حدیث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے قبل عرب حدیث بامعنی اخبار (مطلب اللہ کے پیغام۔کو۔اسان کر کے سمجھا دینے کے ہیں مطلب معنی اسان کرتے تھے، مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث سے تعبیر کرتے تھے، اسی لیے حضرت امام علی اور صحابہ کرام کا کہنا ہے کہ حدیث کی جمع احادیث ہے، [1] لفظ حدیث کے مادہ کو جیسے بھی تبدیل کریں اس میں خبر آسان کر دینے کا مفہوم ضرور موجود ہو گا، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وجعلناہم احادیث، [2] فجعلناہم احادیث، [3] اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا، [4] فلیاتو حدیث مثلہ، [5]یہ اللہ پاک نے خود قرآن مجید بہت ساری آیات میں کہا ہے حدیث ہمارے لیے قرآن مجید کے مشکل الفاظ کو آسانی سے سمجھنے اور سمجھانے والے ہمارے پیارے پیغمبر رسول صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کے امتی کو کے سمجھو دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آسانی سے سمجھنے کے لیے سب کچھ ٹھیک ٹھیک سے قرآن حدیث فقہ معنی قرآن و حدیث محمد کی تعلیم سے سمجھایا ہے

بعض علما کے نزدیک لفظ حدیث میں جدت کامفہوم پایا جاتاہے، اس طرح حدیث قدیم کی ضد ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:- المراد بالحدیث فی عرف الشرع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، وکانہ ارید بہ مقابلۃ القرآن لانہ قدیم[6] شرعی اصطلاح میں حدیث سے وہ اقوال واعمال مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں، گویا حدیث کا لفظ قرآن کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے، اس لیے کہ قرآن قدیم ہے اور حدیث اس کے مقابلہ میں جدید خاص ہے، اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں المراد بالحدیث فی عرف الشارع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم[7] الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف الی ما حدث بہ عنہ بعد النبوۃ من قولہ وفعلہ واقرارہ[8] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اقوال کو حدیث کا نام دیا ہے، آپ ہی نے یہ اصطلاح مقرر فرمائی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابوہریرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی شفاعت کی سعادت کس کو نصیب ہوگی آپ نے جوابًا فرمایا ابو ہریرہ سے پہلے کوئی شخص مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا کیونکہ وہ طلب حدیث کے بہت حریص ہیں۔[9][10]اس لیے قرآن مجید تو تعریف خدا ہے اور خدا پاک نے تعریف محمد خود بیان کی ہے قرآن مجید میں اور قرآن مجید کے معنی ہیں تحقیق حدیث مبارک سے جس کے لیے یہ خوش حالی کا زمانہ ہے اور یہ سب سے زیادہ ہوگی اور وہ ہی ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے والے افراد کی زندگی میں سکون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

حدیث کی شرعی حیثیت[ترمیم]

کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس سوچ انسانی ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی، جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:1/279) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے،

حدیثِ رسول قرآن کی نظر میں[ترمیم]

حدیث رسول کی اسی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُّوحَى۔ (النجم:3،4)

ترجمہ:یعنی رسول اپنے جی سے نہیں بولتے، وہ بس اللہ کے پاس سے آئی ہوئی وحی ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: مَااٰتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔ (الحشر:7)

ترجمہ:جوتمھیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ؛ نیز رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا۔ "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔ (النساء:80)

ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ک اطاعت کی۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ"۔ (آل عمران:31)

ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ اگرتم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتوتم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ نیز جوشخص حکم رسول کو نہ مانے اسے قرآن نے مؤمن قرار نہیں دیا ہے اور قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ شخص اس دنیا میں مصیبت میں مبتلا رہے گا اور آخرت میں دردناک عذاب چکھے گا، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: "فَلَاوَرَبِّكَ لَايُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَايَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"۔ (النساء:65)

ترجمہ:پھرقسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑے واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کراویں؛ پھرآپ کے اُس تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورے طور پر تسلیم کر لیں۔ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب الرسالۃ میں آیت قرآنی "وَمَاأَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ" (البقرۃ:231) کے بارے میں لکھا ہے کہ "اس آیت میں حکمت سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث مراد ہے؛ کیونکہ الکتاب کے ساتھ واوِعطف کے بعد حکمت کا ذکر ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اس احسان کو بیان کیا ہے جو اس نے "الکتاب" قرآن کریم اور حکمت (حدیثِ رسول) کی تعلیم دے کر کیا ہے، اس لیے یہاں الحکمۃ سے حدیثِ رسول ہی مراد ہے، اس کے علاوہ کچھ اور مراد لینا درست نہیں ہے"۔ (الرسالۃ:1/13)

