قوم لوط

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قوم لوط سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت لوط علیہ السلام پر ایمان نہ لائے تھے۔ اسے قرآن مجید میں قوم مجرمین بھی کہا گیا۔

قوم مجرمین[ترمیم]

قوم لوط کا قوم مجرمین کے نام سے قرآن میں یہ ذکر ہے

  • قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ
  • انھوں نے کہا بیشک ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

یعنی قوم لوط ایسے گندے افعال میں مبتلا تھی کہ اس سے پہلے کسی نے بھی ویسے گندے عمل نہیں کیے تھے۔ یہ لوگ لواطت کے بانی تھے۔ رہزن تھے ‘ لٹیرے تھے اور عام جلسوں میں سب کے سامنے بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ان ہی کے ایک برادر وطن حضرت لوط کو بھیجا لیکن قوم نے لوط کی نبوت ماننے سے انکار کر دیا اور بولے : اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ۔ لوط ( علیہ السلام) نے دعا کی : اے میرے ربّ ! مجھے اس ظالم قوم سے محفوظ رکھ اور ان مفسدوں کے مقابلہ میں میری مدد کر اور فتح عنایت فرما۔ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور ملائکہ کو ان بدکاروں کی ہلاکت کے لیے بھیج دیا۔[1]

قوم لوط[ترمیم]

  • القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں* لوط سے مراد( حضرت لوط علیہ السلام ہیں یہ اسم علم ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں۔ قوم لوط میں مراد خلاف فطرت فعل کرنے والے ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے لہذا وہ اس سے مراد نہیں ہیں۔[2]

قرآن میں ذکر[ترمیم]

قرآن میں قوم لوط کا ذکر 7 بار آیا ہے

  • فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ
  • فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ
  • وَيَا قَوْمِ لاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ
  • وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ
  • كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ
  • وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الأَيْكَةِ أُوْلَئِكَ الْأَحْزَابُ
  • كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ

== م>

قوم لوط کا علاقہ[ترمیم]

قوم لوط کا وہی علاقہ ہے جسے آج ہم بحرمیت یا بحیرہ مردار کہتے ہیں۔ یہ بحیرہ سمندر سے بھی زیادہ گہرائی میں ہے۔ چنانچہ اس میں پانی باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس بحیرہ میں مچھلی، مینڈک، کیڑا غرض کہ کوئی جاندار زندہ نہیں وہ سکتا۔ قوم لوط کا صدر مقام سدوم تھا۔ جو آج کل اسی بحیرہ میں غرق ہے۔ مگر کبھی یہ علاقہ بڑا سر سبز و شاداب تھا، غلوں اور پھلوں کی کثرت تھی یہاں کم ازکم پانچ خوبصورت بڑے شہر تھے جن کے مجموعہ کو قرآن کریم نے ” مؤتفکہ “ اور مؤتفکات، کے الفاظ سے بیان کاو ہے۔ نعمتوں کی فراوانی اور دولت کی ریل پیل نے یہاں کی قوم کو سرکش بنا دی تھا۔ اس قوم کی اصلاح کے لیے حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی
  2. مفردات القرآن، امام راغب اصفہانی
  3. تفسیر بصیرت قرآن ،مولانا محمد آصف قاسمی،الاعراف 80