خط تعلیق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خط تعلیق
قِسمابجد
زبانیںفارسی زبان
نوٹ: اس صفحہ پر بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ صوتی علامات شامل ہو سکتی ہیں۔

خط تعلیق فارسی زبان کا ایک مشہور خط ہے جو تیرہویں صدی عیسوی میں ایران میں رواج پزیر ہوا۔یہ خط طویل عرصہ تک جوامع زبان فارسی کے لیے مستعمل رہا ہے جبکہ خط نستعلیق نے اِس خط کو منسوخ کر دیا۔ اِس خط نے خط نستعلیق اور خط نستعلیق شکستہ کی راہ ہموار کی ہے۔

خط تعلیق کا ایک نسخہ - (1550ء)

تاریخ[ترمیم]

خلافت عباسیہ کے اختتام کے بعد ایران اور عراق پر ایل خانی منگولوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ ایل خانی سلطنت کا دار الحکومت بغداد کی بجائے تبریز تھا۔ نئی حکومت میں نئے درباریوں اور نئے امرا کو تقرب و عروج حاصل ہوا۔ نیز یہ کہ ایل خانی منگول حکمرانوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ سابقہ ادوار کے اسلامی علوم و فنون میں دِلچسپی لینے لگے۔ فن خطاطی کو ایل خانی منگول حکمرانوں کے ادوارہائے حکومت میں کافی فروغ حاصل ہوا۔ اِس نئی فضا میں فارسی زبان کا ایک نیا خط وجود میں آیا جسے خط تعلیق کہا جاتا ہے۔ یہ خط چھٹی صدی ہجری میں ایجاد ہوا اور ساتویں صدی ہجری میں اِس خط کی روش مستحکم و پختہ ہو چکی تھی۔ عربی زبان میں تعلیق کے معنی لٹکانا، چپکانا، جوڑنا یا معلق کرنے کے ہیں۔ چونکہ اِس خط میں حروف ایک دوسرے سے معلق ہوتے ہیں۔ یہ خط ایران کے قدیم خطوط مثلاً پہلوی، اوستائی اور کوفی سے اثر قبول کرکے وجود میں آیا۔ بعد میں ضرورت کی بنا پر نیز کثرت استعمال کی وجہ سے درباروں میں رائج ہو گیا۔ اس خط کی سہل اور آسان شکل کو ترسیل کہتے ہیں۔سرعتِ رفتار کی وجہ سے سرکاری مراسلت و کتابت اِسی خط میں کی جاتی تھی، اِسی وجہ سے اِسے خط ِترسل بھی کہتے ہیں۔

موجد[ترمیم]

اِس خط کا موجد کون ہے؟ اِس بیان کے متعلق مؤرخین کے درمیان کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مؤرخ حضرات نے خواجہ ابوالعال کو اِس خط کا موجد بتایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ حروف ہائے تہجی پ، چ اور ژ پر بھی تین نقطے سب سے پہلے خواجہ ابوالعال نے ہی لگائے تھے مگر خواجہ مذکور کا حال کسی تذکرہ میں نہیں ملتا۔ بعض دوسرے مؤرخین نے حسن بن حسین کو اِس خط کا موجد بتلایا ہے جو عضدالدولہ دیلمی (323ھ تا 373ھ ) کا درباری کاتب تھا۔لیکن مذکورہ ٔ کاتب حسن بن حسین کا تذکرہ بھی کہیں دستیاب نہیں ہوا۔ایک رائے کے مطابق اس خط کو ایران میں ساتویں صدی ہجری میں خواجہ تاج الدین نے ایجاد کیا۔ صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا جو ابوالعباس القلقشندی کی تصنیف ہے، فن خطاطی کی معتبر کتاب ہے اور یہ کتاب 791ھ میں مکمل ہوئی ہے۔ حیران کن بات ہے کہ اِس کتاب میں خط تعلیق کا تذکرہ موجود نہیں۔