نیز اللہ تعالی ٰنے اپنے رسول کے اوپر قرآن نازل کیا اور قرآنی آیات کی تشریح کی ذمہ داری اپنے رسول پر ڈالی، ارشادِ ربانی ہے: "وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ"۔ (النحل:44)

ترجمہ:اور ہم نے تمھاری طرف الذکر یعنی قرآن نازل کیا؛ تاکہ تم لوگوں کے ساتھ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کو کھول کھول کر بیان کرو۔ ان تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احادیثِ رسول، اللہ کی وحی کا حصہ اور قرآن کی تفسیر ہیں، ان کے بغیر نہ دین کی صحیح تفہیم ہو سکتی ہے اور نہ دین عملی زندگی میں پوری طرح جاری ہو سکتا ہے؛ اسی لیے حضرت عمران بن حسینؓ سے ایک شخص نے جب سوال کیا اور آپ نے اس کے جواب میں حدیث سنائی تو اس نے کتاب اللہ سے جواب دینے کے لیے کہا تو آپ نے کہا "انک امرءاحمق" تم احمق آدمی ہو، کیا تم قرآن میں یہ پاتے ہو کہ ظہر کی نماز میں چار رکعات فرض ہیں، جس میں بآواز بلند قرآن پڑھا نہیں جاتا؛ اسی طرح انھوں نے مختلف نمازوں کو گنایا اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر کیا؛ پھرفرمایا:کیا یہ سب تم قرآن میں تفصیل سے پاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ نے ان سب کواجمالاً بیان کیاہے اور سنت ہی اس کی تفصیل کرتی ہے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ:3/62)

حدیث خودرسول کی نگاہ میں[ترمیم]

خود رسول اللہﷺ نے اپنے فرمودات پر عمل کرنے اور اس کو بحفاظت تھامے رکھنے کے بارے میں کئی مواقع پرتاکید کی ہے، آپﷺ نے فرمایا: "فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ"۔ (مشکوٰۃ شریف:30)

تمھارے لیے میری سنت لازم ہے۔

"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔(مشکوٰۃ شریف:29)

:میں تمہارے درمیان میں دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔

(محمدﷺ)


"اَلَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ"۔(مشکوٰۃ شریف:29)

ترجمہ:یادرکھو! مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک چیز

(محمدﷺ)


"خُذُوا عَنِّي مَنَاسِككُمْ"۔ (فتح الباری:1/290)

حج کے ارکان مجھ سے سیکھو۔

(محمدﷺ)


حدیث اصحابِ رسول کی نگاہ میں[ترمیم]

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے کہا:اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو گودنا کراتی یاکرتی ہیں اور ان پر جو چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں اور حسن وزیبائی کے لیے دانتوں کے درمیان میں دراڑ پیدا کرکے اللہ کی تخلیق میں تغیر کرتے ہیں، اس حدیث کو بنواسد کی ایک عورت نے سنا توحضرت عبد اللہ بن مسعود سے کہا آپ کی یہ روایت مجھ تک پہنچی ہے اور معلوم ہوا کہ آپ فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ نے کہا میں اس پر کیسے لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے، عورت نے کہا میں نے بھی قرآن پڑھا ہے؛ لیکن مجھے تواس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی، حضرت عبد اللہؓ نے کہا :اگرتو نے غور سے پڑھا ہوتا توضرور نظر آتی، کیا اللہ نے نہیں فرمایا: مَااٰتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُو (الحشر:7)۔ (مشکوٰۃ شریف:381)

شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنی کتاب "غنیۃ الطالبین" میں یوں نقل کی ہے: ابوسعید خدری کہتے ہیں: میں عمر ابن خطاب کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں آپ کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر ابن خطاب مسجد میں آئے اور حجر اسود کے پاس آ کرکھڑے ہو گئے اور پھر حجر اسود سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو ہر صورت میں پتھر ہے اور تو نہ کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ضرر۔ اگر میں نے رسول ﷺ کوتجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے ہرگز نہ چومتا۔ حضرت علیؑ نے فرمایا: ایسا نہ کہو، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی، مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔ اگرتم نے قران پڑھا ہوتا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اُس کو سمجھا ہوتا توہمارے سامنے ایسا نہ کہتے۔ عمر ابن خطاب نے کہا اے ابو الحسن، آپ ہی فرمائیے کہ قران میں اس کی کیا تعریف ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انھیں اپنی جانوں پرگواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا اور اس کے بعد اس پتھر کو بلایا اور اس صحیفے کو اس کے پیٹ میں بطور امانت کے رکھ دیا۔ پس یہ وہی پتھر اس جگہ اللہ کاامین ہے تاکہ قیامت کے دن یہ گواہی دے کہ وعدہ وفا ہوا یا نہیں۔ اس کے بعد عمر ابن خطاب نے کہا: اے ابو الحسن، آپ کے سینے کو اللہ نے علم اور اسرارکا خزینہ بنا دیا ہے۔ غنیۃ الطالبین، عبد القادر جیلانی، صفحہ 534، مطبوعہ مکتبِ ابراہیمیہ، لاہور، پاکستان

