ٹریفن کا مخمصہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ٹریفن کے مخمصہ کو انگریزی میںTriffin dilemma یا Triffin's Paradox کہتے ہیں۔ اس سے مراد وہ پیچیدگی ہے جو عالمی ریزرو کرنسی (Global Reserve Currencies) جاری کرنے والے ممالک کو بُھگتنی پڑتی ہے۔ عالمی ریزرو کرنسی جاری کرنے والا ملک کچھ ایکسپورٹ کرنے کی بجائے محض کرنسی چھاپ چھاپ کر تجارتی سامان امپورٹ کرتا رہتا ہے اس لیے اسے تجارتی توازن میں خسارہ رہتا ہے جس کی وجہ سے ایک لمبے عرصے کے بعد اس کی کرنسی اعتماد کھو بیٹھتی ہے اور ریزرو کرنسی کے درجے سے گر جاتی ہے۔[1]
اس پیچیدہ مسئلہ کو سب سے پہلے امریکا میں مقیم بیلجیئم کے ماہر معاشیات پروفیسر روبرٹ ٹریفن نے اکتوبر 1959 میں پیش کیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ ریزرو کرنسی کی بلند شرح تبادلہ (High Exchange Rate) اور تجارتی توازن میں منافع (Positive Trade Balance) بیک وقت ممکن نہیں کیونکہ تجارتی توازن میں منافع کے لیے ضروری ہے کہ کرنسی کی قدر کم ہو جبکہ ریزرو کرنسی کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ کرنسی کی قدر زیادہ ہو[2] [3] ۔ اس نے پیشنگوئی کر دی تھی کہ اس مسئلے کی وجہ سے بریٹن وڈز سسٹم نہیں چل سکتا۔ اس کی پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی۔[4]
1960 میں ٹریفن نے ایک کتاب چھپوائی جس کا عنوان تھا "Gold and the Dollar Crisis: The Future of Convertibility"۔ 1971 میں سونے کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے امریکا کو بریٹن اووڈز سسٹم توڑنا پڑ گیا۔ اس کے بعد کرنسیوں کا فکسڈ ایکسچینج ریٹ ختم ہو گیا اور فلوٹننگ ایکسچینج ریٹ سسٹم شروع ہوا۔
جان مینارڈ کینز کو بھی اس مسئلہ کا اندازہ تھا اور اُس نے 1944 میں ایک بین الاقوامی کاغذی کرنسی بینکور (Bancor) تجویز کی تھی مگر دوسرے ممالک اس کے حق میں نہیں تھے۔ آج کا ایس ڈی آر بینکور کی نزدیک ترین شکل ہے۔

ٹریفن کا بیان[ترمیم]

روبرٹ ٹریفن نے 1960 میں امریکی کانگریس کی کمیٹی کو یہ بیان دیا تھا:

“absurdities associated with the use of national currencies as international reserves.” It constituted a “‘built-in destabilizer’ in the world monetary system.”

ٹریفن کا کہنا تھا کہ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے تحت ڈالر چھاپ کر ایکسپورٹ کر دینا ایک جادو ہے جب تک وہ ڈالر واپس امریکا کا رُخ نہ کریں۔

the export of dollars into foreign ownership was monetary magic, until it reversed[5]

آسان الفاظ میں ٹریفن کا کہنا تھا کہ ریزرو کرنسی شروع میں تو بہت فائیدہ مند ہوتی ہے مگر آخر کار فیل ہو جاتی ہے۔

Triffin’s paradox simply states that with the benefits of the reserve currency also comes an inevitable tipping point or failure.[6]

SDR جاری کرنے کی وجہ[ترمیم]

جب کسی ملک کی کرنسی دنیا بھر میں ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو وقتی طور پر تو اس ملک کو بڑا فائدہ ہوتا ہے مگر لمبے عرصے بعد اس کی ایکسپورٹ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے عالمی بینکرز چاہتے ہیں کہ ایک ایسی کرنسی ہو جو ریزرو کرنسی بھی ہو مگر کسی بھی ملک کی کرنسی نہ ہو۔ یعنی ریزرو کرنسی کے فوائد تو حاصل ہوں مگر نقصانات سے بچا جا سکے۔ اس لیے ایس ڈی آر نامی ایک بین الاقوامی کرنسی تخلیق کی گئی ہے یعنی ایس ڈی آر کو کبھی کسی ملک کی کرنسی نہیں بنایا جائے گا۔ ایس ڈی آر بنا کر ٹریفن کے مخمصے کو حل کر دیا گیا ہے۔ ایس ڈی آر مستقبل کی عالمی کرنسی بنے گا۔

