خط نسخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خط نسخ میں سورۃ الفاتحہ، خطاط عزیز آفندی - (1934ء سے قبل)

خط نسخ عربی کا مشہور ترین خط ہے جو طویل عرصے تک اسلامی دنیا میں رائج رہا۔ اِس خط کو عربی رسم الخط کا بہترین خط برائے تحریر سمجھا جاتا ہے۔ اِس خط کا موجد عباسی وزیر ابن مقلہ شیرازی تھا۔ خطِ نسخ کتابت قرآن مجید کے لیے مستعمل ہے۔

خط نسخ میں سورہ لہب، خطاط: محمد رضا طباطبائی -(غالباً اُنیسویں صدی عیسوی)

تاریخ[ترمیم]

چھٹی صدی ہجری/بارہویں عیسوی میں خط کوفی کا استعمال کم ہوتا چلا گیا جو صرف قرآن مجید کی کتابت کے لیے رائج تھا۔خط کوفی چونکہ تمام تر مسطح تھا اور سیدھی لکیروں سے مرتب ہوتا تھا۔ اِس لیے عام ضرورتوں کے لیے یہ پابندی مانع ثابت ہوا کرتی تھی۔ اِن ضرورتوں نے مجبور کیا کہ خط کوفی کی بجائے کوئی آسان خط تحریر کے لیے وجود میں لایا جائے۔ خط کوفی کی مشکلات سے خط نسخ وجود میں آیا۔ خط نسخ کی ایجاد کے بعد بھی کتابتِ قرآن مجید میں سورتوں کے عنوان خط کوفی میں ہی لکھے جاتے رہے۔ محققین کے مطابق خط نسخ کا اولین نام بدیع تھا جو اِسے اِس کے موجد ابن مقلہ شیرازی نے دِیا تھا۔ بعض محققین کی رائے ہے کہ اِس کا نام نسخ اِس لیے مشہور ہوا کہ قرآن مجید کی کتابت کے لیے یہ دوسرے رسوم الخط کا ناسخ ثابت ہوا۔ لیکن یہ درست نہیں ہو سکتا کیونکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کتابت قرآن مجید کے لیے دِینی اور احترام طلب ضرورتوں کے لیے فنکارانہ اور جمال آفرین خط یعنی خط کوفی استعمال ہوتا تھا اور دنیوی ضرورتوں کے لیے خط نسخ استعمال ہونے لگا تھا۔ اِس لیے اِس کے معنی منسوخ کرنے والے خط کے نہیں بلکہ اِس کے معنی عام لکھت کے خط کے سمجھنا چاہئیں کیونکہ عربی میں نسخ کے معنی لکھنے کے بھی ہیں۔[1]

ناقدین کا خیال ہے کہ قواعد سازی اور ضابطہ سازی کا جو سلسلہ خطِ نسخ میں ابن مقلہ شیرازی نے قائم کیا تھا، اُس کو ابن البواب نے تکمیل و اِنتہاء تک پہنچا دیا، پھر اِنہی قواعد و ضوابط کے مطابق خطوط کی تہذیب و تکمیل کی۔ غرض کہ یہ خط با اُصول خط تھا اور عباسی خلیفہ المقتدر باللہ کے عہدِ حکومت میں باقاعدہ روزمرہ کے معاملات کی تحریر کے لیے مشہور ہو گیا اور رفتہ رفتہ کتابت قران مجید کے لیے بھی یہی خط مستعمل ہوا۔ تاہم کچھ عرصہ تک قرآن مجید کی سورتوں کے عنوان خط کوفی میں ہی تحریر کیے جاتے رہے کیونکہ وہ نسخ کی بجائے زیادہ جاذبِ نظرتھا۔

شہرت[ترمیم]

خط نسخ میں سورۃ الفاتحہ

اِس خط کا شہرہ عام اور عوامی استعمال کی ابتدا عباسی خلیفہ المقتدر باللہ کے زمانہ حکومت میں ہوئی۔ علاوہ ازیں یہ خط مصر و حجاز اور سلطنت ایوبیہ کے مقبوضات میں اپنے انتہائے کمال کو پہنچا رہا۔ 1250ء میں جب مصر میں مملوکوں کی سلطنت قائم ہو گئی تو تب بھی خطِ نسخ ہی سرکاری خط برائے شاہی فرامین مستعمل رہا۔ قرآن مجید کے ساتھ تو یہ خط ایسا لازم و ملزوم ہوا کہ ابھی تک کتابتِ قرآن مجید اِس خط میں کی جاتی ہے۔فارس میں اِس خط کو عروج پر پہنچانے والا ماہر خطاط میرزا احمد نیریزی ہے۔

موجد[ترمیم]

مزید پڑھیں: ابن مقلہ شیرازی، المقتدر باللہ، خط ثلث، خط ریحان، خط محقق، خط توقیع، خط رقع

خط نسخ کا موجد عباسی وزیر ابن مقلہ شیرازی (متوفی: 20 جولائی 940ء)تھا جس نے نبطی خط کی مدد سے عباسی خلیفہ المقتدر باللہ (عہدِ حکومت: 13 اگست 908ء28 فروری 929ء) کے عہدِ حکومت میں یہ بے نظیر خط ایجاد کیا۔ اُس نے مروجہ تمام خطوط میں مہارت کے علاوہ بعض نئے خطوط بھی ایجاد کیے جن میں خط ثلث، خط محقق، خط ریحان، خط توقیع اور خط رقع شامل ہیں۔ ابن مقلہ شیرازی نے پہلی بار اِس خط کے لیے علم ہندسہ کو استعمال کیا اور اِس کی صحت و املا، ہندسی باقاعدگی اور حسن و رعنائی پیدا کرنے کے سواء اِس میں کتابت کے قواعد بھی مرتب کیے۔ پہلی مرتبہ اِس خط میں کتابت کے لیے پیمائش کے اُصول و قواعد مقرر کیے تاکہ تناسب کے ساتھ ساتھ یکسانی اور موزونیت برقرار رہ سکے۔ ہندسی ہیئت پیدا کرنے کے لیے نقطوں کی پیمائش کرکے اُن کی نسبتیں مقرر کی گئیں۔

خط نسخ میں سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات- خطاط: مبارک شاہ ابن قطب- (1323ء)

قواعد[ترمیم]

عباسی وزیر ابن مقلہ شیرازی نے اِس خط کے یہ اُصول بیان کیے ہیں کہ:

  • حروف کی اشکال کو مستدیر اور خوبصورت بنایا جائے۔
  • حروف کی ساخت میں اور موٹائی اور باریکی وال حصوں پر خاص خیال رکھا جائے۔
  • حروف کی ساخت میں قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کی جائے۔
  • عمودی، اُفقی اور قوسی حروف بناتے وقت ہندسے اور پیمانے کا خاص خیال رکھا جائے۔
  • قلم پر ہاتھ کی گرفت مضبوط ہو مگر قلم کی روانی میں سختی پیدا نہ ہونے پائے۔[2]

نگارخانہ[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 8، صفحہ 963۔ مطبوعہ لاہور، 1973ء۔
  2. تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 112۔