خنساء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خنساء
Al-Khansa
الخنساء
(عربی میں: الخنساء ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 575
نجد، جزیرہ نما عرب
وفات 645ء (عمر 69–70)
نجد، جزیرہ نما عرب
عملی زندگی
پیشہ شاعرہ
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خنساء یا  تماضر بنت عمرو السلميہ (پیدائش: 575ء– وفات: 645ء) زمانہ جاہلیت اور عہد اسلام کے ابتدائی دور میں عربی کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ تھیں جنہیں ارثی العرب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

نام و نسب[ترمیم]

عرب شاعرہ۔ نام تماضر بنت عمرو۔ خنساء لقب۔ اس کے دو بھائی معاویہ بن عمرو اور صخر بن عمرو کسی قبائلی جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔ یہ خاتون اپنے بھائیوں پر ساری زندگی آنسو بہاتی رہی۔ مرثیہ گوئی خنساء کا خاص موضوع تھا۔

قبول اسلام[ترمیم]

نبوت کی روشنی چمکی تو پورے قبیلے سمیت حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ صحابیت کے شرف سے سرفراز ہوئیں عہد اسلام میں نوحہ اور بین ممنوع قرار دیا گیا تھا، مگر نبی اکرمﷺ نے خنساء کو ماتمی لباس پہننے اور اپنے جاہلی عہد کے مقتول بھائیوں پر مرثیہ کہنے کی خصوصی اجازت مرحمت فرما رکھی تھی۔

زور خطابت[ترمیم]

محرم 14ھ میں جنگ قادسیہ کے خونریز معرکہ میں یہ اپنے چار جوان بیٹوں کے ساتھ تشریف لے گئیں جب میدان جنگ میں لڑائی کی صفیں لگ گئیں اور بہادروں نے ہتھیار سنبھال لیے تو انھوں نے اپنے بیٹوں کے سامنے یہ تقریر کی کہ۔ میرے پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے نہ تم پرکوئی قحط پڑا تھا باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم! جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح ایک باپ کی بھی ہو میں نے کبھی تمھارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی نہ تمھارے ماموں کو رسوا کیا لو جاؤ آخر تک لڑو۔ بیٹوں نے ماں کی تقریر سن کر جوش میں بھرے ہوئے ایک ساتھ دشمنوں پر حملہ کر دیا جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ الٰہی عزوجل! تو میرے بچوں کا حافظ و ناصر ہے تو ان کی مدد فرما۔ چاروں بھائیوں نے انتہائی دلیری اور جانبازی کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ چاروں اس لڑائی میں شہید ہو گئے امیر المومنین حضرت عمر فاروق اس واقعہ سے بے حد متاثر ہوئے اور ان چاروں بیٹوں کی تنخواہیں ان کی ماں حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمانے لگے ۔[1]

شاعری میں مقام[ترمیم]

زمانہ جاہلیت میں عکاظ کے میلے میں خنساء کے خیمے پر جو سائن بورڈ لگتا تھا اس پر ارثی العرب (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ) لکھا ہوتا تھا ان کی شاعری کا دیوان آج بھی موجود ہے اور علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل پیدا نہیں ہوا بھائی معاویہ بن عمرو کے قتل پر بھی مرثیے لکھے تھے۔ لیکن دوسرے بھائی صخر بن عمرو کے قتل پر تو ایسے دردناک اشعار مسلسل کئی سال تک کہے جن کو سن کر مخالف قبیلے کے لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے تھے۔ ان کے مفصل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب کتاب الاغانی میں تحریر کیے ہیں اور بے مثال شعر گوئی کے ساتھ یہ بہت ہی بہادر بھی تھیں ۔

مرثیہ کی مثال[ترمیم]

