گندھارا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
گندھار
1500 ق م–535ء
بعد از ویدک دور میں گندھارا اور دیگر مہا جنپد
بعد از ویدک دور میں گندھارا اور دیگر مہا جنپد
موجودہ افغان-پاک علاقے میں ہرے رنگ سے گندھارا کی حدیں دکھائی گئی ہیں
موجودہ افغان-پاک علاقے میں ہرے رنگ سے گندھارا کی حدیں دکھائی گئی ہیں
دارالحکومتپشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) اور ٹیکسلا اور بعد میں پشاور (پُرش پور)
حکومتبادشاہت
• 750 ق م
نگنجیت
• 518 ق م
پشکرسکتی
تاریخی دورقدیم دور
• 
1500 ق م
• 
535ء
مابعد
ہخامنشی سلطنت
موجودہ حصہ افغانستان
 پاکستان
گندھارا میں بنا بدھا کا مجسمہ

گندھارا ایک قدیم ریاست تھی جو مشرقی افغانستان اور خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب کے علاقے پوٹھوہار کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ پشاور، ٹیکسلا، بگرام لغمان ، سوات ،دیر اور چارسدہ اس کے اہم مرکز تھے۔ یہ دریائے کابل سے شمال کی طرف تھی۔گندھارا چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی تک قائم رہی۔

تاریخ[ترمیم]

