لارج ہیڈرن کولائیڈر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
CERN میں ایل ایچ سی کا نقشہ

کائنات کیسے وجود میں آئی اور زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس بارے میں برسوں سے سائنسدانوں کا نظریہ ہے کہ ایک بڑے دھماکے یعنی بگ بینگ کے نتیجے میں ستارے، سیارے، کہکشائیں، سیارچے اور دیگر اجرام فلکی وجود میں آئے۔ سورج زمین دیگر ستاروں کا وجود بھی بگ بینگ کا ہی نتیجہ ہے۔

تعارف[ترمیم]

سائنس دانوں کے مطابق نظام شمسی کی تخلیق کے بعد کسی بیرونی سیارے سے آنے والے جراثیم کے نتیجے میں زمین پر زندگی کی ابتدا ہوئی۔ لیکن یہ صرف انکا اندازہ ہے، ابھی تک اس بارے مین کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا۔
کائنات کی تاریخ اور زمین پر زندگی کی ابتدا کے بارے میں جاننے کے لیے 1980ء کی دہائی میں ایسے تجربات کا نظریہ پیش کیا گیا۔ جس کے ذریعے بگ بینگ جیسے حالات پیدا کیے جاسکیں۔ سائنس دان اس خیال پر کام کرتے رہے اور بالآخر 1994ء میں پورپین آرگنائزیشن فار نیوکلئیر ریسرچ (سرن) نے اس منصوبے کی منضوری دے دی اور چار سال نعد اس پر عملی کام کا آغاز ہوا۔ آٹھ سال کی مسلسل محنت کے بعد 85 سے زاید ممالک کے دس ہزار سے زاید سائنس دانوں اور انجینئیرز نے اس منصوبے میں حصہ لیا۔ یہ سائنسی تاریخ کی سب کے بڑی مشین ہے۔ اس مشین کی تیاری میں پاکستانی سائنسدانوں نے بھی حصہ لیا۔ اس مشین کی لمبائی 27 کلومیڑ ہے اور اس کو سویڈن اور فرانس کی سرحد پر جنیوا کے قیرب 300 فٹ کی گہرائی میں ایک تجربہ گاہ میں نصب کیا گیا ہے۔ اس مشین کی تیاری پر تقریبا 8 ارب ڈالر صرف ہو چکے ہیں۔ اس طرح ایل ایچ سی کو تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے مہنگی میشن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

طریقہ کار[ترمیم]

اس مشین میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے پروٹان کی دو مخالف شعاعوں کو ٹکرایا جاے گا۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کے بعد وہی حالات پیدا ہوں گے جو بگ بینگ کے فورا بعد پیدا ہوئے تھے۔ تاہم ابھی تک اس مرحلے کی نوبت نہیں آئی۔

حال[ترمیم]

10 ستمبر 2008ء کو لارج ہیڈرن کولائیڈر کو آزمائشی طور پر فعال کیا گیا اور اس می سے پروٹان کی ایک شعاع کامیابی سے گزاری گئی لیکن اس کے ایل ایچ سی کے دو سپر کنڈکنگ مقناطیسوں میں خرابی پیدا ہو گئی جو ابھی تک دور نہیں کی جاسکی۔ سرن کے مطابق 2009ء کے وسط تک مذکورہ خرابی کو دور کر لیا جائے گا۔

بیرونی رابط[ترمیم]

لارج ہیڈرن کولائیڑ کی تصاویر