اپنے ایک مرثیے میں وہ کہتی ہیں ” سورج کا طلوع و غروب اپنے معمول کے مطابق جاری ہے مگر ہر طلوع آفتاب صخر کی جدائی کا پیغام لے کر آتاہے اور دل پر آرے چلاتاہے۔ ہر غروب آفتاب غم کی اتھاہ گہرائیاں لے کر سیاہ رات مسلط کر دیتاہے اور مجھے صخر کی یاد تڑپاتی ہے۔ میں مانند بسمل تڑپتی ہوں۔ نہ موت کی آغوش نصیب ہوتی ہے نہ زندگی کی مسکراہٹ کا سرا ہاتھ آتا ہے۔ صخر تیرے فراق میں میری آنکھیں بے نور ہوا چاہتی ہیں مگر تیری رفاقت و معیت نے سالہا سال مجھے خوشیوں اور مسرتوں کی بہار یں بھی تو دکھائیں۔ مقتولین پر آہ و زاری اچھی نہیں ہوتی لیکن تجھ پر رونا قابل تحسین و ستائش ہے کہ تو واقعی بے مثال شہسوار اور منبع جود و سخا تھا ۔“

وفات[ترمیم]

معرکہ قادسیہ سے دس برس کے بعد حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، سالِ وفات سنہ24ھ ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

اقسامِ سخن میں سے مرثیہ میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں: وَأَجْمَعُ أَهْلَ الْعِلْمِ وَالشَّعْرِ أَنَّهُ لَمْ تَكُنْ إِمْرَأَة قَبْلَهَا وَلَابَعْدهَا أَشْعَر مِنْهَا۔ [2] ترجمہ:یعنی ناقدانِ سخن کا فیصلہ ہے کہ خنساء رضی اللہ عنہا کے برابر کوئی عورت شاعر نہیں پیدا ہوئی۔ لیلائے اخیلیہ کوشعراء نے تمام شاعر عورتوں کا سرتاج تسلیم کیا ہے؛ تاہم اس میں بھی خضرت خنساء رضی اللہ عنہا کویہ امتیاز حاصل تھا کہ ان کے خیمے کے دروازہ پرایک علم نصب ہوتا تھا، جس پریہ الفاظ لکھے تھے أَرِثِی الْعَرَبْ یعنی عرب میں سب سے بڑی مرثیہ گو، نابغہ جواپنے زمانہ کا سب سے بڑا شاعر تھا اس کو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے اپنا کلام سنایا توبولا کہ اگرمیں ابوبصیر (اعشیٰ) کا کلام نہ سن لیتا توتجھ کوتمام عالم میں سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا۔ [3] حضرت خنساء رضی اللہ عنہا ابتداً ایک دوشعر کہتی تھیں؛ لیکن صخر کے مرنے سے ان کوجوصدمہ پہنچا اس نے ان کی طبیعت میں ایک ہیجان پیدا کر دیا تھا؛ چنانچہ کثرت سے مرثیے لکھے ہیں، یہ شعر خاص طور پر مشہور ہے: ؎ وَإِنَّ صَخْراً لَتَأْتَمُّ الهُدَاةُ بِہِ كَأَنَّهُ عَلَمٌ في رَأْسِهِ ناَرُ صخر کی بڑے بڑے لوگ اقتدا کرتے ہیں گویا وہ ایک پہاڑ ہے جس کی چوٹی پرآگ روشن ہے حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا دیوان بہت ضخیم ہے، سنہ1888ء میں بیروت میں مع شرح کے چھاپا گیا ہے اس میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے ساتھ 60/عورتوں کے اور بھی مرثیے شامل ہیں، سنہ1886ء میں اس کا فرنچ زبان میں ترجمہ ہوا اور دوبارہ طبع کیا گیا۔

اولاد[ترمیم]

چار لڑکے تھے، جوقادسیہ میں شہید ہوئے، ان کے نام یہ ہیں، عبد اللہ، ابوشجرہ (پہلے شوہر سے تھے)، زید، معاویہ (دوسرے شوہر سے)۔

  1. (الاستیعاب ،باب النساء،باب الخاء 3351،خنساء بنت عمرو السلمیۃج4،ص387
  2. (اسدالغابہ كتاب النساء،خنساء بِنْت عَمْرو ،:3/342، شاملہ،موقع الوراق)
  3. (طبقات الشعراء:198)


<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:575ء_کی_پیدائشیں"/> <link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:645ء_کی_وفیات"/>