خلجی خاندان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


خلجی سلطنت
1290–1320
Territory controlled by the Khaljis (dark green) and their tributaries (light green)
Territory controlled by the Khaljis (dark green) and their tributaries (light green)
دارالحکومتدہلی
عمومی زبانیںفارسی زبان (official)[1]
مذہب
اہل سنت
حکومتسلطان
سلطان 
• 1290–1296
جلال الدین خلجی
• 1296–1316
علا الدین خلجی
• 1316
شہاب الدین خلجی
• 1316–1320
قطب الدین مبارک شاہ
تاریخ 
• 
1290
• 
1320
ماقبل
مابعد
خاندان غلاماں
Vaghela dynasty
تغلق خاندان
موجودہ حصہ بھارت
 پاکستان
 نیپال

چوتھی صدی ہجری میں مسلمان جغرافیہ دانوں محمودکاشغری، رشید الدین اور ابوزید البلخی ترک قبائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے، ان میں ایک ترک قبیلہ قرلق،فارسی (خلج)، عربی (خلخ) تھا۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)نوشیروان نے ہنوں کے خلاف ترکوں سے مدد لی اور ان کی مدد سے ہنوں کو شکست دی۔ مگر جلد ہی افغانستان پر ترک چھاگئے۔ کتاب الاغانی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے۔ وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ افغانستان میں دریائے ہلمند کے چڑھاؤ کے رخ پر ایک مرحلے کے فاصلے سے دریا کے اسی کنارے پر جس پر درتل تھا، شہر درغش آباد تھا اور درتل کے مغرب میں ایک مرحلے کے فاصلے پر بغنین اس علاقہ میں تھا۔ جہاں قبائل پشلنگ کے ترک آباد تھے۔ ان میں قبیلہ خلج بھی رہتا تھا۔ ان خلجی ترکوں نے بعد میں مغرب کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ لیکن ابن حوقل نے چوتھی (دسویں) صدی میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی بہت قناعت سے زمینداری کرکے علاقہ میں بسر کرتے تھے اور وضح قطع ترکوں کی رکھتے تھے۔[2]

خلجی افغانستان میں ابتدئے اسلام سے ہی آباد تھے اور غالباً انھوں نے دوسرے افغان قبائل کے ساتھ اسلام چو تھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ کیوں کہ یہ خوارزم شاہیوں اور غوریوں اور اس سے پہلے سلجوقیوں کے لشکر میں شامل رہے تھے۔ علاؤ الدین جہاں سوز نے سلطان سنجر کا مقابلہ کرنا چاہا تو عین لڑائی کے وقت یہ ترکوں اور خلجیوں نے علاؤ الدین جہاں کا ساتھ چھور کر یہ سلطان سنجر کے ساتھ جاملے۔ جس کی وجہ سے علاؤ الدین جہاں سوز کو شکست ہوئی اور وہ قید ہو گیا۔ اس طرح یہ سلطان مغزالدین محمد غوری کے لشکر میں شامل تھے اور ہند کی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب سلطان محمد غوری ترائن کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تو اس کو میدان جنگ سے بچالانے والا بھی ایک خلجی نوجوان تھا۔[3]خلجی سلطان محمد خوارزم کے لشکر میں بھی شامل تھے، اس نے سمرقند کی حفاظت کے لیے جو لشکر منگولوں کے مقابلے کے لیے چھوڑا تھا اس میں کثیر تعداد میں خلجی شامل تھے۔ خلجیوں نے خوارزم شاہیوں کے ساتھ مل کر منگولوں کے خلاف مزحمت کی تھی۔ 366ھ میں خلجیوں کے ایک گروہ جو سلطان محمد خلجی کے لشکری تھے اپنے سردار ملک خان محمد خلجی کی سرکردگی میں سندھ پر قابض ہو گئے، ناصرالدین قباچہ نے ان کے خلاف اقدام کیا اور انھیں نکال باہر کیا اور ان کا سردار ماراگیا۔[4]

خلجی خاندان غلاماں کے لشکر میں بھی شامل رہے۔ بلکہ ترکوں کے لشکریوں کا غالب عنصر خلجی ہی تھے اور ان کی سرکردگی میں ہند میں وسیع فتوحات حاصل کیں۔ ان میں بختیار خلجی بہت مشہور ہوا، جس نے صرف دوسو آدمیوں کی مدد سے بنگال فتح کیا۔ اس طرح دوسرے خلجی سرداروں میں علی مردان خلجی، غرزالدین، محمد شیراں، میران شاہ اور ملک جلال الدین بن خلج خان کے نام ملتے ہیں۔ آخر الذکر برصغیر میں خلجی سلطنت کا بانی تھا۔[5]

