ربیعہ بن فروخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ربیعہ بن فروخ
معلومات شخصیت
پیدائشی نام ربيعة بن فروخ
مقام پیدائش مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 753ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انبار  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو عثمان
لقب القرشي التيمي مولاهم المدني
عملی زندگی
طبقہ من صغار التابعين
وجۂ شہرت: ربيعة الرأي
ابن حجر کی رائے ثقة فقيه مشهور
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ربیعہؒ بن فروخ صغائر تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

ربیعہ نام، ابو عثمان کنیت،رائے لقب،باپ کا نام فروخ،اورکنیت ابو عبد الرحمن تھی، فروخ قبیلہ بنی تمیم بن جرہ کے غلام تھے،اس غلام کے گھر میں ربیعہ پیدا ہوئے جو آگے چل کر اقلیم علم کے تاجدار بنے۔

فضل وکمال[ترمیم]

فضل وکمال کے اعتبار سے،ربیعہ ائمہ تابعین میں تھے، ان کی علمی جلالت تمام علما ومحدثین میں مسلم تھی،علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ربیع کی توثیق جلالت اورعلمی اور عقلی عظمت پر تمام علما اورمحدثین کا اتفاق ہے [1] حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ امام تھے حافظ تھے،فقیہ تھے مجتہد تھے اوررائے میں انھیں خاص بصیرت تھی،اس لیے ربیعۃ الرائے کہلاتے تھے [2] خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ وہ فقیہ تھے اور فقہ وحدیث کے حافظ تھے۔ [3]

پیدائش وتعلیم[ترمیم]

ربیعہ کے ابتدائی اورتعلیمی حالات نہایت سبق آموز اوردلچسپ ہیں، ابھی وہ شکم مادر میں تھے کہ ان کے والد فروخ کو خراسان کی مہم میں چلا جانا پڑا، اورکچھ ایسے اتفاقات پیش آتے گئے کہ وہ کامل ستائیس برس تک وطن نہ آسکے، ربیعہ کی ماں نہایت عاقلہ اورعاقبت اندیش خاتون تھیں،ربیعہ کی پیدائش کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھا؛چنانچہ شوہر کی عدم موجودگی میں انھوں نے پوری توجہ سے لڑکے کی تعلیم و تربیت دلائی اورشوہر کا کل اندوختہ جس کی تعداد تیس ہزار اشرفی تھی،ربیعہ کی تعلیم پر صرف کر دیا،ربیعہ خود نہایت ذہین طباع اورشائق تھے،اس لیے انھوں نے بہت جلد تعلیم حاصل کرلی اورآغاز شباب ہی میں وہ جملہ علوم میں کامل ہو گئے،چھبیس ستائیس سال کی عمر میں ان کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا اوران کی ذات مرجع خلائق بن گئی۔