متقی الہندی نے یہی روایت تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ اپنی حدیث کی کتاب "کنزالاعمال" میں یوں نقل کی ہے۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: ہم نے حضرت عمر ابن خطاب کے ساتھ حج کیا۔ چنانچہ جب وہ طواف کرنے لگے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا: “میں جانتا ہوں کہ تم صرف ایک پتھر ہو جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔" علی(ابن طالب) نے کہا: "یہ(پتھر) نفع بھی پہنچا سکتا ہے اورنقصان بھی۔ " عمر(ابن خطاب) نے پوچھا: “وہ کیسے"، اس پر علی نے جواب دیا: “کتاب اللہ کی رو سے۔ " عمرنے کہا: “پھر آپ مجھے بھی یہ بات قران میں دکھائیے۔ " علی نے کہا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا توانہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اورہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا۔ اور اس پتھر کے دو لباور دو آنکھیں تھیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے اس نے اپنا منہ کھولا اور یہ صحیفہ اس میں رکھ دیا اور اس سے کہا کہ میرے عبادت گذاروں کو جو حج پوراکرنے آئیں، اُن کو اس بات کی گواہی دینا۔ اور میں رسول اللہ (ص) سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو اُن لوگوں کی شہادت دے گی جوتوحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھرنفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر عمر نے کہا۔ "اعوذ باللہ کہ مجھے لوگوں میں ایسے رہنا پڑے کہ جن میں اے ابو الحسن(علی) آپ نہ موجود ہوں۔"

متقی الہندی، کنزالاعمال، فی فضائل مکہ(المحدث سافٹ ویئر میں اس حدیث کا نمبر 12521 ہے ابو الحسن القطان نے الطوالات میں۔ حاکم نے اپنی کتاب "المستدرك"، جلد 1، صفحہ 457 پر۔

حدیث اور سنت میں فرق[ترمیم]

نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا۔

دلیل حدیث[ترمیم]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي "

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب اللہ" اور "میری سنّت" کے موافق ہوں گی، وہ میری طرف سے ہوں گی۔ اور جو "کتاب اللہ" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہوں گی وہ میری طرف سے نہیں ہوں گی۔

[(1) سنن الدارقطني:كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) ؛

  1. الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛
  2. ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ۔۔۔ رقم الحديث: 589(6٠6)؛
  3. الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ: الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:277(29٠

5) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284

6) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]

دلیل فقہ[ترمیم]

1) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#221] اور کھڑے ہوکر پانی پینا [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: 5213(5615)] حدیث سے ثابت ہے، مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: 147(149)] اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا۔[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: 3778(2٠25)]

2) وضو میں ہے عضوو کو (حدیث میں) ایک (1) بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، رقم الحديث: 155(157)]، دو (2) بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، رقم الحديث: 156(158)] اور تین (3) بار دھونا بھی ثابت ہے [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، رقم الحديث: 157(159)] مگر عادت 3،3 بار دھونا "عملی-متواتر" سنّت ہے۔

3) (پاک) نعلین(جوتے) پہن-کر نماز "پڑھتے-رہنا"(متواتر-حدیث سے ) ثابت ہے [ صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: 376(386)] ایک بھی حدیث نعلین اتارکر پڑھنے کی بخاری اور مسلم میں نہیں، مگر "عملی-تواتر" اور "تعامل/اجماع_امت" سے نعلین پھن کر نماز پڑھنا عادت(سنّت) نہیں۔ عمروبن شعیب بسند والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوتوں سمیت اور (بغیر جوتوں کے ) ننگے پاؤں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (1) مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابٌ شَتَّى مِنَ الصَّلاةِ » مَنْ رَخَّصَ فِي الصَّلَاةِ فِي النَّعْلَيْنِ، رقم الحديث: 7684(7935)، (2)سنن ابن ماجہ » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: 1٠28(1٠38)، (3)سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ، رقم الحديث: 556(653)]

4) نماز میں گردن پر بچی (نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی زینب کی بیٹی "امامہ بنت ابی العاص"=نواسي_رسول) کو اٹھانا حدیث [صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي » بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ۔۔۔، رقم الحديث: 489(516)] میں فعل-ماضی-استمراری کے الفاظ "كان يصلي" (یعنی ایسے نماز پڑتے تھے) سے ثابت ہے، مگر یہ عادت (سنّت) نہ تھی، سو صحابہ(رضی اللہ عنہم) اور جماعت_مومنین کی بھی عادت(سنّت) نہ بنی۔