"اگلا مالی بحران اتنا بڑا ہو گا کہ مرکزی بینک بھی اسے بیل آوٹ نہیں کر سکیں گے۔۔ اگلے بیل آوٹ کے لیے ایس ڈی آر کرنسی ہو گی۔۔ کیا چیز مرکزی بینکوں سے بھی بڑی ہے؟ وہ واحد چیز جو مرکزی بینکوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے وہ آئی ایم ایف ہے۔"
The next financial crisis will be too big for the central banks to bail out....that (SDR) will be the next bailout currency...What’s bigger than the central banks? The only thing bigger than the central banks is the IMF.[7]

ویلتھ ایفکٹ[ترمیم]

کوئی بھی کسی کو بھی کسی کنگلے کی ضمانت پر قرض نہیں دیتا۔ جبکہ امیر ترین شخص کی ضمانت پر ہر کوئی قرض دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔ امیر ترین شخص کی ضمانت پر جب کسی کو قرض ملتا ہے تو امیر ترین شخص کی دولت میں ایک پائی کی بھی کمی نہیں آتی۔ امیر ترین شخص کا جھوٹ بھی اعتبار رکھتا ہے۔[8] یہ ویلتھ ایفکٹ (wealth effect) ہے۔ ساری ریزرو کرنسیاں سونے کے انبار کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں اور ویلتھ ایفکٹ کے اصول پر کام کرتی ہیں۔ لیکن ایک حد کے بعد ٹریفن کے مسئلے کی وجہ سے زوال پزیر ہونے لگتی ہیں۔ [9]
تجارتی توازن میں خسارہ درحقیقت ایک قرض ہوتا ہے جو مال ایکسپورٹ کرنے والا ملک مال امپورٹ کرنے والے ملک کو دیتا ہے۔ [10]

1974ء میں پال واکر (Paul Volcker) نے ہنری کسنگر کو مشورہ دیا تھا کہ دوسرے ممالک کی طرح امریکا کو قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا تجارتی خسارہ کم رکھے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا دوسرے ممالک کا منافع کسی طرح خرچ کروا دے (مثلاً جنگ کروا کر)۔[6]

شرح تبادلہ[ترمیم]

اگر ہندوستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت دوگنی ہو جائے تو امریکا کو ہندوستان کی ہر چیز آدھی قیمت پر مل جائے گی سوائے ہندوستانی سونے کے، کیونکہ صرف سونا ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت پوری دنیا میں تقریباً برابر رہتی ہے۔ امریکا کو اب ہندوستانی سونا خریدنے میں شدید دقت ہو گی کیونکہ ہندوستان میں سونے کی قیمت دوگنی ہو جانے سے لوگ اسے اور بھی زیادہ اہمیت دینے لگیں گے۔

وضاحت[ترمیم]

ہر ملک زیادہ سے زیادہ کاغذی کرنسی چھاپ سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ملک میں انفلیشن آ جاتا ہے اور ایسی کرنسی اپنی قوت خرید کھو بیٹھتی ہے جیسا کہ 2008 میں زمبابوے، 1946 میں ہنگری اور 1923 میں جرمنی میں ہوا تھا۔ اس لیے ہر ملک اپنی کاغذی کرنسی چھاپ کر ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے۔[11]
The core of Triffin's Paradox is that the issuer of a reserve currency must serve two entirely different sets of users: the domestic economy, and the international economy.
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکی ڈالر اپنے استحکام کی وجہ سے دنیا کی مقبول ترین کرنسی رہا ہے۔ ایسی کرنسی ریزرو کرنسی کہلاتی ہے کیونکہ ہر کوئی کسی ایسی غیر مستحکم کرنسی میں اپنی دولت رکھنا نہیں چاہتا جس کی قوت خرید گر سکتی ہے۔ نتیجتاً دنیا بھر کے لوگ اور حکومتیں اپنی کرنسی سے ڈالر خرید لیتی ہیں تاکہ مستقبل میں کسی نقصان سے بچ سکیں۔ اس طرح ڈالر کی مانگ اور قیمت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے امریکا کو دوسرے ممالک کا سامان نہایت کم قیمت پر مل جاتا ہے اور امریکا میں بڑی خوش حالی آ جاتی ہے۔ مگر ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے دو مسئلے جنم لیتے ہیں۔

