاد
  • پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب
  • پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب
  • استحکام پاکستان پارٹی
  • مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب
  • جماعت اسلامی جنوبی پنجاب

مزید

حوالہ جات

  1. https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5206829502769672&id=100003280217936
  2. https://www.express.pk/story/627735/?amp=1
  3. ملتان کی قدیم صنعتیں، تحریر شیراز اویسی، https://www.facebook.com/groups/137074120243287/permalink/948735715743786/
  4. https://www.graana.com/blog/ur/top-10-historical-places-in-bahawalpur/amp/
  5. https://www.graana.com/blog/ur/top-10-historical-places-in-bahawalpur/amp/
  6. https://www.graana.com/blog/ur/top-10-historical-places-in-bahawalpur/amp/
  7. جنگ ڈاٹ کام، تعمیرات، 19 نومبر 2021ء
  8. کالاباغ اور ماڑی انڈس، ایکسپریس ڈاٹ پی کے، 22 ستمبر 2019ء، تحریر ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری
  9. تحریر راشد عزیز بھٹہ، https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10160973694739018&id=555199017