منڈی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اصطلاح term
منڈی market
Wet market in Singapore

منڈی مختلف انواع کے نظامات، اداروں، طرائق، معاشرتی نسبتوں اور بنیادی ڈھانچہ کو کہتے ہیں بذریعہ جس کے افراد اپنی مرضی سے اشیاء کا تبادلہ کرتے ہیں۔
پچھلے تین چار سو سالوں سے گورے کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ خرید و فروخت کی لگ بھگ ہر شے کو کاغذی شکل بھی دے دی جائے۔ مثلاً روئی اپنی اصل شکل میں بھی منڈی میں دستیاب ہوتی ہے اور کاغذی شکل (اسٹاک، فیوچر، آپشن وغیرہ) کی شکل میں بھی۔ یہی صورت حال غلہ، دھاتوں، معدنی تیل وغیرہ کی بھی ہے۔ روئی کی پیداوار محدود ہو سکتی ہے لیکن روئی کے اسٹاک دنیا میں پیدا ہونے والی روئی کی مقدار سے زیادہ چھاپے جا سکتے ہیں۔ جب امیر ممالک ایسی چیزیں امپورٹ یعنی درآمد کرتے ہیں تو کاغذی منڈی میں اس چیز کی بھرمار کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اصل مارکیٹ میں بھی ان چیزوں کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور گوروں کو یہ چیز نہایت سستے داموں دستیاب ہوتی ہے۔ [1] اس کے برعکس جب وہ کوئی چیز تیسری دنیا کو ایکسپورٹ یعنی برآمد کرتے ہیں تو کاغذی منڈی میں اس چیز کے اسٹاک کم کر کے ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ چاکلیٹ بنانے کے لیے cocoa bean ایکسپورٹ کرنے والے ممالک اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ چند سال پہلے ہم ایک ٹن cocoa bean ایکسپورٹ کر کے ایک جیپ خرید سکتے تھے مگر اب وہی ایک جیپ خریدنے کے لیے ہمیں 10 ٹن cocoa bean ایکسپورٹ کرنے پڑتے ہیں۔[2]

اقسام[ترمیم]

بنیادی طور پر منڈی (مارکیٹ) دو قسم کی ہوتی ہیں۔

  1. اجناس کی منڈی
  2. مالیات کی منڈی

اجناس کی منڈی[ترمیم]

اس میں روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی لین دین ہوتی ہے۔ عام طور پر اجناس کی منڈی کو غلہ منڈی کہا جاتا ہے۔ یہ منڈی اس وقت بھی موجود تھی جب انسان نے تاریخ لکھنا نہیں سیکھا تھا۔ آج کل ہر کسان انٹرنیٹ کے ذریعے غلہ منڈی ریٹ جاننا چاہ رہا ہوتا ہے۔

اس کی مزید دو بڑی قسمیں ہوتی ہیں۔

  1. حقیقی منڈی جہاں خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے ربط بناتے ہیں جیسے بازار، شاپنگ مال وغیرہ۔ نیلام بھی حقیقی منڈی کی ایک قسم ہے۔
  2. آن لائن منڈی جہاں موبائل فون یا انٹرنیٹ کی مدد سے خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں جیسے علی بابا یا ایمیزون۔ آن لائن منڈیاں انیسویں صدی کے وسط میں ٹیلی گرافی کی ایجاد کے بعد وجود میں آئیں۔

مالیات کی منڈی[ترمیم]

اس میں مالیاتی کاغذوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ 1602ء میں اس وقت شروع ہوئی جب ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی نے دنیا میں پہلی دفعہ اپنے کاغذی شیئر چھاپ کر بیچنے شروع کیے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی اثاثے بتدریج ڈیجیٹل اثاثوں میں تبدیل ہو گئے۔

مالیاتی منڈی کی مزید 4 اقسام ہوتی ہیں۔[3]

1. اسٹاک مارکیٹ۔ اس میں کسی کمپنی کے کاغذی حصص کی لین دین ہوتی ہے۔
2. بونڈ مارکیٹ۔ اس میں حکومت یا کسی بڑی کمپنی کے قرضوں کی کاغذی دستاویزات کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ان قرضوں پر بونڈ کے خریدار کو سود ملتا ہے۔
U.S. sovereign bonds or Treasuries is the single most important market in the world.[4]
3. فورین ایکسچینج مارکیٹ۔ اس میں مختلف ممالک کی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ آج دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
4. فیوچر مارکیٹ۔ اس میں کسی جنس (چیز) کی مستقبل کی قیمت کے اندازوں پر سٹے بازی ہوتی ہے۔
جنس عالمی کاروبار کا روزانہ حجم[5]
معدنی تیل (پیٹرولیئم) 7 ارب ڈالر
اسٹاک (شیئر) 270 ارب ڈالر
بونڈ (قرضے) 835 ارب ڈالر
کرنسی (فورین ایکسچینج) 6,600 ارب ڈالر[6]

اقتباس[ترمیم]

  • ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مرکزی بینک اور ان کی پالیسیاں بڑی بے رحمی سے منڈی کا استحصال کرتی ہیں۔
we live in times of broad market correlations having been mercilessly raped by central bankers and their policies.[7]
  • سونے کی منڈی میں ہیرا پھیری اس لیے کی جاتی ہے کہ افراط زر کو چُھپایا جا سکے۔
Gold market rigging is done to hide the perception of inflation... Bullion banks do the dirty work for the central banks by manufacturing an unlimited supply of paper gold. [8]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]