منتخب اللباب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

منتخب اللباب خافی خاں نظام الملک کی تصنیف ہے جو ہندوستان کی عمومی کتب ہائے تواریخ میں شمار کی جاتی ہے۔

منتخب ال لباب ( عربی "دانشمندوں اور خالصوں کے منتخب کردہ [ریکارڈ" کے لیے عربی ] [1] ) ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں ایک فارسی زبان کی کتاب ہے ۔ 1732 کے آس پاس مکمل ، یہ موجودہ ہندوستان کی مغل سلطنت میں خافی خان نے لکھ تھی۔ کتاب کا عنوان بھی منتخب اللوباب کے عنوان سے عبارت ہے ۔ اس کو تاریخ خافی خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ [2]

مشمولات[ترمیم]

کتاب کو تین جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے: [1]

  1. جلد 1 کے سودے میں لودھیوں تک کے مقامی شاہی خاندان شامل ہیں
  2. جلد 2 میں تیموری خاندان اور مغل شہنشاہ اکبر تک کا احاطہ کیا گیا ہے ، اس میں سور انتشار شامل ہے
  3. جلد 3 اکبر کی وفات کے بعد مغل دور (1605) پر محیط ہے

اس کتاب میں محمد شاہ کے دورِ حکومت کے 14 ویں سال یعنی 1732 کے آغاز تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں مغل خاندان کی تاریخ کو تفصیل سے شامل کیا گیا ہے ، ان میں ان کے آبا و اجداد تیمور اور اس کے جانشین بھی شامل ہیں۔ شاہ جہاں اورنگزیب کے دور حکومت کے لیے معلومات کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ [3] مغلوں کے علاوہ ، گرو گوبند سنگھ اور بندہ سنگھ بہادر کے عہد میں سکھ تاریخ کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ [1]

خافی خان کے مطابق ، 1669 کے بعد اس کا دورانیہ ان کے ذاتی مشاہدات اور دیگر گواہوں کی زبانی گواہی پر مبنی تھا۔ [1]

ایڈیشن اور ترجمہ[ترمیم]

سن 1768–1774 کے دوران ، مولوی کہترالدین نے کتاب کو ایڈٹ کیا اور کلکتہ میں چھاپی۔ اس کے اقتباسات کے انگریزی ترجمے ایچ ایم ایلیوٹ اور جان ڈاؤسن دی ہسٹری آف انڈیا میں شائع ہوئے ، جیسا کہ اس کے اپنے مؤرخین (جلد VII) نے بتایا اور ولیم ایرسکائن کی ہندوستان کی تاریخ بابر اور ہمایوں کے ماتحت ہے ۔ [1]


مصنف[ترمیم]

منتخب اللباب کے مصنف کا نام خافی خاں نظام الملک ہے۔ سیرالمتاخرین کے مصنف غلام حسین طباطبائی نے خافی خاں کا نام ہاشم علی خاں تحریر کیا ہے لیکن خود خافی خاں نے کتاب کے دیباچہ میں اپنا نام محمد ہاشم خافی المخاطب بہ خافی خاں نطام الملک لکھا ہے۔ بعض یورپی مصنفین کا خیال ہے کہ اُس کا لقب خافی خاں لفظ خفا سے مخرج ہوا ہے اور اِس کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے بڑی سختی سے تاکید کردی تھی کہ اُس کے عہد کی تاریخ نہ لکھی جائے، لیکن خافی خاں نے خفیہ طور پر اپنی تاریخ مرتب کی اور جب اِس کی اشاعت ہوئی تو مصنف کا لقب خافی خاں مشہور ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خافی خاں کے اجداد خواف کے باشندے تھے جو خراسان اور نیشاپور کے مابین آباد ایک مقام ہے۔ اکثر تاریخی کتب میں خافی خاں کا نام خوافی خاں لکھا ہوا ہے۔

تفصیلات متن[ترمیم]

یہ تاریخ ہندوستان کی عمومی کتب ہائے تواریخ میں مشہور تاریخ ہے۔ اِس کی ابتدا فتوحات اسلام سے مغل شہنشاہ محمد شاہ کے زمانہ تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ فارسی زبان میں یہ کتاب تین جلدوں میں منقسم ہے۔ جلد اول میں امیر ناصر الدین سبکتگین کے عہدِ حکومت سے لے کر سلطان ابراہیم لودھی کے انقراض تک دہلی سلطنت کے سلاطین کا تذکرہ مفصل موجود ہے۔جلد دوم میں سلاطین تیموریہ یعنی امیر تیمور سے لے کر محمد شاہ کے عہد تک کی تاریخ مرقوم ہے۔ جلد سوم میں سلاطین دکن کی تاریخ و حالات موجود ہیں۔ پہلی جلد نادر و کمیاب رہی ہے، جبکہ دوسری اور تیسری جلدیں بنگال کی ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی سعی و کوشش سے شائع ہوئی تھیں۔منتخب اللباب کی دوسری جلد جس میں سلاطین تیموریہ کے حالات موجود ہیں، ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کی فتح ہندوستان یعنی پانی پت کی پہلی جنگ (21 اپریل 1526ء) سے شروع ہوتی ہے۔ اِس کے بعد نصیرالدین ہمایوں، جلال الدین اکبر، شاہ جہاں، اورنگزیب عالمگیر، اعظم شاہ، بہادر شاہ اول، جہاندار شاہ، فرخ سیر اور محمد شاہ کے واقعات شرح و بسط کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ نصیرالدین ہمایوں، جلال الدین اکبر کے مابین سلطنت سور کے حکمرانوں کا تذکرہ بھی لکھا گیا ہے۔ دوسری جلد کے مقدمہ میں ترک بن یافث کے زمانے سے ظہیرالدین محمد بابر تک شاہانِ مغلیہ کا مختصر حال مذکور ہے۔[4]

اشاعت[ترمیم]

اِس کی دوسری جلد کو دو جلدوں میں 1868ء سے 1874ء تک تقریباً چھ سالوں میں کلکتہ سے شائع کیا گیا۔ تیسری جلد 1921ء میں سر وِلزلی ہیگ کی کوششوں سے شائع کی گئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ Harbans Singh، مدیر (1992)۔ The Encyclopaedia of Sikhism: M-R۔ Punjabi University۔ صفحہ: 148۔ ISBN 978-81-7380-349-9 
  2. B. Sheikh Ali (1978)۔ History, Its Theory and Method۔ Macmillan۔ صفحہ: 396 
  3. H. Beveridge (1993)۔ "K̲h̲wāfī K̲h̲ān"۔ $1 میں M. Th. Houtsma۔ E. J. Brill's First Encyclopaedia of Islam, 1913-1936۔ BRILL۔ صفحہ: 868–869۔ ISBN 90-04-09790-2 
  4. حکیم شمس اللہ قادری: مورخین ہند، صفحہ 66۔ مطبوعہ حیدرآباد دکن 1932ء