  • امریکا کا بنا ہوا سامان بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگا ہو جاتا ہے اور بِک نہیں پاتا۔ اس طرح امریکا کو تجارتی خسارہ ہونے لگتا ہے۔ امریکی سرمایہ دار دوسرے ممالک میں صنعتیں منتقل کر دیتے ہیں جس سے امریکی افرادی قوت بے روزگار ہو جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ لوگوں کا ڈالر پر اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ اب لوگ ڈالر خریدنا کم کر دیتے ہیں۔ ڈالر کی ساکھ بچانے کے لیے امریکا کو شرح سود گرانی پڑتی ہے تاکہ لوگ ڈالر میں قرض لے کر اُن دوسرے ممالک کے بونڈ خرید لیں جہاں منافع زیادہ ملتا ہے۔ اس carry trade کی وجہ سے ڈالر کی ایکسپورٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
  • امریکا کو سامان ایکسپورٹ کرنے والے غیر ملکیوں کے ہاتھ میں جب ڈالر آ جاتے ہیں تو وہ ڈالر سے سونا خریدنا شروع کر دیتے ہیں [12]۔ اس سے امریکا کا سونا کم ہو جاتا ہے اور امریکا میں زیر گردش ڈالر کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں امریکا کے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہیں۔ ڈالر کی تعداد میں اضافے (انفلیشن) کا مطلب ہے سونے کی قیمت بڑھ جانا (یعنی ڈالر کی قیمت گر جانا) جس سے امریکی درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں اور امریکی خوش حالی کم ہونے لگتی ہے۔ جبکہ سونے کے ذخائر میں کمی کا مطلب ہے ریزرو کرنسی کی حیثیت میں کمی آنا۔ یہ سونے کے ذخائر ہی ہوتے ہیں جو کسی کرنسی کو ریزرو کرنسی بناتے ہیں۔ سونے کے ذخائر بچانے کے لیے ہی امریکا نے 1971 میں خود بریٹن اوڈز سسٹم توڑا تھا۔

ریزرو کرنسی کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے ڈالر کا ایکسپورٹ ہونا اور پھر واپس امریکی معیشت میں داخل نہ ہونا اتنا ضروری ہے کہ اس کے لیے ہر دھونس دھمکی استعمال کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر جنگ بھی چھیڑ دی جاتی ہے جیسے کہ ویتنام کی جنگ۔

ڈالر ایکسپورٹ کرنے کے لیے تیسری دنیا کو زبردستی قرضے دیے جاتے ہیں۔

  • "عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے افسر مقامی لوگوں کو کیش کے بنڈل دیا کرتے تھے تاکہ اپنا اثر رسوخ بڑھا سکیں اور امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کم کر سکیں۔ اربوں ڈالر اس طرح تقسیم ہوئے جس کا کوئی حساب نہ تھا کیونکہ پینٹاگون کی پالیسی تھی کہ دولت کو ہتھیار کی طرح استعمال کرو۔ اسی طرح سیاست دان ایک عرصے سے ووٹ خریدنے کے لیے اور واشنگٹن کے خلاف مزاحمت ختم کرنے کے لیے دولت کا ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔ امریکی صدر اور کانگریس کے ارکان کو احساس ہے کہ عوام کو حکومتی بخشش کا عادی بنا دینے سے ایسی نسلیں وجود میں آجائیں گی جن کو کنٹرول کرنا نہایت آسان ہو گا اور اس طرح حکومت کی طاقت بڑھے گی۔"

In Iraq and Afghanistan, US military officers routinely handed bundles of cash to local residents to buy influence and undermine resistance to the American occupation. Billions of dollars were shoveled out with little or no oversight as part of the Pentagon’s "Money as a Weapon System" program. In the same way, politicians have long relied on money as a weapon system to buy votes or to undermine resistance to Washington. Presidents and congressmen are not carrying out a formal counterinsurgency against the American people, but they realize that addicting citizens to government handouts is the easiest way to breed mass docility and stretch their power.