گندھارا کا ذکر رگ وید اور بدھ روایات میں ہے۔ چینی سیاح ہیوں سانگ جو یہاں زیارتوں کے لیے آیا تھا تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ علاقہ ایران کا ایک صوبہ بھی رہا اور سکندر اعظم بھی یہاں آیا۔ فلسفی کوٹلیا چانکیا بھی یہاں مقیم رہا۔ کشان دور گندھارا کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کشان بادشاہ کنشک کے عہد میں گندھارا تہزیب اپنے عروج پر پہنچی۔ گندھارا بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز بن گیا اور لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔ یونانی، ایرانی اور مقامی اثرات نے مل کر گندھارا کے فن کو جنم دیا۔ ہن حملہ آوروں کا پانچویں صدی میں یہاں آنا بدھ مت کے زوال کا سبب بنا۔ محمود غزنوی کے حملوں کے بعد گندھارا تاریخ سے محو ہو گیا۔ گندھارا وادی کابل و غزنوی سے لے کر دریائے سندھ کے پار تک جس میں صوابی، سوات، مردان اور راولپنڈی تک کے علاقے شامل تھے۔ عرب مورخین نے گندھارا کی ہندوستانی سلطنت کو جو دریائے سندھ سے دریائے کابل تک پھیلی تھی قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ البیرونی نے قندھار (گندھارا) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کی راجدھانی وہنڈ یا اوہنڈ تھی۔ المسعودی نے قندھار (گندھار) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ الجزر (گوجروں) کا ملک ہے اور دریائے کابل جو دریائے سندھ میں گرتا پر واقع ہے۔[1] اس علاقے کا سب سے پہلا تذکرہ آریوں کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں ملتا ہے۔ کیوں کے اس کے بھجنوں میں اس علاقے کے اہم دریاؤں کابل، سوات،اور گومل کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے پر آریاؤں نے قبضہ کر لیا تھا۔[2] اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انھیں گندھارا کی گورستانی تہذیب (Gundhra Grove Cltur) کا نام دیا گیا ہے۔ مہابھارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں گندھارا یا گندھارد اکی ریاست تھی۔ جسے کوشالہ (Kashala) کے حکمران نے ککیہ (KaKiya) کی مدد سے زیر کیا تھا۔ کوشالہ کے دو بیٹوں ٹکسا (Taksa) اور پو شکلا (Poskda) نے دو شہروں تکشاشِلہ (Taksahshsila) یعنی ٹیکسلہ (Taksla) اور پوشکلہ وتی (Poshkalawati) (چارسدہ) کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی۔[3] بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلا کی بنیاد ٹکا (Taka) نامی قبیلے نے آباد کیا تھا، جو وسط ایشیاء سے آیا تھا۔ چنانچہ اس کے نام پر ٹکلاشیلا پڑا جو رفتہ رفتہ ٹیکسلا ہو گیا۔ اس کی تصدیق اس دور کے یونانی مورخ نے بھی کی ہے اور اسے ٹیکسائلو (Taksailo) کا شہر بتایا ہے۔[4] بدھ مذہب کی کتابوں میں گندھار کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی، جہاں دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لیے آتے تھے۔ یونانی جغرافیہ داں اسٹرابو (Strabo) کے مطابق دریائے سندھ انڈیا اور آریانہ (Aryana) کے درمیان سرحدکی حثیت رکھتا تھا۔ آریانہ میں کابل، گومل، کرم، قندھار اور مغربی گندھاراکے علاقے شامل تھے۔ چھٹی صدی قبل عیسوی میں آریانہ کا علاقہ کاایک وسیع علاقہ گندھارکے حکمران پوکوستی کی مملکت میں شامل تھا۔ 515۔ 518 ق م کے درمیان دارانے حملہ کرکے وادی سندھ کے مغربی حصہ پر قبضہ کر لیا۔ اس نے یہاں ایرانیوں اور یونانیوں کو آباد کیا۔ یہ تسلط غالباََ ارتاکسز (044۔ 853 ق م) کے عہد میں ختم ہو گیا تھا۔ کیوں کہ جب یہاں سکندر نے حملہ کیا تو ایرانی تسلط نہیں تھا۔[5] سکندر نے 327 ق م میں کوہ ہندو کش غبور کیا اور مختلف شہروں کو جنگ و جدل کے ذریعے مطیع کرتا ہوا اوہنڈ کے مقا م پر دریائے سندھ کو غبور کیا جہاں ٹیکسلا کے راجا نے اس کا استقبال کیا۔ ٹیکسلا کے امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ اس طرح یونانی 326 ق م میں پنجاب میں داخل ہو گئے۔[6] اسکندر کے چند سال بعد ہی چندر گپت موریا نے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور اس نے دریائے سندھ کے مشرقی حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ اسکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندر کے مفتوع علاقوں کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ کابل، غزنی، پنجاب و سندھ پر اسو بھاگ سن نے قبضہ کر لیا۔ اس پر انطیوکس اعظمAntiochus The Garet نے حملہ کر دیا۔ اسو بھاگ نے شکست کھائی مگر انطیوکس اعظم بھی مارا گیا۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹاگج حکمران ہوا۔ پھر اس علاقہ پر یونانی حمکمران ہو گئے۔ سیتھی یونانی حکومت ختم کرکے سیستان سے ہوتے ہوئے اس علاقے پر قابض ہو گئے۔[7] سیتھی جب پارتھیوں کے زیر اثر ہوئے تو اس علاقہ پر ان کا تسلط ہو گیا۔ مگر جلد ہی یہ سرزمین کشانوں کے قبضہ میں آگئی۔ کشنوں کا خاتمہ ہنوں نے کیا، اس طرح اس علاقہ پر یوچیوں کی چار سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس علاقہ پر ہنوں کے زابلی مملکت کی حکمرانی تھی۔ ہنوں نے تقریباً دوسو سال حکمرانی کی۔ افغانستان میں ان کی قوت کو ترکوں نے صدمہ پہنچایا اور برصغیر میں ایک قومی وفاق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ جس وقت چینی سیاح ہیون سانگ Hion Tsang (630ء) اور وانگ ہیون سی (Wang Hioun Tso) نے برصغیر کی سیاحت کی تھی، اس وقت گندحارا پر کشتری خاندان کی حکومت تھی۔ ان کا دار الحکومت کاپسا (موجودہ بلگرام کابل کے شمال میں) تھا۔ البیرونی انھیں ترک بتاتا ہے۔ اس خاندان کی حکومت آخری حکمران کو اس کے وزیر کلیر عرف للیہ نے قید کرکے ہندو شاہی یا برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ برہمن شاہی اس علاقے کا آخری حکمران خاندان تھا، جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ یہ خاندان ابتدائے اسلام سے 421ھ / 1030 تک حکمران رہا۔ جب افغانستان کے مشرقی حصوں پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا، تو اس کا دار الحکومت کاپسا سے گردیز، کابل، پھر اوہنڈ اور آخر میں نندانہ (جہلم کے قریب) منتقل ہو گیا۔ جہاں ان کا محمود غزنوی نے خاتمہ کر دیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قندھار۔ معارف اسلامیہ
  2. عہد قدیم اور سلطنت دہلی، ڈاکٹرمعین الدین، ص 41-42
  3. اکرام علی، تاریخ پنجاب ص 17
  4. مولانا اسمعیل ذبیح۔ اسلام آباد ص 666
  5. اکرام علی، تاریخ پنجاب ص 81 تا 21
  6. عہد قدیم اور سلطنت دہلی، ڈاکٹرمعین الدین، ص 91
  7. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم ص 311

نگار خانہ[ترمیم]