محسن خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محسن خان ٹیسٹ کیپ نمبر79
ذاتی معلومات
مکمل ناممحسن حسن خان
پیدائش (1955-03-15) 15 مارچ 1955 (عمر 69 برس)

کراچی، سندھ، پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا فاسٹ میڈیم گیند باز
حیثیتبلے باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 79)18 جنوری 1980  بمقابلہ  انگلستان
آخری ٹیسٹ20 نومبر 1989  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
پہلا ایک روزہ (کیپ 17)16 مارچ 1977  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
آخری ایک روزہ2 دسمبر 1986  بمقابلہ  سری لنکا
ملکی کرکٹ
عرصہٹیمیں
1970پاکستان ریلوے بی
1971پاکستان ریلوے اے
1972-73کراچی بلیوز
1973-74کراچی وائٹس
1974-78سندھ
1975-86حبیب بینک لمیٹڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس لسٹ اے
میچ 48 75 192 117
رنز بنائے 2709 1877 11274 3077
بیٹنگ اوسط 37.10 26.81 38.87 29.58
100s/50s 7/14 6/16 31/40 16/36
ٹاپ اسکور 200 128* 246 119
گیندیں کرائیں 86 12 1128 116
وکٹ 1 14 4
بالنگ اوسط 5.00 39.14 26.50
اننگز میں 5 وکٹ
میچ میں 10 وکٹ n/a n/a
بہترین بولنگ 1/2 2/13 1/0
کیچ/سٹمپ 34/– 13/– 141/– 32/–
ماخذ: کرکٹ آرکائیو، 21 اگست 2012

محسن حسن خان Mohsin Hasan Khan (پیدائش: 15 مارچ 1955ء کراچی, سندھ) پاکستان کے معروف سابق کرکٹ کھلاڑی اور کرکٹ تجزیہ کار،کرکٹ کوچ اور اداکار ہیں جنھوں نے 1977ء سے 1986ء کے درمیان 48 ٹیسٹ میچز اور 75 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں بطور اوپننگ بلے باز کھیلے۔ محسن حسن خان نے پاکستان کے علاوہ حبیب بینک لمیٹڈ' کراچی' پاکستان ریلوے' پاکستان یونیورسٹیز اور سندھ کی طرف سے بھی کرکٹ مقابلوں میں شرکت کی ان کے ایک بھائی اقبال حسن خان نے بھی کراچی یونیورسٹی کی طرف سے 2 فرسٹ کلاس میچوں میں شرکت کی۔

ابتدائی اور ذاتی زندگی[ترمیم]

محسن حسن خاں کے والد پاکستان بحریہ میں افسر تھے اور ان کی والدہ ریاستہائے متحدہ سے تعلیم یافتہ ایک استاد اور نائب پرنسپل تھیں، محسن حسن خان نے ابتدائی کھیلوں میں، ٹینس، تیراکی اور کرکٹ میں مہارت حاصل کی اور یہاں تک کہ وہ پاکستان کے جونیئر بیڈمنٹن چیمپئن بھی بن گئے تھے لیکن آخرکار ان کا دل کرکٹ میں اٹک گیا اور وہ اسی کے ہو کر رہ گئے ڈاتی زندگی میں محسن حسن خان نے بالی ووڈ فلم اسٹار رینا رائے سے شادی کی اور بھارتی فلم انڈسٹری میں ایک اداکار کے طور پر جانے گئے اپنے مختصر فلمی کیریئر کا آغاز انھوں نے جے پی دتہ کی 1989ء کی فلم بٹوارا سے کیا۔ بالی ووڈ میں ان کی سب سے بڑی کامیابی مہیش بھٹ کی کرائم تھرلر ساتھی تھی جو 1991 میں ریلیز ہوئی تھی، جس میں ساتھی اداکار آدتیہ پنچولی اور ورشا اسگاونکر تھے۔ اس کے بعد اس نے رائے کو طلاق دے دی اور پاکستان میں دوبارہ شادی کر لی اور کراچی پاکستان میں رہائش پزید ہے۔ محسن خان نے 90ء کی دہائی میں پاکستان میں کئی فلموں میں اداکاری کی۔ رینا رائے کے ساتھ اس کی ایک بیٹی ہے، جو اب بھارت میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کا نام جنت رکھا تھا لیکن اب وہ صنم خان کہلاتی ہے۔