ستائیس سال کے بعد ان کے والد گھر واپس آئے،گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا،باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے ناواقف تھے،ربیعہ باہر نکلے تو دروازہ پر ایک اجنبی کو دیکھ کر سخت برہم ہوئے اورکہا دشمنِ خدا تو میرے گھر پر حملہ کرتا ہے،فروخ نے جواب دیا دشمنِ خدا تو میرے حرم میں گھسا ہوا ہے، دونوں میں یہاں تک گفتگو بڑھی کہ باہم دست وگریبان ہو گئے،یہ شور ہنگامہ سن کر پاس پڑوس کے آدمی جمع ہو گئے یہاں آکر دیکھا تو دونوں آدمی گھتے ہوئے تھے ،ربیعہ فروخ سے لپٹے ہوئے کہہ رہے تھے کہ خدا کی قسم تجھ کو حاکم شہر کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا، فروخ کی زبان پر بھی یہی کلمات تھے،اتنے میں حضرت انس بن مالک پہنچ گئے،اورفروخ سے کہا، بڑے میاں یہاں آپ کسی دوسرے گھر میں ٹھہرجائیے،اس وقت فروخ نے اپنا تعارف کرایا کہ میں بنی فلاں کا غلام ہوں،میرا نام فروخ ہے اور یہ میرا گھر ہے ان کی آواز سن کر ان کی بیوی گھر سے نکل آئیں اورانہیں پہچان کر بیٹے سے کہا کہ یہ تمھارے باپ ہیں اورشوہر کو بتایا کہ یہ تمھارا فرزند ہے، جسے تم حمل کی حالت میں چھوڑ گئے تھے،یہ پردہ اٹھنے کے بعد دونوں باپ بیٹے گلے مل کر خوب روئے،گھر میں داخل ہونے کے بعد فروخ نے بیوی سے اندوختہ کے متعلق پوچھا اورکہا میرے پاس چار ہزار دینار اورہیں،بیوی کل روپے بیٹے کی تعلیم میں صرف کرچکی تھیں،جواب دیا ابھی ایسی جلدی ہی کیا ہے،روپیہ حفاظت سے دفن ہے،اطمینان سے نکالوں گی،اس وقت ربیعہ کی ذات طالبان علم کا مرجع بن چکی تھی،مسجد نبوی میں ان کا حلقہ درس قائم تھا،جس میں مدینہ کے بڑے بڑے ارباب علم، عمائد اوراشراف شریک ہوتے تھے،ربیعہ معمول کے مطابق وقت پر مسجد چلے گئے،ان کی ماں نے درس کا وقت پہچان کر شوہر سے کہا ذرا مسجد نبوی میں جاکر نماز پڑھ آؤ،فروخ مسجد گئے تو دیکھا کہ ایک شخص کے گرد لوگوں کا ہجوم لگا ہوا ہے امام مالک حسن بن زید،ابن ابو علی لہبی اورمساحقی وغیرہ مدینہ کے شرفاء اوراکابر حلقہ درس میں شریک ہیں،فروخ یہ ہجوم دیکھ کر قریب چلے گئے ،لوگوں نے راستہ دے دیا،ربیعہ نے درس میں خلل پڑنے کے خیال سے سرجھکالیا،فروخ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں،انھوں نے بتایا، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن ،فروخ یہ سن کر وفور مسرت میں بول اٹھے خدا نے میرے لڑکے کویہ رتبہ عطا کیااور گھر جاکر بیوی سے کہا میں نے تمھارے لڑکے کو ایسے رتبہ پر دیکھا کہ اس سے قبل کسی صاحب علم فقیہ کو نہ دیکھا تھا،شوہر کی زبان سے یہ اعتراف سننے کے بعد بیوی نے کہا، اب بتاؤ کیا چاہتے ہو، بیٹے کی یہ عظمت وشان یا تیس ہزار اشرفیاں، فروخ نے جواب دیا،خدا کی قسم لڑکے کی عظمت وشان ،بیوی نے کہا تو پھر تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے تمھاری کل دولت اس کی تعلیم میں صرف کردی، فروخ نے کہا خدا کی قسم ٹھکانے لگی۔ [4]

حدیث[ترمیم]

ربیعہ کی شہرت زیادہ تر ان کے فقہی کمال کی وجہ سے ہے،لیکن وہ حدیث کے بھی ممتاز حفاظ میں تھے،ان کے حفظ حدیث پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے،علامہ ابن سعد انھیں ثقہ اورکثیر الحدیث [5] خطیب بغدادی حافظ فقہ وحدیث [6] اور حافظ ذہبی امام اورحافظ حدیث لکھتے ہیں [7] ان کی حدیث دانی ان کے معاصرین میں مسلم تھی،ایک مرتبہ عبد العزیز بن ابی سلمہ عراق گئے،عراقیوں نے ان سے کہا کہ ربیعہ رائے کی حدیثیں سنی ہیں،انھوں نے کہا تم لوگ ان کو ربیعہ رائے کہتے ہو،خدا کی قسم میں نے ان سے زیادہ کسی کو سنت پر حاوی نہیں دیکھا۔ (تاریخ بغداد:8/424)

حدیث میں ان کے درجہ کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بن سعید جو ان کے تلمیذ رشیدتھے،ان کی زندگی ہی میں،صاحبِ درس محدث بن گئے تھے اورربیعہ کی عدم موجودگی میں حدیث کا درس دیتے تھے۔ [8] صحابہ میں ربیعہ نے انسؓ بن مالک اورسائب بن یزید اورتابعین میں محمد بن یحییٰ بن حبان ابن مسیب،قاسم بن محمد، ابن ابی لیلیٰ،اعرج،مکحول،حنظلہ بن قیس اورعبداللہ بن یزید وغیرہ جیسے محدثین سے استفادہ کیا تھا اوریحییٰ بن سعید ،ان کے بھائی عبدربہ،سلیمان التیمی مالک شعبہ دونوں سفیان،حماد بن سلمہ اورلیث وغیرہ اکابر محدثین ان کے تلامذہ میں تھے۔ [9]

فقہ[ترمیم]