  • ڈالر سے سونے کا تعلق ٹوٹنے کے بعد 1972 میں جب ایران اور سعودی عرب نے اپنے ڈالروں سے امریکی کمپنیاں خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا تو امریکی حکام نے دھمکی دی تھی کہ امریکا اسے اقدامِ جنگ سمجھے گا۔ حالانکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خود امریکا نے بڑے پیمانے پر جرمن کمپنیاں خریدی تھیں۔

When Saudi Arabia and Iran proposed to use their oil dollars to begin buying out American companies after 1972, U.S. officials let it be known that this would be viewed as an act of war.

  • سعودی عرب کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ تیل صرف ڈالر کے عوض فروخت ہو گا اور سعودی حکومت کے اخراجات کے بعد بچنے والے ڈالر صرف امریکی بینکوں میں ہی رکھے جائیں گے۔

they reached an agreement with the House of Saud, to accept only dollars for its oil. The Sauds agreed to invest their dollar wealth on Wall Street.

  • ایشیا اور تیسری دنیا کے ممالک نے رضا مندی ظاہر کی ہے کہ ان کے اندرون ملک قرضے ڈالر میں ہوں حالانکہ اُن ممالک میں ٹیکس ملکی کرنسی میں وصول ہوتا ہے۔

Asian and third world countries have permitted their domestic debts to be denominated in dollars, despite the fact that domestic revenues accrue in local currencies.

  • شاید آپ حیران ہوں گے کہ عراق، لیبیا، شام، یمن اور وینیزویلا جیسے چھوٹے ممالک امریکا جیسی سپر پاور کے لیے کیسے خطرہ بن سکتے ہیں؟ واشنگٹن کے یہ دعوے تو بالکل مضحکہ خیز ہیں۔ کیا امریکی صدر، پینٹاگون کے افسران، قومی سلامتی کے مشیر اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیرمین واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اتنی کم صلاحیت کے یہ ممالک متحدہ امریکا اور نیٹو ممالک کے لیے کوئی فوجی خطرہ ہیں؟

نہیں، یہ کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ انھیں خطرہ اس لیے بتایا گیا تھا کہ تباہی سے پہلے ان کی اپنی اکنومی اور خارجہ پالیسی تھی۔ ان کی آزادانہ پالیسی کا مطلب تھا کہ وہ امریکی کرنسی کی برتری نہیں مانتے تھے۔ ان پر اس لیے حملہ کیا گیا کہ ان کی کرنسی امریکی کرنسی کے ماتحت ہو جائے۔ واشنگٹن کی نظر میں ہر وہ ملک جو واشنگٹن کے اصول نہیں مانتا وہ خطرہ ہے۔

Perhaps you have wondered how it was possible for small countries such as Iraq, Libya, Syria, Yeman, and Venezuela to be threats to the US superpower. On its face Washington’s claim is absurd. Do US presidents, Pentagon officials, national security advisors, and chairmen of the Joint Chiefs of Staff really regard countries of so little capability as military threats to the United States and NATO countries?

No, they do not. The countries were declared threats, because they have, or had prior to their destruction, independent foreign and economic policies. Their policy independence means that they do not or did not accept US hegemony. They were attacked in order to bring them under US hegemony. In Washington’s view, any country with an independent policy is outside Washington’s umbrella and, therefore, is a threat.[13]

مختلف ممالک سے کاغذی دولت (کیپیٹل) کی ایکسپورٹ (ارب فرانک میں)[14]
سن عیسوی برطانیہ فرانس جرمنی متحدہ امریکا دوسرے ممالک پوری دنیا
1862ء 3.6 - - - - 3.6
1872ء 15 10 - - - 25
1902ء 62 27-37 12.5 3.5 - 105-115
1914ء 93 44 31 18.1 39 225.1
1929ء 94.1 18.1 5.7 79.8 51.7 248.4
1968ء 106.8 55.1 53.6 346.5 126.1 688.1