بین الاقوامی کیریئر[ترمیم]

1982-83ء میں لاہور میں بھارت کے خلاف پاکستان کے اوپنر کے طور پر کھیلتے ہوئے، انھوں نے پاکستان کی دوسری اننگز میں 135/1 کے مجموعی مجموعے میں سے 101 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی ٹیم کا سب سے کم اسکور ہے جس میں سنچری شامل ہے۔

ٹیسٹ کیرئیر[ترمیم]

محسن جنوب ایشیائی کھلاڑیوں میں سے ایک اقلیت تھے جنھوں نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حالات کو پورا کیا، 1983/84ء میں آسٹریلیا میں لگاتار دو سنچریاں اسکور کیں اور لارڈز میں ٹیسٹ ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بن گئے، جس نے اس نے پہلے 1982ء میں کیا تھا۔محسن خان کو 1978-79ء کی سیریز میں انگلستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے 44 رنز بنائے۔ اسی سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ برمنگھم کے ٹیسٹ میں انھوں نے 35 اور 38 جبکہ لارڈز کے ٹیسٹ میں 31 اور 46 بنائے۔ سیریز کے آخری ٹیسٹ میں لیڈز کے مقام پر 41 رنز بنائے۔ وہ 1982ء تک ملی جلی کارکردگی کے ساتھ کرکٹ مقابلوں میں شریک رہے۔ 1982ء میں جب سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کیا تو فیصل آباد کے ٹیسٹ میں انھوں نے 74 رنز کی اننگ کھیلی جو ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی نصف سنچری تھی۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے شاندار اننگ کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی باری 500 رنز 7 کھلاڑی آئوٹ پر ڈکلیئر کردی۔ اننگ میں ظہیر عباس 134 رنز، محسن حسن خان 129 رنز سکور کیے۔ 173 گیندوں پر بننے والے ان رنزوں میں تکمیل میں انھوں نے 17 چوکے رسید کیے تھے۔ سری لنکا کی ٹیم پہلی اننگ میں 240 بنا سکی تھی، دوسری اننگ میں 158 رنز پر آئوٹ ہو گئی۔ اس طرح پاکستان نے یہ ٹیسٹ ایک اننگ اور 102 رنز سے جیت لیا۔ محسن حسن خان کے لیے یہ ٹیسٹ سیریز اتنی اہم ثابت ہوئی کہ آنے والے سالوں میں وہ کرکٹ ٹیم کا مستقل حصہ بن گئے۔ 1982ء میں پاکستان نے انگلستان کا وہ مشہور دورہ کیا جس میں محسن خان نے لارڈز کے کرکٹ گرائونڈ پر ڈبل سنچری بنائی تھی حالانکہ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں وہ 26 اور 35 تک ہی محدود رہے لیکن لارڈز کا ٹیسٹ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جہاں انھوں نے پاکستان کی پہلی اننگ 428 رنز 8 وکٹوں کے نقصان پر بنائے۔ محسن خان نے اوپنر کی حیثیت سے کئی ریکارڈ بنائے۔ انھوں نے 386 گیندوں پر 23 چوکوں کی مدد سے یہ 200 رنز بنائے۔ اس دوران انھوں نے منصور اختر کے ساتھ مل کر دوسری وکٹ کے لیے 143 رنز بنائے جبکہ چوتھی وکٹ کے لیے جاوید میانداد کے ساتھ سکور میں 153 رنز کا اضافہ کیا۔ انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔ 1982ء کے سیزن میں ہی آسٹریلیا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو محسن حسن خان اپنی کارکردگی کے عروج پر تھے۔ انھوں نے کراچی میں 58، فیصل آباد میں 76 رنز کی باریاں سکور کیں لیکن لاہور میں انھوں نے ایک اور سنچری سکور کردی۔ انھوں نے 135 رنز بنائے۔ یہ ٹیسٹ بھی پاکستان کی 9وکٹوں سے فتح پر ختم ہوا تھا جس کے مرد میدان عمران خان تھے جنھوں نے میچ میں 8وکٹیں لیں۔ محسن خان نے پاکستان کی 467 رنز کی اننگ میں ایک بڑا حصہ ڈالا تھا۔ جاوید میانداد کے 138 کے بعد یہ محسن خان ہی تھے جنھوں نے 218 گیندوں پر 17 چوکوں کی مدد سے یہ اننگ ترتیب دی تھی۔ اسی سیزن میں بھارت کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کے دورہ پر آ موجود ہوئی۔ لاہور کے پہلے ٹیسٹ میں ہی انھیں محسن حسن خان کی بلے بازی کے جوہر دیکھنے کو ملے جہاں اس نے پہلی اننگ میں 94 اور دوسری اننگ میں 101 ناقابل شکست رنز سکور کیے تاہم کراچی، فیصل آباد، حیدرآباد اور لاہور کے ٹیسٹوں میں وہ کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ 1983ء کے سیزن کے آغاز میں ہی بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے ٹیسٹ میں ان کے 91 رنز کی باری بھی ہمیں دیکھنے کو ملی۔ پاکستان کے جوابی دورے میں وہ 44 رنز کی ایک باری ناگپور کے ٹیسٹ میں کھیلنے کے علاوہ کوئی نمایاں اننگ کا نہ کھیل سکے۔ اسی سیزن میں پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انھوں نے 2 سنچریاں سکور کیں۔ پرتھ، برسبین اور سڈنی کے ٹیسٹوں میں اگرچہ رنز ان کے بلے سے ناراض رہے لیکن ایڈیلیڈ کے تیسرے ٹیسٹ میں ان کا دائو چل گیا جب پاکستان نے آسٹریلیا کے 465 رنز کے جواب میں 624 رنز بنا ڈالے۔ اس میچ میں محسن خان کی 16چوکوں سے مزین 149 رنز کی باری بھی شامل تھی۔ جاوید میانداد 131، قاسم عمر 113 اور سلیم ملک 77 نے بھی اس میں حصہ ڈالا تھا۔ اس دوران انھوں نے قاسم عمر کے ساتھ مل کر دوسری وکٹ کے لیے 233 رنز سکور کیے۔ میچ بڑی اننگز کی وجہ سے ڈرا پر ختم ہوا۔ چوتھے ٹیسٹ میں بھی محسن حسن خان نے اپنی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 470 رنز بنائے جس میں محسن خان 152، عمران خان 83، عبد القادر 45 نے نمایاں حصہ ڈالا تھا تاہم دوسری باری میں محسن خان صرف 3 رنز ہی بنا سکے۔ سڈنی میں 14 اور 1 رنز کے ساتھ یہ سیریز بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ وطن واپسی پر ان کا سامنا انگلستان کی ٹیم سے ہوا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں 54 رنز بنانے کے بعد فیصل آباد میں 20 اور 2 جبکہ لاہور کے آخری ٹیسٹ میں انھوں نے ایک بار پھر 104 رنز پر مشتمل ایک بڑی اننگ کھیلی۔ اگلا دورہ بھارت کا تھا جس میں انھوں نے فیصل آباد کے مقام پر 59 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اگلے ٹیسٹ میں انھوں نے ایک اور نصف سنچری 58 رنز سکور کیے۔ اس کے بعد اگلے ٹیسٹوں میں نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ تاہم انھوں نے 1985ء میں سری لنکا کے خلاف سیالکوٹ میں 85 اور 44 رنز سکور کیے۔ 1986ء میں سری لنکا کے خلاف 35 اور 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی آخری سیریز میں 40 اس کا بہترین سکور تھا۔ 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی کے آخری ٹیسٹ میں وہ بالکل ناکام رہے اور انھوں نے 1 اور 4 رنز پر ہی ہمت ہار دی اور یوں اپنے آخری ٹیسٹ کو یادگار نہ بنا سکے۔