جامع المحاسن جو دوسری بڑی کتاب ہے، 908ھ میں مرتب ہوئی۔ اِس کتاب میں خفی خط تعلیق (باریک خط تعلیق) کا ذِکر موجود ہے، مگر مصنف کتاب خود اپنے آپ کو اِس خط کا موجد بتلاتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط قدیمی خطوط میں سے نہیں ہے جیسا کہ بعض مؤرخین حضرات دعویٰ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ خط ایران میں رائج و مقبول رہا ہے اور بعد ازاں مصر میں معروف ہوا، ایران سے ہی ترکوں نے اخذ کیا اور ترکوں نے ہی مصر میں اِس خط کی اشاعت کی۔ درویش محمد بخاری نے قواعد الخطوط کے عنوان سے 995ھ میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں خط تعلیق کے قواعد و ضوابط کو مدون کیا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خط تعلیق دسویں صدی ہجری کے اوائل یا وسط میں ایجاد ہوا ہے۔

وجہ ٔ شہرت[ترمیم]

اِس خط کو دیکھنے سے حقیقی صورتِ حال کچھ یوں معلوم ہوتی ہے کہ اِس خط کو دفتر کے کاتبوں اور منشیوں نے ایجاد کیا ہے۔ منشیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ عجلت میں کلمے کے آخری حروف کو دوسرے کلمے کے حرفِ اَول سے ملا کر لکھتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ حرف منفصلہ (جو فیصلہ شدہ حروف ہوتے تھے) کو بھی ملا کر لکھ دیتے تھے۔ کاتبوں اور منشیوں کی اِس عادت نے ایک مستقل روش اختیار کرلی، اِسی مناسبت سے اِس خط کو تعلیق کہتے ہیں یعنی وہ خط جس میں حروف اور کلمات باہم جڑے ہوئے اور ملے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ساتویں صدی ہجری سے لے کر دسویں صدی ہجری تک اِس خط کا عروج رہا ہے اور اِس کو مشرقی ممالک میں بڑا فروغ رہا ہے۔ امرا اور سلاطین اِس خط کو پسند کرتے تھے۔ دفتر سلطان اور دفتر قضاۃ کے منشی اپنے رجسٹر اِسی خط میں لکھتے تھے۔ کتب بھی اِسی خط میں لکھی جاتی رہیں البتہ دینی کتابیں اور قرآن کریم کی کتاب خط نسخ میں ہی کی جاتی رہی۔ دسویں صدی ہجری کے بعد جب خط نستعلیق اور نستعلیق شکستہ فن خطاطی میں غالب آگیا تو خط تعلیق متروک ہو گیا۔عالم مشرق سے تو یہ خط بالکل ختم ہو گیا البتہ ترکی اور مصر میں یہ خط دیوانی کے نام سے ابھی بھی رائج ہے۔[1]

خصوصیات[ترمیم]

اِس خط کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:

  • یہ خط لکھنے میں سہل ہے اور جلدی لکھا جاتا ہے یعنی یہ سہل خط اور لکھائی میں خط سرعت کہلاتا ہے۔
  • کلمات کی یکسانی میں بڑی دلکشی نظر آتی ہے۔اگرچہ یہ ضرور ہے کہ اِس خط سے لکھنے پر کلمات کے اندر تغیر واقع ہوجاتا ہے۔ حروف اور کلمات کا تناسب ترتیب اور نظم متغیر ہوجاتا ہے۔ اِس وجہ سے حروف اور کلمات کی ایک ساخت نظر نہیں آتی، کہیں حروف موٹے اور کشادہ ہوجاتے ہیں اور کہیں باریک اور چھوٹے۔ بعض اوقات دیکھنے سے یہ خط شکستہ سے مشابہہ ہے، اِسی لیے پڑھنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ بہرحال اِس خط کی رونق و جاذبیت میں کوئی شک و شبہ نہیں، چونکہ یہ ایرانی خطاطین کا اختراع کردہ خط ہے جس میں عجم کا حسن ذوق نظر آتا ہے۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اطلس خط: صفحہ 412 تا  414۔
  2. حبیب اللہ فضائلی: اطلس خط، تحقیق در خطوط اسلامی، صفحہ 412/414۔ مطبوعہ اصفہان 1971ء۔