لیکن ربیعہ کا خاص اورامتیازی فن فقہ تھا،اس میں وہ امامت واجتہاد کا درجہ رکھتے تھے اوراپنے تمام معاصرین پر فائق تھے،ان کے فقہی کمالات میں ان کی فطری استعداد کو بہت بڑا دخل تھا، وہ نہایت ذہین اورطباع تھے،یحیییٰ بن سعید کہتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ زیرک نہیں دیکھا، دوسری روایت میں ہے کہ میں نے ان سے زیادہ صحیح عقل والا نہیں دیکھا۔ [10] اس ذہانت وذکاوت نے ان میں اجتہاد،استنباط ،اورتفریح مسائل کا خاص ملکہ پیدا کر دیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ربیعہ امام،حافظ فقیہ اورمجتہد تھے،رائے میں انھیں اتنی بصیرت حاصل تھے کہ ‘رائے’ ان کا لقب ہو گیا تھا۔ [11] اس فقہی کمال کی وجہ سے وہ مدینۃ العلم مدینہ کی مسند افتا پر فائز ہو گئے، کان صاحب الفتویٰ بالمدینۃ [12] عباسی حکومت کے قیام کے بعد سفاح عباسی نے اُن کو بلاکر عہدہ قضا پر ممتاز کیا،امام مالک ان کے تلامذہ خاص میں تھے،ربیعہ کی موت کے بعد ان کی زبان پر یہ حسرت کلمہ تھا کہ ربیعہ کے بعد فقہ کا مزاجاتا رہا امام ابو حنیفہ جو فقہ رائے اورقیاس کے امام اعظم ہیں،ربیعہ کی خدمت میں استفادہ کے لیے آتے تھے اوران کے اقوال و آراء کوسمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ [13]

فتاویٰ میں احتیاط[ترمیم]

لیکن اس قوتِ اجتہاد اوررائے اورقیاس میں اس ؛ملکہ کے باوجود وہ اس قدر محتاط تھے کہ مسائل میں اپنی رائے اورقیاس کو کم دخل دیتے تھے اوربغیر سند کے جواب دینا سخت نا پسند کرتے تھے،عبد العزیز بن ابی سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ربیعہ کے مرض الموت میں ان سے کہا کہ ہم لوگو ں نے آپ ہی سے فیض پایا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایسے مسائل پوچھتے ہیں جس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی سند نہیں ہوتی اور ہم کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں ہماری رائے ان کی رائے سے بہترہوگی، ایسی حالت میں کیا ہم اپنی رائے سے فتویٰ دیا کریں ،یہ سن کر ربیعہ سہارا لے کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا عبد العزیز تم پر افسوس ہے کسی مسئلہ میں بغیر علم کے جواب دینے سے یہ بہتر ہے کہ تم جاہل مرجاؤ ،اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا۔ [14]

حلقہ درس[ترمیم]

ربیعہ کی ذات مرجع خلائق تھی،ان کا حلقہ درس نہایت وسیع تھا،اس میں مدینہ کے تمام بڑے بڑے علما،عمائد اورشرفاء شریک ہوتے تھے،امام مالک یحییٰ انصاری امام اوزاعی اورشعبہ وغیرہ ائمہ اسی حلقہ درس کے فیض یافتہ تھے ،خطیب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ شمار کیا گیا تو چالیس بڑے بڑے عمامہ پوش ان کے حلقہ درس میں تھے۔ [15]

تلامذہ[ترمیم]

ربیعہ کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا ،ممتاز تلامذہ میں امام مالک ،یحییٰ انصاری سفیان ثوری،شعبہ،لیث اوزاعی،ابن عینیہ،سلیمان بن ہلال وغیرہ لائق ذکر ہیں،عام تلامذہ کی فہرست نہایت طویل ہے۔ [16]

ربیعہ کے معاصرین کا اعتراف[ترمیم]

ربیعہ کے تمام معاصرین میں اُن کی علمی فضیلت مسلم تھی، عبید اللہ بن عمر کہتے تھے کہ ربیعہ ہماری مشکلات کے عقد ہ کشا،ہمارے عالم اورہم سب میں افضل تھے۔ [17] معاذ بن معاذ کابیان ہے کہ سوار بن عبد اللہ کہتے تھے کہ میں نے کسی کو ربیعہ رائے سے بڑا عالم نہیں دیکھا، میں نے ان سے پوچھا حسن اورابن سیرین کو بھی نہیں، انہو ں نے کہا حسن اور ابن سیرین کو بھی نہیں [18] یحییٰ بن سعید انصاری اگرچہ ربیعہ کے خوشہ چنیوں میں تھے لیکن عمر میں اُن کے برابر تھے اورصاحبِ درس وافتاء تھے،لیکن ربیعہ کی موجود گی میں درس نہیں دیتے تھے۔ [19] معاصرین تو پھر بھی برابر کے لوگ تھے،ربیعہ کے شیوخ تک ان کی وسعتِ علم کے قائل تھے؛چنانچہ قاسم بن محمد سے جو اُن کے شیوخ میں ہیں، جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو اگر قرآن وحدیث میں اس کا جواب مل جاتا تو وہ خود بتادیتے ،ورنہ سائل کو ربیعہ کے پاس بھیج دیتے۔ [20]