ون ڈے کرکٹ کیرئیر[ترمیم]

محسن حسن خان کو ایک روزہ مقابلوں کے لیے 1977ء میں میدان میں اتارا گیا تھا جہاں انھوں نے 15 رنز بنائے۔ 1978ء میں انگلستان کے خلاف 51 ناقابل شکست رنز اور سری لنکا کے خلاف 1982ء میں کراچی کے مقام پر 85 رنز بنائے۔ 1982ء میں ہی انھوں نے 36، 47 اور 17 کی اننگز کھیلیں۔ محسن خان نے پہلی ون ڈے سنچری آسٹریلیا کے خلاف حیدرآباد میں سکور کی۔ جبکہ دوسری سنچری بھی اسی سیزن میں انڈیا کے خلاف ملتان میں سامنے آئی۔ جہاں اس نے 117 ناقابل شکست رنز سکور کیے۔ 1983ء کے عالمی کپ میں سری لنکا کے خلاف سوانسی کے مقام پر اس کے 82 قابل دید رنزوں نے ٹیم کی خوب مدد کی۔ اس طرح اوول میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 70 رنز کی اننگ کھیلنے کے علاوہ 3 کھلاڑیوں کو بھی کیچ کیا۔ اس کے بعد کے عرصے میں 1985ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف 49، میلبورن میں آسٹریلیا کے خلاف 81 اور ویسٹ انڈیز کے خلاف شارجہ میں 86 ناقابل شکست اننگز بھی اس کے کھیل پر گرفت کی عکاس رہیں۔ 1985ء میں کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 54 اور 1986ء میں سری لنکا کے خلاف کینڈی کے مقام پر 59 رنز کی باری بھی اس نے سکور کرکے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1986ء میں سری لنکا کے خلاف کولمبو میں 30 اور 39 جبکہ شارجہ میں آسٹریلیا کے خلاف 46، نیوزی لینڈ کے خلاف 34 ناقابل شکست اور بھارت کے خلاف 36 رنز کی اننگز بھی ترتیب دی۔ 1986ء میں شارجہ کے مقام پر سری لنکا کے خلاف اس کا آخری ون ڈے میچ تھا۔ یوں اس نے 75 ایک روزہ مقابلوں میں 1977ء سے لے کر 1986ء تک ملک کی نمائندگی کی۔ اس دوران انھوں نے ایک وکٹ بھی حاصل کی جبکہ 13 کیچز بھی اس کے ریکارڈ کا حصہ بنے

کرکٹ انتظامیہ[ترمیم]

2 مارچ 2010ء کو، محسن خان کو پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر کے طور پر اقبال قاسم کا جانشین نامزد کیا گیا۔ انھوں نے سابق کپتان سعید انور کی طرف سے ٹھکرائے گئے کردار کو قبول کیا۔ محسن 2009-10ء کے 12 مہینوں میں پاکستان کے چوتھے چیف آف سلیکٹر تھے۔ انھیں 3 اکتوبر 2011ء کو پاکستانی ٹیم کا عبوری کوچ مقرر کیا گیا تھا جبکہ پی سی بی نے ایک تصدیق شدہ کوچ کی تلاش کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ محسن خان کو عبوری کوچ کے طور پر ہٹا دیا گیا تھا جب ڈیو واٹمور کو 2012ء کے اوائل میں پاکستان کا مستقل کوچ منتخب کیا گیا تھا۔ عبوری کوچ کے طور پر ہٹائے جانے کے بعد سے محسن خان نے متعدد مواقع پر کوچنگ کے عہدے کے لیے درخواست دی ہے جس میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ اس وقت کراچی میں مقیم ہیں اور انھیں مختلف نجی ٹی وی چینلز پر دیکھا جا سکتا ہے، وہ مسلسل پی سی بی کے ساتھ کردار کی تلاش میں ہیں۔