5) وضو کے بعد یا حالت_روزہ میں بیوی سے بوس و کنار کرنا ثابت ہے مگر عادت (سنّت) نہ تھی، لیکن وضو میں کلی کرنا یا روزہ کے لیے سحری کھانا آپ کی سنّت (عادت_مبارکہ) تھی جس کو سنّت کہا جائے گا۔

اہل حدیث کے مطالعے کے دوران میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنا لازم ہے جس کے تحت حدیث کو سنت کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔[11] کہا جاتا ہے کہ اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران میں اس راوی کی حیثیت، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔

جدول اول۔ حدیث اور سنت کے فرق کی وضاحت
    1. حدیث کا لفظ، حدث سے بنا ہے۔
    2. حدث کے معنی ؛ نیا واقعہ، خبر اور بات / قول
    3. حدیث، صرف الفاظ ہیں، جیسے قرآن۔
    4. حدیث، منہ سے ادا ہو کر منتقل ہوتی ہے
    5. حدیث، سنت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے
    6. حدیث، پیغمبر یا صحابہ کے اقوال اور تقریر
    7. حدیث ؛ کو قرآن کی طرح عملی طور پر سمجھنے کے ليے سنت کی ضرورت ہے
    8. حدیث ؛ ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچتی ہے اور انفرادی ہونے کی وجہ سے منتقلی کے دوران میں نقص آجانے کا احتمال زیادہ ہے
    1. سنت کا لفظ سنن سے بنا ہے
    2. سنت کے معنی ؛ راہ، طریقہ اور رواج
    3. سنت، الفاظ کا عملی نمونہ
    4. سنت، معمولات زندگی کی صورت منتقل ہوتی ہے
    5. سنت، قرآن سے مربوط ہوکر شریعت بناتی ہے
    6. سنت، قرآن اور پیغمبر کے اقوال پر عمل پیرا ہونے کا طریقہ
    7. سنت ؛ نبی اور ان کے بعد صحابہ کے احکام، امتناع، اقوال، عمل و فعل
    8. سنت ؛ ایک عہد کی نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی ہے اور اجتماعی ہونے کی وجہ سے منتقلی کے دوران میں نقص کا احتمال کم ہے

سنت کا نمونہ پیغمر نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔[12]

حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے لیکن اس فرق سے کسی ایک کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ دونوں ہی اپنی جگہ مسلم ہیں اور حدیث کے بغیر سنت اور شریعت کا علم، دونوں سے کوئی ایک تشکیل نہیں پاسکتا۔ مفتی عبدالجلیل کے مطابق ؛ حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا۔، ،[13] ان ہی میں سے ایک شخص عبداللہ چکرالوی نے احادیث کو یکسر رد کر کہ اہل القرآن کی بنیاد ڈالی[14] دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے خود رسول (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہیں[15] اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالٰیٰ کا اشارہ، محمد کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔ سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے؛ حدیث، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی نے کہا

میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جائے تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا[16]

تاریخ[ترمیم]

احادیث سے مراد وہ تمام اقوال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ احادیث کو لکھنے اور یاد کرنے کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شروع ہو گیا تھا۔ عربوں کو چونکہ اپنے حافظہ پر ناز تھا اس لیے وہ تمام باتوں کو یاد کر لیتے تھے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے جرمنی کے میوزم سے دریافت کیا ہے جسے حضرت ابوہریرہ کے شاگردنے لکھا تھا۔ اس میں حضرت ابو ہریرہ کے ارشادات نقل کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد کئی سو سالوں تک احادیث کو جمع کرنے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. [قواعد التحدیث لجمال الدین القاسمی ص:61]
  2. [سورۃ المؤمنون:44]
  3. [سورۃ السبا:19]
  4. [سورۃ الزمر:23]
  5. [سورۃ الطور:34]
  6. [تدریب الراوی للسیوطی ج:1/ص:42]
  7. [ تدریب الراوی ج:1/ص:42]
  8. [مجوع الفتاوی ج:18/706]
  9. [ صحیح البخاری 8/148]
  10. [بحوالہ، التحدیث فی علوم الحدیث، ،ص:140،مؤلف:پروفیسر ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر]
  11. Defference between Hadith and Sunnah آن لائن مضمون
  12. The Sunnah; Britannica آن لائن مضمون
  13. A Historical Background of the Refutation of the Hadith and the Authenticity of its Compilation by Mufti Abdul-Jaleel Qaasimi آن لائن مضمون
  14. Oxford Islamic studies online آن لائن مضمون
  15. آسان قرآن نامی ایک موقع آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ asanquran.com (Error: unknown archive URL)
  16. The Importance of The Ahl al-sunnah by Harun Yahya آن لائن کتاب