زہد عبادت[ترمیم]

اس علم کے ساتھ وہ بڑے عابد وزاہد تھے،ابن زید کا بیان ہے کہ ربیعہ ایک مدت دراز تک عبادت گزار رہے، رات دن نمازیں پڑھتے تھے ؛لیکن پھر جب انھوں نے علمی مجلسوں میں شرکت شروع کی اس وقت ان کا یہ رنگ قائم نہ رہ سکا۔ [21]

بے نیازی[ترمیم]

ربیعہ زرومال کی جانب سے بڑے بے نیاز تھے،سلاطین اورخلفاء تک کا احسان اٹھانا پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ وہ سفاح عباسی کے پاس غالباً عہدۂ قضاء کے سلسلہ میں انبار گئے،سفاح نے بطور نذر ایک رقم پیش کی،ربیعہ نے اسے قبول نہ کیا ان کے انکار پر سفاح نے لونڈی کی خریداری کے نام سے پانچ ہزار کی رقم دینی چاہی انھوں نے اسے بھی نہیں لیا۔ [22]

فیاضی[ترمیم]

لیکن اپنے مال میں بڑے فیاض وسیرچشم تھے اور ان کا مال دوسروں کے لیے وقف تھا،ابن زید کا بیان ہے کہ مدینہ میں ربیعہ سے زیادہ دوستوں ،دوست کے لڑکوں اور عام سائلین کے لیے اپنے مال میں فیاض نہ تھا۔ [23]

گویائی کالطیفہ[ترمیم]

ربیعہ بڑے گویا اورلسان تھے ،کہا کرتے تھے کہ خاموش آدمی خواب آور گونگے پن کی حالت میں ہوتا ہے وہ ہر وقت باتیں کیا کرتے تھے، ایک دن حسب معمول اپنی مجلس میں باتوں کی پھلجھڑی چھوڑ رہے تھے کہ ایک اعرابی آیا اوردیر تک خاموشی کے ساتھ ان گلفشانیوں کو سنتا رہا،ربیعہ سمجھے کہ وہ ان کی باتوں سے مسحور ہورہا ہے، اعراب کی فصاحت وبلاغت مشہور ومسلم ہے،ربیعہ نے غالباً داد لینے کے لیے اس سے سوال کیا کہ تم لوگوں کے نزدیک بلاغت کی کیا تعریف ہے ؟ اس نے جواب دیا، ادائے معنی کے ساتھ الفاط میں اختصار ،ربیعہ نے پھر پوچھا اور عجز بیان کسے کہتے ہیں،اعرابی نے جواب دیا جس میں تم مبتلا ہو،یہ پر لطف جواب سُن کر ربیعہ سخت شرمندہ ہوئے۔ [24]

وفات[ترمیم]

ربیعہ کے سنہ وفات اورجائے وفات دونوں کے بارہ میں دوبیانات ہیں سنہ کے بارہ میں یہ اختلاف ہے کہ 130 ھ یا 136ھ میں وفات پائی،جائے وفات کے بارہ میں یہ اختلاف ہے کہ ایک بیان کے مطابق انبار میں اور دوسرے بیان کے مطابق مدینۃ الرسول میں انتقال کیا 136ھ والی روایت زیادہ مستند ہے۔ [25]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب،ج 1،ق1،ص159)
  2. (تذکرہ الحفاظ:1/41)
  3. (تاریخ خطیب :8/421)
  4. (تاریخ خطیب :8/431،432)
  5. (تہذیب التہذیب:3/258)
  6. (تاریخ بغداد:8/421)
  7. (تذکرۃ الحفاظ:1/141)
  8. (تاریخ بغداد:8/423)
  9. (تہذیب التہذیب:3/35)
  10. (تاریخ بغداد:8/423)
  11. (تذکرہ الحفاظ:1/141)
  12. (تاریخ خطیب:8/421)
  13. (تاریخ بغداد:8/422)
  14. (تہذیب التہذیب:3/259)
  15. (ایضاً وتہذیب التہذیب:3/358)
  16. (تاریخ خطیب :8/423)
  17. (تاریخ خطیب :8/423)
  18. (تاریخ خطیب :8/423)
  19. (تاریخ خطیب ایضاً)
  20. (تاریخ خطیب ایضاً)
  21. (تاریخ خطیب ایضاً)
  22. (تاریخ خطیب ایضاً)
  23. (تاریخ خطیب 424)
  24. (ابن خلکان:1/183)
  25. (تاریخ خطیب:8/426)