931ء میں خلجی اچانک دہلی کے تخت پر قابض ہو گئے۔ خود اس پر دہلی کے امرا اور شہری بھی حیرت زدہ رہے گئے۔ نیا بادشاہ جلال الدین فیروز خلجی تھا۔ وہ کافی عرصہ تک دہلی میں داخلے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤ الدین خلجی تھا۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا۔ جو اپنے چچا کو قتل کرکے تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ پہلاحکمران تھا جس نے جنوبی ہند کو فتح کیا۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کر دیا۔ [6]

1641ء میں مالوہ کی حکمرانی خلجیوں نے حاصل کرلی۔ اس خاندان کا بانی محمود خلجی تھا۔ اس نے اپنے برادر نسبتی کو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور خود تخت پربیٹھ گیا۔ یہ ایک بیدار مغز بادشاہ تھا۔ اس کا سنتیس سالہ دور حکومت کا بیشتر حصہ گرد و نواع کی حکومتوں سے لڑنے اور سلطنت کی توسیع میں گذرا۔ اس خاندان کا آخر حکمران باز بہادر تھا۔ اس کو اکبر کی فوجوں نے 1651ء میں تخت سے محروم کر دیا۔[7]

دور حکومت: 1290ء تا 1320ء[ترمیم]

ہندوستان کا ایک ترک النسل حکمران خاندان جس نے افغانی رسم و رواج اور فارسی زبان اپنا لیا ہو‎ا تھا۔ مملوک سلاطینِ دہلی کے بعد 1290ء سے 1320ء تک خلجی بادشاہ ہندوستان پر حکمران رہے۔ خلجی خاندان کی بنیاد جلال الدین خلجی نے رکھی۔ اور اس کے بعد انکا بھتیجا علاؤ الدین خلجی تخت نشین ہوا۔ جس کے قبضہ میں بعد ازاں پورا ہندوستان آیا۔ علاؤ الدین خلجی کے بعد اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور بالآخر تغلقوں کے ہاتھوں خاندان خلجی کا خاتمہ ہوا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ خلجی ترک تھے۔ لیکن خلجی دراصل ایک افغان قبیلے غلجئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہی غلجئی نام ہندوستان میں خلجی کی صورت اختیار کر گیا۔

سلاطین خلجی[ترمیم]

لقب نام دور حکومت

جلال الدین فیروز خلجی

ملک فیروز ابن ملک یغراش خلجی
1290–1296

علاؤ الدین خلجی

علی گرشاسپ خلجی
1296–1316

شہاب الدین خلجی

عمر خان خلجی
1316

قطب الدین مبارک شاہ

مبارک خان خلجی
1316–1320
تغلق خاندان نے خلجی خاندان کو ہٹا دیاـ

فن تعمیر[ترمیم]

اسلام کی امد نے ہندوستانی تہذیب میں ایک نئے طبقہ کو روشناس کرایا تھا، جب فوجی تصادم ختم ہوا تو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں نے جگہ پائی، علاؤ الدین کے تخت نشین ہونے کے بعد تعمیرات کا کام جوش و خروش سے شروع ہوا، اس نے مسجد قوت الاسلام کی توسیع کرائی، مزید مساجد تعمیر کرائیں اور ایک نیا شہر آباد کیا۔جلال الدین نے کوشک لعل بنایا۔ علائی دروازہ علاؤ الدین کی تعمیر کرائی گئی شاندار عمارت ہے۔ یہ مسجد قوت الاسلام کا جنوبی دروازہ ہے۔

امیر خسرو کہتے ہیں کہ علائی دروازہ کی تعمیر کے بعد علاؤ الدین نے مسجد کی توسیع کرائی، نو دروازے رکھے ،خارالحکومت کے باہر متھرا کے مقام پر مسجد اور شیخ فرید کے الگ بھگ تعمیر کرائی، ایک دریا پر پل باندھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Arabic and Persian Epigraphical Studies – Archaeological Survey of India"۔ Asi.nic.in۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2010 
  2. (جی لی اسٹریج۔ خلافت شرقی، 025۔ 125)
  3. (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 526۔ 117)
  4. (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 465۔ 547، جلد دوم، 031۔ 641)
  5. (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 547 تا 108)
  6. (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 353 تا 204)
  7. (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 515 تا 815)