فلمی سفر[ترمیم]

  • 1989 بٹوارہ (نامزد، بہترین معاون اداکار (فلم فیئر ایوارڈ)
  • 1991 ساتھی (بلاک بسٹر)
  • 1991 پرتیکر
  • 1991 گنہگار کون
  • 1991 فتح
  • 1992 لاٹ صاب
  • 1992 تیاگی
  • 1993 ہاتھی میرے ساتھی۔
  • 1993 جنت
  • 1994 بیٹا
  • 1994 میڈم ایکس
  • 1996گھونگھٹ
  • 1997 مہانتا

اعداد و شمار[ترمیم]

محسن حسن خان نے 48 ٹیسٹ میچوں کی 79 اننگز میں 6 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 2709 رنز بنائے۔ لارڈز کے میدان پر ان کی ڈبل سنچری 200 ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا جس کے لیے انھیں 37.10 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 7 سنچریاں اور 9 نصف سنچریاں' 34 کیچز کے ساتھ ان کے ریکارڈ کی زینت ہیں۔ محسن حسن خان نے 75 ایک روزہ مقابلوں کی اتنی ہی اننگز میں 5 مرتبہ اپنی وکٹ بچا کر 1877 رنز 26.81 کی اوسط سے بنائے۔ 117 ناٹ آئوٹ ان کا بہترین سکور ہے۔ 2 سنچریاں' 8 نصف سنچریاں اور 8 کیچز بھی ان کی اعلیٰ کارکردگی کا نمونہ ہیں۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 11274 رنز 38.87 کی اوسط سے 246 کے سب سے بڑے انفرادی سکور کی مدد سے بنائے۔ 321 اننگز میں وہ 31 مرتبہ کسی بھی کھلاڑی کے ہاتھوں آئوٹ نہیں ہوئے۔ 31 سنچریاں' 40 نصف سنچریاں اور 141 کیچ بھی ہمیں ان کے ریکارڈ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ محسن حسن خان نے ایک روزہ مقابلوں میں ایک اور فرسٹ کلاس میچوں میں 14 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔ اس عظیم اوپنر کھلاڑی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایک اننگ میں سنچری بنائی ہو اور نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے ہوں۔ 1982ء میں بھارت کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں محسن حسن خان پہلی اننگ میں 94 کے ساتھ نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے تاہم دوسری اننگ میں انھوں نے آئوٹ ہوئے بغیر 101 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے حنیف محمد' ظہیر عباس' سعید انور' یونس خان' محمد حفیظ اور عابد علی بھی اس منظر نامہ سے گذر چکے ہیں۔ محسن حسن خان اس لحاظ سے بدقسمت کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں کہ وہ 1982ء ہی میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 58 رنز پر کھیل رہے تھے کہ ہینڈل دی بال کی اصطلاح میں اننگ گنوا بیٹھے۔ پاکستان کا کوئی دوسرا کھلاڑی اس طرح آئوٹ ہوکر کریز سے رخصت نہیں ہوا۔ محسن حسن خان اس فہرست میں بھی تیسرے نمبر پر ہیں جو کھلاڑی کریز پر (گیندوں کے اعتبار سے سب سے کریز پر ٹکے) جب انھوں نے 1983ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اوول ٹیسٹ میں 70 رنز بنانے کے لیے 176 بالوں کا سامنا کیا۔ اس فہرست میں جاوید میانداد بھی بعد ازاں شامل ہو گئے[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]