ملکہ نورجہاں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ملکہ نورجہاں

پادشاہ بیگم
دور حکومت 25 مئی 1611ء8 نومبر 1627ء
شریک حیات yes
معلومات شخصیت
پیدائشی نام مہرالنساء
پیدائش جمعہ 13 ربیع الاول 985ھ/ 31 مئی 1577ء

قندھار، جنوبی افغانستان
وفات اتوار 28 شوال 1055ھ/ 17 دسمبر 1645ء
(عمر: 68 سال 6 مہینے 8 دن شمسی)

لاہور، مغلیہ سلطنت، موجودہ پنجاب، پاکستان
شہریت مغلیہ سلطنت [1]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب شیعہ اسلام
شریک حیات شیر افگن خان (1594ء1607ء)
جہانگیر مئی (1611ءنومبر 1627ء)
اولاد لاڈلی بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مرزا غیاث بیگ
والدہ عصمت بیگم
بہن/بھائی
خاندان تیموری سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل لاڈلی بیگم
دیگر معلومات
پیشہ شاعرہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نور جہان 1577 میں قندہار (آج کے افغانستان) کے ایک معزز ایرانی گھرانے میں پیدا ہوئیں جنھوں نے صفوی دور میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے نتیجے میں اپنا ملک چھوڑ کر زیادہ روادار مغل سلطنت میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اپنے والدین کے ملک اور اپنے نئے وطن کی مخلوط روایت میں پروان چڑھنے والی نور جہاں کی پہلے مغل حکومت کے ایک اہل کار شیرافگن سے سنہ 1594 میں شادی ہوئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مشرقی ہند کے امیر صوبے بنگال منتقل ہو گئیں۔ تاریخ میں نورجہاں کے متعلق بہت سی متضاد تحریریں بھی ملتی ہیں اور معتدل تحریریں بھی، تاریخ کی بعض کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جہانگیر کو نورجہاں پسند آگئی تھی اور اس نے نور جہاں کے شوہر کو ایک جنگ میں بھیج کر اپنے کارندوں کے ہاتھوں مروا دیا تھا ، اس کے ساتھ ہمیں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ جب ان کے شوہر پر جہانگیر کے خلاف سازش میں شامل ہونے کا شبہ پیدا ہوا تو بادشاہ نے بنگال کے گورنر کو اسے اپنے دربار آگرہ میں پیش کرنے حکم دیا۔ لیکن نور جہاں کا شوہر گورنر کے آدمیوں کے ساتھ تصادم میں مارا گیا۔

مقبرہ نورجہاں کے ساتھ خالصہ لیٹروں کا سلوک[ترمیم]

نورجہاں برصغیر کے شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ تھی۔ ان کا مزار لاہور کے نواح میں دریائے راوی کے کنارے موجود ہے۔ سکھ دور میں جب لوٹ کھسوٹ کی گئی اور مقبروں اور قبرستانوں کو بھی نہ بخشا گیا ،اس دور میں سکھ مظالم کا شکار مقبرہ نورجہان بھی ہوا۔ جس تابوت میں ملکہ کو دفنایا گیا تھا وہ اکھاڑا گیا اور اس کے اوپر لگے ہیرے جواہرات پر خالصہ لٹیروں نے ہاتھ صاف کیے۔ بعد ازاں مقبرہ کے ملازموں نے تابوت کو عین اسی جگہ کے نیچے جھاں وہ لٹکایا گیا تھا زمین میں دفن کر دیا۔

۔ مندرجہ ذیل بیت اسی کا ہے جو اس کے مزار کی لوح پر لکھا گیا ہے۔

برمزارِ ماغریبان نی چراغِ نی گلِ
نی برپروانہ سوزد نی صدای بلبل،

ایک موقع پر جہانگیر نے یہ شعر کہا:

بلبلِ نیم کہ نعرۂ کشم درد سر دہم
پروانۂ کہ سوزم و دم برنیا ورم

نورجہان نے فوراً جواب دیا:

پروانہ من نیم کہ بہ یک شعلہ جان دہم
شمعم کہ شب بسوزم و دم برنیا ورم

شادی[ترمیم]

سترہ سال کی عمر میں مہرالنسا کی شادی ایک بہادر ایرانی نوجوان علی قلی سے ہوئی، جنہیں جہانگیر کے عہد کے آغاز میں شیر افگن کے خطاب اور بردوان کی جاگیر سے نوازا گیا تھا۔ 1607 ء میں جہانگیر کے قاصدوں نے شیر افگن کو ایک جنگ میں مار ڈالا۔ مہرالنسا  کو دہلی لایا گیا اور شہنشاہ کے شاہی حرم  میں بھیج دیا گیا۔ یہاں وہ شہنشاہ اکبر کی بیوہ ملکہ رقیہ بیگم  کی خدمت پر مامور کی گئیں۔