اقتباسات[ترمیم]

  • آقا کرنسی کا مطلب ہے کہ بغیر کسی محنت کے کرنسی تخلیق کرنا اور اس سے دنیا کی ہر چیز خرید لینا۔ کیا اس سے بڑا جادو بھی کوئی ہو سکتا ہے؟

Generating currency out of thin air and trading it for tangible goods is the definition of hegemony. Is there is any greater magic power than that?[15]

  • 1966 میں ایلن گرین اسپان (جو 1887 سے 2006 تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا) نے کہا تھا کہ “تجارتی خسارے کے باوجود اخراجات میں اضافہ ہونا دراصل دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنا ہے۔ سونا اس خفیہ طریقہ کار کے آڑے آتا ہے“۔

In 1966 Alan Greenspan wrote "Deficit spending is simply a scheme for the confiscation of wealth. Gold stands in the way of this insidious process. It stands as a protector of property rights.

  • در حقیقت امریکا اپنے کاغذی سرمائے سے یورپ، ایشیا اور دوسرے علاقوں کو خرید رہا ہے۔ یہ کاغذی سرمایہ امریکی ٹریژری کے قرضے ہیں جن کے بارے میں امریکا ظاہر کر چکا ہے کہ وہ انھیں کبھی بھی ادا نہیں کرے گا۔

In effect, America has been buying up Europe, Asia and other regions with paper credit – U.S. Treasury IOUs that it has informed the world it has little intention of ever paying off.

  • دنیا کو دوہرے معیار پر چلایا جا رہا ہے کیونکہ امریکی تجارتی خسارے کے باوجود امریکی حکومت کی مالیاتی پالیسی چلانے کے لیے زبردستی دوسرے ملکوں کو قرضے دینا امریکا کی مفت خوری کا سبب ہے۔

The world has come to operate on a double standard as the U.S. payments deficit provides a Free Lunch in the form of compulsory foreign loans to finance U.S. Government policy.[16]

  • ایس ڈی آر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے ٹریفن کا مخمصہ حل ہو جاتا ہے۔

بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ ایس ڈی آر سسٹم کیا ہے اس لیے عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ انفلیشن کی کیا وجہ ہے۔ الیکشن میں منتخب نمائندے آئی ایم ایف پر الزام لگاتے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ اور ایس ڈی آر کی یہی تو خوبی ہے۔ ٹریفن کا مخمصہ بھی حل ہو جاتا ہے، (نوٹ چھاپ کر) قرضے دینا بھی جاری رہتا ہے اور کسی پر ذمہ داری بھی نہیں آتی۔ مختصراً یہ دنیا کے امیر ترین افراد کا منصوبہ ہے۔
The brilliance of the SDR solution is that it solves Triffin’s dilemma.

This SDR system is so little understood that people won’t know where the inflation is coming from. Elected officials will blame the IMF, but the IMF is unaccountable. That’s the beauty of SDRs — Triffin’s dilemma is solved, debt problems are inflated away and no one is accountable. That’s the global elite plan in a nutshell.

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Our Currency, The World’s Problem Part 1
  2. The Empire Will Strike Back: Dollar Supremacy Is the Fed's Imperial Mandate
  3. How the Fed Fails[مردہ ربط]
  4. How The Triffin Dilemma Affects Currencies
  5. Why A Dollar Collapse Is Inevitable
  6. ^ ا ب "Triffin Warned Us"۔ 20 دسمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2022 
  7. "Jim Rickards: "There Will Be A War On Gold""۔ 13 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2016 
  8. The Big Lie
  9. The “Wealth Effect,” Is Failing As A Key Fed Policy Driver
  10. "Don't Believe The Happy Talk" - Jim Rickards Warns "This Time 'Is' Different"
  11. Chapter 4. The money system today.
  12. This is where the Triffin Dilemma kicked in.[مردہ ربط]
  13. For Russia & China, It's "Accept American Hegemony" Or "Go To War"
  14. EXPORT OF CAPITAL
  15. "کیا اس سے بڑا جادو بھی کوئی ہو سکتا ہے؟"۔ 15 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مئی 2016 
  16. "امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history" (PDF)۔ 14 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مئی 2016