فاطمہ الفہری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فاطمہ الفہری
(عربی میں: فاطمة الفهرية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 800ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیروان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 880ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فاس   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں جامعہ قرویین   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تیونس کے ایک متمول تاجر محمد الفہری کی بیٹی فاطمہ بنت محمد الفہری القریشی عرف ام البنین جس کے نام سے سے آج بہت کم لوگ واقف ہیں لیکن امت مسلمہ کے لیے قابل فخر ہے یہ بات کہ اس علم دوست مسلم بیٹی نے دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔[1]

داستان حیات[ترمیم]

فاطمہ تیونس کے شہر قیروان میں پیدا ہوئی۔[2] بعد ازاں اس کا باپ اسے اور اس کی بہن مریم کو لے کر مراکش کے شہر فاس منتقل ہو گیا۔ باپ کی وفات کے بعد دونوں بہنوں نے فیصلہ کیا کہ وراثت میں ملی دولت کو وہ مساجد اور ترویج و ترقی تعلیم میں صرف کرینگی۔[3] اپنے باپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کے طور پر انھوں نے جامع مسجد قیروان تعمیر کرائی۔859ء میں اس عظیم مسلم بیٹی نے مراکش کے شہر فاس میں دنیا کی سب سے پہلی یونورسٹی جامعۃ القیروان کی بنیاد رکھی جہاں سے آج بھی علم کی شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔[4][5][6]جامعۃ القیروان کو بحیرہ روم کا سب بڑا علمی مرکز قرار دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ یورپ کو صفر اورباقی عربی اعداد سے متعارف کروانے والے پاپائے روم پوپ سلوسٹر ثانی نے بھی یہیں سے تعلیم حاصل کی۔

فاطمہ کا سال پیدائش 800 ہے اور سال وفات 880ء بتایا جاتا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Jeffrey T. Kenney، Ebrahim Moosa (2013-08-15)۔ Islam in the Modern World (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 128۔ ISBN 978-1-135-00795-9۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2018 
  2. Jeffrey T. Kenney، Ebrahim Moosa (2013-08-15)۔ Islam in the Modern World (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 128۔ ISBN 978-1-135-00795-9۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2018 
  3. Henry Louis Gates Jr. (مدیر)۔ Dictionary of African Biography (بزبان انگریزی)۔ 6۔ صفحہ: 357–359۔ ISBN 978-0-19-538207-5۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2018 
  4. Lulat, Y. G.-M.: A History Of African Higher Education From Antiquity To The Present: A Critical Synthesis Studies in Higher Education، Greenwood Publishing Group, 2005, آئی ایس بی این 978-0-313-32061-3، p. 70:

    As for the nature of its curriculum, it was typical of other major madrasahs such as al-Azhar and al-Qarawiyyin, though many of the texts used at the institution came from Muslim Spain.۔.Al-Qarawiyyin began its life as a small mosque constructed in 859 C.E. by means of an endowment bequeathed by a wealthy woman of much piety, Fatima bint Muhammed al-Fahri.

  5. Suad Joseph، Afsaneh Najmabadi (2003-01-01)۔ Encyclopedia of Women & Islamic Cultures: Economics, education, mobility and space (بزبان انگریزی)۔ Brill۔ صفحہ: 314۔ ISBN 9789004128200۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2018 
  6. Keith E. Swartley (2005-01-01)۔ Encountering the World of Islam (بزبان انگریزی)۔ Biblica۔ صفحہ: 74۔ ISBN 978-1-932805-24-6۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2018