بیوہ مہرالنسا کو جہانگیر کے حرم میں پناہ ملی جہاں دوسری خواتین نے ان پر اعتماد کرنا اور ان کی تعریف کرنا شروع کر دیا۔ نور جہاں نے جہانگیر سے سنہ 1611 میں شادی کی اور وہ اس کی 20 ویں اور آخری بیوی ہوئيں۔ مہرالنسا کو نوروز کے تہوار کے موقع پر پہلی بار جہانگیر نے دیکھا اوروہ ان کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا۔ جہانگیراور مہرالنسا 1611 میں رشتہ ازدواج سے  منسلک ہوئے۔ شادی کے بعد جہانگیر نے انھیں 'نورمحل' اور 'نور جہاں' کے لقب سے نوازا۔ 1613 ء میں نور جہاں کو 'بادشاہ بیگم' بنایا گیا۔ عمومی طور پر درباری ریکارڈ میں بہت کم خواتین کا ذکر کیا جاتا تھا لیکن سنہ 1614 کے بعد اپنے روزنامچے میں نور جہاں کے ساتھ اپنے مخصوص رشتے کا ذکر کرنا شروع کیا۔ اور انھوں نے نورجہاں کا توصیفی خاکہ پیش کیا کہ وہ حساس ساتھی ہیں، ایک شاندار خیال رکھنے والی ہیں، ایک ماہر مشورہ دینے والی، ایک اچھی شکاری، سفیر اور فن کی پرستار ہیں۔

بہت سے تاريخ دانوں کا خیال ہے کہ جہانگیر شراب کی مریضانہ لت کا شکار تھا جسے حکومت پر توجہ دینے کی طاقت نہیں تھی اور اسی لیے اس نے اپنی حکومت کی عنان نور جہاں کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔ لیکن اس میں مکمل صداقت نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ بادشاہ بلانوش تھا اور افیم کا دھواں اڑاتا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ اپنی بیگم سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن یہ نور جہاں کے ایک اہم حکمراں بننے کی وجوہات نہیں ہیں۔ دراصل نور جہاں اور جہانگیر ایک دوسرے کو مکمل کرتے تھے اور بادشاہ اپنی بيگم کے شریک حکمراں ہونے کے بوجھ سے کبھی غیر مطمئن نہیں ہوا۔

نورجہاں کی شخصیت[ترمیم]

اس سلطنت کی واحد خاتون حکمران ہونے کے ناطے نور جہاں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی لوک کہانیوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ ان پر ناول لکھے گئے ہیں، فلمیں بنائی گئی ہیں اور ڈرامے بھی نشر کیے جا چکے ہیں۔وہ شاعرہ، ماہر شکاری اور ماہر فن تعمیر تھیں۔ اپنے والدین کے لیے انھوں نے آگرہ میں مقبرے کا جو ڈیزائن تیار کیا تھا اس کی جلوہ گری بعد میں تاج محل میں نظر آتی ہے۔سنہ 1617 میں سونے اور چاندی کے سکوں پر جہانگیر کے نام کے ساتھ ان کا نام بھی کندہ ہونے لگا۔ دربار کے واقعہ نویس، غیر ملکی سفیر، تجار اور درباری جلد ہی ان کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے۔ایک درباری نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کس طرح انھوں نے مردوں کے لیے مخصوص شاہی بالاخانے پر آکر لوگوں کو حیران کر دیا۔ یہ ان کی حکم عدولی کی واحد مثال نہیں۔شکار کرنا ہو یا شاہی فرمان اور سکے جاری کرنا ہو، سرکاری عمارات ڈیزائن کرنا ہو یا غریب خواتین کی امداد کے کام کرنا ہو یا پسماندوں کی آواز اٹھانا ہو نور جہاں نے ایسی زندگی گزاری جو اس وقت کی خواتین کے لیے لیے غیر معمولی تھی۔انھوں نے بادشاہ کے قید کیے جانے کے بعد ان کو بچانے کے لیے فوج کی قیادت بھی کی جو ایسا ہمت والا کام تھا جس سے ان کا نام عوام کی یادداشت اور تاریخ میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔


شاہدره باغ میں واقع مقبرہ نور جہاں، لاہور
  1. ^ ا ب Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 5 مارچ 2020